نواز شریف حکومت کی سعودی غلامی – از اخوان صفا

NS and Wahhabis

یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ نواز شریف نے اپنی جلاوطنی کے ایام سعودی عرب میں گزارے. پاکستانی جیلوں سے ان کی رہائی بھی سعودی مداخلت اور کوششوں کی مرہون منت تھی. ١٩٧٩ میں ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد یہ سعودی حکومت ہی ہے جو پاکستان میں امریکی مفادات اور خطّے میں امریکہ کے تزویراتی اہداف کو یقینی بنانے میں مدد کرتی رہی ہے. جو کام امریکی براہ راست پاکستانی حکام سے نہیں لینا چاہتے اس کے لیۓ سعودی ہرکاروں کو آگے کرتے ہیں. نواز شریف کے برعکس چوں کہ بینظیر بھٹو نے اپنی جلاوطنی کا بڑا حصہ متحدہ عرب امارات میں گزارا اور خود خلیج فارس کے ممالک کی اندرونی تقسیم میں متحدہ عرب امارات اور سعودی حکومت ایک حریفی تعلق کے حامل ہیں اس لیۓ پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے دور میں پاکستان کے سعودی حکام سے روابط سرد مہری کا شکار رہے. ایک اور وجہ پاکستانی حکام کی جانب سے ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ پر بات آگے بڑھانا بھی تھا جو امریکی اور سعودی مفادات کے برخلاف تھا. یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف کے برعکس پیپلز پارٹی پاکستان کے تکثیری معاشرے کی نمائیندہ ہے اس لیۓ داخلی اور خارجہ پالیسی کے ضمن میں ان کی کوشش رہتی ہے کہ تمام طبقوں کے احساسات اور جذبات کو جہاں تک ممکن ہو سکے ٹھیس نہ پہنچے گو جہاں بات ملک کی سیکورٹی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ یا براہ راست امریکی مفادات کی آتی ہے وہاں ایسی کوششیں ماند پڑ جاتی ہیں. دونوں طرف سے البتہ بعض استثنائی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں.

سعودی شہزادے الولید بن طلال کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ نواز شریف پاکستان میں سعودیہ کے آدمی ہیں. شہزادہ الولید سعودی حکومت کے غیر رسمی ترجمان بھی سمجھے جاتے ہیں اور جو باتیں سرکاری ترجمان نہیں کہ سکتے یہ وہ باتیں بھی کر جاتے ہیں. گویا چال چلن، بول چال اور انداز فکر میں یہ حقیقی معنوں میں سعودی شاہی خاندان کے نمائیندہ سمجھے جا سکتے ہیں کہ جس پر سفارتکاری اور دکھاوے کی دبیز چادر نہ پڑی ہو. حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس حقیقت و بیان کی رسمی تردید بھی ضرروری نہ سمجھی جو کہ کسی مہذب معاشرے میں بھونچال کا سبب بن سکتی تھی. یہ دنیا لین دین کی دنیا ہے اور یہاں فری لنچ کا تصور نہیں. سعودیہ نے پاکستان کے وزیر اعظم پر جو سرمایہ کاری کی تھی اور ان کی مشرف کی حکومت سے جو جان بخشی کروائی تھی آج اس سرمایہ کی سود سمیت وصولی کا وقت آ چکا ہے اور اس کی قیمت پاکستانی عوام کو اپنے لہو سے ادا کرنی پڑ رہی ہے.

داخلی حوالے سے اس دوستی کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ انتہا پسند تکفیری گروہ مزید طاقتور ہوں گے، جیسا کہ حال میں دیکھا گیا کہ باوجود یکہ تحریک طالبان مذاکراتی عمل کے دوران پہ در پہ دہشتگردی کی وارداتیں کرتی رہی لیکن حکومت مذاکرات کا راگ الاپتی رہی تا آنکہ مہمند ایجینسی سے ٢٣ ایف سی اہلکاروں کے ذبح ہونے کی خبر آئ اور پاکستانی افواج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا. ایسی اطلاعات موجود ہیں کہ وزیرستان میں فضائی حملوں کا فیصلہ فوجی قیادت کا تھا اسی لیۓ حکومتی ترجمان کو وضاحت کرنی پڑی کہ یہ حملے وزیراعظم کی منظوری سے کیۓ گۓ. حیرت کی بات ہے کہ مسلح افواج کو اپنے اپر حملے کا جواب دینے اور دفاع کرنے کے لیۓ وزیراعظم کی پیشگی اجازت درکار ہے وہ بھی ان علاقوں میں عرصہ دراز سے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں. خود پنجاب کے اندر دیکھیں تو کالعدم دہشتگرد تنظیمیں انجمن سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی حکومتی اتحادی ہیں اور انہی کالعدم تنظیموں کے دباؤ پر معروف دہشتگردوں کو جنھیں سپریم کورٹ سے بھی سزاۓ موت ہو چکی ابھی تک تختۂ دار سے نہیں لٹکایا جا سکا. شائد کسی لیول پر یہ خیال بھی موجود ہے کہ اس مصالحت خواہی سے ان دہشتگرد گروہوں کو سیاست اور معاشرے کے مرکزی دھارے میں لانے میں مدد ملے گی. یہ بھی کسی حد تک صحیح ہے اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پنجاب میں دہشتگردی کے عملی اقدامات کافی حد تک کم ہو چکے ہیں لیکن جو بات اس چکر میں فراموش کی جا چکی ہے وہ یہ ہے کہ گو یہ کالعدم تنظیمیں دہشتگردی کے حوالے سے پنجاب کی حد تک غیر فعال ہیں لیکن تربیتی حوالے سے ان کو پہترین وقت مل رہا ہے ایسے کیڈر اور جنگجو تیار کرنے کا جو کسی بھی مشکل وقت میں ہر جگہ حملوں کے لیۓ آمادہ ہوں گے اور خود پنجاب کے اندر اپنی مرضی کے وقت پر بڑی سے بڑی کاروائی کر سکیں گے. نیشنل مینجمنٹ کرائسس سیل کے ڈائریکٹر جنرل نے قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلی امور کو اپنی ایک بریفنگ میں یہ تباہ کن اطلاع دی کہ کالعدم دہشتگرد گروپس بشمول القاعدہ اور لشکر جھنگوی پورے ملک میں اپنے پنجے گاڑ چکے ہیں اور یہاں تک کہ دارالحکومت اسلام آباد بھی ان کی پہنچ سے دور نہیں. مگر یہ تو آئیندہ آنے والے خطرات کی بات تھی لیکن خود حال میں پنجابی طالبان، جو لشکر جھنگوی کے علاوہ کوئی اور نہیں، کی شمالی و جنوبی وزیرستان میں موجودگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور اگر پنجاب نہیں تو قبائلی علاقوں اور ملک کے دیگر حصّوں میں دہشتگردی کے لیۓ افرادی قوت کی رسد بدستور جاری و ساری ہے.

لیکن اس ساری داخلی صورتحال کے علاوہ اب اس “سعودی/عرب غلامی” کے اثرات ملک کی خارجہ پالیسی پر نمایاں ہونے لگے ہیں. جہاں سعودی مداخلت کی وجہ سے ایران سے گیس پائپ لائن کا منصوبہ ملک میں جاری توانائی کے بحران کے باوجود بے یقینی کا شکار ہو گیا ہے وہیں دوسری طرف قطر سے گیس کی درآمد کے مہنگے ترین سودے کی خبریں بھی بزبان عام ہیں. لیکن شام میں جاری خانہ جنگی میں پاکستانی مداخلت اور عرب ممالک کی حمایت سے برسر پیکار تکفیری گروہوں کی حکومت پاکستان کی جانب سے عملی حمایت بشمول ہتھیاروں کی سپلائی کی خبریں تشویشناک ہیں. یہ ایک طرف تو پاکستانی سفارتکاری کے ایک مسلمہ اصول یعنی دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی کھلی خلاف ورزی ہے وہیں دوسری طرف ایسی کوئی بھی کوشش ملک کے اندر موجود تکفیری دہشتگردوں کی تقویت کا سبب بنے گی. اخلاقی حوالے سے بھی دیکھا جاۓ تو اس کا کوئی جواز نہیں کہ وہ گروہ جو آپ کی اپنی افواج و عوام کو ذبح کر رہے ہوں اور بد ترین بربریت کی عملی مثالیں قائم کر رہے ہوں انہی گروہوں کو آپ دوسرے ممالک پر مسلط ہونے میں مدد کریں. ایران کے صوبہ سیستان/بلوچستان سے تکفیری دہشتگرد گروہ کا ایرانی گارڈز کو اغوا کرنا اور ٹھیک اس وقت جب اعلی سعودی اہلکار پاکستان کے دورے پر تھے اور دفاعی تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیۓ جا رہے تھے ان گارڈز کا اغواکاروں کی جانب سے پاکستان منتقل کیا جانا کوئی اچھا شگون نہیں. سعودی حکومت سے کہا جاۓ کہ ایرانی حکومت سے جنگ وہ اپنے زوربازو پر لڑیں اور اس کے لیۓ ہمارے کندھے استعمال نہ کریں. پاکستانی کراۓ کے فوجی نہیں. اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ اس طرح کا کوئی بھی حکومتی اقدام نہ صرف یہ کہ ملک میں فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے میں معاون ثابت ہو گا بلکہ اس سے ملک کے اکثریتی مکاتب فکر کے اندر یہ احساس بھی پیدا ہو گا کہ موجودہ حکومت صرف ایک فرقہ اور انتہا پسند مسلک و منہج کی نمائیندہ ہے اور اس کا ملک کی اکثریتی آبادی جو اعتدال پسند اہل سنت و اہل تشیع پر مشتمل ہے کے جذبات و مفادات سے کوئی سر و کار نہیں. ایسے کوئی بھی اقدامات جو مملکت خداداد پاکستان پر دہشتگردی اور جنگ مسلط کرنے والی فکر اور گروہ کی آبیاری کریں خود ملک و قوم سے غداری کے مترادف ہیں. نواز حکومت کو سعودی غلامی کے سبب پاکستان اور پاکستانی عوام سے ایسی کسی بھی غداری اور دھوکہ بازی سے گریز کرنا چاہیۓ.

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.