
سرسید احمد خان لکھتے ہیں:
’’بعض متعصب وہابی جن کو میں یہود ہٰذا الامت سمجھتا ہوں اور جن کے تمام افعال صرف دکھلاوے کی باتوں پر منحصر ہیں اور جو انگریزی زبان پڑھنے کو حرام سمجھتے ہیں، انگریزوں اور کافروں سے صاحب سلامت کرنا گناہ جانتے ہیں۔ ان سے دوستی کفر سمجھتے ہیں۔ ان کی اہانت اور تذلیل کو بڑی دیانت داری جانتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہمدردی کرنا کفر خیال کرتے ہیں، اگر اتفاقاً ان سے مصافحے کی نوبت آجائے تو ہاتھ دھو ڈالنا فرض کہتے ہیں۔ اگر دھوکے میں عیسائی سے صاحب سلامت ہوجائے تو جاکر اس سے یہ کہنا کہ میرا سلام پھیردے، اس کا کفارہ جانتے ہیں۔
مگر دو باتوں کو مباح سمجھتے ہیں، کافروں کی نوکری کرنا تاکہ ڈپٹی کلکٹری نہ جاتی رہے اور اپنی غرض کے لیے کافروں کے پاس حاضر ہو کر آداب و تسلیم بجالانا تاکہ جب کسی مجلس نواب لیفٹننٹ گورنر ہوں تو اس بات کے کہنے کا کہ آپ کے قدموں کی برکت سے یہ عزت ہوئی، موقع رہے۔
میں ایسی دین داری سے کفر کو بہتر سمجھتا ہوں۔ میں اسلام کو نورِ خالص جانتا ہوں، جس کا ظاہر و باطن یکساں ہے۔ تمام دنیا سے اور کافر سے سچی محبت، سچی ہمدردی اعلیٰ مسئلہ اسلام کا سمجھتا ہوں۔ جس طرح میں خدا کے ایک ہونے پر یقین کو رکن اعظم یا عین ایمان جانتا ہوں، اسی طرح تمام انسانوں کو بھائی جاننا تعلیم اسلام کا اعلیٰ مسئلہ یقین کرتا ہوں، مگر ان کے مذہب کو اچھا نہیں سمجھتا۔
یہ متعصب وہابی وہ لوگ ہیں، جو علوم کے بھی دشمن ہیں، فلسفہ کو وہ حرام بتلاتے ہیں۔ منطق کو وہ حرام کہتے ہیں۔ علومِ طبیعیات کا پڑھنا تو ان کے نزدیک کفر میں داخل ہوتا ہے۔ پس ایسے آدمی جس قدر مجوزہ دارالعلوم مسلمانان کی مخالفت کریں ، کچھ بعید نہیں۔’’
اقتباس: مقالاتِ سرسید
مرتبہ: مولانا اسماعیل پانی پتی
ناشر: مجلسِ ترقی ادب۔ لاہور
Comments
comments