جنگ گروپ نئے چیف جسٹس تصدق جیلانی کو شیشے میں اتارنے کی کوشش سے اجتناب کرے
چیف جسٹس تصدق جیلانی نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال کر کام شروع کردیا ہے-انھوں نے جمعرات کے روز کم پروفائل کے کیسز کی سماعت کی-جبکہ سپریم کورٹ کی پرنسپل سیٹ اور رجسٹری برانچوں میں کیسز کی سماعت اور کاز لسٹ کے حوالے سے چند اہم فیصلے کئے-ایک تو انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کیسز کی کاز لسٹ ایک ماہ پہلے تیار ہوگي اور کسی بھی وکیل کو ایک دن میں تین تین جگہوں پر سماعت کے لیے نہیں بلایا جائے گا
نئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی جانب سے سابق سی جے کی کیسوں کی سماعت کے طریقہ کار میں تبدیلی کا یہ دوسرا اشارہ ہے-اس سے قبل انہوں نے سابق سی جے کے اعزاز میں ہونے والے فل کورٹ ریفرنس میں اپنے خطاب میں از خود نوٹس کے عدالتی اختیار کو آئین کی حدود کا پابند کرنے کا اعلان کیا تھا-انہوں نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی رخصتی کے موقعہ کو اس اعلان کے لیے چنا تو اس کے پس پردہ یہ پیغام تھا کہ وہ عدلیہ کی انتظامیہ سے ٹکراؤ کی پالیسی اب مزید جاری نہیں رہے گی اور عدلیہ انتظامی امور میں مداخلت کی اس روش کو ترک کردے گی جس کو آئین کی حدود سے تجاوز کہا جاتا رہا ہے
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے سابق سی جے کے اعزاز میں ہونے والے فل کورٹ ریفرنس کے دوران ہی یہ بات کہنا جو ضروری سمجھا تو اس کے پس پردہ جو پیغام چھپا تھا اس کو ان عناصر نے بھی کان کھول کر سنا جو شائد سابق سی جے کے ازخود نوٹسوں کی شہ سرخیاں جماکر کمارہے تھے اور جن کی نام نہاد تحقیقی خبروں کو اشاعت سے اگلے روز سابق سی جے ازخود نوٹس میں بدل دیا کرتے تھے اور ان کی خبروں کی اس پذیرائی نے ایسے عناصر کو افسر شاہی اور سیاست دانوں پر حاوی کرڈالا تھا
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے حلف اٹھاتے ہی رجسٹرار سپریم کورٹ ڈاکٹر فقیر حسین کا استعفا بھی آگیا اور اس سے بھی تبدیلی کے اشارے ملنے لگے ہیں-میں اگر صاف صاف کہوں کہ نئے سی جے کے آنے سے اور ان کے اب تک آنے والے خیالات کو دیکھنے کے بعد ایسے لگ رہا ہے کہ پاکستان سے عدالتی آبزرویشنز کا چٹکلا پن ختم ہونے کا وقت آگیا ہے-اور پگڑی اچھال خبروں پر ازخود نوٹس لیے جانے کا سلسلہ بھی اب ختم ہونے کو ہے-اس بات کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ روزنامہ جنگ نے 13 دسمبر 2013ء کے اپنے ادارئے کا عنوان “ازخود نوٹس انتہائی ضروری” اور جنگ گروپ کے انگریزی اخبار “دی نیوز انٹرنیشنل ” کے اداریے کا عنوان “لیگسی مسٹ کنٹینیو” یعنی “روائت جاری رہنی چاہئیے ” رکھا ہے
ویسے جیسا کہ اسلام آباد میں ڈیلی ڈان کی ریذڈینٹ ایڈیٹر عارفہ نور اور ڈیلی ٹرائیبون کے نصرت جاوید نے سپریم کورٹ کے سابق سی جے کی رخصتی کو اپنے پیچھے کچھ قانونی ورثہ چھوڑ کر نہیں گئے اور ان کے جانے سے کچھ دیر قبل فل کورٹ ریفرنس میں تصدق حسین جیلانی نے ماضی کے چلن میں تبدیلی کا اشارہ کیا تو ایسے میں نیوز انٹرنیشنل نہ جانے کس لیگسی کے جاری رکھنے کا مشورہ نو منتخب سی جے کو دے رہا ہے-یہ دونوں اداریے اندر کے اس خوف کو ظاہر کررہے ہیں جو سابق سی جے کے چلے جانے سے ان کو لاحق ہیں-یہ ایک طرف تو موجودہ سی جے کی تعریف کرتا ہے دوسری طرف ان کوزبردستی سابق سی جے کا کاسٹیوم پہننے پر اصرار کیا جارہا ہے
Reference:
http://www.thenews.com.pk/Todays-News-8-219852-The-legacy-must-continue