Corruption aur jamhooriat – by Nazir Naji


ایسا صرف جمہوریت میں ہوتا ہے… سویرے سویرے …نذیرناجی

معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو اور کسی دوسرے سے قرض مانگ کر اپنے معاملات چلانے کی علت نہ ہو‘ تو پاکستان تیسری دنیا کے ملکوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ مارکوس‘ سوہارتو اور تھائی لینڈ کے سابق وزیراعظم کے نام دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ان سب کے خاندانوں پر اربوں ڈالر کی دولت لوٹنے کے الزامات ہیں اور جہاں تک مجھے معلوم ہے‘ ان سب کو اقتدار سے تو محروم ہونا پڑا مگر شاید ہی کسی پر نتیجہ خیز مقدمہ چلایا گیا ہو۔

دونوں ملکوں کی معیشت کا انحصار دوسروں پر نہیں تھا۔ انڈونیشیا تیل کی دولت سے مالامال تھا اور تھائی لینڈ نے اپنی معیشت کو محنت اور ذہانت سے اپنے پیروں پر کھڑا کر لیا تھا۔ اس لئے ان دونوں ملکوں میں سیاستدانوں کی لوٹ کھسوٹ عالمی توجہ کا مرکز نہ بن سکی‘ جیسے ہمارے ہاں بن گئی ہے۔ ہم نے قرض خواہوں کو ڈھول بجانے کا موقع دیا۔

افریقی ملکوں کی مثال پاکستان کے معاملے میں بہرحال نہیں دی جا سکتی۔ لندن میں مقیم میرے ایک دوست نے جو وہاں کاروبار کرتے ہیں‘ چند سال پہلے بتایا کہ انہیں سب سے زیادہ آسانی یہ ہے کہ وہاں ایک جج ان کے حصے دار ہیں۔لندن میں یہ بات عام ہے کہ کینیا سے آنے والے مسافر جب ہیتھرو ایئرپورٹ پر پہلے سے بک کی گئی نجی ٹیکسی کار میں بیٹھتے ہیں‘ تو ڈرائیور کو پہلا حکم یہ ہوتا ہے کہ فلاں بنک کی برانچ میں چلو۔ وہاں اس کے سارے بھاری بھرکم سوٹ کیس بینک کے اندر لے جائے جاتے ہیں اور وہاں سے خالی ہو کر واپس آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بینکوں میں کپڑے نہیں رکھے جاتے۔

پاکستان میں لوٹنے کے لئے پیسہ ہی نہیں۔ جو کچھ ہے قرضوں کا مال ہے اور قرضہ دینے والے پیسے پیسے پہ نظر رکھتے ہیں اور کرپشن کا ڈھول دنیا میں بجتا رہتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم کرپشن میں کسی سے کم ہیں۔ مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ کچھ ملک ہم سے بھی زیادہ ہیں اور ایسا ملک ایک بھی نہیں‘ جو کرپشن سے پاک ہو۔

یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اب دنیا بھر میں سرمایہ داری نظام ہی کسی نہ کسی شکل میں چل رہا ہے اور اس نظام میں کرپشن کے بغیر گاڑی نہیں چلتی۔ فرق صرف درجے کا ہوتا ہے۔ یہ بات میں آج نہیں لکھ رہا۔ جب جنرل مشرف نے بلندبانگ دعوؤں کے ساتھ کرپشن کے خلاف مہم چلائی تھی‘ تو میں نے تب بھی لکھا تھا کہ جنرل حضرات کرپشن ختم نہیں کر سکیں گے‘ البتہ معیشت کا بیڑا غرق ہو جائے گا۔ انہیں زیادہ سے زیادہ یہ کرنا چاہیے کہ کرپشن کو کنٹرول میں لائیں اور اسے ایک حد سے آگے نہ بڑھنے دیں۔اگر کرپشن کنٹرول میں رہے‘ تو یہ معیشت کے لئے لبریکینٹ کا کام دیتی ہے اور حد سے بڑھ جائے تو بلڈ پریشر کی طرح سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔

مشرف اور ان کے جنرلوں نے جب کرپشن پر فوجی طریقے سے ہاتھ ڈالا‘ تو ساری معیشت ”دم بخود“ ہو گئی اور پھر جنرل خوفزدہ ہو کر یوں پیچھے ہٹے کہ کھلی کرپشن سے بھی آنکھیں چرانے لگے اور ایک موقع پر تو جنرل مشرف کو خود کہنا پڑا ”میں کیا کروں ؟سارا نظام ہی کرپٹ ہے۔“ اور جنرل خالد مقبول تو سرعام کہنے لگے کہ ”کرپشن کا بالکل خاتمہ ممکن نہیں۔“ وہ آج بھی یہی کہتے ہیں۔ میں کہنا کیا چاہتا ہوں؟

میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قرض کے پیسوں پر کرپشن بالکل نہیں ہونا چاہیے‘ ورنہ لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں اور دوسرے یہ کہ کرپشن کرتے وقت ”مرغی نہیں انڈا“ کے اصول پر عمل کرنا چاہیے۔ جس ادارے میں بھی کرپشن ہو‘ اس کا تناسب آٹے میں نمک کی طرح ہونا چاہیے۔ یہ جرم کھلم کھلا اور ڈھٹائی کے ساتھ کرنا بے حیائی بھی ہے اور بے غیرتی بھی۔ بالکل اسی طرح‘ جیسے کوئی بے لباس بازار میں نکل کھڑا ہو۔ ہماری معیشت کی منڈی ننگوں سے بھر گئی ہے۔ اکثریت کو مفلسی نے ننگا کر رکھا ہے اور جن کے پاس دولت ہے‘ وہ بے حیائی اور بے غیرتی کی وجہ سے ننگے ہیں اور جو ننگے نہیں‘ ان کے لئے لباس بچانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

ہم بھارت کے ساتھ مقابلے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ آج ہی ایک اخباری سرخی دیکھی۔ اس میں لکھا تھا کہ ”بھارتی سپریم کورٹ پاکستانی سپریم کورٹ کے نقش قدم پر ۔“قصہ یہ ہے کہ وہاں ٹیلی کام کے وزیر جن کا جنوبی ہندی نام‘ لمباچوڑا ہے اور میڈیا والے صرف راجہ کہہ کر کام چلاتے ہیں‘ انہوں نے ٹیلی کام انڈسٹری میں کچھ ایسے ٹھیکے دیئے‘ جن کے بارے میں الزام ہے کہ وزیرصاحب نے ان میں رشوت لی۔ نجی کمپنیوں کو غیرمعمولی مراعات دے کر167000کروڑ کی رقم خورد برد کی۔ میں نے اس رقم کو بڑی احتیاط سے کئی بار پڑھا اور جب سمجھ میں آیاتو مجھے اپنے ہاں کی کرپشن پر ہنسی آنے لگی۔ مگر اس پر دنیا میں کہیں شوربرپا نہیں ہوا۔

یہ رقم بھارت کی اپنی ہے۔ وہاں ایسے نہ جانے کتنے گھپلے ہوتے ہیں؟ اور کیسے کیسے ہوتے ہیں؟ ان کابھی جواب نہیں۔ وہاں الزام لگایا گیا تھا کہ وزیردفاع نے کارگل میں مرنے والے سپاہیوں کے تابوت اور کفن خریدنے میں گھپلے کئے تھے۔ ”تہلکہ“ والوں نے بڑے بڑے چہرے بے نقاب کئے‘ مگر کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔

کانگرس والوں کا دعوٰی ہے کہ انہوں نے ہر الزام پر کارروائی کرتے ہوئے اپنے وزرا سے استعفے لئے‘ جن میں راجیو گاندھی کے ذاتی دوست ششی تھرور‘ نٹور سنگھ‘ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ اشوک چوہان اور اب مسٹرراجہ سے استعفے لئے اور تحقیقات کیں۔ مسٹر راجہ کا کیس ایک سیاستدان سپریم کورٹ میں لے کر گئے‘ جہاں الزام لگایا گیا کہ اس کرپشن کا وزیراعظم کو علم تھا مگر انہوں نے خاموش رہ کر موقع فراہم کیا۔ وزیراعظم پر کسی نے الزام نہیں لگایا۔ اس کیس پر شور مچانے والے خود بھی یہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم کرپشن میں ملوث نہیں تھے۔ لیکن یہ سب کچھ ان کی ناک کے نیچے ہوا۔ اس الزام پر وزیراعظم کا موقف طلب کیا گیا اور حکومت کی طرف سے وزیراعظم کا بیان حلفی سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو طلب نہیں کیا‘ جیسے ہمارے ہاں کر لیا گیا تھا۔کسی وزیرکی کرپشن کے الزامات پر حکومت کو ختم کر کے وسط مدتی انتخابات کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا گیا کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں۔ حکمران اتحاد کے پاس مطلوبہ اکثریت موجود ہے۔ سب جانتے ہیں کانگرس دوسرا وزیراعظم لے آئے گی۔

راجہ کیس کی تحقیقات سی بی آر نے شروع کر دی ہیں۔ اس کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کر دی جائے گی اور ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ کے سامنے بھی رکھ دی جائے گی۔ اس کے بعد ضابطے کی کارروائیاں ہوں گی اور حکومت اور معیشت دونوں کا پہیہ چلتا رہے گا۔

مہاراشٹر اور کرناٹک میں ہماری طرح کا گند پڑا۔ ایک وزیراعلیٰ نے اپنے رشتہ داروں کو فلیٹ الاٹ کئے۔ دوسرے نے اپنے عزیزوں کو زمین بانٹ دی۔ ایک وزیراعلیٰ کو مستعفی ہونا پڑا۔ دوسرا ڈھٹائی سے اڑا ہوا ہے کہ وہ استعفیٰ نہیں دے گا۔ یہ منظر ہم سے زیادہ برا ہے اور گھپلے کی رقوم اتنی بڑی بڑی ہیں کہ ان کا شمار کرتے ہوئے چکر آ جاتے ہیں۔ مگر میرے علم کے مطابق وہاں کسی سیاسی مہم جو نے بھی یہ نہیں کہا کہ جمہوریت کا نظام برا ہے‘ اسے ختم کیا جائے۔ نظام پر سب کا یقین ہے۔

میں صرف اسی یقین کے حق میں ہوں۔ کرپشن آمریت میں ہوتو گرفت میں نہیں آتی۔ کوئی عدالت یا کوئی تحقیقاتی ادارہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا اور جمہوریت میں یہ پکڑی بھی جاتی ہے۔ ملزمان یا سیاسی منظر سے ہٹ جاتے ہیں یا سزائیں پاتے ہیں اور عوامی دباؤ اس کے خلاف بروئے عمل آتا رہتا ہے اور کرپشن پر کنٹرول بڑھتا جاتا ہے۔یہی ایک طریقہ ہے‘ جس پر عمل کر کے سرمایہ دار انہ نظام پر مبنی معاشرے آگے بڑھتے ہیں۔ ہمیں بھی یہ سب کچھ برداشت کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔ کچھ بھی ہو جائے جمہوریت کے خلاف نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ دوسرا کوئی نظام کرپشن پر کنٹرول قائم نہیں کر سکتا۔ ایسا صرف جمہوریت میں ہوتا ہے۔

Source: Jang, 21 Nov 2010

Comments

comments

Latest Comments
  1. dr. saif
    -
  2. dr. saif
    -