
- جانے کیوں ماضی میں عدالتیں آمروں کی توثیق کرتی رھیں- سی جے- تجاہل عارفانہ تو دیکھو
قانونی ترکہ چھوڑے بغیر سابق ہوجانے والا چیف جسٹس
عارفہ نور ریذیڈنٹ ایڈیٹر ڈان اسلام آباد
نوٹ:جس دن افتخار محمد چوہدری بطور چیف جسٹس اپنے عہدے سے سبکدوش ہورہے تھے تو اس دن انگریزی معاصر ڈیلی ڈان نے عارفہ نور کا خبر تجزیہ “مین ود آؤٹ لیگل لیگسی “کے عنوان سے شایع کیا جو میرے نزدیک اس دن شایع ہونے والے اردو،انگریزی تجزیوں میں سب سے بہتر تجزیہ تھا-اس کی ایک تلخیص تعمیر پاکستان ویب سائٹ کے پڑھنے والوں کے لیے پیش کی جارہی ہے
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سے پہلے ایک مرتبہ حیات نو کو بنی نوع انسان معجزہ خیال کرتی تھی لیکن چیف جسٹس نے یہ معجزہ دو مرتبہ کیا کہ ایک مرتبہ ان کو حیات نو 2007ء میں ملی تو دوسری مروتبہ ان کو یہ 2009ء میں ملی-شاہرہ دستور پر واقع سفید عمارت کے باسی نے تب سے رول کوسٹر پر جو سواری کیاین آر او سے لیکر وزیراعظم کی برطرفی تک اور وہاں سے لاپتہ افراد کے کیس تک تو یہ سفر نہ تو قلیل تھا اور نہ ہی تنازعات سے پاک
کجھ لوگوں کے خیال میں چیف جسٹس نے یہ سارا سفر اپنی شہرت کے لیے کیا-اس الزام میں کچھ وزن نظر آتا ہے-کیونکہ سی جے اپنی بحالی کے بعد پہلے روز جب ٹاپ فلور پر بنے اپنے آفس میں سفید عمارت کی سیڑھیاں چڑھ کر جارہے تھے تو ان کے جانے کو 24 گھنٹے چلنے والے نیوز چینلز نے دکھایا-یہ وہ لمحہ تھا جو کیمرے کی آنکھ نے کیچ کیا اور اس لمحے میں چیف جسٹس اور ان کا دور سموگیا-
افراد کی معنوی زندگی ہوسکتا ہے ان کی جسمانی زندگی سے زیادہ ہوجائے مگر وہ اپنے زمانے کا ثمر ہوتے ہیں-سی جے بھی اس سے مختلف نہیں تھے-وہ ایسی قوم کو قابو کربیٹھے تھے جو ایک آمر سے بے زار ہوتی جارہی تھی-وہ اپنی قسمت کی تشکیل کرنے کے مرحلے میں تھی جبکہ نیوز چینلز کے کیمرے بطور گواہ گھڑے تھے-
جنرل مشرف نے جب سی جے کو معزول کیا تو انہوں نے اپنے مخالفوں کو موقعہ فراہم کردیا-سیاسی جماعتیں،وکلاہ،وہی مڈل کلاس جس کو خود مشرف نے پیدا کرنے میں مڈوائف کا کردار ادا کیا تھا اور ٹی وی کے کیمرے سب لیجنڈ کے سٹف بن گئے تھے-26 گھنٹے میں لاہور سے اسلام آباد کا سفر ،مئی 2012 ء میں کراچی کا دورہ اور پھر فائنل لانگ مارچ
سی جے یہ جان چکا تھا کہ وہ ایک ایسے انقلاب کے بعد لوٹا ہے جس کو ٹیلی ویژن چینلز سے نشر کیا جاتا رہا-اس نے یہ یقین دھانی کرائی کہ یہ کیمرے کبھی رکیں گے نہیں
اس نے کرپشن کو چتاونی دی-نوکر شاہی کو دبایا ،پولیس افسران کو ڈرایا اور ان کو اس توھین آمیز طریقے سے ٹریٹ کیا گیا جس کو بروئے کار لانے کی ایک عام آدمی خواہش کرسکتا ہے-وہ ایک عام آدمی کا سایہ ہوتا تھا جب وہ سیاست دانوں کو باور کراتا کہ ان کا کام عوام کی خدمت ہے-
ایک قانون دان جو اپنا نام نہیں دینا چاہتا کے تجزیے کے مطابق چیف جسٹس کو دو کرداروں کی روشنی میں دیکھنا چاہئیے-ایک کردار وہ جب اس نے مشرف کے سامنے نہ کی-یہ کردار ایسا ہے جس کا کوئی انکار نہیں کرتا-لیکن اس کا دوسرا کردار بطور عام جج کا ہے جہاں وہ بار بار غلطی کرتا ہے-
سی جے کا کورٹ روم 24 گھنٹے چلنے والے ٹی وی چینلز کا پیٹ بھرنے کے لیے ٹکرز کی فراہمی کی چگہ بن گيا-تجربے کے دور میں جہاں سیاست دان اپنی معاشی تنگی کے سبب عوام کے ساتھ روٹی،کپڑا اور مکان کا وعدہ پورا کرنے سے قاصر تھے وہاں سی جے قرون وسطی کا کنگ بن گیا جس کا دربار سب کے لئے کھلا تھا جہاں سائل اپنی پٹیشن بھیج سکتے تھے-ایک صحافی اپنی نیوز سٹوری پاسکتا تھا-یہ وہ وقت تھا جب فوج مشرف دور میں اپنی وردی میں ہونے والے چھید کو رفو کرنے میں مشغول تھی-تو اس دور میں سی جے نے وہ بات کی جو بورژوازی مڈل کلاس کو بھاتی تھیں جوکہ روزگار اور خوراک کے ساتھ ساتھ میرٹ اور ایمانداری کا نفاز بھی چاہتی تھی-
سی جے چینی کی قیمت میں اضافے،بدعنوانی،مشکوک معاہدے جو کک بیکس لیکر کئے گئے تھے اور ناجائز تعیناتیاںسب کس خاتمے کا وعدہ کیا-کارٹیل بنانے والے،سرمایہ دار ،وزیر اعظم سب کورٹ میں گھسیٹے گئے-بیوروکریٹس عدالتوں میں اتنے مصروف رکھے گئے کہ انہوں کام کے لیے وقت تھوڑا ہونے کی شکائت شروع کردی-
بہت سے ایسے تھے جن کے ساتھ بہت توھین آمیز سلوک روا رکھا گیا-مثال کے طور پر عدنان خواجہ جن کو یوسف رضا گیلانی نے او جی ڈی سی ایل کا سربراہ مقرر کیا تھا کو ان کی کم عمری کی وجہ سے بے عزت کیا گیا-بعض ایسے تھے جنہوں نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیا جیسے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر جن کورٹ روم میں جوابی حملوں نے بہت سوں کے کلیجے ٹھنڈے کئے-
سوئس کیسز ایسا آسیب بنے کہ ایک منتخب وزیراعظم کو جمہوریت کے ڈیل ریل ہونے کے خطرے کے باوجود گھر بھیج دیا گیا
شايد ہی کسی کو یاد ہو کہ ترقی کرتے ہوئے ملکوں میں مڈل کلاس جمہوریت پر ایمانداری کو ترجیح دیتی ہیں
جیسا کہ ایسا ہوسکتا ہے تو یہ پہلا موقعہ نہیں تھا جب افتخار چوہدری کی عدالت کو اپنے جوڈیشل حدود سے آگے نکل جانے کا طعنہ نہ سننا پڑا ہو-انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کی تازہ رپورٹ چوہدری کی عدالت کی سرگرمیوں اور فیصلوں پر شاندار تجزیہ اور رائے فراہم کرتی ہے-
احمر بلال صوفی جوکہ سپریم کورٹ کے وکیل اور سابق وزیر قانون بھی رہے ہیں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں تزویراتی جوڈیشل روک لگانے کی ضرورت ہے اور ہر مرتبہ کسی اصول سے انحراف یا آڈٹ اعتراض کو ایک فوجداری جرم یا اس پر فوجداری کیس درج کرنا بھی ضروری نہیں ہونا چاہئیے
ان کے خیال میں حکومت اور بیوروکریٹس کو تیزی سے فیصلے کرنے اور معشیت کا پہیہ چلانے کا مومعہ دینا چاہئیے-ان کے خیال کی تائید ایک سابق حکومتی عہدے دار بھی کرتے ہیں جن کے خیال میں سپریم کورٹ کے فیصلوں نے کاروبارحکومت کو چلانے میں ایگزیکٹو کو مشکل میں ڈال دیا
وقت گزرنے کے ساتھ بہت سے ان کے حمائتی جنہوں نے ابتداء میں ان کا ساتھ دیا تھا ان سے فاصلہ رکھنے لگے-بہت سے ایسے وکلاء جنہوں نے مشرف کے خلاف ان کی بحالی کی تحریک میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا جن میں عاصمہ جہانگیر،اعتزاز احسن اور علی احمد کرد چند ایک ہیں-پی پی پی اور اے این پی جنہوں نے ان کی بحالی کے لیے اپنا خون بہایا تھا ان کی سب سے بڑی ناقد جماعتیں بن گئیں-یہاں تک کہ بارز میں ان کے بارے میں سرگوشیاں شروع ہوگئیں اور پھر ان کے لیے سب سے بڑا مشکل مرحلہ آیا کہ ان کے بیٹے کی بدعنوانی کے قصے زبان زدعام ہوئے-یہ ان کی شہرت پر ایسا داغ ہے جو شائد کبھی دھل نہیں سکے گا
آخری تنزلی ان پر اس وقت آئی جب حال ہی میں ان کی کورٹ کے باہر پولیس نے وکلاء پر حملہ کردیا اور ان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا-اس عمل نے چوہدری کو اس کے اپنے حامی حلقے میں تنہا کرنے میں اہم کردار ادا کیا-
لیکن اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ چوہدری کا انصاف پرانے وقتوں کے انصاف کی قسم میں سے تھا جب بادشاہ گلی گلی گھوم کر خلق خدا کو انصاف فراہم کرتے تھے-انصاف کی فراہمی کی یہ انفرادی یا شخصی اپروچ ایک مقبول عام لوک حکائت ہے یہ ان لوگوں کو متاثر نہیں کرتی جو تاریخ درج کرتے ہیں-
چینی کی قیمتیں اپنی چگہ برقرار ہیں-بحریہ ٹاؤن والے اگلے مشنوں پر رواں دواں ہیں اور میکڈونلڈ ایف-9 پارک کے کارنر پر یونہی برگر بیچ رہا ہے –عدالتی فیصلوں سے منڈی کی قوتوں کو بدلا نہیں جاسکتا اور نہ ہی اداروں کا کام بدل سکتا ہے
ایک مبصر کا کہنا ہے کہ چوہدری نے کبھی عدلیہ کے پہیوں کو مضبوط کرنے کی کوشش نہیں کی خاص طور پر ماتحت عدلیہ کو-سب سے زیادہ معروف سیاسی کیس حل نہ ہوسکے –وہ ایسے سوپ اوپیرا میں بدل گئے جن میں ناظرین کی دلچسپی نہ رہی ہو-این آر او عمل درآمد کیس ہو یا میمو گیٹ کیس یا بحریہ ثاؤن کیس ہو ———–کسی ایک میں بھی اختمام ایسے فیصلے کے ساتھ نہ ہوا کہ جس سے ناقص سیاست کو نئی شروعات یا نئی سمت ملتی-18ویں ترمیم پر تفصیلی فیصلہ ابھی بھی آنا باقی ہے
یہاں تک کہ لاپتہ افراد کا کیس جس میں سی جے کہ سخت ترین ناقد نے بھی ان کی تعریف کی بس انجلینا جولی اثر رکھتا ہے-ہائی پروفائل سماعت نے اس کو قومی اہمیت کا کیس تو بنایا مگر گمشدگیاں اسی طرح سے جاری ہیں-مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ ویسے ہی جاری ہے-اور ان کے پیاروں کی تلاش کا اب تک انت نہیں ہوا ہے-اپنی سبکدوشی سے ایک دن پہلے سی جے نے لاپتہ افراد بارے جو فیصلہ دیا اس کو ایک قانون دان آئی واش قرار دیتا ہے
دوسرے لفظوں میں آخر میں سی جے نے ثابت کیا کہ جو جج کرشماتی شخصیت کے حامل بننا چاہتے ہیں وہ پاپولر زبان بولتے ہیں نہ کہ قانون کی زبان اور گورننس کے فریضے ان پر چھوڑ دئے جاتے ہیں جو زمہ داری قبول کرتے ہیں اور حکمرانی کرنے کی اتھارٹی کو مانتے ہیں-
ان کا دور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آخرکار انصاف نظام سے بڑا نہیں ہوتا جو اس کی ضمانت دیتا ہے-اکثر کیسز میں چوہدری اسی انتظامیہ کی طرف گیا جس کو اس نے کمتر جانا تھا-اور ان کو توھین کی کاروآئی میں لپیٹا تھا-اس نے ان کو ہی پھر سے تفتیشش کرنے کو کہا ،حقایق اکٹھے کرنے یا ان کو قوانین بنانے کو کہا-یہی وجہ ہے شائد کہ چوہدری اس عرصے کے دوران جو کرسکا وہ یہ تھا کہ این ار او ختم کردے-جس کو مشرف نے اپنے آخری دنوں میں بلڈوز کردیا تھا-اور جس کی تھوڑی سی حمائت بھی موجود نہ تھی-جب کورٹ نے پارلیمنٹ کو اس کی توثیق کرنے کو کہا تو ہر کوئی پیچھے ہٹ گیا اور چوہدری کے حامیوں نے اسے ایک فتح قرار دیا
یہ ہے وہ تمام جو چوہدری 11 دسمبر کو سفید عمارت سے فل کورٹ ریفرنس کے بعد رخصت ہوتے ہوئے پیچھے چھوڑ کر گیا ہے-وہ جاتے ہوئے اس بات سے واقف ہے کہ چوہدری مشرف کے ورثے کی جو تعریف متعین کرتا ہے وہی تعریف مشرف چوہدری کے ورثے کی کرتا ہے-اس کا قانونی پہلو ہمیشہ ثانوی رہے گا-
ایک صحافی اور تجزیہ نگار کے طور پر نصرت جاوید نے اس کی رخصتی کے عمل کو شاید بہت ہی ٹھیک لفظوں میں بیان کیا ہے
“چیف جسٹس ایک بہت طاقتور آدمی کے طور پر رخصت ہورہا ہے مگر ایسا آدمی جس کا کوئی ورثہ نہیں ہے”
Comments
comments