Nawaz Sharif’s sectarian poodle in Lahore High Court stays Aasia bibi’s release
Justice Khawaja Sharif speaks once again, this time against Hindus – by Abdul Nishapuri
Chief Justice of Punjabi Taliban Khawaja Muhammad Sharif blocks deportation of terror suspects
“Blackwater responsible for the Data Darbar attack”
The story of a sharif judge – by Kashif Naseer
Justice Khawaja Sharif ka safarnama – by Khaled Ahmed
LHC stays Aasia release under Presidential order
Source: The News, November 29, 2010
Lahore High Court (LHC) called for an account from federal and provincial governments in matter relating the release of Aasia Bibi under Presidential order, Geo News reported Monday. The LHC issued stay order on release of Aasia Bibi under Presidential order. It should be mentioned here that Aasia was recently sentenced to death for blasphemy. A petition filed at the LHC by Shahid Iqbal said Aasia Bibi’s matter is subjudice; hence, the President is not authorized to give the reprieve. Aasia cannot be pardoned free until the judicial process is complete, the petitioner said.
Mullah’s law = Allah’s law
According to Article 45 of the Constitution of Pakistan, the president has the power to grant pardon, reprieve and respite, and to remit, suspend or commute any sentence passed by any court, tribunal or other authority. However, a home department official who had spoken to The Express Tribune on condition of anonymity had said that the Punjab government had observed – in its reply to the federal government’s proposal to abolish the death penalty – that the power of the president to grant pardon only extends to Tazir punishments. A sentence under a Tazir is imposed on the state’s command and not as a right of the individual under Allah’s law, the Punjab government had held. Muhammad Safdar Shaheen Pirzada, a lawyer, had also said, “The president can grant pardon to a person who has committed any offence against the state. However, the president has no power to extend pardon if an offence is omitted against religion, the Holy Prophet (pbuh) or Allah.” (Source)
آسیہ بی بی کی صدارتی حکم کے تحت رہائی روکنے کیلئے حکم امتناعی جاری
Jang Updated at 0850 PST
وفاقی اور صوبائی حکومتیں چھ دسمبر کو وضاحت کیلئے لاہور ہائیکورٹ طلب
لاہور…لاہور ہائی کورٹ نے توہین رسالت میں سزا پانے والی آسیہ بی بی کے صدارتی حکم کے تحت رہائی روکنے کا حکم جاری کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے چھ دسمبر تک وضاحت طلب کر لی۔آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے جرم میں عدالت نے موت کی سزا کا حکم سنایا تھا ۔جس کے خلاف اس نے اپیل دائر کر رکھی تھی۔شاہد اقبال کی طرف سے ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ آسیہ بی بی کا معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے اس لیے صدر کو اختیار نہیں کہ وہ اس کو معاف کرکے آزاد کر دے جب تک عدالتوں سے داد رسی کا عمل مکمل نہیں ہوتا آسیہ بی بی کو معاف کرکے آزاد نہیں کیا جا سکتا،
Source: Jang
ISI’s poodles in the Jang Group (Hamid Mir, Ansar Abbasi) in shameless support of the death sentence to Aasia bibi:
Share
آخر ڈالر بھی تو کمانے ہیں!…کس سے منصفی چاہیں…انصار عباسی
محترم محمد اسمٰعیل قریشی ایڈووکیٹ کی کتاب ”ناموس رسول اور قانون توہین رسالت “ اس جدوجہد کا تفصیل سے ذکر کرتی ہے جس کے نتیجے میں ناموس رسالت کا قانون وجود میں آیا۔ قریشی صاحب نے توہین رسالت کے موجودہ قانون کو بنوانے میں نہ صرف عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے بلکہ اس وقت کے حکمرانوں اور اہم سیاستدانوں سے ملتے رہے۔ چند روز قبل قریشی صاحب سے میری فون پر بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ان کی اس تحریک کی وجہ اس وقت کے بائیں بازو کا وہ نام نہاد لبرل طبقہ تھا جس نے کھلے عام قرآن، اسلام اور حضرت محمدﷺ کے بارے میں گستاخانہ کلمات بولنے اور لکھنے شروع کر دیئے تھے۔ اس دور میں روس سے پاکستان میں کمیونزم کے پجاریوں کے لئے وسیع پیمانے میں ایسا مواد بھیجا جاتا تھا جس میں اسلامی تعلیمات اور نبیﷺ کے متعلق گستاخانہ پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا۔ پاکستان میں موجود بائیں بازو کا ایک لبرل طبقہ اور کچھ لبرل فاشسٹ اس تمام تر پروپیگنڈے میں سرگرم عمل تھے۔ اپنے مذہب سے بے بہرہ یہ طبقہ اس پروپیگنڈہ میں پیش پیش تھا جبکہ اقلیتوں میں ماسوائے چند قادیانیوں کے نہ تو کوئی عیسائی اور نہ ہی ہندو، سکھ یا کسی دوسرے مذہب کا پیروکار اس سازش میں شامل تھا۔ اس دوران ایک نام نہاد مسلمان نے ایک ایسی کتاب لکھ ڈالی جس میں اسلام اور نبی کریمﷺ کے بارے میں گستاخانہ انداز میں باتیں کی گئیں۔ 1984ء میں ایک اور ”مسلمان“ شخصیت جس پر قادیانی ہونے کا بھی الزام لگایا جاتا رہا نے راولپنڈی میں حضرت محمدﷺ کے بارے میں نازیبا الفاظ ادا کر دیئے۔ اس پر اُس کو امریکہ بھاگنا پڑا اور بعد ازاں اس شخصیت نے عالمی سطح پر انسانی حقوق کے حوالے سے خوب نام کمایا۔ اس پس منظر میں توہین رسالت کے قانون کی جدوجہد شروع ہوئی۔ اس سلسلے میں اسمٰعیل قریشی صاحب نے 1984ء میں سب سے پہلے فیڈرل شریعت کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جو قانون توہین رسالت کے حق میں ایک باقاعدہ تحریک کا آغاز تھا۔ اس دوران اسمٰعیل قریشی اور محترمہ آپا نثار فاطمہ ( اللہ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے)نے قومی اسمبلی کیلئے بل تیار کیا۔ یہ بل آپا نثار فاطمہ نے خود قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ اس وقت کے وزیر مملکت برائے قانون میر نواز خان مروت نے نہ صرف اس بل کی تیاری میں بھی مدد کی بلکہ جب اس کو اسمبلی میں پیش کیا گیا تو اس کی حمایت بھی کی۔ قریشی صاحب کے مطابق اس وقت کے وزیر قانون اقبال احمد خان مرحوم، جماعت اسلامی کے ایم این اے لیاقت بلوچ اور سندھ سے قومی اسمبلی کے رکن شاہ بلیغ الدین کو ابتدا میں انہوں نے درخواست کی تھی کہ وہ اس بل کو قومی اسمبلی میں پیش کریں مگر ان میں سے کسی نے ایسا نہ کیا۔ آپا نثار فاطمہ صاحبہ کے پیش کئے جانے پر یہ بل قومی اسمبلی سے پاس کرایا گیا اور اس کے مطابق توہین رسالت کے مجرم کو سزائے موت یا عمر قید دی جا سکتی تھی۔ اسمٰعیل قریشی صاحب نے فیڈرل شریعت کورٹ میں استدعا کی کہ اس جرم کی سزا صرف اورصرف سزائے موت ہونی چاہئے جس پر 1990ء میں فیڈرل شریعت کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا اور حکومت کو اس قانون کو تبدیل کرنے کے لئے کہا تاکہ ناموس رسالت کے گستاخ کے لئے سزائے موت متعین کی جائے۔ یاد رہے کہ قریشی صاحب کی اس درخواست میں جنرل ضیاء الحق مرحوم کو بھی پارٹی بنایا گیا تھا۔ شریعت کورٹ کا فیصلہ آنے پر اس وقت کی حکومت نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر دی اس پر اسمٰعیل قریشی صاحب نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف صاحب کے والد محترم جناب میاں شریف مرحوم سے ملاقات کی اور انہیں درخواست کی کہ وہ وزیراعظم سے بات کریں تاکہ حکومت شریعت کورٹ کے خلاف کی گئی اپیل کو واپس لے لے۔ قریشی صاحب کے مطابق میاں شریف صاحب (اللہ ان کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے) نے فوری طور پر وزیراعظم کو فون کر کے کہا کہ حکومت اپنی اپیل واپس لے لے۔ میاں نواز شریف نے ایسا ہی کیا اور جس کے بعد 1992ء میں 295-C میں ترمیم کر کے عمر قید کو نکال کر اس جرم کی سزا کو سزائے موت مقرر کر دیا۔
اس تمام پس منظر میں آج اگر توہین رسالت کے قانون کے خاتمے کا مطالبہ کرنیوالوں اور ایسے افراد جو اس قانون کو پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف ظلم ڈھانے کا ذریعہ بنا کر پیش کرتے ہیں، کا احاطہ کیا جائے تو ان میں کچھ سرکردہ نام اور چہرے وہ ہیں جن کا تعلق اسی لبرل فاشسٹ طبقہ سے ہے جن کی دین سے دشمنی ان کے دل سے کسی صورت نہیں نکلتی۔ بہت سے لوگ جن میں لبرل افراد بھی شامل ہیں صاف نیت سے اس قانون میں بہتری لانے کی بات کرتے ہیں جو ایک جائز مطالبہ ہے، مگر مغرب زدہ لبرل فاشسٹ کا مخصوص طبقہ آسیہ مسیح کے کیس کو بغیر پڑھے پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ آسیہ مسیح کو سیشن جج نے سزائے موت کی سزا دی جس کے خلاف مجرمہ نے لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ آج سے پہلے کسی شخص کو اس قانون کے تحت سزائے موت نہیں ہوئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس خاتون کے بارے میں ہائی کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے مگر یہاں یہ بات بتانا انتہائی ضروری ہے کہ توہین رسالت کے قانون کے تحت زیادہ تر مقدمات پاکستان کے ”مسلمان“ شہریوں کے خلاف قائم کئے گئے۔ یہ حقیقت اس پروپیگنڈہ کی مکمل نفی ہے کہ قانون توہین رسالت پاکستان کی اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، مگر امریکہ و یورپ سے ڈالر وصول کرنے والوں، اسلام کے خلاف اپنے دل میں بغض رکھنے والوں اور شراب اور زنا کے رسیا آسیہ مسیح کے کیس کو پاکستان اور اسلام کی بدنامی کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ حال ہی میں کراچی کی ایک عدالت نے ایک” مسلمان” کو بھی اس جرم پر سزائے موت سنائی مگر اس کیس پر سب خاموش ہیں کیونکہ یہاں پروپیگنڈہ نہیں ہو سکتا اور باہر سے ڈالر ملنے کا چانس کم ہے۔ یہ لبرل فاشسٹ مغرب کی غلامی میں زندہ رہنا چاہتے ہیں اور اپنے دین سے دوری کی وجہ سے اسلام سے شرمندہ شرمندہ رہتے ہیں۔ آسیہ مسیح کے مسئلے پر عدالتی نظام پر بھروسہ کرنے کی بجائے یہ لوگ کسی بھی حد پر جانے کے لیے تیار ہیں مگرامریکہ و یورپ کی اسلام دشمنی، ان کی طرف سے عراق و افغانستان میں 20 لاکھ سے زائد مسلمانوں کے قتل، مغرب میں حضرت محمدﷺ کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت، فرانس میں مسلمان خواتین پر برقع پہننے پر پابندی، عافیہ صدیقی کی امریکہ میں سزا اور ایسے دوسرے اسلام دشمن معاملات پر تو ان کی زبانیں کچھ کہنے سے قاصر ہیں ۔ آخر ڈالر بھی تو کمانے ہیں
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=486690
Share
انشاء الله فتح ہماری ہوگی!…..قلم کمان …حامد میر
لبرل فاشسٹوں کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کو ہمیشہ انسانی حقوق کے نام پر آگے بڑھاتے ہیں۔ جہاں انُہیں قائد اعظم اور علامہ اقبال کا نام استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئے وہاں وہ کوئی شرم محسوس نہیں کرتے اور جہاں انُہیں قائداعظم کا کوئی ارشاد یا اقبال کا کوئی شعر اپنے ایجنڈے سے متصادم نظر آئے وہاں وہ ان دو بزرگوں کو مسترد کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ”خودی“ نام کی ایک تنظیم نے انتہا پسندی کے خلاف ایک بیٹھک کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر ”خودی“ والوں نے اقبال اور قائداعظم کے ارشادات پرمبنی کچھ بینرز اور پوسٹرز بھی آویزاں کررکھے تھے۔ اس خاکسار کو بہت حیرت ہوئی جب ایک خاتون نے اس تقریب کے منتظمین سے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے یہاں اقبال اور قائداعظم کی تعلیمات کواُجاگر کیوں کیا ہے کیوں کہ یہ دونوں تو سیکولر نہیں بلکہ اسلام پسند ہیں۔ موصوفہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ایک استاد کی صاحبزادی ہیں اور ایک این جی او سے وابستہ ہیں۔ انُہیں اپنی رائے رکھنے کا مکمل حق حاصل ہے لیکن وہ اور اُن کے نظریاتی ہمنوا اپنی رائے کے اظہار نہیں بلکہ دوسروں پراپنی رائے ٹھونسنے پر یقین رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ لبرل فاشسٹ اور مذہبی ڈاکٹر ایمن الظواہری کی ایک کتاب کا اردو ترجمہ سامنے آیا ہے جس کا نام ”سپیدہٴ سحر اور ٹمٹماتا چراغ“ ہے۔ اس کتاب میں انُہوں نے پاکستان کے آئین اور جمہوریت کو کفر قرار دیا ہے بلکہ پاکستان کے وجود کو بھی کسی عالمی کھیل تماشے کا حصہ قرار دے دیا ہے۔ ڈاکٹر ایمن الظواہری کہتے ہیں کہ پاکستانی ریاست کا آئین اور قانون غیر اسلامی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں کئی لبرل فاشسٹوں کو یہ اعتراض ہے کہ پاکستان کو ”اسلامی جمہوریہ“ کیوں کہا جاتا ہے‘ پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت پر کلمہ طیبہ کیوں لکھا گیا ہے‘ صدر اور وزیراعظم کا مسلمان ہونا لازمی آئینی تقاضا کیوں ہے‘ آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم کیوں قرار دیا گیا ہے اور توہین رسالت کی سزا موت کیوں ہے؟ غور کیا جائے تو لبرل فاشسٹ اور مذہبی انتہا پسند دونوں ہی آئین اور جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے ‘ دونوں میں اعتدال پسندی اور برداشت کی کمی نظر آتی ہے اور دونوں اقلیت میں ہونے کے باوجود اکثریت کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں۔
توہین رسالت کی سزا کا معاملہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں اور پارلیمنٹ نے طے کردیا ہے۔ لیکن وقفے وقفے سے کچھ غیر ملکی طاقتیں اس معاملے میں مداخلت کرتی رہتی ہیں۔ امریکہ اور بعض مغربی ممالک ماضی میں کھل کر توہین رسالت کی سزا سے متعلق قانون 295 سی کو ختم کرنے یا تبدیل کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں غیر ملکی سفیروں کا ایک وفد اس وقت کے وزیر قانون رضا حیات ہراج سے ملا اور اس قانون میں تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ رضا حیات ہراج نے غیر ملکی سفیروں سے صاف صاف کہا کہ توہین رسالت کی سزا موت ہے‘ یہ سزا ختم نہیں ہوسکتی۔ سفیر صاحبان مایوس ہوکر واپس لوٹ گئے۔اب صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست اور پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے 295سی کو کالا قانون قرار دے دیا ہے۔ قومی اسمبلی کے کچھ اقلیتی ارکان نے اس قانون کو غیر مسلموں کی جان و مال کے لئے خطرہ قرار دے دیا ہے تاہم اس صورت حال میں وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے دینی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک وہ وزیر قانون ہیں توہین رسالت کا قانون تبدیل نہیں ہوسکتا۔
بابر اعوان سے لاکھ اختلاف لیکن اس معاملے میں اُن کا موقف غیر لچکدار اور پاکستانی عوام کی اکثریت کے حقوق کی پاسداری کے مترادف ہے۔ پاکستان میں غیر مسلموں کے حقوق کا خیال رکھنا ہم سب کا فرض ہے لیکن اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ ہم اپنے پیارے نبی کی شان میں گستاخی کی کھلی اجازت دے دیں۔ مسیحی ‘ ہندو‘ سکھ اور دیگر غیر مسلم بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ 295سی پر اپنے مسلمان بھائیوں کے جذبات کا خیال رکھیں اور توہین رسالت کے معاملے کو اپنے حقوق کی جنگ نہ بنائیں البتہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے اقدامات واقعی ضروری ہیں۔ توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والوں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے اور اس سلسلے میں مجھے اپنے قابل احترام بزرگ جناب آئی اے رحمان کے خیالات سے مکمل اتفاق ہے کہ صرف اُس شخص کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہئے جس نے واقعی جان بجھ کر توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہو۔
برادرم ارشاد احمد عارف صاحب نے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی کتاب ” چاہِ یوسف سے صدا“ کے صفحہ 140 کے حوالے سے لکھا ہے کہ 1990ء میں وزیراعظم بننے کے بعد نواز شریف توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کرنا چاہتے تھے لیکن اُس وقت کی اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو نے اس قانون میں ترمیم کا راستہ روکنے کے لئے بھرپور کوشش کی۔ بے نظر بھٹو صاحبہ نے محمد خان جونیجو‘غلام مصطفیٰ جتوئی اور اعجاز الحق کی مدد سے اس ترمیم کا راستہ روکا۔ جناب یوسف رضاگیلانی سے گزارش ہے کہ اپنی کتاب کا صفحہ 140 صدر آصف علی زرداری کو بھی پڑھ کر سنادیں اور مناسب سمجھیں تو اس قانون کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والی غیر ملکی شخصیات کو بھی یہ بتادیں کہ توہین رسالت کے قانون کو چھیڑنے سے پاکستان میں انتہا پسندی بڑھے گی‘ لوگ آئین اور جمہوریت سے متنفر ہوجائیں گے اس لئے آپ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ ستم ظریفی دیکھیئے کہ فرانس‘ جرمنی‘ آسٹریا‘ سوئٹزرلینڈ‘ ہالینڈ اور اسرائیل سمیت کئی ممالک میں ہولوکاسٹ یعنی دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل عام کی کہانیوں کو غلط قرار دینا ایک جرم ہے لیکن مسلمانوں کے ملک میں اُن کے نبی پاک کی توہین کو جرم قرار دیا جائے تو انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار تلملانے لگتے ہیں۔
وہ خواتین و حضرات جو ننکانہ صاحب کی ایک عدالت کی طرف سے ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو دی جانے والی سزائے موت کو غلط سمجھتے ہیں وہ ہائی کورٹ سے رجوعو کریں کیوں کہ عدالت نے بھی اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ سزائے موت پر عمل درآمد لاہور ہائی کورٹ کی توثیق کے بعد کیا جائے۔ سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیا ہے۔اُن سے گزارش ہے کہ وہ آسیہ بی بی کی بے گناہی کے ثبوت اور گواہ میڈیا کے سامنے لائیں اور اُس کے خاوند سے پوچھیں کہ مقدمے کی سماعت کے دوران اُس نے اپنی بیوی کے حق میں گواہی کیوں نہ دی؟آسیہ بی بی کے نام پر 295سی کے خاتمے کی کوششوں کے پیچھے دراصل وہ طاقتیں ہیں جو صدام حسین کو پھانسی پرلٹکانا معیوب نہیں سمجھتیں لیکن توہین رسالت کے ذریعہ لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے سلمان رشدی کے خلاف فلم بن جائے تو اُس پر پابندی لگادیتی ہیں۔ صدام حسین کو سزائے موت دنیا دُرست ہے تو توہین رسالت کے مجرم کو سزائے موت دینے سے آپ کو کیا تکلیف ہے؟ آج مجھے مفتی ڈاکٹر سرفراز نعیمی بہت یاد آرہے ہیں۔ وہ 295سی کے بہت بڑے حامی تھے۔ مشرف دور میں توہین رسالت کے خلاف تحریک میں جیل چلے گئے تھے اور زرداری دور میں خودکش حملوں کی مخالفت پر طالبان کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ لبرل فاشسٹ اور مذہبی انتہا پسند دونوں اُن سے نفرت کرتے تھے۔ آج پاکستانی قوم کو ان دونوں کا مقابلہ کرنا ہے انشاء الله ہم ان دونوں کو شکست دیں گے۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=486684
It appears that the Lahori Chief Justice doesn’t understand the difference between revenge and justice.
Asma Jahangir, human rights activist and chairperson of the Supreme Court Bar Association (SCBA), criticised the courts restraining order.
“The president is yet to grant pardon. So there was no need for such an order,” she said, adding that “the court should not take such populist stance”.
Pakistan court stalls pardon moves for Christian mother
LAHORE, Pakistan — A Pakistani court on Monday prevented the government from granting a swift pardon to a Christian mother sentenced to death for insulting the Prophet Mohammed[PBUH], a lawyer said.
Lawyers petitioned the top court in Punjab province not to allow President Asif Ali Zardari to pardon Aasia Bibi while her case was pending in the courts.
Pope Benedict XVI has called for her release and political pressure has been growing for a pardon, but conservative Muslims have threatened anarchy if the government grants clemency to Bibi, mobilising protestors onto the streets.
She was sentenced on November 8 to hang under controversial blasphemy laws that rights activists say encourage Islamist extremism.
Bibi can be executed only if the Lahore high court upholds her sentence on appeal. No date has yet been set for the appeal hearing.
“We argued that since the death sentence given by the trial court to Aasia Bibi has yet to be confirmed or rejected by the high court, the president could not use his power at this stage,” lawyer Allah Bakhsh Leghari told AFP.
“The court has to evaluate the facts and until it does so, president cannot give any decision,” he added.
The Lahore high court chief justice, Khawaja Sharif, ordered the provincial governor and federal government to respond to the petition and adjourned the hearing until December 6, Leghari said.
“Since the matter is in the high court, the government cannot now make any move to pardon Bibi,” he added.
Most of those convicted of blasphemy in Pakistan have their sentences overturned or commuted on appeal through the courts.
Bibi was arrested in June 2009 after Muslim women claimed that she made derogatory remarks about the Prophet Mohammed[PBUH]. Bibi was set upon by a mob, arrested by police and sentenced on November 8.
Rights activists and pressure groups say it is the first time that a woman has been sentenced to hang in Pakistan for blasphemy.(AFP)
Pakistan mother denied presidential pardon for ‘insulting Islam’
A Pakistani court has barred President Asif Ali Zardari from pardoning a Christian woman sentenced to death on charges of insulting Islam, in a case that has prompted criticism over the country’s blasphemy law.
Asia Bibi, a 45-year-old mother of four, requested a pardon from the president after a lower court sentenced her to death on 8 November in a case stemming from a village dispute.
The Lahore high court today barred Zardari from pardoning Bibi in a petition filed by Shahid Iqbal, a Pakistani citizen. Iqbal’s lawyer Allah Bux Laghari told Reuters a pardon was illegal as the court was already hearing an appeal against her sentence.
“We believe it is the court’s duty to evaluate the evidence against her, not individuals, and if she is found innocent, she should be freed,” he said.
Human rights groups have demanded the repeal of the law, which they say discriminates against religious minorities who make up roughly 4% of Pakistan’s 170 million-strong population.
A government minister said last week that an initial inquiry into the case of the Christian mother said she had not committed blasphemy but was falsely accused after a quarrel.
Blasphemy convictions are common although the death sentence has never been carried out. Most convictions are thrown out on appeal, but angry mobs have killed many people accused of blasphemy.
http://www.guardian.co.uk/world/2010/nov/29/pakistan-mother-charged-insulting-islam
A lawyer says a Pakistani court has barred the country’s president from pardoning a Christian woman sentenced to death for blasphemy before it rules on her appeal.
Attorney Allah Bakhsha Leghari says the chief justice of the Lahore High Court, Khawaja Sharif, issued the order Monday.
Minister for Minority Affairs Shahbaz Bhatti has already said that President Asif Ali Zardari plans to give the court a chance to hear the appeal in the case of Asia Bibi.
He said Zardari would pardon Bibi if the appeal was delayed.
http://www.washingtonpost.com/wp-dyn/content/article/2010/11/29/AR2010112901583.html
Pak must knock sense into people who ‘mollycoddle the intolerant’: Daily Times
The sentencing of a Christian woman to death for blasphemy in Pakistan is not just gaining momentum, it is leaving a torrent of controversy in its wake, where extremism and draconian views are being upheld instead of endorsing basic human rights and tolerance, an editorial in a leading Pakistan newspaper has said.
A local court in Nankana district has sentenced 45-year-old Aasia Bibi for blasphemy in a first such conviction in the country.
Aasia’s case dates back to June 2009 when she was asked to fetch water while out working in fields. But a group of Muslim women labourers objected, saying that as a non-Muslim she should not touch the water bowl.
A few days later, the women went to a local cleric and alleged that Aasia had made derogatory remarks against the religious personalities. The cleric went to local police, which opened an investigation.
The 45-year-old was arrested in Ittanwalai village and prosecuted under Section 295C of the Pakistan Penal Code, which carries death penalty.
“After being sentenced to death by a district sessions court in Nankana Sahib, Aasia’s case has become the poster-child issue for civil society, private NGOs and the international community, all of whom are appalled by this medieval and harsh punishment because of a controversial law,” the editorial in the Daily Times said.
“However, it is saddening to see that some of our politicians are coddling the mullahs who have found in Aasia’s case a reason to once again froth at the mouth,” it added.
The editorial further said that the last thing Pakistan needs right now is any vindication granted to the clerics.
“It is these people who have condoned the extra-judicial murder of anyone accused – many falsely – of blasphemy. It is these clerics who support Taliban-like causes and even outrightly provide ideological and, at times, strategic support to the militants who are ravaging our nation,” the editorial said.
“If members of the ruling party side with their inhumane verdicts on religious matters, little hope is left for our minorities and the cultivation of a society that protects the rights of its citizens. Someone needs to knock some sense into those who mollycoddle the intolerant. They have done enough harm to Pakistan already,” it added. (ANI)
No pardon for Asia Bibi, orders Khawaja Sharif
Lahore: November 29, 2010. (PCP) The Chief Justice of Lahore High Court LHC, Khawaja Sharif bared President Asif Ali Zardari to pardon Asia Bibi, a Christian mother sentenced to death on accusation of blasphemy.
The interim orders were issued by Chief Justice LHC Khawaja Mohammad Sharif on a petition pleaded by Allah Bukhsh Advocate praying to stall any may be attempt of pardon to one Christian woman sentenced to death on defiling name of Prophet Mohammad by ADSJ of Nankana Sahib.
The petitioner Shahid Iqbal,s advocate pleaded that accused have filed her appeal in Lahore High Court against her death sentence and decision of appeal is awaited but it seems that President of Pakistan tends to pardon her while President can not pardon when an appeal is pending.
In a report in Pakistan Christian Post, it was feared that Asia Bibi will not be able to avail opportunity of Pardon by President Of Pakistan when family of Asia Bibi on directions of one NGO filed her appeal in LHC in haste.
On one hand, Governor of Punjab was visiting Asia Bibi in Seikhupura District jail and taking her thumb impressions on Affidavit to file her Pardon appeal with President of Pakistan, on other hand some NGO,s based in Lahore were taking her thumb impression to file her appeal against decision of ADSJ verdict. The race among government and NGO,s complicated release of Asia Bibi which benefited forces which consider blasphemy law soul and spirit of Islam.
Asia Bibi recorded her statement in Saddar Police Station, in Additional District and Session Judge Court and before Pakistani media that she never defiled name of Prophet Mohammad or commented against Islam but no one is ready to accept her statement and she is living in fear of life in Prison and her family is fled from her village Ittanwali and taken refuge in undisclosed location in Pakistan.
The Islamic leaders are holding Press Conferences and rallies to maintain sentence of death to Asia Bibi on accusation of blasphemy which can pressure Higher Court.
http://www.pakistanchristianpost.com/headlinenewsd.php?hnewsid=2454
What shameless people you are? Criticising is not a problem, but the language you use in your articles is deplorable.
Conflict between President and ‘Sharif Judges’ in the case of Asia Bibi
There is conflict between the powers of State as to the case of Asia Bibi in Pakistan, particularly between the President and the Magistrate. Today a spokesman for President Asif Ali Zardari responded to the statement of the Lahore High Court, claiming the prerogative and powers of the President. The Court, responding to the petition of some lawyers, had asked the president not to grant the pardon before the conclusion of the three stages of proceedings. Zardari said that the High Court has no jurisdiction over his duties and, under Article 45 of the Constitution, the President may at any time decide to grant a pardon. The Supreme Court of Pakistan, with a statement of “its motion” (ie, of their own initiative) has confirmed this interpretation, noting that only the Supreme Court may give binding instructions to the Government or the President.
According to Fides sources, it now seems certain that the appeal process will take place and that President Zardari – who also is under pressure from extremists – will wait to certify the process and duration, before intervening with any eventual pardon.
Meanwhile, the voices of controversy continue on the debate over the case of Asia Bibi. Some radical Islamic leaders have said openly that they “could give the order to kill her” if she is released or if a court declares her innocent. Fides was told, “This position puts the life of Asia and her family in serious danger,” by Haroon Barket Masih, a Pakistani Christian living in London, President of the Masih Foundation that is helping the family and giving legal aid to Asia.
“We are providing free legal advice at the highest level and we are confident in the outcome of a retrial and acquittal, even if the legal system is often tainted by corruption. We fear however that, even during the process, Asia may be killed by radical militants, as happened in other cases of Christians tried for blasphemy.” As to Asia Bibi’s case, “There are now too many speculations. There are people who are trying to politicize it for personal advantage,” notes Haroon Barket Masih. He states: “As Asia has become a symbol, and therefore a legitimate target for extremists, probably we will be forced to take her and her family abroad. We have received proposals from America and Italy.” Agenzia Fides 30/11/2010
The Constitution says as follows:
10A. Right to fair trial:
For the determination of his civil rights and obligations or in any criminal charge against him a person shall be entitled to a fair trial and due process.]
19.Freedom of speech, etc.
Every citizen shall have the right to freedom of speech and expression, and there shall be freedom of the press, subject to any reasonable restrictions imposed by law in the interest of the glory of Islam or the integrity, security or defence of Pakistan or any part thereof, friendly relations with foreign States, public order, decency or morality, or in relation to contempt of court,[15][commission of] or incitement to an offence.
20. Freedom to profess religion and to manage religious institutions.
Subject to law, public order and morality:-
(a)
every citizen shall have the right to profess, practise and propagate his religion; and
(b)
every religious denomination and every sect thereof shall have the right to establish, maintain and manage its religious institutions.
25.Equality of citizens.
(1)
All citizens are equal before law and are entitled to equal protection of law.
(2)
There shall be no discrimination on the basis of sex [15B][*].
(3)
Nothing in this Article shall prevent the State from making any special provision for the protection of women and children.
http://www.pakistani.org/pakistan/constitution/part2.ch1.html
45. President’s power to grant pardon, etc.
The President shall have power to grant pardon, reprieve and respite, and to remit, suspend or commute any sentence passed by any court, tribunal or other authority.
47. Removal [22][or impeachment] of President.
[22A](1) Notwithstanding anything contained in the Constitution, the President may, in accordance with the provisions of this Article, be removed from office on the ground of physical or mental incapacity or impeached on a charge of violating the Constitution or gross misconduct.
[48. President to act on advice, etc.
(2) Notwithstanding anything contained in clause (1), the President shall act in his discretion in respect of any matter in respect of which he is empowered by the Constitution to do so [26A][and the validity of anything done by the President in his discretion shall not be called in question on any ground whatsoever].
http://www.pakistani.org/pakistan/constitution/part3.ch1.html
175. Establishment and Jurisdiction of Courts.
(2) No court shall have any jurisdiction save as is or may be conferred on it by the Constitution or by or under any law.
http://www.pakistani.org/pakistan/constitution/part7.ch1.html
184. Original Jurisdiction of Supreme Court.
(1) The Supreme Court shall, to the exclusion of every other court, have original jurisdiction in any dispute between any two or more Governments.
Explanation.-In this clause, “Governments” means the Federal Government and the Provincial Governments.
(2) In the exercise of the jurisdiction conferred on it by clause (1), the Supreme Court shall pronounce declaratory judgments only.
(3) Without prejudice to the provisions of Article 199, the Supreme Court shall, if it considers that a question of public importance with reference to the enforcement of any of the Fundamental Rights conferred by Chapter I of Part II is involved have the power to make an order of the nature mentioned in the said Article.
185. Appellate Jurisdiction of Supreme Court.
(1) Subject to this Article, the Supreme Court shall have jurisdiction to hear and determine appeals from judgments, decrees, final orders or sentences.
(2) An appeal shall lie to the Supreme Court from any judgment, decree, final order or sentence
(a) if the High Court has on appeal reversed an order of acquittal of an accused person and sentenced him to death or to transportation for life or imprisonment for life; or, on revision, has enhanced a sentence to a sentence as aforesaid; or
(b) if the High Court has withdrawn for trial before itself any case from any court subordinate to it and has in such trial convicted the accused person and sentenced him as aforesaid; or
(c) if the High Court has imposed any punishment on any person for contempt of the High Court; or
(d) if the amount or value of the subject matter of the dispute in the court of first instance was, and also in dispute in appeal is, not less than fifty thousand rupees or such other sum as may be specified in that behalf by Act of [166] [Majlis-e-Shoora(Parliament)] and the judgment, decree or final order appealed from has varied or set aside the judgment, decree or final order of the court immediately below; or
(e) if the judgment, decree or final order involves directly or indirectly some claim or question respecting property of the like amount or value and the judgment, decree or final order appealed from has varied or set aside the judgment, decree or final order of the court immediately below; or
(f) if the High Court certifies that the case involves a substantial question of law as to the interpretation of the Constitution.
(3) An appeal to the Supreme Court from a judgment, decree, order or sentence of a High Court in a case to which clause (2) does not apply shall lie only if the Supreme Court grants leave to appeal.
186. Advisory Jurisdiction.
(1) If, at any time, the President considers that it is desirable to obtain the opinion of the Supreme Court on any question of law which he considers of public importance, he may refer the question to the Supreme Court for consideration.
(2) The Supreme Court shall consider a question so referred and report its opinion on the question to the President.
[167]
[186A.
The Supreme Court may, if it considers it expedient to do so in the interest of justice, transfer any case, appeal or other proceedings pending before any High Court to any other High Court.
190. Action in aid of Supreme Court.
All executive and judicial authorities through out Pakistan shall act in aid of the Supreme Court.
http://www.pakistani.org/pakistan/constitution/part7.ch2.html
199. Jurisdiction of High Court.
(1) Subject to the Constitution, a High Court may, if it is satisfied that no other adequate remedy is provided by law,-
(a) on the application of any aggrieved party, make an order-
(i) directing a person performing, within the territorial jurisdiction of the Court, functions in connection with the affairs of the Federation, a Province or a local authority, to refrain from doing anything he is not permitted by law to do, or to do anything he is required by law to do; or
(c) on the application of any aggrieved person, make an order giving such directions to any person or authority, including any Government exercising any power or performing any function in, or in relation to, any territory within the jurisdiction of that Court as may be appropriate for the enforcement of any of the Fundamental Rights conferred by Chapter 1 of Part 11.
(2) Subject to the Constitution, the right to move a High Court for the enforcement of any of the Fundamental Rights conferred by Chapter 1 of Part II shall not be abridged.
(4) Where-
(a) an application is made to a High Court for an order under paragraph (a) or paragraph (c) of clause (1), and
(b) the making of an interim order would have the effect of prejudicing or interfering with the carrying out of a public work or of otherwise being harmful to public interest [181] [or State property] or of impeding the assessment or collection of public revenues,
the Court shall not make an interim order unless the prescribed law officer has been given notice of the application and he or any person authorised by him in that behalf has had an opportunity of being heard and the Court, for reasons to be recorded in writing, is satisfied that the interim order-
(i) would not have such effect as aforesaid;or
(ii) would have the effect of suspending an order or proceeding which on the face of the record is without jurisdiction.
http://www.pakistani.org/pakistan/constitution/part7.ch3.html
227. Provisions relating to the Holy Qur’an and Sunnah.
(1) All existing laws shall be brought in conformity with the Injunctions of Islam as laid down in the Holy Quran and Sunnah, in this Part referred to as the Injunctions of Islam, and no law shall be enacted which is repugnant to such Injunctions.
[242] [Explanation:- In the application of this clause to the personal law of any Muslim sect, the expression “Quran and Sunnah” shall mean the Quran and Sunnah as interpreted by that sect.]
(2) Effect shall be given to the provisions of clause (1) only in the manner provided in this Part.
http://www.pakistani.org/pakistan/constitution/part9.html
248. Protection to President, Governor, Minister, etc.
(1) The President, a Governor, the Prime Minister, a Federal Minister, a Minister of State, the Chief Minister and a Provincial Minister shall not he answerable to any court for the exercise of powers and performance of functions of their respective offices or for any act done or purported to be done in the exercise of those powers and performance of those functions:
Provided that nothing in this clause shall be construed as restricting the right of any person to bring appropriate proceedings against the Federation or a Province.
http://www.pakistani.org/pakistan/constitution/part12.ch4.html
As you know, the Pakistan Penal Code says:
55-A. Saving for President prerogative:
Nothing in Section fifty-four or Section fifty-five shall derogate from the right of the President to grant pardons, reprieves, respites or remissions of punishment:
Provided that such right shall not without the consent of the victim or, as the case may be. of the heirs of the victim, be exercised for any sentence awarded under Chapter XVI.…
295-C. Use of derogatory remarks, etc., in respect of the Holy Prophet:
Whoever by words, either spoken or written, or by visible representation or by any imputation, innuendo, or insinuation, directly or indirectly, defiles the sacred name of the Holy Prophet Muhammad (peace be upon him) shall be punished with death, or imprisonment for life, and shall also be liable to fine.
http://www.pakistani.org/pakistan/legislation/1860/actXLVof1860.html
Govt barred from amending blasphemy law
LHC orders govt not to amend blasphemy law till the final decision of the court on Aasia Bibi’s case.
LAHORE: The Lahore High Court (LHC) has barred the government from amending the blasphemy law, till the final decision of the court in Asia Bibi’s case.
The court gave the orders during the hearing of a petition filed to stop the government from tabling an amendment bill in the blasphemy law 295-C.
Former Information Minister Sherry Rehman has also been made a party to the petition. Notices have been issued to her and the federal government for the December 23 hearing.
Meanwhile, the court extended the stay order in the Asia Bibi’s case till December 23. It declared that the government cannot proceed further on Asia Bibi’s mercy application till the set date.
In an earlier hearing, the court had stalled pardon moves for Aasia Bibi, directing President Asif Ali Zardari and the governor Punjab to abstain from making any move to pardon blasphemy convict Aasia Bibi till December 6. The court today (Monday) extended the stay order till December 23.
http://tribune.com.pk/story/86543/govt-barred-from-amending-blasphemy-law/
لاہور ہائیکورٹ:توہین رسالت قانون میں ترمیم روک دی گئی
Updated at 0845 PST
لاہور…لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کرنے سے تاحکم ثانی روک دیا۔ عدالت کے روبرو محمد ناصر نامی شہری کی طرف سے درخواست دائر کی گئی تھی جس میں توہین رسالت کے قانون میں ممکنہ ترامیم کے اقدام کو چیلنج کیا گیا تھا،درخواست میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ کو اختیار نہیں ہے کہ توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کریں لیکن اس امر کی کوشش کی جارہی ہے کہ بین الاقوامی دباؤ کے تحت اس قانون کو تبدیل کردیا جائے کیس کی ابتدائی سماعت کے دوران حکومتی وکیل نے عدالت کو یقین دلایا کہ جب تک عدالت توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے حوالے سے اختیار کا فیصلہ نہیں کرتی تب تک توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کا بل پیش نہیں کیا جائے گا عدالت نے سماعت کے بعد وفاقی حکومت کو 23 دسمبر کے لئے نوٹس جاری کر دیئے۔
http://search.jang.com.pk/update_details.asp?nid=104939
Pak Court Bars Govt from Amending Blasphemy Law
LAHORE | DEC 06, 2010
A Pakistani court today restrained the government from amending the blasphemy law, which has been at the centre of a heated debate after a Christian woman was convicted under it and sentenced to death last month.
Chief Justice Justice Khwaja Sharif of the Lahore High Court barred the government from introducing any change in the blasphemy law in response to a petition filed by a man named Muhammad Nasir.
Sharif issued a notice asking the government to clarify its position on the issue at the next hearing scheduled for December 23.
In his petition, Nasir asked the court to stop the federal government from making any change in the law.
The Chief Justice said the government should not take any step till the court gives its verdict on the petition.
Nasir further said in his petition that the government plans to change the law.
He argued that parliament has no power to change the law under “foreign pressure”.
The government’s lawyer told the court that no amendment will be introduced in parliament till the court’s final verdict is announced.
The blasphemy law introduced during the regime of late military ruler Zia-ul-Haq carries the death penalty for insulting Islam or Prophet Mohammed.
After a lower court in Punjab province sentenced Asia Bibi, a 45-year-old Christian woman to death for committing blasphemy, top government officials have said the law needs to be amended to ensure that no one misuses it.
Rights and minority groups are campaigning for the amendment of the law, which they argue discriminates against religious minorities.
Religious Affairs Minister Shahbaz Bhatti too recently hinted that changes would be made to the law.
Former Information Minister and ruling Pakistan People’s Party lawmaker Sherry Rehman has introduced a private bill in parliament to change the law.
Religious groups have angrily reacted to the moves to amend the law and hundreds of activists of the hardline Jamaat-e-Islami party joined a rally in Islamabad yesterday and announced they would resist any attempt to repeal or change the blasphemy law.
In a related development, a bench of the Lahore High Court also barred the President or any other government functionary from pardoning Asia Bibi.
http://news.outlookindia.com/item.aspx?703890