مکتوب دہلی-رابندر ناتھ ٹیگور ،مقبولیت و عصریت کا سوال /ارجمند آراء

arjumnd ara

رابندرناتھ ٹیگور (1861-1941)کا شمار برِصغیر ہند کے مقبول ترین شاعروں میں ہوتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی ہمہ جہت شخصیت ناول، ڈرامے، مصوری اور موسیقی کے میدان میں بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ ہندوستان میں بیسویں صدی کے ایک اہم مفکر کے طور پر بھی وہ معروف ہیں۔ انھوں نے ادب، کلچر، سیاست، سماجی تبدیلی، تعلیم، مذہبی عقائد پر مضامین لکھے ، فلسفیانہ تجزیے  کیے  اور اپنے عہد کے بین الاقوامی معاملات پربھی لکھا۔ وہ بنگلہ زبان کے ساتھ ساتھ بنگالی ذہن اور تہذیب کی نمائندگی کرنے والے سب سے اہم ادیب اور دانشور مانے جاتے ہیں۔  1913 میں جب نظموں کے مجموعے ’گیتانجلی ‘ پر رابندرناتھ ٹیگورکو ادب کا نوبل انعام ملا— ٹیگور نوبل انعام پانے والے پہلے غیر یوروپی ادیب تھے— تو نوبل اکادمی نے ان الفاظ میں ان کی شاعرانہ خوبیوں کا اعتراف کیا:

 

(یہ انعام ٹیگور کی) بے حد حساس، تازہ کاراور خوبصورت شاعری کے لیے ، جس میں انھوں نے اپنی شاعرانہ فکر کومکمل ہنر مندی سے خود ہی انگریزی میں ڈھال کر مغرب کے ادب کا حصہ بنادیا۔(1)

 

نوبیل انعام کے لیے ٹیگور کے نام کا اعلان ہونا تھا کہ پورا یوروپ ان کی شاعری کے سحر میں گرفتار ہوگیا۔ مارچ تا نومبر 1913 تک ’گیتانجلی‘ کے دس ایڈیشن چھپے جس سے ٹیگور کی بے پناہ مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دراصل اس دور میں یوروپ جس طرح کی مادہ پرستی کی آماجگاہ تھا، نیز ایک بے روح اور کھوکھلی زندگی جی رہا تھا اس میں لوگوں کےلیے اِن نظموں کی سادگی، مثالیت پسندی، بے ریائی، بے لوث قربانی کا جذبہ، فطرت کے دامن میں جذب ہو جانے کا احساس سکون بخش اور سحر انگیز تھا۔ ان کی شاعری کی اسی خوبی کو یورپ میں بنیادی طور پر سراہا گیا۔ ایوارڈ کی تقریب میں سویڈش اکیڈمی کی نوبیل کمیٹی کے چیرمین ہرالڈ ہیارنے (Harald Hjärne) نے ٹیگور کی شاعری ، ادبی نگارشات اور فکر پر اپنی تقریر میں ’گیتانجلی ‘کی درج ذیل نظم کی مثال دے کر بتایا کہ ٹیگور نے ہمیں اپنی نظموں میں اس بات پر غور کرنا سکھایا ہے کہ فانی اشیا کس طرح سے لافانی میں مدغم ہوجاتی ہیں:

 

وقت لا منتہا ہے ، اے میرے مالک

کوئی نہیں جو تیرے لمحوں کا شمار رکھے

روز وشب گزرتے رہتے ہیں، زمانے پھولوں کی مانند کھلتے ، زرد پڑتے رہتے ہیں۔

انتظار کا فن مگر تو ہی جانتا ہے ۔

تیری صدیاں ایک کے بعد ایک کچھ یوں گزر تی ہیں گویا

کسی ننھے سے صحرائی پھول کی تکمیل میں مشغول ہوں۔

ہمارے پاس اتنا وقت کہاں کہ ہم اسے ضائع کریں،

اور جب وقت نہیں، تو ہمیں چاہیے کہ اپنے حصے کے مواقع جھپٹ لیں۔

کہ ہم تو اتنے نادار ہیں کہ مزید انتظار کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

اور میرا وقت یوں گزر تا ہے

کہ میں اسے ہر ایسے شخص کو دیتا جاتا ہوں جو مجھ سے جھگڑ کر اس کا دعویدار ہوبیٹھتا ہے،

 اور تیری قربان گاہ آخر تک عقیدت کے تمام نذرانوں سے خالی ہی رہتی ہے۔

اور جب دن قریب الختم ہوتا ہے تو میں تعجیل کرتاہوں،

کہیں ایسا نہ ہو کہ تیرا در بند ہوجائے۔

لیکن پھر دیکھتا ہوں کہ ابھی تو وقت باقی ہے۔

(گیتانجلی ، نظم 82، ترجمہ: ارجمند آرا)

 

گیتانجلی پر مبسوط مقدمہ تحریر کرنے والے انگریزی کے معروف شاعر ایذرا پاؤنڈ نے ٹیگور کی شاعری سے متاثر ہوکر لکھا تھا کہ اس شاعری میں ایک طرح کا سکون ، قدرتی سکون ہے۔ یہ نظمیں ہمیں کسی طوفانی یا اشتعالی کیفیت کی پیداوار نہیں معلوم ہوتیں بلکہ یہ شاعر کی ذہنی عادت کے عین مطابق لگتی ہیں۔(2)

ٹیگور نے زندگی کے دقیق فلسفوں، نیز مادہ پرستی کے مقابلے بے لوث جذبوں اور سادہ زندگی کے راز جس سہج ڈھنگ سے بیان کیے ہیں وہ بھی ان کی مقبولیت کا باعث بنا۔ مثلاً ایک نظم میں زندگی کا فلسفہ ایک بچے کے روپ میں یوں پیش کرتے ہیں:

 

غوطہ خور نے موتی لانے کے لیےسمندر میں غوطہ لگایا

سوداگر نے سونا چاندی لانے کے لیے اپنا جہاز سمندر میں ٹھیل دیا

چھوٹے بچے نے سمندر کے کنارے کنکر پتھر ڈھونڈے اور کھیلنا شروع کیا

مجھے نہیں معلوم غوطہ خور کو موتی ملے گا یا نہیں

مجھے نہیں معلوم سوداگر کا جہاز سونا چاند لے کر لوٹے گا یا نہیں

لیکن بچہ شام تک پتھروں سے کھیلے گا

پھر انھیں وہیں چھوڑ کر،گھر لوٹ آئے گا۔

(ترجمہ :ہرپال سنگھ پنو)۔

روحانیت سے مملو اور مادہ پرستی سے لاتعلق اس شاعری کی ہر جانب تحسین اور شہرت کا نتیجہ یہ ہوا کہ ٹیگور کی شاعری کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہونے لگے اور اس سے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ آندرے ژید نے فرانسیسی میں، ایوان بونن نے روسی میں، اور بعد میں بورس پاستر ناک اور انا اخماتووا نے بھی روسی زبان میں ان کی مختلف کتابوں اور نظموں کے ترجمے کیے۔ مزید برآں اسپینی، جرمن، اطالوی، جاپانی اور چینی جیسی بہت سے زبانوں میں بھی ترجمے ہوئے۔ ٹیگور کے زیادہ تر نقاد یہ مانتے ہیں کہ یورپ میں ٹیگور کی مقبولیت عموماً ان کی شاعری کی مذہبی پراسرار فضا اور روحانی سکون کے احساسات پر قائم تھی۔ نوبیل انعام نے ٹیگور پر The Great mystic of the East کا لیبل کچھ اس طرح چسپاں کردیا کہ یوروپ نے پھر کسی اور پہلو سے ان کی تفہیم کوششیں ہی نہیں کیں۔ ٹیگور کے عہد کی بات تو جانے دیں، ان کے بعد بھی یوروپ میں ان کی ہمہ جہت تفہیم کی کوشش نہیں کی گئی۔ مثلاً ان کی مترجم انا اخماتووا بھی،جنھوں نے 1960 کے عشرے میں ٹیگور کی نظموں کا ترجمہ روسی زبان میں کیا تھا، اسی طرح سوچتی ہیں کہ ”شاعری کا ایک طاقتور دھارا جس نے اپنی توانائی ہندو مت اور گنگا سے لی، رابندرناتھ ٹیگور ہے۔(3) ظاہر ہے صرف روحانیت اور مذہب کی بنیاد پر ملنے والی شہرت اس تیزی سے بدلتے معاشرے میں دیر تک ساتھ نہیں دے سکتی تھی۔ ہندو تہذیب اور مذہبیت کا جو علم یوروپ نے گیتانجلی کی بنیاد پر ٹیگور کے ہاتھ میں تھما دیا تھا، ٹیگور یوروپ میں اس سے کبھی نجات نہ پاسکے۔ چنانچہ محدود اسباب سے ملنے والی یہ مقبولیت عارضی ثابت ہوئی اور یورپ میں ان کی شاعری سے دل چسپی جلد ہی ختم ہوگئی۔ یہاں تک کہ 1937تک آتے آتے منفی تبصرے بھی نظر آنے لگے اور گراہم گرین نے لکھا:

”جہاں تک ٹیگور کا معاملہ ہے تو میں اس پر یقین نہیں کرسکتا کہ مسٹر ییٹس کے علاوہ کوئی اور بھی ان کی شاعری کو سنجیدگی سے لے سکتا ہے۔(4)

اس طرح کے بیانات کے استرداد میں ٹیگور کی شاعرانہ اور مفکرانہ عظمت پر بہت سے مضامین لکھے گئے لیکن ایسا مواد کم ہے جس میں ان کے مقبول نہ رہنے کے اسباب کا ہمہ جہت تجزیہ کیا گیا ہو۔

 

نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات امرتیہ سین یہ مانتے ہیں کہ ٹیگور دنیا کے منظر نامے سے تقریباً غائب ہوچکے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کے لوگوں کے خیال میں ٹیگور صرف روحانیت پسند ہیں اور خود کو محض دوہراتے رہتے ہیں۔ لیکن اس توجیہہ پر امرتیہ سین کا اعتراض یہ ہے کہ ییٹس اور دوسرے مغربی لوگوں نے ٹیگور کو اپنے بنائے ہوئے تنگ نظریاتی چوکھٹے ہی میں فٹ کرنے کی کوشش کی ہے، جہاں وہ فٹ نہیں ہوسکتے۔ امرتیہ سین اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ ٹیگور بنگلہ دیش اور ہندوستان میں آج بھی ہمہ جہت اور عصری اہمیت کے حامل مفکر مانے جاتے ہیں جس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ انااخماتووا کے مطابق ان کی شاعری کے منابع ہندو مت میں ہونے کے باوجود بنگلہ دیش نے انھی کے گیت ’امار سونار بانگلہ‘ کو اپنا قومی ترانہ بنایا۔ وہ یہ مانتے ہیں دراصل مغربی ذہن اس تہذیبی تکثیریت، وسیع المشربی اور سیکولر تربیت کا ادراک کر ہی نہیں سکتا جو ہمارے یہاں موجود ہے۔ اس تکثیریت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خود ٹیگور نے اپنے خاندان کو تین تہذیبوں کا سنگم بتایا ہے— ہندو، مسلم اور برٹش۔ ان کے والد دویجندرناتھ ٹیگور عربی اور فارسی کے ماہر تھے، ان کی تربیت مذہبی ہندو کے طور پر ہوئی، نیز جدید تعلیم سے آراستہ ہوکر ان کا نظریہ مغرب کے تئیں غیر جانبدارانہ بن گیا تھا اور وہ بین الاقوامی اور آفاقی اقدار میں یقین رکھتے تھے۔

 

بہرحال، یوروپ میں ٹیگور کے غیر مقبول ہوجانے کے مزید اسباب کا تجزیہ کیا جانا چاہیے تھا جو ہنوز باقی ہے۔ بادی النظر میں یہ بات اہم محسوس ہوتی ہے کہ سمندر جیسا ٹھہراو رکھنے والی، دامنِ فطرت کی طرف بلانے والی ، ذہنی اور روحانی سکون بخشنے والی یہ شاعری یوروپی اقوام کے لیے خصوصی اپیل  رکھتی تھی جس کا سبب یہ ہے کہ یہ زمانہ یوروپی سامراجیت کے عروج کا زمانہ تھا۔ سامراجیت کی توسیع پسندی اور ایشیا کی محکوم اقوام کی لوٹ نے مغرب کو عمومی طور پر بے ضمیر اور کھوکھلا بنا دیا تھا؛ مغرب کے سامراجی مزاج، سرمایہ دارانہ ذہن، دولت کی ریل پیل اور مادی آسائشوں کی بہتات میں روحانی سکون کا حصول ان کے لیے ایک ضرورت تھا، روحانی تسکین کا ایک وسیلہ تھا ۔ لیکن اس کی اہمیت بھی علامتی ہی تھی۔ روحانیت کو بھی دوسری کامیابیوں پر ملنے والی ٹرافی کی طرح ڈرائنگ روم کا محض ایک گوشہ درکار تھا ۔ ایسے معاشرے میں تعلیم یافتہ مڈل کلاس کے لیے مذہب کا جو محدود رول ہوتا ہے ویسے ہی انٹلکچول طبقے کے لیے ٹیگور کی روحانیت اور مابعد الطبیعاتی سروکار بہت دلفریب تھے۔  ٹیگور کی یہ شاعری مغرب والوں کے ہندوستان کے اس تصور سے پوری طرح میل کھاتی تھی جس میں یہ سرزمین پراسرار جنگلوں، ندیوں، سادھووں اور ان کے کرشموں، جادو ٹونوں، مندروں، دیوتاؤں ، شلوکوں اور گیتوں کی سرزمین تھی— تقدس اور قدامت کے ہالے میں قید۔ اس لیے عجب نہیں کہ ان کے نقادوں نے اس شاعری کو ’قدرتی سکون‘ کا حامل سمجھا اور اسے اس روایت کا حصہ بتایا جہاں بقول ییٹس ’شاعری اور مذہب علاحدہ نہیں‘۔:

 

”یہ وہ شاعری ہے جو نسل در نسل مسافر شاہراہوں پر گنگناتے رہیں گے، مانجھی ندی کے پانیوں میں گاتے رہیں گے، ایک دوسرے کے منتظر عاشق و معشوق کے نزدیک عشقِ الٰہی سے معمور یہ گیت گنگنا نا ویسا ہی ہوگا جیسے کسی جھیل میں نہا کر وہ اپنے تلخ تر جذبے کو دھو رہے ہوں اور اپنی جوانی پھر سے پُر شباب بنا رہے ہوں۔“(5)

 

 لیکن یہ سحر زدگی مغرب کے اس دور کے حالات میں اس کے مزاج کا حصہ نہیں بن سکتی تھی کیونکہ یوروپی اور امریکی سرمایہ داری ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہی تھی۔ ایشیا اور افریقی ممالک کی لوٹ نے ان کے مفادات کی جنگ کو تیز تر کردیا تھا اور یوروپ پہلی عالمی جنگ کے دہانے پر تھا۔ جنگ ہوئی اور اتنی خوفناک کہ اس سے پورا یوروپ تہ و بالا ہوکر رہ گیا۔ 1919 میں جنگ کے خاتمے تک بہت کچھ بدل گیا۔ روس میں سوشلسٹ انقلاب آگیا اور سارا  عالم اس سے متاثر ہونے لگا۔ 1922 میں ٹی ایس ایلیٹ کی طویل نظم The Waste Land شائع ہوئی جس میں جنگ ِعظیم کے بعد پیدا ہونے والی مایوسی اور روحانی بنجرپن کو مرکز خیال بنایا گیا تھا۔ یہ نظم بہت جلد اپنے دور کی ذہنی اور مادی صورتِ حال کی ترجمان بن گئی۔ اس دور میں ٹیگور کی روحانیت سکون کی ایک رومانی فضا تو قائم کرسکتی تھی لیکن روحِ عصر سے دور تھی۔ ویسٹ لینڈ جیسی شاعری اپنے دور کی سچی ترجمان تھی۔ اس لیےعجب نہیں کہ بہت تھوڑے عرصے میں ہی لوگ ٹیگور کی شاعری میں دل چسپی کھو بیٹھے۔

 

 اس دوران یورپ کے سیاسی حالات مزید خراب ہوتے گئے۔ اگلے دس پندرہ برسوں میں فاشزم اپنے عروج پر پہنچ گیا اور یورپ کی سرمایہ دار قوتوں کے لیےسوشلزم اور فاشزم دو الگ الگ طرح کے خطرے بن کر ابھرے۔ ادیبوں اور دانشوروں کا طبقہ بنیادی طور پر سوشلزم کی طرف مائل ہو گیا کیونکہ یہ دنیا بھر کے استحصال زدوں اور کمزور طبقوں کا مسیحا بن کر ان کی مجتمع قوت کا علم بردار بنتا جارہا تھا۔ جبکہ مذہبیت اور روحانیت، دنیا کے پیچیدہ مسائل کا کوئی حل پیش کرنے سے قاصر تھی۔ ادیب اب یورپ میں بڑھتے ہوئے فاشزم کے خطرے اور دوسری جنگِ عظیم کے اندیشے کو تشویش کے ساتھ دیکھ رہے تھے، اور سامراج کی نام نہاد جمہوری حکومتیں یا تو خاموش تماشائی تھیں یا پھر فاشسٹ طاقتوں کو خوش رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھیں۔ سنہ 1935 کے آس پاس فاشزم اور جنگ کے خطروں کے خلاف، نیز کلچر کی حفاظت کے لیے فرانس، اسپین، روس، انگلینڈ ، افریقہ اور دنیا بھر کے ادیب منظم ہونے لگے تھے، وہ انسانیت اور انسانی تہذیب کی بقا کے لیے قلم رکھ کر ہتھیار اٹھانے کی تیاریاں کر رہے تھے اور اپنی جانیں تک قربان کرنے کو آمادہ تھے۔

 

بیسویں صدی کی تیس اور چالیس کی دہائی میں کئی باتیں قابلِ توجہ تھیں— سوشلزم کا عروج، فاشزم کے خلاف جنگ نیز ایشیا اور افریقہ میں نوآبادیاتی حکمرانوں کے خلاف آزادی کی جدو جہد کا تیز تر ہونا، جس سے برطانوی سامراج کی بنیادیں ہلنے لگی تھیں۔ ہندوستان میں جنگِ آزادی کے تیز تر ہونے کا بھی یہی زمانہ ہے۔ گاندھی جی افریقا سے لوٹے اور سابرمتی آشرم بنانے سے پہلے کچھ عرصہ شانتی نکیتن میں رہے۔ اپنے عہد کے یہ دو بڑے لوگ ایک دوسرے سے متاثر بھی تھے اور بہت سے معاملات پر اختلاف بھی رکھتے تھے۔  گاندھی نے سامراج سے لڑنے کے لیے اہنسا (عدم تشدد) کو ہتھیار بنایا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ غریب ، نہتھے اور محکوم عوام کے پاس انسانیت ہی سب سے کارگر ہتھیار ہوسکتی ہے۔ گاندھی جی نے دھرم، اہنسا، تیاگ اور پریم کے جذبات کو اپنی سیاسی فکر سے مربوط کرکے سیاسی اور سماجی تبدیلی کا خواب دیکھا اور اس کے لیے جدوجہد کی۔ ٹیگور اور اروبندو گھوش جیسے ادیب اور روحانی قدروں پر یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے گاندھی کا یہ راستہ بدیسی حکمرانی سے نجات کا بھی راستہ تھا اور قوم کی بہتری کا بھی۔ لیکن ٹیگور کی روحانیت گاندھی کے طرز فکر سے مختلف تھی اور اس اختلاف کا اظہار ان کی تحریروں میں جا بجا محسوس کیا جاسکتا ہے۔

 

 ’گیتانجلی ‘کی شاعری ٹیگور کی شخصیت کے صرف ایک رخ کو پیش کرتی ہے۔ انھوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ کہانیاں اور ناول بھی لکھے، ڈرامے اور مضامین بھی۔ اپنے گیتوں کو موسیقی میں بھی ڈھالا اور 63 بر س کی عمر میں مصوری بھی کی۔ ان سب فنونِ لطیفہ میں انھوں نے اپنی دلی اور جذباتی دنیا کو ہی نہیں بلکہ ذہنی اور فکری افق کو بھی مصور کیا۔ وہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے ہر موڑ پر غور وفکر کرتے اور اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے رہے۔ 13اپریل 1919کو جب امرتسر میں جلیانوالہ باغ قتلِ عام کا دلدوز واقعہ پیش آیا (جس میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 379 لوگ مارے گئے جبکہ شہادت ہزاروں لوگوں کی شہادت  کی ملتی ہے) تو ٹیگور نے سی ایف اینڈریوز کو 23 سے 26 اپریل کے درمیان پانچ خط سخت اضطراب کے عالم میں لکھے اور مہینے بھر کے اندر وائسراے کے نام خط لکھ کر سخت الفاظ میں اس قتلِ عام کے مذمت کرتے ہوئے چار سال پہلے دیا گیا ’نائٹ‘ کا خطاب لوٹا دیا۔

 

جب سجاد ظہیر اور ان کے دوستوں نے ترقی پسند تحریک کی بنیاد ڈالی اور 1936میں لکھنؤ کی پہلی کل ہند کانفرنس کے بعد ملک بھر کی مختلف زبانوں کے ادیبوں کو متحد کرنا شروع کیا تو انھوں نے رابندرناتھ ٹیگور سے بھی رابطہ قائم کیا۔ مارچ 1938میں الہٰ آباد میں ایک بڑی کانفرنس جوش ملیح آبادی، آنند نرائن ملا اور سمترا نندن پنت کی صدارت میں ہوئی۔ فیض احمد فیض، اسرارالحق مجاز، علی سردار جعفری، حیات اللہ انصاری، ڈاکٹر عبدالعلیم، فراق گھورکھپوری اور امرت رائے وغیرہ کے ساتھ جواہر لال نہرو بھی اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ نہرو کی حوصلہ افزا تقریر کے علاوہ اس کانفرنس کا ایک یادگار اور پر کشش لمحہ رابندر ناتھ ٹیگور کے پیغام کا پڑھا جانا بھی تھا۔ اپنے پیغام میں ٹیگور نے ایک جگہ ’تنہائی‘ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ تخلیقِ ادب میں تنہائی جتنی مفید ہے اتنی ہی مضر بھی ہے، اور یہ کہ الگ تھلگ رہنے والا ادیب بنی نوعِ انسان سے آشنا نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا:

 

”ادیبوں کو انسانوں سے مل جل کر انھیں پہچاننا ہے۔ میری طرح گوشہ نشین رہ کر ان کا کام نہیں چل سکتا۔ زمانہ دراز تک سماج سے الگ رہ کر میں نے جو بہت بڑی غلطی کی ہے اب سے سمجھ گیا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ یہ نصیحت کررہا ہوں۔ میرے شعور کا تقاضا ہے کہ انسانیت اور سماج سے محبت کرنا چاہیے۔ اگر ادب انسانیت سے ہم آہنگ نہ ہو تو وہ ناکام اور نامراد رہے گا۔ یہ حقیقت میرے دل میں چراغِ حق کی طرح روشن ہے اور کوئی استدلال اسے بجھا نہیں سکتا۔(6)

 

ٹیگور کا اس نتیجے پر پہنچنا ان کے ایک طویل ذہنی سفر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ انھوں نے ملک کی آزادی کی تحریک کا چراغ ہی اپنے دل میں روشن نہیں رکھا تھا بلکہ قومیت، بین الاقوامیت، آزادیِ فکر اور سائنسی اور منطقی ذہن رکھنے کے حوالے سے ان کے خیالات بڑے واضح رہے ہیں۔ وہ اکثر و بیشتر گاندھی جی کے ساتھ اختلاف بھی رکھتے تھے۔ انھیں احساس ہو چلا تھا کہ عملی طور پر ان خیالات کی ترویج میں اور لوگوں کے ذہن کی تشکیل میں انھوں نے کوئی فعال کردار نہیں نبھایا ہے جس کی اس دور کو سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ اس کمی کا انھیں غالباً شدید احساس تھا، اسی لیے بڑی صاف گوئی اور دیانتداری سے انھوں نے نہ صرف اس کا اعتراف کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ ملک کے دوسرے ادیبوں کو کس طرح سے اپنے فرائض پورے کرنے چاہیے۔ انھوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا:

 

 ”ہمارا ملک ایک لق و دق صحرا ہے جس میں  شادابی اور زندگی کا نام و نشان نہیں ہے۔ ملک کا ذرہ ذرہ دکھ کی تصویر بنا ہوا ہے۔ ہمیں اس غم و اندوہ کو مٹانا ہے اور از سرِ نو زندگی کے چمن میں آبیاری کرنا ہے۔ ادیب کا فرض ہونا چاہیے کہ ملک میں نئی زندگی کی روح پھونکے، بیداری اور جوش کا گیت گائے۔ ہر انسان کو امید اور مسرت کا پیغام سنائے اور کسی کو ناامید اور ناکارہ نہ ہونے دے۔ ملک اور قوم کی بہی خواہی کو ذاتی اغراض پر ترجیح دینے کا جذبہ ہر چھوٹے بڑے میں پیدا کرنا ادیب کا فرضِ عین ہونا چاہیے۔ قوم، سماج اور ادب کی بہبودی کی سوگند جب تک ہر انسان نہ کھائے گا، اس وقت تک دنیا کا مستقبل روشن نہیں ہوسکتا۔ اگر تم یہ کرنے کے لیے تیار ہو تو تمھیں پہلے اپنی متاع کھلے ہاتھوں لٹانی ہوگی اور پھر کہیں تم اس قابل ہوگے کہ دنیا سے کسی معاوضے کی تمنا کرو لیکن اپنے کو مٹانے میں جو وصف ہے اس سے تم محروم نہ رہ جاﺅ۔

 یاد رکھو کہ تخلیق ادب بڑے جوکھوں کا کام ہے اور حق اور جمال کی تلاش کرنا ہے تو پہلے ”انا“ کی کےنچلی اتارو۔ کلی کی طرح سخت ڈنٹھل سے باہر نکلنے کی منزل طے کرو۔ پھر دیکھو کہ ہوا کتنی صاف ہے، روشنی کتنی سہانی ہے اور پانی کتنا لطیف ہے۔“(7)

 

 ٹیگور ایک پختہ سیاسی اور سماجی نظریہ رکھتے تھے، ترقی پسند تحریک کے تحت جمع ہونے والے ادیبوں کی کوششوں کو انھوں نے اسی کی روشنی میں دیکھا اور اس قلمی اتحاد کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس کی حمایت کی۔ انھوں نے جن موضوعات پر مضامین لکھے ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ گاندھی جی کے مقابلے میں بہت کم روایت پسند تھے۔ وہ سائنسی طرز فکر اور معروضیت میں زیادہ دل چسپی رکھتے تھے اور انھی اسباب سے انھوں نے گاندھی سے وطن پرستی یا قوم پرستی، تہذیبی لین دین، عقلیت اور سائنس، معاشی اور سماجی ترقی کی نوعیت جیسے بہت سے معاملات پر اختلاف کیا۔ ٹیگور کا طرز فکر اور استدلال انھیں ترقی پسند مقاصد کے قریب لے گیا۔ انھوں نے جو پیغام الہٰ آباد کانفرنس کے لیے بھیجا تھا اس کی نوعیت محض رسمی نہیں تھی۔ آئندہ برس دسمبر 1939میں انھوں نے اپنے دوست لیونارڈ ایمہرسٹ کو لکھا: ”ایسا ضروری نہیں ہے کہ صرف یاسیت پسند لوگ ہی ان لاکھوں لوگوں کے مستقبل کے لیے گہری تشویش محسوس کریں جو اپنے قدرتی کلچر اور امن پسند روایتوں کے ساتھ، افلاس، بیماری، بدیسی اور ہموطن لوگوں کے ہاتھوں استحصال اور بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔“(8)

 

ان کی تشویش کا اندازہ بہت سی تحریروں اور واقعات سے ہوتا ہے۔ مثلاً ایک بار شانتی نکیتن میں گاندھی جی نے ایک بچی کی آٹو گراف بک پر لکھا: ”عجلت میں وعدہ نہ کرو۔ اگر وعدہ کرلو تو اسے نبھاؤ ، چاہے جان کی بازی بھی کیوں نہ لگانی پڑے۔“ بعد میں ٹیگور نے یہ سطریں دیکھیں تو مضطرب ہوگئے اور بنگلہ زبان میں ایک چھوٹی سی نظم اسی کے نیچے لکھ دی جس کا مفہوم یہ تھا:”مٹی سے بنی زنجیر سے کسی کو ہمیشہ کے لیے باندھا نہیں جاسکتا۔“پھر انگریزی میں لکھا: ”اگر ایسا لگے کہ تمھارا کیا ہوا وعدہ غلط تھا تو اسے توڑ دو۔(9)

 

گاندھی جی کے ساتھ ایک بار ان کا شدید اختلاف اس وقت ہوا جب 1934میں بہار میں آئے ایک زلزلے میں ہزارہا لوگ مارے گئے تو گاندھی جی نے کہا کہ خدا نے یہ قہر ہمارے گناہوں کی پاداش میں، خصوصاً چھوت چھات برتنے کا گناہ کرنے کے باعث نازل کیا ہے۔ اس پر ٹیگور نے معصوم لوگوں اور بچوں کی جان لینے والے ایک قدرتی سانحے کی اس عجیب و غریب توضیح پر سخت احتجاج کیا ۔ انھوں نے لکھا کہ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ اس طرح کے غیر سائنسی نظریے ہمارے زیادہ تر ہم وطن بڑی آسانی سے قبول کرلیتے ہیں۔

 

 اسی طرح آزادی اور وطن پرستی تعلق سے بھی ٹیگور کے تصورات میں بڑی وسعت تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ درست نہیں کہ ہم اپنے ملک کی ہر شے کو بہتر اور مکمل سمجھیں اور مغرب کو برا۔ سامراجیت اور مغربی تہذیب میں فرق کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اگریہ سوچیں کہ ہم عیسائیت یا پھر مغرب سے کچھ نہیں سیکھ سکتے تو ایسا سوچنا غلط ہے۔ ہم سامراج کے خلاف ہیں، تہذیبی لین دین کے نہیں۔ وطن پرستی ان کی نظر میں زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد ہرگز نہیں تھی۔ معروف سائنسداں جگدیش چند بوس کی پتنی اَبالا بوس کے نام اپنے ایک خط میں انھوں نے 1908ہی میں یہ موقف اس طرح واضح کیا تھا: ”میری آخری پناہ گاہ انسانیت ہے۔ ہیروں کی قیمت پر میں کانچ ہرگز نہیں خریدوں گا، اور جب تک میری جان میں جان ہے انسان پرستی پر وطن پرستی کو کبھی حاوی نہیں ہونے دوں گا۔“ (10)

 

اس نظریے کو انھوں نے بہت موثر ڈھنگ سے اپنے ناول ’گھرے بائرے‘  (The Home and the World)  کا بھی موضوع بنایا ہے۔ ’گھرے بائرے’  1915 اور 1916 میں قسط وار چھپا۔ اس کا ہیرو نکھل سماجی اصلاح کے کاموں سے دل چسپی رکھتا ہے جن میں عورتوں کی آزادی کے لیے کام کرنا بھی شامل ہے۔ لیکن وطن پرستی کے سوال پر وہ خاموش ہے جس کے سبب اس کی بیوی بملا اس سے بددل رہتی ہے اور اس کے شدت پسند دیش بھکت دوست سندیپ سے متاثر ہوجاتی ہے اور اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔ لیکن نکھل دیش بھکتی پر اپنے خیالات نہیں بدلتا۔ وہ کہتا ہے: ”میں اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہوں لیکن عبادت صرف ’حق‘ کے لیے محفوظ رکھنا چاہتا ہوں جو میرے وطن سے کہیں زیادہ عظیم ہے۔“ کہانی آگے بڑھتی ہے اور سندیپ کی وطن پرستی کے سخت نظریات ایسے دوسرے ہم وطنوں کے ساتھ تشدد برتنے پر آمادہ کرتے ہیں جو اتنی شدت سے اس کے نظریات کے حامی نہیں ہیں۔ وہ بعض مسلمانوں پر حملے کراتا ہے ، ان کی دوکانیں جلواتا ہے۔ تب جاکر بملا کو وطن پرستی اور اس کے پیدا ہونے والے تعصب کا اندازہ ہوتا ہے جو تشدد کی طرف لے جاتاہے۔ ایک موقعے پر نکھل اپنی جان پر کھیل کر مظلوموں کی مدد کرتا ہے تو اس سے بملا کو متشدد وطن پرستی اور انسان پرستی کے  فرق کا اندازہ ہوتا ہے اور اس طرح نظریاتی طور پر موقف واضح ہونے کے ساتھ ہی سندیپ کے ساتھ اس کا یہ سیاسی رومانس ختم ہوجاتا ہے۔

 

’گھرے بائرے‘ کے ذریعے متشدد وطن پرستی کے برخلاف انسانی اقدار کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا پیغام موجود ہ دور میں کچھ زیادہ ہی معنویت رکھتا ہے جب ملک بھر میں قوم پرستی کا غلط تصور پھیلانے والی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور مذہبی اور تہذیبی تنظیمیں اپنے اکہرے تصور سے ملک کی تکثیریت اور مذہبی، لسانی ، تہذیبی، ادبی اور علاقائی تنوع اور رنگا رنگی کو غارت کرنے کے درپے ہیں اور ہر طرح کے اختلاف راے کو ملک دشمنی قرار دینے سے نہیں چوکتیں۔ ایسے حالات میں اس ناول میں ٹیگورکے پیغام کو عام کرنے اور اس کے ذریعے فرقہ پرست عزائم کو طشت ازبام کرنے کی ضرورت ہے۔

 

ٹیگور کا بنیادی موقف انسانیت کی سربلندی ہے جسے وہ اپنی مختلف تحریروں میں واضح کرتے رہے ہیں۔ آزادی بھی ان کے نزدیک صرف سیاسی آزادی نہیں ہے جس کے حصول کےلیے جدوجہد جاری تھی۔  بلکہ یہ آزادی خوف سے آزادی، سراٹھا کر جینے کی آزادی اور علم ودانش کی آزادی ہے جس کی تمنا وہ اپنے ہم وطنوں کے لیے ’گیتانجلی‘ کی ایک نظم میں اس طرح کرتے ہیں:

 

جہاں پر سربلندی ہو

جہاں بے خوف جذبے ہوں

جہاں پر علم ہو آزاد

سوچوں پر نہ پہرے ہوں

یہ دنیا جس جگہ پر چھوٹی چھوٹی تنگ گلیوں میں نہ بٹتی ہو

جہاں الفاظ سچائی کی گہرائی سے اٹھتے ہوں

جہاں پر کام کی تکریم ہو، محنت کی عزت ہو

جہاں تہذیبِ نو کی منچلی ندیا

روایاتِ کہن کی گرم ریتوں میں نہ گرتی ہو

جہاں پر ذہن تیری مہربانی سے کشادہ اور روشن ہوں

وطن کو میرے یا رب!

ایسی آزادی کی جنت میں جگانا ۔

(نظم 35، گیتانجلی ، ترجمہ :شاہنواز زیدی، لاہور 2005)

 

حقیقت تو یہ ہے کہ ٹیگور کو محض ان کی شاعری کے فریم میں دیکھنے سے نہ تو مکمل طور پر ان کی شخصیت واضح ہوتی ہے اور نہ ان کا ذہن۔ ان کے فکری ارتقا کو سمجھنے کے لیے ان کے عہد کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی تاریخ کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔  یوروپ میں ان کو سمجھنے کا غلط فریم ورک تیار کیا گیا، یہ بات درست ہے۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ یوروپ میں جتنی تیزی سے تبدیلیاں آئی تھیں اس سے ٹیگور کی مثالیت پسند اور مذہبی پس منظر رکھنے والی شاعری کے لیے گنجائشیں معدوم ہوگئی تھیں۔ ادبی منظر نامے پر یورپ کے لوگوں نے انھیں جتنی تیزی سے بھلا دیا، ٹیگور کو اس کا صدمہ تھا اور ان کے لیے ناقابلِ یقین بھی۔ غالباً ان کو اپنی شاعری کے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کا اندازہ بھی تھا۔ اسی لیے ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس کو بھیجے اپنے پیغام میں انھوں نے زیادہ واضح الفاظ میں ادیب کو اس کی سماجی ذمہ داریوں کا احساس دلایا۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ ٹیگور نے بحیثیت شاعر اس پیغام کو چاہے عام نہ کیا ہو، ان کے ناولوں، کہانیوں، ڈراموں اور مضامین میں ان کا موقف بالکل واضح رہا ہے،اور ایک ادیب اور فن کار کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ ایک دانش ور اور مفکر کے طور پر بھی ٹیگور عصری حسیت کے ترجمان رہے ہیں۔

 

حوالے:

1. “Because of his profoundly sensitive, fresh and beautiful verse, by which, with comsummate skill, he has made his poetic thought, expressed in his own English words, a part of the literature of the West.”http://www.nobelprize.org/nobel_prizes/literature/laureates/1913/

2. Ezra Pound in Fortnightly Review, 1 March 1913: “There is in him the stillness of nature. The poems do not seem to have been produced by storm or by ignition, but seem to show the normal habit of his mind. He is at one with nature, and finds no contradictions. And this is in sharp contrast with the Western mode, where man must be shown attempting to master nature if we are to have “great drama.”

3. Anna Akhmatova, referred in The Complete Poems of Rabindranath Tagore’s Gitanjali: Texts and Critical Evaluation by SK Paul, Sarup and Sons, New Delhi, 2006, p 24 .4۔ بحوالہ امرتیہ سین،”Tagore and His India”. Nobelprize.org. 21 Nov 2011http://www.nobelprize.org/nobel_prizes/literature/laureates/1913/tagore-article.html

5. ڈبلیو بی ییٹس، گیتانجلی کے تعارف سے ماخوذ۔

6,7.  بحوالہ ’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک از خلیل الرحمن اعظمی، قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان،نئی دہلی، 2008، ص ص 65-66.

8. امرتیہ سین،  2011 Tagore and His India, Nobelprize.org. 21 Novemberhttp://www.nobelprize.org/nobel_prizes/literature/laureates/1913/tagore-article.html

9. امیتا سین، Anando Sharbokaje (Calcutta: Tagore Research Institute, 2nd edition, 1996), p. 132. بحوالہ امرتیہ سین

10. Martha C. Nussbaum, For Love of Country, edited by Joshua Cohen, Beacon Press, 1996, pp. 3-4

 

 

Comments

comments