سبق سکھائیں ، منہاج القرآن سیکریٹریٹ پرپولیس کی چڑھائی کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے ذمہ دار قرار دیئے گئے ڈی آئی جی آپریشن اور سی سی پی او کو معطل کرنے کی بجائے او ایس ڈی بنائے جانے کی وجوہات سامنے آ گئی ہیں۔ باخبر ذرائع نے انکشاف کیا کہ دونوں افسران کو معطل کرنے کا عندیہ دینے پر حکومت کو اس وقت دباﺅ کا سامنا کرنا پڑا جب اُنہوں نے معطلی کو ناانصافی قرار دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ حکومت نے ہی آپریشن کا حکم دیا تھا، حکام نے ہدایت کی تھی کہ سبق سکھائیں، منہاج والے بزدل ہیں، ڈر جائیں گے لیکن اب احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے آپریشن کرنے پر معطل کرکے ہمیں ہی چارج شیٹ کیا جا رہا ہے۔ ڈی آئی جی رانا عبدالجبار اور سی سی پی او چوہدری شفیق گجر نے موقف اپنایا کہ معطلی کی صورت میں وہ کمیشن کے سامنے ممکنہ طور پر ریکارڈ ہونیوالے بیان میں واضح کر دیں گے کہ اُنہوں نے صرف احکامات کی تعمیل کی ہے جس کے بعد حکومت کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔
ذرائع نے بتایاکہ سارا معاملہ منگل کو ہی چارج سنبھالنے والے آئی جی پنجاب نے وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے رکھا جس کے بعد منگل اور بدھ کی درمیانی رات تقریباً 11 بجے معطلی کے فیصلے کو او ایس ڈی (آن سپیشل ڈیوٹی) میں تبدیل کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ او ایس ڈی پولیس افسران کے لیے معمول کی بات ہے، او ایس ڈی بنائے جانیوالے افسران مراعات وصول کرتے ہیں اور دفتر بھی جا سکتے ہیں لیکن اپنی ڈیوٹی سرانجام نہیں دیتے۔ جو افسران معطل ہوتے ہیں، اُن سے مراعات بھی واپس لے لی جاتی ہیں اور معطلی کے تمام عرصے کے دوران اُن کی تنخواہ بھی روک لی جاتی ہے
لاہور(نمائندہ خصوصی ) ماڈل ٹاﺅن میں تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکریٹریٹ اورڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ پرپولیس چڑھائی کی اندرونی کہانی سامنے آگئی جس کے مطابق ضلعی انتظامیہ کی مخالفت کے باوجود صوبائی وزیرقانون رانا ثناءاللہ نے سبق سکھانے کے احکامات صاد رکیے ۔
تفصیلات کے مطابق صوبائی دارلحکومت میںگذشتہ روزہونیوالی ایک میٹنگ میں رانا ثنا ءاللہ نے انتظامیہ کوہدایت کہ منہاج القرآن میں کارروائی کریں تاہم کمشنر لاہور نے کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے آپریشن میں نہ جانے کا مشورہ دیا۔ راناثناءاللہ کارروائی پر بضد تھے اور اُنہوں نے ہدایت کی کہ مستقبل میں عوامی تحریک کو کنٹرول کرنے کے لیے کارروائی ناگزیر ہے۔
راناثناءاللہ کے احکامات پرآدھی رات کے بعدپولیس کی مختصر نفری منہاج القرآن پہنچی اوربیریئرہٹانے کی کوشش کی جس پرمتعلقہ حکام کو لاہورہائیکورٹ کے فیصلے کی کاپی دکھائی گئی لیکن رکاوٹیں ہٹانے کا کام جاری رکھنے پرپولیس اور ہوسٹل میں مقیم لڑکوں میں جھڑپ ہوگئی ۔تصادم کے بعد پولیس کی کچھ نفری واپس لوٹ گئی تاہم کچھ موقع پرموجود رہے جبکہ کہاجارہاہے کہ آخری وقت تک وزیراعلیٰ پنجاب کو واقعے سے لاعلم رکھاگیا۔
منگل کی صبح ڈی سی اولاہور اور ڈی آئی جی بھاری مشینری کے ساتھ تازہ دم دستوں کے ہمراہ موقع پرپہنچے اور”سبق “سکھانے کاعملی مظاہرہ شروع کردیاجس میںمنہاج القرآن شیخوپورہ کے ناظم سمیت 8افرادجاں بحق اور80کے قریب زخمی ہوگئے ۔
پولیس ترجمان نے دعویٰ کیاکہ تجاوزارت کے خلاف آپریشن کے دوران ایک پولیس اہلکار بھی ماراگیا جسے مقامی میڈیا نے بھی بریکنگ نیوز کے طورپرچلایالیکن روزنامہ پاکستان کی تحقیقات کے مطابق لاہورکے کسی بھی ہسپتال میں پولیس اہلکار کی لاش منتقل نہیں کی ۔ ہسپتال ذرائع نے بتایاکہ مرنیوالے تمام افراد کی موت گولیاں لگنے سے واقع ہوئی جبکہ منہاج القرآن انتظامیہ کے مطابق شہداءتحریک کے کارکنان و طالبعلم تھے ۔
منہاج القرآن انسٹی ٹیوٹ کے اندر کی دیواریں بھی گولیوں سے چھلنی ہوگئی ہیں ، ہرطرف تباہی کے مناظرہیں جبکہ پولیس نے خود باہر کھڑی کئی گاڑیوں کو بھی جان بوجھ کر تباہ کردیا۔
یہ انکشاف بھی ہواہے کہ چارسال قبل حکومت پنجاب نے ہی ایک مراسلہ جاری کیاتھاجس میں منہاج القرآن انتظامیہ کوہدایت کی گئی تھی کہ سیکیورٹی خدشات موجودہیں اوروہ اپنی سیکیورٹی کے لیے انتظامات کرلیں جس کے بعد پولیس اہلکاروں نے خود ہی بیریئرنصب کیے تھے ۔
منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے قریب ہی رہنے والے محلے کی کمیٹی کے رکن اور سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے بتایاکہ اہل علاقہ کو کوئی مسئلہ نہیں تھا، وہ خود کمیٹی کے رکن ہیں اورباہمی مشاورت سے ہی علاقے کو محفوظ بنانے کے لیے بیریئرلگانے کا فیصلہ کیاگیاجس کی عدالت نے بھی منظوری دی تھی ۔
Source