تیئس مارچ کا قاتل کون؟ – ازعامرریاض

532b2db452916

آج 23 مارچ ہے جو ہمیں اس دن کی یاد دلاتا ہے جب آج سے 74 برس قبل پنجاب کے دل لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ نے فیصلہ کن تحریک کا آغاز کیا تھا۔ اجلاس کی پشت پناہی وزیراعظم پنجاب سر سکندر حیات کر رہے تھے جبکہ قرارداد پیش کرنے والے بنگال کے وزیراعظم مولوی اے کے فصل الحق تھے۔

اس قرارداد میں وہی سیاسی بصیرت مدنظر تھی جس کا اظہار 1930 میں علامہ اقبال نے تاریخی آلٰہ آبادی خطبے میں کیا تھا۔ مسلم اکثریتی علاقوں کو اکائیوں کی شکل میں خودمختاری دینے کے اردگرد بنی اس قرارداد کے ذریعے مسلم لیگ نے اپنا سارا بھار مسلم اکثریتی صوبوں کے حق میں ڈال دیا تھا۔

مسلم لیگ نے تو اس دستاویز کو”قرارداد لاہور” کہا تھا مگر کانگرس کے حمایت یافتہ میڈیا نے اسے “قرارداد پاکستان” کا عنوان دے کر اس کے خلاف بھرپور اخباری مہم چلائی۔ یوں اس قرارداد کو خوب شہرت ملی۔

اس منفی مہم سے مسلم لیگ کو بے انتہا فائدہ ہوا کہ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ خصوصاً مسلم اکثریتی صوبوں یعنی سندھ، بنگال اور پنجاب میں سب سے بڑی پارٹی ٹھہری تو سرحد (خیبرپی کے) میں بھی بڑی تعداد میں پٹھان اور ہزارہ پنجابی اس کے ساتھ آ گئے کہ مسلم لیگ نے 50 میں سے 17 نشستیں جیتیں تھیں۔

جولائی 1947 میں اس لڑائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب برطانوی پارلیمنٹ نے “آزادی ہند قانون 1947” کی منظوری دے ڈالی۔

اس قانون کے حق میں 3 جون 1947 کو آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے رہنما تقرریں کر چکے تھے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ 3 جون کے منصوبے کو تحفظات کے ساتھ قبول کیا گیا تھا۔

آزادی ہند قانون کے تحت واضح اعلان کیا گیا تھا کہ اگست 1947 میں دو نئی وطنی ریاستیں وجود میں لائی جارہی ہیں اور برٹش انڈیا کے وہ علاقے جو 1935 کے قانون کے مطابق ریاستی عملداری میں ہیں انہیں یا پاکستان میں شامل ہونا ہے یا ہندوستان میں۔

ان دونوں نئی وطنی ریاستوں کی مرکزی اسمبلیوں کو اپنا اپنا آئین بنانا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے تو 11 اگست 1947 کو نئی ریاست کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر آئین ساز اسمبلی کے روبرو پیش کر دیا تھا۔ تاہم وہ بجا طور پر چاہتے تھے کہ یہ آئین بنانا تو آئین ساز اسمبلی کا کام ہے۔

فروری 1948 میں امریکیوں کے نام اک ریڈیو پیغام میں قائداعظم نے کہا تھا کہ آئین بنانا میرا کام نہیں بلکہ آئین ساز اسمبلی کا کام ہے . پاکستان کسی بھی حالت میں ایک مذہبی ریاست نہیں ہوگا جہاں ملاؤں کی حکومت ہو۔

قائداعظم تو پاکستان بننے کے بعد 13 ماہ ہی زندہ رہے اور ان 13 میں سے پہلے 6 مہینے تو مہاجرین کی آباد کاری کی نظر ہوئے اور آخری 6 ماہ سخت بیماری میں گذرے۔

قائداعظم کی وفات کے چند ماہ بعد ہی آئین سازی کے لیے لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد کے عنوان سے نئی ترجیحات طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریاست پاکستان 1940 کی قرارداد لاہور کو بنیادی دستاویز قرار دیتی مگر اس کی بجائے بنیادی اصول آئین بنانے والی کمیٹی نے مضبوط مرکز کے گرد حکمرانی کا پہیہ ایسے گھمایا کہ جس نے مختلف قسم کے تنازعات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا۔

مضبوط مرکز کا فلسفہ 23 مارچ کی قرارداد کے خلاف پہلا حملہ تھا کہ جس کے لیے قرارداد مقاصد کو استعمال کیا گیا۔ ایک مذہب (اسلام)، ایک زبان (اُردو) اور مضبوط مرکز کے نام پر قومی تعمیر نو کا جو بیڑہ اٹھایا گیا تھا وہ قرارداد لاہور سے روگردانی تھی۔

سینئر مسلم لیگی رہنما اور قرارداد لاہور کے گواہ جناب حسین امام کے بقول؛ “اس دور میں ہمارے سامنے آئین کے دو نمونے ہی تھے۔ ایک روسی آئین جو لینن نے بنایا تھا اور دوسرا امریکی آئین جس سے رضاکارانہ طریقے سے فیڈریشن کو بنایا گیا تھا۔ برٹش انڈیا میں انتظامی یونٹ صوبے تھے جنھیں ہم امریکی ریاستوں سے تشبیہ دے رہے تھے۔ لہٰذا قرارداد لاہور کی تشکیل کے وقت ہم امریکی آئینی تصورات ہی سے متاثر تھے”۔ (حوالہ کتاب قائداعظم کے رفقاء سے ملاقاتیں؛ مصنف، زیدی الھما، اسلام آباد)

ہندوستان نے تو 1950 میں آئین بنا لیا مگر پاکستان میں مضبوط مرکز کی حامی بیوروکریسی بنگالی اکثریت کو نکرے لگانے میں رجھی رہی۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ برٹش تربیت یافتہ بیوروکریسی درحقیقت نہ تو مہاجروں کی دلدادہ تھی نہ پنجابیوں، بنگالیوں سے اُسے بیر تھا بلکہ یہ بیوروکریسی درحقیقت “عوام مخالف” تھی۔

اب چونکہ اس وقت پاکستانی عوام کی اکثریت بنگال میں رہتی تھی لہٰذا بیوروکریسی مسلسل بنگالیوں کی اکثریت کو قابو کرنے کی فکر میں رہتی تھی۔ یوں آئین سازی سے انحراف 23 مارچ پر دوسرا حملہ تھا۔

1952 میں اُردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان قرار دینا بھی اسی سوچ کا تسلسل تھا کہ اُردو اور پاکستانی مادری زبانوں میں تنازعہ تیسرا حملہ تھا۔

23 مارچ کی قرارداد پر چوتھا حملہ ون یونٹ کی تشکیل تھی جسے 1956 کے آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ 1956 کا آئین خطبہ آلٰہ آباد، 11 اگست کی قائداعظم کی تقریر اور 23 مارچ کی قرارداد سے انحراف تھا۔ حیران نہ ہوں اس دستاویز میں سینٹ نام کا کوئی ادارہ نہ تھا۔

1958 کا مارشل لاء 23 مارچ کی قرارداد پر ایک اور بھیانک حملہ تھا کہ جس پارلیمانی و جمہوری بندوبست کو بانیان پاکستان مقدم سمجھتے تھے اسی کو ختم کر دیا گیا۔

ایوبی مارشل لاء گیا تو یحییٰ خانی مارشل لاء آن دھمکا۔ 16دسمبر 1971 مرکزیت پسندی کی پالیسی کا انجام سامنے آیا مگر حکمرانوں نے اس سے سبق سیکھنے کی بجائے سارا الزام یحییٰ خان کی شراب نوشی، بنگالیوں کی غداری اور بھٹو صاحب کی مکاری پر دھر دیا۔

بلاشبہ 1973 کا آئین وہ پہلی دستاویز تھی جس میں 23 مارچ کی قرارداد کا لشکارہ جھلکتا تھا۔ یہ امید بن گئی کہ 23 مارچ کے لاشے پر مرہم رکھتے ہوے پاکستان جمہوری فیڈریشن کی طرف آہستہ آہستہ بڑھے گا مگر 5 جولائی 1977 کو ایک دفعہ پھر 23 مارچ پر خوفناک حملہ کر دیا گیا۔

ضیاالحق نے 23 مارچ کو دفنانے کا پورا انتظام کرتے ہوے قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے سے آغاز کیا۔ مذہب کے نام پر فوجی حکمرانی کو تقویت دینا، پارلیمانی جمہوریت کو رگیدنا، منتخب وزیراعظم کی بجائے صدر کو اختیارات دینا، صوبوں کو آپس میں لڑانا اور فرقہ وارانہ و لسانی سیاست کو ہوا دینا ایسے فیصلے تھے جنھیں 23 مارچ کی تجہیز و تکفین کا نام دینا غلط نہ ہوگا۔

5 جولائی 1977 سے جو کھیل جاری ہوا وہ 2008 تک چند کمزور جمہوری وقفوں کے باوجود جاری و ساری رہا۔

بھلا ہو سیاستدانوں کا کہ انھوں نے 2010 میں پہلے این ایف سی ایوارڈ اور پھر 18 ویں ترمیم کر کے 23 مارچ کے لاشے میں دوبارہ روح پھونکنے کی جرأت رندانہ کی اور صدارتی اختیارات پارلیمان کو واپس ہوئے۔

2013 میں وطن عزیز میں پہلی دفعہ ووٹوں کے ذریعے ایک حکومت گئی اور ووٹوں ہی سے نئی سرکاریں مرکز اور صوبوں میں بنیں۔ یہ جمہوری تسلسل اور وفاقی اکائیوں کا احترام ہی تو اصل بنیاد تھی 23 مارچ 1940 کی قرارداد لاہور کی۔

یقینا 2014 کے پاکستان کو دیکھ کر بانیان پاکستان کی روحوں اور 23 مارچ کے مصنفین کو کچھ سکون ملا ہوگا۔ مگر یاد رکھیں، 23 مارچ کے قاتل آج بھی دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ مختلف بھروپ بدلتے ہیں مگر ان کا اصل ہدف پارلیمان کی بالادستی کو نہ ماننا اور فیڈریشن کی اکائیوں میں لڑائیاں کراتے ہوئے مرکزیت پسندی کو مضبوط کرنا ہی ہے۔

23 مارچ کو محض چھٹی منانا کافی نہیں. ہمیں 23 مارچ 1940 کی قرارداد کی بصیرت کو دوبارہ سے اجاگر کرنا ہے کہ جس میں مرکز، صوبوں اور اضلاع میں پارلیمانی جمہوریت کے تسلسل اور فیڈریشن کی اکائیوں میں تصفیے ہی کو اولیت حاصل ہو۔

اگر آپ 23 مارچ کے قاتلوں کو پہچان لیں تو وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے کوئی روک نہ سکے گا

 

Source :

http://urdu.dawn.com/news/1003396/23mar14-who-murdered-23rd-march-aamir-riaz-aq

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.