پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے – از اطہر احمد

140426120544_masood_ahmad_ahmadi_british_304x171_bbc_nocredit

پاکستان میں ’خود کو مسلمان ظاہر کرنے پر‘ جیل جانے والے برطانوی شہری نے برطانیہ واپسی پر پہلی مرتبہ ذرائع ابلاغ سے اس بارے میں بات چیت کی ہے۔

73 سالہ مسعود احمد کو گذشتہ برس نومبر میں توہین رسالت کے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا لیکن ضمانت پر رہائی کے بعد وہ واپس برطانیہ آ گئے۔

مسعود احمد کا تعلق اقلیتی احمدیہ فرقے سے ہے جسے سنہ 1974 میں پاکستانی حکومت نے غیر مسلم قرار دیا تھا جس کے باعث ان کی مذہبی آزادی پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں تھیں۔

گزشتہ سال ایک شخص مبینہ طور پر علاج کے بہانے مسعود احمد سے لاہور میں قائم ان کے ہومیوپیتھک کلینک میں ملاقات کی اور ان سے مذہب کے بارے میں سوال پوچھے۔

مسعود احمد کے مطابق ’میں کام پر صرف لوگوں کی مدد کرنےجاتا ہوں، نہ کہ اپنے مذہبی خیالات کے بارے میں بات کرنے۔ لیکن وہ شخص اسلام ہی کے موضوع پر بات کرنے پر زور دیتا رہا۔‘

پھر اس شخص نے خفیہ طور پر موبائل فون پر مسعود احمد کی قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے ویڈیو بنائی اور پولیس کو ان کی گرفتاری کے لیے بلا لیا۔

مسعود احمد 1960 کی دہائی میں برطانیہ آئے تھے اور وہیں سے تعلیم حاصل کی جس کے بعدگھڑیوں کی مرمت کا کاروبار قائم کیا۔ سنہ 1982 میں وہ واپس پاکستان چلے گئے تھے۔

وہ اب گلاسگو میں اپنے نو پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے پاس مقیم ہیں، پاکستان میں گرفتاری کے بعد ایسی جیل میں رکھے گئے جہاں ان کے ساتھ توہین رسالت کے قانون کے تحت گرفتار ہونے والے دیگر قیدی بھی موجود تھے۔

ان کے مطابق ’ہم ایک چھوٹے سے کمرے میں قید تھے۔ رات کو درجہ حرارت تقریباً منفی ایک ڈگری ہوتا تھا اور ہمیں فرش پر سونا پڑتا تھا۔‘

جس پولیس تھانے میں انھیں رکھا گیا تھا اس کے باہر چار سو کے لگ بھگ افراد نے مظاہرہ کیا اور ان تک رسائی چاہی۔ مسعود احمد نے کہا ’باہر لوگ چیخ رہے تھے ’ہم اسے جان سے مار دیں گے، ہم اسے جان سے مار دیں گے لیکن میں نہیں ڈرا۔‘

ان کی ضمانت بالاخر تیسری کوشش پر منظور ہوئی، جس کے بعد احمدیہ برادری کی مدد سے وہ ملک سے نکل آئے۔ ان پر کوئی سفری پابندی نہیں لگائی گئی تھی چنانچہ وہ دوہری شہریت کے تحت برطانیہ لوٹ سکے۔

مسعود احمد کہتے ہیں ’میں اب بھی پاکستان میں ایک مطلوب شخص ہوں۔ پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے، میں واپس نہیں جا سکتا۔ اپنے عقیدے کو اسلام کا نام دینے کی بنا پر احمدیوں کو تین سال قید ہو سکتی ہے۔‘

مسعود احمد اب گلاسگو میں اپنے خاندان کے پاس مقیم ہیں

پاکستان کی تاریخ میں توہینِ رسالت کے دعوؤں کو خاص طور پر سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔گزشتہ ماہ، وہاں ایک عیسائی کو پیغمبرِ اسلام کی توہین کے الزام پر موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

اس سے قبل سنہ 2011 میں صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے محافظ نے قتل کر دیا تھا۔ سلمان تاثیر توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے حق میں تھے اور اس سلسلے میں ایک عیسائی عورت کا دفاع کر کے انھوں نے کافی لوگوں کو اشتعال دلایا۔

مسعود احمد کی نواسی کا کہنا ہے کہ وہ بھی پاکستان میں امتیازی سلوک کا نشانہ بنی ہیں۔ انھوں نے کہا ’وہ ان لوگوں کے ساتھ برا سلوک کر رہے ہیں جنہوں نے کبھی کچھ غلط نہیں کیا۔ ہم نے آج تک ان کے خلاف کوئی نفرت بھرا لفظ نہیں بولا۔‘

مسعود احمد 23 سال بعد واپس برطانیہ لوٹے ہیں اور ایک بار پھر سے ایک نئی زندگی شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’پاکستان میری مادر وطن ہے اور انسان کو ہمیشہ اپنی ماں سے محبت ہوتی ہے۔ مجھے اپنے ملک سے محبت ہے لیکن میں واپس نہیں جا سکتا، کیونکہ اگر میں واپس گیا، مجھے یا تو قید یا پھر قتل کر دیا جائے گا۔

Source :

http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/04/140426_briton_pak_blasphemy_qs.shtml

Comments

comments