Extremist Barelvis vomit hate and violence


LAHORE: Religious clerics belonging to the (Barelvi) Sunni Tehrik and Aalmi Tanzim Ahle Sunnat (ATAS) on Tuesday condemned government officials and religious figures who expressed sympathy for the Christian woman convicted of blasphemy, during a protest in front of the Lahore Press Club.

The protesters, comprising seminary students and clerics, took out a rally, holding banners and placards, criticising government officials.
The protesters criticised President Asif Ali Zardari, Prime Minister Yousaf Raza Gilani, Punjab Law Minister Rana Sanaullah, religious schoolar Allama Javed Ghamdi and Pope Benedict for issuing statements in favour of Aasia Bibi, but Punjab Governor Salmaan Taseer remained the focus of their resentment. He had met Aasia at the Sheikhupura jail and committed to take her case to the president.

Addressing the protesters, ATAS central leader, Pir Muhammad Afzal Qadri, asked the chief justice of Pakistan to take suo motu action against the governor for supporting a ‘blasphemer’. Qadri also challenged Ghamdi to debate over the punishment of a blasphemer in Islam.

Referring to Pope Benedict’s statement about Zardari trying to send Aasia aborad, he warned the president that if such a step were taken, the ATAS would stage a sit-in in front of the President’s House for an indefinite period.

He announced that the ATAS would hold a protest in front of Governor’s House on Wednesday (today).

Qadri said that if Justice Arif Iqbal Bhatti of the Lahore High Court could be assassinated for acquitting two Christian brothers accused of blasphemy, government functionaries supporting Aasia Bibi should not expect to be spared.

Bhatti is believed to have been shot in October 1997 for acquitting the two brothers in March, 1995.

Other speakers of the Sunni Tehrik and Aalmi Tanzim Ahle Sunnat included Maulana Muhammad Naeem Noori, Sahibzada Syed Mukhtar Ashraf Rizvi, Tahir Qadri, Maulana Muhammad Ali Naqashbandi and Ziaul Mustafa.

An appeal for protection
Chairman of Free Legal Assistance and Settlements Advocate Anis AA Saadi, in a statement issued on Tuesday, said that there was no evidence against Aasia and that she was given capital punishment under pressure from extremist elements. He said that judges in lower courts remained under intense pressure during trials dealing with blasphemy.He condemned the conviction of Aasia Bibi and said that Aasia and her family’s life was at risk. He said that the human rights activists supporting her were also not safe.

He appealed to President Zardari to take measures to protect Aasia and others falsely accused of blasphemy who led their lives in jails for crimes they had not committed. He said many blasphemy suspects had so far been killed inside jail and on court premises. These included Tahir Iqbal, Haji Yousaf, Samuel Maish, and Naseem Bibi who were killed inside prisons. Pastor Rasheed and Sajad Masih were killed in police custody at courts premises.

Published in The Express Tribune November 24th, 2010.

فتوے بازوں کا جمعہ بازار

جاوید سومرو
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن

’آسیہ بی بی کو ابھی صدارتی معافی ملی بھی نہیں کہ مذہبی منافرت کے دلدادا افراد نے ملک میں دھمکیوں کا بازار گرم کردیا ہے‘

کافی برس پہلے کی بات ہے میں نے جنرل ضیاءالحق کے حمایتی ایک مولوی سے پوچھا کہ آپ حضرات ذوالفقار علی بھٹو کی جان کے دشمن کیوں بنے ہوئے ہیں؟ کیوں ایک کمزور مقدمے کی بنیاد پر ان کو پھانسی چڑھانے کے لیے اچھل کود کررہے ہیں؟ تو ان کا جواب بڑاہی سادہ تھا۔ موصوف نے فرمایہ وہ معاشرے میں فحاشی، عریانیت اور بے راہ روی کو فروغ دے رہے ہیں اور اسلامی مملکت میں غیر اسلامی رجحانات پیدا کر رہے ہیں۔

مجھے جواب پر بڑی حیرت ہوئی۔ پھر سوال کیا، ‘لیکن انہوں نے شراب پر پابندی لگائی، احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرایا اور ہندوستان سے ایک ہزار برس تک لڑنے کا نعرہ لگایا تب بھی آپ کو لگتا ہے وہ غیر اسلامی رجحانات پیدہ کر رہے ہیں؟‘

مولوی کو بڑا تاؤ آیا فورا فرمایا، ‘میاں اللہ اور ان کے رسول نے جو احکامات دیئے ہیں ان سے انحراف کی سزا موت ہے۔‘

میں ڈر گیا اور چپ سادھ لی۔

جنرل ضیاء کے زمانے سے پہلے دلیل اور بحث میں اللہ اور ان کے رسول کے احکامات کو ڈھال بنا کر عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن جنرل صاحب کے بل بوتے پر، عقل اور علم کا خون پی کر پروان چڑھنے والے نیم حکیموں کی گُڈی ایسی چڑھی ہے کہ اب آپ نے دلیل، منطق، فلسفے اور سائنس کی بات زبان پر لائی نہیں کہ فتوابازوں کے تن بدن میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور وہ اسلام دشمنی اور رسول دشمنی کے نعرے لگاتے آپ پیچھے پڑجاتے ہیں۔

جنرل ضیاء کے زمانے سے پہلے دلیل اور بحث میں اللہ اور ان کے رسول کے احکامات کو ڈھال بنا کر عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا

آپ نے کہا کہ بھائی پاکستان میں لگ بھگ تمام توہین رسالت کے مقدموں کا پیغمبرِ اسلام کی توہین سے دور دور کا تعلق نہیں ہوتا بلکہ لوگ ذاتی دشمنیوں کی بنیاد پر اس قانون کا استعمال کرتے ہیں اس لیے قانون کو تبدیل کیا جانا چاہیے، تو ایک دم سے جذباتیوں کا جمعہ بازار لگ جاتا ہے اور دین دشمنی کے فتوے جاری ہوجاتے ہیں۔

پاکستان میں آج تک کسی بھی شخص کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے میں موت کی سزا پر علمدرآمد نہیں ہوا اور تقریباً تمام ملزمان مقامی عدالتوں میں سزا پانے کے بعد، اعلیٰ عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں (یہ اور بات ہے کہ ان میں سے کئی کو زیادہ عرصہ جینے نہیں دیا جاتا)۔ ان حالات میں کیا یہ تجویز غلط ہے کہ یا تو اس قانون کو ختم کیا جائے یا تبدیل کیا جائے۔

چار بچوں کی ماں آسیہ بی بی کو ابھی صدارتی معافی ملی بھی نہیں کہ مذہبی منافرت کے دلدادہ افراد نے ملک میں دھمکیوں کا بازار گرم کردیا ہے۔ کوئی بولے تو ٹھک سے اسلام اور دین دشمن قرار۔

پاکستان میں جو لوگ مسیحیوں یا دوسری اقلیتوں کے افراد کو جانتے ہیں ان کو اندازہ ہوگا کہ وہ بے چارے کس قدر سہمے ہوئے ہوتے ہیں، کیا ان کو اپنی جان گنوانی ہوگی کہ وہ مسلمانوں کے پیغمبر کے خلاف زبان درازی کریں؟

آپ کہیں کہ ملک میں شدت پسندی، قتل و غارت گری، مذہبی اور لسانی فسادات نے معاشرے کو انتہائی پژمردہ کردیا ہے ایسے میں کچھ نہ کچھ ثقافتی اور فنون لطیفہ کی سرگرمیاں جاری رہنی چاہئیں تو سڑکوں پر اور میڈیا میں مصروف ‘جہادی بریگیڈ‘ اللہ اور رسول کے احکامات سے انحراف کی تلوار لیکر میدان میں کود پڑتی ہے۔ کہتے ہیں آپ بے حیائی اور عریانیت پھیلا رہے ہیں اور یہ مملکت خداداد میں ہونے نہیں دیا جائے گا۔

حال میں ایک بڑے اخبار کے ’توپ صحافی‘ کا ‘عریانیت اور فحاشی‘ کے خلاف کالم پڑھا جو پڑھ کر کچھ ایسے ہی خیالات اور جذبات ابھرے جیسے پاکستان کے اخبارات میں آئے دن پاکستانی فلموں میں عریانیت کے موضوع پر چھپنے والے ان لاتعداد مضامین سے ابھرتے ہیں جن میں پاکستانی ہیروئنوں کی بڑی بڑی تصاویر چھاپی جاتی ہیں اور ان تصاویر میں ہیروئنیں کے جسم کے متعدد حصوں کو سیاہ دھاریاں لگا دی جاتی ہیں۔

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں اسلام اور دین کے احکامات کے خودساختہ ٹھیکیدار، لوگوں کے ذہنوں میں ابھرنے والے تمام خیالات کو بھی اسی طرح سیاہ دھاریاں لگا دینا چاہتے ہیں۔

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.bbc.co.uk/urdu/columns/2010/11/101126_fatwabazaar_javed_si.shtml

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Rabia
    -
  3. Tahir jamal khattak
    -
  4. Junaid Qaiser
    -
  5. Humza Ikram
    -
  6. Junaid Qaiser
    -
  7. IRFAN URFI
    -
  8. Junaid Qaiser
    -
  9. Kashif Naseer
    -
  10. Junaid Qaiser
    -
  11. Muhibullah
    -