پاکستان میں بھگت سنگھ اور گنگارام کے گاؤں آج بھی نازاں – از شیزار حسن

140806124505_bhagat_singh_book_jadanwala_pakistan_624x351_shirazhasan

پاکستان اور بھارت کے موجودہ تعلقات کے پیش نظر آج یہ تصور کرنا قدرے مشکل لگتا ہے کہ کبھی یہ دونوں ملک ایک ہی تھے۔

مگر پاکستان میں بھگت سنگھ اور سر گنگارام کے گاؤں میں پہنچ کر یہ احساس بخوبی ہو جاتا ہے کہ آزادی کی جنگ پاکستان اور بھارت دونوں کی مشترکہ وراثت تھی۔

بھگت سنگھ اور سرگنگارام کی پیدائش پاکستان کے صوبے پنجاب کے فیصل آباد (اس وقت کے لائل پور) کی تحصیل جڑانوالا میں ہو‏ئی تھی۔

اپریل 1851 کو جڑانوالا کے گاؤں گنگاپور میں پیدا ہونے والے سر گنگارام کو ایک طرح سے لاہور کا بانی کہا جاتا ہے۔

آج بھی لاہور میں ان کی ڈیزائن کی ہوئی نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور میوزیم اور جنرل پوسٹ آفس جیسی کئی عمارتیں ہیں۔ لاہور کے معروف سر گنگارام ہسپتال کی بنیاد بھی انھوں نے ہی رکھی تھی۔

سر گنگارام کے آبائی گاؤں کا نام گنگاپور بھی انھی کے نام پر رکھا گیا ہے۔

گنگاپور

گنگاپور میں سرگنگارام کا آبائی گھر ابھی بھی اچھی حالت میں ہے اور مقامی لوگ اسے لائبریری میں تبدیل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں

گاؤں کے ایک زمیندار شکیل احمد شاکر کا خاندان 1880 سے اس گاؤں میں آباد ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے نانا، دادا نے سر گنگارام کے ساتھ کام کیا تھا۔

انھوں نے بتایا: ’تقسیم کے بعد پاکستان میں ہندوؤں اور سکھوں کے نام سے منسوب سڑکوں اور دوسرے مقامات کے نام بدلے گئے لیکن یہاں کے لوگوں نے گاؤں کا نام نہیں بدلنے دیا۔ سر گنگارام کی خدمت ہندو، سکھ اور مسلمانوں سب کے لیے تھی۔‘

سر گنگا رام کی ڈیزائن کی ہوئی کئی عمارتیں آج بھی لاہور میں موجود ہیں جبکہ دہلی اور لاہور میں ان کے نام کے ہسپتال موجود ہیں

سر گنگارام نے گنگاپور میں ’کوآپریٹیو فارمنگ سوسائٹی‘ کی بنیاد رکھی تھی اور اس کے لیے 56 ایکڑ زرخیز زمین عطیہ کی تھی۔ آج گنگاپور میں اس کی آمدنی سے عوام کی فلاح و بہبود کے ترقيياتي کام کیے جا رہے ہیں۔

جس گھر میں گنگارام رہتے تھے، وہ ابھی بھی اچھی حالت میں ہے اور گاؤں کے لوگوں کا خیال ہے کہ اسے لائبریری میں تبدیل کر دینا چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں بھی سر گنگارام کے بارے میں جان سکیں۔

گنگارام کی فارمنگ سوسائٹی کا فیض آج بھی جاری ہے اور اس کی آمدنی سے فلاحی کام ہوتے ہیں

گاؤں کے ایک سماجی کارکن راؤ دلدار کہتے ہیں کہ ’گاؤں کے لوگ سر گنگارام کا بہت احترام کرتے ہیں کیونکہ انھی کی بدولت اس گاؤں میں خوشحالی ہے۔‘

بھگت پور

گنگاپور سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر بھگت سنگ کا گاؤں بنگا اب بھگت سنگھ کے نام سے معنون ہے

گنگاپور سے تقریبا 20 کلومیٹر دور فیصل آباد جڑانوالا روڈ پر آزادی کے ایک ہیرو بھگت سنگھ کا گاؤں بنگا ہے۔ اب یہ گاؤں بھگت پور کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بھگت سنگھ کا آبائی گھر گاؤں کے نمبردار جماعت علی ورك کی ملکیت ہے۔ تقسیم کے بعد ان کے دادا سلطان ملک کو یہ گھر ملا تھا۔

اب بھگت سنگھ کے مکان میں وکڑے خاندان آباد ہے اور اس میں تبدیلی رونما ہوئی ہے

جماعت علی کہتے ہیں ’تقسیم کے بعد بھگت سنگھ کے بھائی كلبير سنگھ 1985 میں پہلی بار یہاں آئے تھے۔ انھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ گھر بھگت سنگھ کے خاندان کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھگت سنگھ کے ہاتھ کا لگایا ہوا آم کا درخت آج بھی گاؤں میں ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بھگت سنگھ کے ہاتھوں لگایا گیا آم کا ایک درخت آج بھی اس گاؤں میں موجود ہے

جماعت علی کے مطابق ’بھگت سنگھ اس زمین کا بیٹا ہے۔ گاؤں کے لوگ اسے ہیرو مانتے ہیں کیونکہ اس نے انگریزوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔‘

وہ کہتے ہیں: ’ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک آزادی کی تاریخ میں بھگت سنگھ کا نام نہ آئے، تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔

Source:

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/08/140811_pakistan_bhagat_gangaram_village_mb.shtml

Comments

comments