انسانی حقوق اسلام اور مغرب کی نظر میں – از ایس ایچ بنگش

images

دس دسمبر کو ایک طرف دنیا بھر میں انسانی حقوق کا دن منایا جارہا ہے اور ان ہی ایام میں

  پچیس محرم نواسہ رسول سید الشہدا امام حسین ؑ کے مظلوم فرزند امام علی ابن الحیسینؑ حضرت امام زین
العابدینؑ کا یوم شہادرت بھی گزراہے۔امام علی ابن الحیسینؑ حضرت امام زین
العابدینؑ وہ عظیم ہستی ہے کہ آپؑ نے اپنے جد حضرت محمد مصطفی ص کی سیرت پر چلتے ہوئے صدیوں پہلے حقوق انسانی کے حوالے سے
تمام تر دقیق پہلو بیان کئیے حالانکہ مغرب یورپ و امریکہ گزشتہ چند
دہائیوں سے انسانی حقوق کے چمپئین بن کر اپنے مفادات کے لئے استعمال کر
رہے ہیں۔

افسوس صد افسوس مغربی و امریکی میڈیا تو دور کی بات اسلامی ممالک بشمول
پاکستان کی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا بھی پچیس محرم
یوم شہادرت امام علی ابن الحیسینؑ حضرت امام زین العابدینؑ اور انسانی
حقوق کے حوالے سے اسلام اور محمد ص و آل محمدص کا نکتہ نظر شائع کرنے سے کتراتی ہے۔ اسلئے یہ
تحریرـ حقوق انسانی اسلام اور مغرب کی نظر میں یہاں تحریر کیا جارہا ہے
تاکہ دنیا بھر کے انسان بغیر کسی تفریق کے مستفید ہو سکیں, چاہے کوئی اسے شائع کریں یا نہ کریں۔

آج کل دنیا بھر میں انسانی حقوق یا ہیومن رائٹس کے حوالے سے بہت سے ذیادہ کام
ہو رہا ہے۔گزشتہ ایک صدی کے دوران مغرب نے انسانی حقوق کے کھوکلے نعرے اور ایک
یوم دس دسمبر کو انسانی حقوق کے نام سے منا کر پس پردہ اپنے مفادات اور اسلام
کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔لیکن شاید مغرب یہ بھول رہا ہے کہ جن انسانی
حقوق کے حوالے سے مغرب ایک صدی سے ڈھونڈرا کرکے خود دوغلی پالیسی کا مظاہرہ کر
رہا ہے،وہ حقوق اسلام نے قرآن مجید کی صورت میں تحریری شکل اور محمد ص و آل
محمد ؑ اہل بیت ؑ عصمت و طہارت نے نہ صرف تحریری صورت بلکہ اپنے عمل و کردار
کے زریعے کر دکھائے ہیں۔ اس حوالے سے حضور نبی پاک ص کا حجتہ الوداع کے موقع
پر خطبتہ الوادع انسانی حقوق کا مکمل چارٹر و بنیاد کا درجہ رکھتی ہے۔اسی طرح
حضرت محمد ص کے آل پاک آئمہ اہلبت علیہ سلام بالخصوص سید الشہدا امام حسینؑ کے فرزند امام
علی زین العابدینؑ نے حقوق اللہ حقوق العباد اور انسان و معاشرے کے درمیان
باہمی حقوق کی تمام تر جزیات کی تشریح کرکے دراصل قرآن اور رسول اللہ (ص) کے
خطبہ حجتہ الوداع کی مکمل تفسیر و تشریح کر دی ہے۔ مغرب کے دوہرے معیار اور
منافقت پر مبنی انسانی حقوق کے مقابلے میں اسلام اور محمد ص و آل محمد ص بالخصوص امام زین العابدین ؑ کے عدل الہی پر مبنی اسلامی
حقوق کی اہم خصوصیات اس طرح سے ہیں، چند چیدہ خصوصیات درجہ زیل ہیں۔

) اسلام کی رو سے تمام انسان مساوی ہیں۔اگر کسی کو کسی انسان برتری اور کوئی
مقام حاصل ہے تو وہ عمل اور عقیدہ و تقوی کی بنیاد پر ہے۔

) جنگ کے دوران بے گناہ افراد بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کے تحفظ کا حق اور
زخمیوں کی دیکھ بھال کا حق، قیدیوں کے حقوق ان سب حقوق کی اسلام نے چودہ سال
پہلے وضاحت کے ساتھ ساتھ جزا و سزا کا بھی تعین کیا،مغرب اب اس سلسلے میں کام
کر رہا ہے اور وہ بھی دوہرے معیار کے ساتھ یعنی فلسطین کے مظلوموں اور اسرائیل
کے ظالموں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا کردار۔

) دورانِ جنگ فصلوں کو تباہ کرنے اور شہری عمارتوں کو گرانے کی ممانعت انسانی
حقوق کے تحفظ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

) اہل خانہ کے لئے کفالت کا حق۔ یعنی اسلام گھر کے سربراہ پر فرض عائد کرتا ہے
کہ وہ افرادِ خانہ کی کفالت کا بندوبست کرے۔

) ماں کے پیٹ میں پرورش پانیوالے بچے کے حقوق کاتحفظ ۔یعنی اگر خاوند اپنی
حاملہ بیوی کوطلاق دے دیتا ہے تو اس جنین کی وجہ سے جوماں کے پیٹ میں ہے،
خاوند مطلقہ عورت کے نفقہ کا ذمہ دار ہوگا۔

) اولاد کے ذریعے والدین کے حقوق کا تحفظ کیا ۔

) رشتہ داروں کے باہمی حقوق کا تحفظ۔

) اسلام نے تعلیم کو ہر فرد کا لازمی حق قرار دیا تاکہ دینی اور دنیاوی ہر
لحاظ سے اس کی تربیت ہو سکے۔ اور پھر اس حق کواس قدر تفصیل اورتاکید کے ساتھ
بیان کیا کہ انسانی حقوق کا عالمی چارٹر اس کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں
رکھتا ۔
) خود مختاری اور استعماری زنجیروں سے آزادی کا حق۔عالمی چارٹر میں اس کا ذکر
مختلف نوعیت کا ہے

) کسی بھی جائز ذریعہ معاش کو اختیار کرنے کا حق اور سود لینے کی مخالفت۔لیکن
مغرب کا نطام اقتصاد سود و ظلم پر مبنی جس میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر
ہو رہا ہے،جس کی وجہ وال سٹریٹ پر قبضہ کرو نامی تحریک امریکہ سے یورپ تک
پھیلتی رہی ہے۔

) اچھے کاموں کی طرف دعوت دینے اوربرے کاموں سے روکنے کا حق یعنی آزادی تقریر
و تحریر کا حق،لیکن مغرب میں اس حق کو الٹا پیش کرکے اظہار آذادی کے نام پر
اللہ و انبیا علیہ سلام کے بارے میں ہرزہ سرائی اور گستاخی پر مبنی خاکے تک
شائع کرنے سے دریغ نہیں کیا گیا.

) افرد کے لئے اپنے مقدسات کی توہین پر احتجاج کا حق ،یا ظالم کے ظالم کے خلاف
قیام و مزاحمت کا حق۔

ولی فقیہہ امر المسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای انسانی حقوق کے حوالے سے
امریکہ و مغرب کے دوہرے معیار کے متعلق فرماتے ہیں کہ ایک لطیفہ یہ ہے کہ
۔۔امریکہ انسانی حقوق کی بات کرتا ہے۔۔۔۔وہ امریکہ جس نے ہیروشیما پر ایٹم بم
پھیکا۔۔۔جس نے عراق و افغانستان پر چڑھائی کرکے دنیا بھر میں ظلم و جبر کے لئے
ابوغریب و گونتاناموبے جسیے عقوبت خانے قائم کئے ۔۔۔

اسی طرح ولی فقیہہ امر المسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ فرماتے ہیں کہ امام
زین العابدین علیہ سلام جنہیں امام سجاد ؑ بھی کیا جاتا ہے،امام سجاد کے دور
میں امام سجادٴ کا ايک رسالہ حقوق سے متعلق ہے جودراصل آپ کا ايک نہايت ہي
مفصل خط ہے اور ہماري اصلاح ميں اس کو ايک مستقل رسالے کي حيثيت حاصل ہو گئي
ہے‘جي ہاں! يہ کتاب جو رسالہ حقوق کے نام سے مشہور ہے حضرت کا ايک خط ہے جو آپ
نے اپنے کسي محب کو لکھا تھا اور اس ميں ايک دوسرے کے ذمے انساني حقوق و ذمہ
داریوں کا ذکر فرمايا ہے،يقيناً يہ ايک رسالہ سے کم نہيں ہے ۔ امام عليہ اسلام
نے اس خط ميں مختلف جہتوں سے لوگوں کے ايک دوسرے پر کيا حقوق ہيں ان کا تفصيلي
جائزہ پيش کيا ہے۔ مثلاًخدا کے حقوق ،اعضائ و جوارح کے حقوق،جان کے حقوق،آنکھ
کے حقوق،زبان کے حقوق،ہاتھ کے حقوق وغیرہ اسي طرح اسلامي معاشرہ پر حاکم و
فرمان روا کے عوام پر کيا حقوق ہيں ۔ عوام کے حاکم کے کيا حقوق ہيں ، دوستوں
کے حقوق ، پڑوسيوں کے حقوق،اہل خاندان کے حقوق ۔۔ اور ان تمام حقوق کا اس
عنوان سے ذکر کيا گيا ہے جس کا ايک اسلامي نظام ميں زندگي بسر کرنے والے شخص
کو پاس و لحاظ رکھنا ضروري ہے گويا امام عليہ اسلام نے بڑے ہي نرم انداز ميں
حکومت سے مقابلہ آرائي يا آئندہ نظام کا حوالہ ديئے بغیر مستقبل ميں قائم کئے
جانے والے نظام کي بنيادوں کو بيان کر ديا ہے کہ اگر ايک روز خود امام سجاد
عليہ اسلام کے زمانہ حيات ميں ( جس کا اگرچہ احتمال نہيں پايا جاتا تھا) يا آپ
کے بعد آنے والے زمانہ ميں اسلامي نظام حکومت قائم ہوجائے تو مسلمانوں کے ذہن
ايک دوسرے کے ذمے عائد ہونے والي ذمہ داريوں سے پہلے سے مانوس رہيں ۔دوسرے
لفظوں ميں لوگوں کو آئندہ متوقع اسلامي حکومت کے اسلام سے آشنا بنا دينا چاہتے
ہيں ۔ يہ بھي امام عليہ اسلام کے بيانات کي ايک قسم ہے جو بہت ہي زيادہ قابل
توجہ ہے۔
ايک قسم وہ بھي ہے جس کا آپ صحيفہ ئ سجاديہ(جسے صحیفئہ کاملہ یا زبور آل محمدؑ
بھی کہا جاتاہے) ميں مشاہدہ فرماتے ہيں ظاہر ہے صحيفہ سجاديہ سے متعلق کسي بحث
کے لئے بڑي تفصيل و تشريح کي ضرورت ہے ۔ مناسب يہي ہے کہ کوئي اس کتاب پر
باقاعدہ کام کرے صحيفہ سجاديہ دعاوں کا ايک ايسا مجموعہ ہے جس ميں ان تمام
موضوعات کو موروسخن قرار دياگيا ہے جن کي طرف بيدار و ہو شمند زندگي ميں انسان
متوجہ ہوتا ہے۔ ان دعاوں ميں زيادہ تر انسان کے قلبي روابط اور معنوي ارتباطات
پر تکيہ کيا گیا ہے اس ميں بے شمار مناجاتیں اور دعائيں مختلف انداز سے معنوي
ارتقا کي خوہش وآرزو ہيں امام عليہ اسلام ان دعاوں کے ضمن ميں دعاوں کي ہي
زبان سے لوگوں کو ذہنوں ميں اسلامي زندگي کا ذوق و شعور بيدار کرنے کي کوشش
کرتے ہيں ۔

ايک اسلامي معاشرہ وجود ميں لانے کے لئے فکري و ذہني طور پر زمين ہموار کرنا
تمام چيزوں سے زيادہ لازم و ضروري ہے۔ اور يہ ذہني و فکري آمادگي، اس وقت کے
ماحول اور حالات ميں ، جس سے عالم اسلام دوچار تھا، جو يقيناً ايک طويل مدت کا
طالب ہے اور يہي وہ کام ہے جو امام زين العابدين عليہ اسلام نے تمام تر زحمت
اور مصيبت کے باوجود اپنے ذمہ ليا تھا۔اس عظيم ذمہ داري کے دوش بدوش امام
سجادٴ کي زندگي ميں ايک اور تلاش و جستجو جلوہ گر نظر آتي ہے جو دراصل سابق کي
تيار کردہ زمين کومزيد ہموار کرنے کي طرف امامٴ کے ايک اور اقدام کي مظہر
ہے۔اس طرح کي کوشش کا ايک بڑا حصہ سياسي نوعیت کا حامل ہے اور بعض اوقات بے حد
سخت شکل اختيار کر ليتا ہے۔اس کا ايک نمونہ امام عليہ اسلام کا حکومت وقت سے
وابستہ اور ان کے کارگزار محدتوں پر کڑي تنقيد ہے۔
*

واقعہ کربلا کے سلسلہ میں امام زین العابدین کا شاندارکردار

*

۲۸/ رجب ۶۰ ھ کو آپ حضرت امام حسین کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہوکرمکہ معظمہ
پہنچے ۔ چارماہ قیام کے بعد وہاں سے روانہ ہوکر ۲/ محرم الحرام کو وارد کربلا
ہوئے۔ وہاں پہنچتے ہی یا پہنچنے سے پہلے آپ علیل ہوگئے اورآپ کی علالت نے اتنی
شدت اختیارکی کہ آپ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت تک اس قابل نہ
ہوسکے کہ میدان میں جا کر درجہ شہادت حاصل کرتے۔ تاہم فراہم موقع پرآپ نے
جذبات نصرت کو بروئے کارلانے کی سعی کی جب کوئی آوازاستغاثہ کان میں آئی آپ
اٹھ بیٹھے اورمیدان کار زار میں شدت مرض کے باوجود جا پہنچنے کی سعی بلیغ کی۔
امام کے استغاثہ پرتوآپ خیمہ سے بھی نکل آئے اورایک چوب خیمہ لے کر میدان کا
عزم کر دیا۔ ناگاہ امام حسین کی نظرآپ پرپڑگئی اورانہوں نے جنگاہ سے بقولے
حضرت زینب کوآواز دی ”بہن سید سجاد کو روکو ورنہ نسل رسول کا خاتمہ ہوجائے گا“
حکم امام سے زینب نے سید سجاد کو میدان میں جانے سے روک لیا یہی وجہ ہے کہ
سیدوں کا وجود نظر آ رہا ہے اگرامام زین العابدین علیل ہوکر شہید ہونے سے نہ
بچ جاتے تونسل رسول صرف امام محمد باقرمیں محدود رہ جاتی،امام شبلنجی لکھتے
ہیں کہ مرض اورعلالت کی وجہ سے آب درجہ شہادت پرفائزنہ ہوسکے (نورالابصار ص
۱۲۶) ۔

شہادت امام حسین کے بعدجب خیموں میں آگ لگائی گئی توآپ انہیں خیموں میں سے ایک
خیمہ میں بدستور پڑے ہوئے تھے،ہماری ہزارجانیں قربان ہوجائیں،حضرت زینب پرکہ
انہوں نے اہم فرائض کی ادائیگی کے سلسلہ میں سب سے پہلا فریضہ امام زین
العابدین علیہ السلام کے تحفظ کاادا فرمایا اورامام کوبچا لیا الغرض رات گزاری
اورصبح نمودارہوئی، دشمنوں نے امام زین العابدین کواس طرح جھنجوڑا کہ آپ اپنی
بیماری بھول گۓ۔ آپ سے کہا گیا کہ ناقوں پرسب کوسوار کرو اور ابن زیاد کے
دربار میں چلو،سب کوسوارکرنے کے بعد آل محمد کا ساربان پھوپھیوں،بہنوں اورتمام
مخدرات کو لئے ہوئے داخل دربار ہوا حالت یہ تھی کہ عورتیں اوربچے رسیوں میں
بندھے ہوئے اورامام لوہے میں جکڑے ہوئے دربارمیں پہنچ گئے آپ چونکہ ناقہ کی
برہنہ پشت پرسنبھل نہ سکتے تھے اس لیے آپ کے پیروں کوناقہ کی پشت سے باندھ دیا
گیا تھا دربارکوفہ میں داخل ہونے کے بعد آپ اورمخدرات عصمت قیدخانہ میں بند کر
دئیے گئے،سات روزکے بعد آپ سب کولیے ہوئے شام کی طرف روانہ ہوئے اور ۱۹ منزلیں
طے کرکے تقریبا ۳۶/ یوم میں وہاں پہنچے کامل بھائی میں ہے کہ ۱۶/ ربیع الاول
۶۱ ھء کو بدھ کے دن آپ دمشق پہنچے ہیں اللہ رے صبرامام زین العابدین بہنوں اور
پھوپھیوں کا ساتھ اور لب شکوہ پرسکوت کی مہر ۔

حدود شام کا ایک واقعہ یہ ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں ہتھکڑی، پیروں میں بیڑی
اورگلے میں خاردارطوق آہنی پڑا ہوا تھا اس پرمستزادیہ کو لوگ آپ برسا رہے تھے
اسی لیے آپ نے بعد واقعہ کربلا ایک سوال کے جواب میں ”الشام الشام الشام“
فرمایاتھا(تحفہ حسینہ علامہ بسطامی)۔

شام پہنچنے کے کئی گھنٹوں یا دنوں کے بعد آپ آل محمد کو لیے ہوۓ سرہائے شہدا
سمیت داخل دربار ہوئے پھر قیدخانہ میں بند کر دئیے گئے تقریبا ایک سال قید کی
مشقتیں جھیلیں۔

قیدخانہ بھی ایساتھا کہ جس میں تمازت آفتابی کی وجہ سے ان لوگوں کے چہروں کی
کھالیں متغیرہوگئی تھیں (لہوف) مدت قید کے بعد آپ سب کولیے ہوئے ۲۰/ صفر ۶۲ ھء
کووارد ہوئے آپ کے ہمراہ سرحسین بھی کردیا گیا تھا،آپ نے اسے اپنے
پدربزرگوارکے جسم مبارک سے ملحق کیا(ناسخ تواریخ)۔

۸/ ربیع الاول ۶۲ ھ کوآپ امام حسین کا لٹا ہوا قافلہ لیے ہوئے مدینہ منورہ
پہنچے،وہاں کے لوگوں نے آہ وزاری اورکمال رنج وغم سے آپ کا استقبال کیا۔ ۱۵
شبانہ وروز نوحہ وماتم ہوتا رہا (تفصیلی واقعات کے لیے کتب مقاتل و سیر ملاحظہ
کی جائیں۔

اس عظیم واقعہ کا اثر یہ ہوا کہ زینب کے بال اس طرح سفید ہوگئے تھے کہ جاننے
والے انہیں پہچان نہ سکے (احسن القصص ص ۱۸۲ طبع نجف) رباب نے سایہ میں بیٹھنا
چھوڑ دیا۔ امام زین العابدین تاحیات گریہ فرماتے رہے (جلاء العیون ص ۲۵۶) اہل
مدینہ یزید کی بیعت سے علیحدہ ہو کر باغی ہو گئے بالآخر واقعہ حرہ کی نوبت آ
گئی۔
*

واقعہ کربلا اور حضرت امام زین العابدین کے خطبات
*

معرکہ کربلا کی غمگین داستان تاریخ اسلام ہی کی نہیں بلکہ تاریخ عالم کا
افسوسناک سانحہ ہے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اول سے آخرتک اس ہوش
ربا اور روح فرسا واقعہ میں اپنے باپ کے ساتھ رہے اورباپ کی شہادت کے بعد خود
اس المیہ کے ہیرو بنے اور پھرجب تک زندہ رہے اس سانحہ کا ماتم کرتے رہے ۔

۱۰/ محرم ۶۱ ھء کاواقعہ یہ اندوہناک حادثہ جس میں ۱۸/ بنی ہاشم اوربہتر اصحاب
وانصارکام آئے حضرت امام زین العابدین کی مدت العمرگھلاتا رہا اورمرتے دم تک
اس کی یاد فراموش نہ ہوئی اوراس کاصدمہ جانکاہ دور نہ ہوا، آپ یوں تو اس واقعہ
کے بعد تقریبا چالیس سال زندہ رہے مگر لطف زندگی سے محروم رہے اورکسی نے آپ کو
بشاش اور فرحناک نہ دیکھا، اس جانکاہ واقعہ کربلا کے سلسلہ میں آپ نے جوجابجا
خطبات ارشاد فرمائے ہیں ان کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
*

کوفہ میں آپ کا خطبہ
*

کتاب لہوف ص ۶۸ میں ہے کہ کوفہ پہنچنے کے بعدامام زین العابدین نے لوگوں
کوخاموش رہنے کا اشارہ کیا، سب خاموش ہوگئے، آپ کھڑے ہوئے خدا کی حمد و ثناء
کی، حضرت نبی کا ذکر کیا، ان پرصلوات بھیجی۔ پھر ارشاد فرمایا اے لوگو! جو
مجھے جانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے جو نہیں جانتا اسے میں بتاتا ہوں میں علی
بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہوں،میں اس کا فرزند ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی
جس کاسامان لوٹا گیا ۔ جس کے اہل وعیال قید کر دئیے گئے۔ میں اس کا فرزند ہوں
جوساحل فرات پرذبح کردیا گیا،اوربغیرکفن ودفن چھوڑدیا گیا اور(شہادت
حسین)ہمارے فخرکے لیے کافی ہے۔ اے لوگو! تمہارا برا ہو کہ تم نے اپنے لیے
ہلاکت کا سامان مہیا کر لیا، تمہاری رائیں کس قدربری ہیں تم کن آنکھوں سے رسول
صلعم کودیکھوگے جب رسول صلعم تم سے باز پرس کریں گے کہ تم لوگوں نے میری عترت
کو قتل کیا اورمیرے اہل حرم کو ذلیل کیا ”اس لیے تم میری امت میں نہیں””۔
*

دمشق(شام) میں آپ کا خطبہ*

مقتل ابی مخنف ص ۱۳۵، بحارالانوارجلد ۱۰ ص ۲۳۳،ریاض القدس جلد ۲ ص ۳۲۸،
اورروضة الاحباب وغیرہ میں ہے کہ جب حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اہل
حرم سمیت دربار یزید لعین میں داخل کئے گئے اور ان کومنبر پرجانے کا موقع ملا
تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اورانبیاء کی طرح شیریں زبان میں نہایت فصاحت و
بلاغت کے ساتھ خطبہ ارشاد فرمایا:

اے لوگو! تم میں سے جو مجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے، اورجونہیں
پہچانتا میں اسے بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں؟ سنو، میں علی بن الحسین بن علی بن
ابی طالب ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جس نے حج کئے ہیں،اس کا فرزند ہوں جس نے
طواف کعبہ کیا ہے اورسعی کی ہے، میں پسر زمزم وصفاہوں، میں فرزند فاطمہ زہرا
ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جسے پس گردن سے ذبح کیا گیا، میں اس پیاسے کا فرزند
ہوں جوپیاسا ہی دنیا سے اٹھا،میں اس کا فرزند ہوں جس پر لوگوں نے پانی بند کر
دیا، حالانکہ تمام مخلوقات پر پانی کوجائز قرار دیا،میں محمد مصطفی صلعم کا
فرزند ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جو کربلا میںشہید کیا گیا،میں اس کا فرزند ہوں
جس کے انصارزمین میں آرام کی نیند سو گئے۔ میں اس کا پسر ہوں جس کے اہل حرم
قید کر دئے گئے میں اس کا فرزند ہوں جس کے بچے بغیرجرم و خطا ذبح کرڈالے گئے،
میں اس کا بیٹا ہوں جس کے خیموں میں آگ لگا دی گئی، میں اس کا فرزند ہوں جس کا
سرنوک نیزہ پربلند کیا گیا، میں اس کا فرزند ہوں جس کے اہل حرم کی کربلا میں
بے حرمتی کی گئی، میں اس کا فرزند ہوں جس کاجسم کربلا کی زمین پرچھوڑ دیا گیا
اورسر دوسرے مقامات پرنوک نیزہ پربلند کرکے پھرایا گیا میں اس کا فرزند ہوں جس
کے اردگرد سوائے دشمن کے کوئی اور نہ تھا،میں اس کا فرزند ہوں جس کے اہل حرم
کوقید کرکے شام تک پھرایا گیا، میں اس کا فرزند ہوں جوبے یارو مددگار تھا۔

پھر امام علیہ السلام نے فرمایا لوگو! خدا نے ہم کو پانچ فضیلت بخشی ہیں:

۱ ۔ خدا کی قسم ہمارے ہی گھرمیں فرشتوں کی آمدورفت رہی اورہم ہی معدن نبوت
ورسالت ہیں۔

۲ ۔ ہماری شان میں قرآن کی آیتیں نازل کیں، اورہم نے لوگوں کی ہدایت کی۔

۳ ۔ شجاعت ہمارے ہی گھرکی کنیز ہے،ہم کبھی کسی کی قوت وطاقت سے نہیں ڈرے
اورفصاحت ہمارا ہی حصہ ہے، جب فصحاء فخر و مباہات کریں۔

۴ ۔ ہم ہی صراط مستقیم اورہدایت کا مرکز ہیں اوراس کے لیے علم کا سرچشمہ ہیں
جوعلم حاصل کرناچاہے اوردنیا کے مومنین کے دلوں میں ہماری محبت ہے۔

۵ ۔ ہمارے ہی مرتبے آسمانوں اورزمینوں میں بلند ہیں، اگرہم نہ ہوتے توخدا دنیا
کو پیدا ہی نہ کرتا، ہر فخرہمارے فخرکے سامنے پست ہے، ہمارے دوست (روزقیامت )
سیروسیراب ہوں گے اورہمارے دشمن روزقیامت بدبختی میں ہوں گے۔

جب لوگوں نے امام زین العابدین کا کلام سنا توچینخ مار کر رونے اور پیٹنے لگے
اوران کی آوازیں بے ساختہ بلند ہونے لگیں یہ حال دیکھ کر یزید گھبرا اٹھا کہ
کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑا ہوجائے اس نے اس کے ردعمل میں فورا موذن کوحکم دیا(کہ
اذان شروع کرکے) امام کے خطبہ کو منقطع کردے، موذن (گلدستہ اذان پرگیا) _

اورکہا”اللہ اکبر“ (خدا کی ذات سب سے بزرگ و برترہے) امام نے فرمایا تونے ایک
بڑی ذات کی بڑائی بیان کی اور ایک عظیم الشان ذات کی عظمت کا اظہارکیا اور
جوکچھ کہا”حق“ ہے ۔ پھرموذن نے کہا “اشہد ان لاالہ الااللہ” (میں گواہی دیتا
ہوں کہ خداکے سوا کوئی معبود نہیں) امام نے فرمایا میں بھی اس مقصد کے ہر گواہ
کے ساتھ گواہی دیتا ہوں اورہرانکار کرنے والے کے خلاف اقرار کرتا ہوں۔

پھرموذن نے کہ” اشہدان محمدارسول اللہ“ (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفی
اللہ کے رسول ہیں) فبکی علی، یہ سن کرحضرت علی ابن الحسین رو پڑے اور فرمایا
اے یزیدمیں تجھ سے خدا کا واسطہ دے کرپوچھتا ہوں بتا حضرت محمد مصطفی میرے
نانا تھے یا تیرے، یزید نے کہا آپ کے، آپ نے فرمایا،پھرکیوں تونے ان کے اہلبیت
کوشہید کیا، یزید نے کوئی جواب نہ دیا اوراپنے محل میں یہ کہتا ہواچلا
گیا۔”لاحاجة لی بالصلواة“ مجھے نمازسے کوئی واسطہ نہیں،اس کے بعد منہال بن
عمرکھڑے ہوگئے اورکہا فرزندرسول آپ کا کیاحال ہے، فرمایا اے منہال ایسے شخص کا
کیاحال پوچھتے ہوجس کا باپ(نہایت بے دردی سے) شہید کردیا گیا ہو، جس کے
مددگارختم کردئیے گئے ہوں جواپنے چاروں طرف اپنے اہل حرم کوقیدی دیکھ رہا
ہو،جن کا نہ پردہ رہ گیا نہ چادریں رہ گئیں، جن کانہ کوئی مددگار ہے نہ حامی،
تم تو دیکھ رہے ہو کہ میں مقید ہوں، ذلیل و رسوا کیا گیا ہوں، نہ کوئی میرا
ناصر ہے،نہ مددگار، میں اور میرے اہل بیت لباس کہنہ مین ملبوس ہیں ہم پرنئے
لباس حرام کردئیے گئے ہیں اب جوتم میراحال پوچھتے ہوتومیں تمہارے سامنے موجود
ہوں تم دیکھ ہی رہے ہو،ہمارے دشمن ہمیں برا بھلا کہتے ہیں اورہم صبح وشام موت
کا انتظار کرتے ہیں۔

پھرفرمایاعرب وعجم اس پرفخرکرتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی ان میں سے تھے، اور
قریش عرب پراس لیے فخرکرتے ہیں کہ آنحضرت صلعم قریش میں سے تھے اور ہم ان کے
اہلبیت ہیں لیکن ہم کوقتل کیا گیا، ہم پرظلم کیا گیا،ہم پرمصیبتوں کے پہاڑ
توڑے گئے اورہم کوقید کرکے دربدر پھرایا گیا،گویا ہماراحسب بہت گرا ہوا ہے اور
ہمارا نسب بہت ذلیل ہے، گویا ہم عزت کی بلندیوں پرنہیں چڑھے اوربزرگوں کے فرش
پرجلوہ افروز نہیں ہوئے آج گویا تمام ملک یزید اور اس کے لشکر کا ہو گیا اور
آل مصطفی صلعم یزید کی ادنی غلام ہوگئی ہے، یہ سننا تھا کہ ہرطرف سے رونے
پیٹنے کی صدائیں بلند ہوئیں۔

یزید بہت خائف ہوا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑا ہوجائے اس نے اس شخص سے کہا جس نے
امام کومنبر پرتشریف لے جانے کے لیے کہا تھا ”ویحک اردت بصعودہ زوال ملکی“
تیرا برا ہو توان کومنبر بربٹھا کرمیری سلطنت ختم کرناچاہتا ہے۔ اس نے جواب
دیا، بخدا میں یہ نہ جانتا تھا کہ یہ لڑکا اتنی بلند گفتگو کرے گا یزید نے کہا
کیا تونہیں جانتا کہ یہ اہلبیت نبوت اور معدن رسالت کا ایک فرد ہے، یہ سن
کرموذن سے نہ رہا گیا اوراس نے کہا اے یزید! اذاکان کذالک فلماقتلت اباہ“ جب
تو یہ جانتا تھا تو تو نے ان کے پدربزرگوارکوکیوں شہید کیا،موذن کی گفتگو سن
کر یزید برہم ہوگیا،”فامربضرب عنقہ“ اورموذن کی گردن مار دینے کاحکم دیدیا۔
*

مدینہ کے قریب پہنچ کر آپ کا خطبہ
*

مقتل ابی مخنف ص ۸۸ میں ہے (ایک سال تک قیدخانہ شام کی صعوبت برداشت کرنے کے
بعدجب اہل بیت رسول کی رہائی ہوئی اور یہ قافلہ کربلا ہوتا ہوا مدینہ کی طرف
چلا تو قریب مدینہ پہنچ کر امام علیہ السلام نے لوگوں کوخاموش ہوجانے کا اشارہ
کیا، سب کے سب خاموش ہوگئے آپ نے فرمایا:

حمد اس خدا کی جو تمام دنیا کا پروردگار ہے، روزجزاء کا مالک ہے، تمام مخلوقات
کا پیدا کرنے والا ہے جواتنا دور ہے کہ بلند آسمان سے بھی بلند ہے اوراتنا
قریب ہے کہ سامنے موجود ہے اورہماری باتوں کو سنتا ہے، ہم خدا کی تعریف کرتے
ہیں اوراس کا شکر بجالاتے ہیں عظیم حادثوں،زمانے کی ہولناک گردشوں، دردناک
غموں، خطرناک آفتوں، شدید تکلیفوں، اورقلب وجگر کو ہلا دینے والی مصیبتوں کے
نازل ہونے کے وقت اے لوگو! صرف خداکے لیے حمد ہے، ہم بڑے بڑے مصائب میں مبتلا
کئے گئے، دیواراسلام میں بہت بڑا رخنہ(شگاف) پڑ گیا، حضرت ابوعبداللہ الحسین
اوران کے اہل بیت شہی دکر دیے گئے، ان کی عورتیں اور بچے قید کر دئیے گئے
اور(لشکر یزید نے) ان کے سرہائے مبارک کوبلند نیزوں پررکھ کر شہروں میں
پھرایا، یہ وہ مصیبت ہے جس کے برابرکوئی مصیبت نہیں، اے لوگو! تم میں سے کون
مرد ہے جوشہادت حسین کے بعدخوش رہے یا کون سا دل ہے جوشہادت حسین سے غمگین نہ
ہو یا کونسی آنکھ ہے جوآنسوؤں کوروک سکے، شہادت حسین پر ساتوں آسمان روئے،
سمندر اور اس کی شاخیں روئیں، مچھلیاں اور سمندر کے گرداب روئے ملائکہ مقربین
اور تمام آسمان والے روئے، اے لوگو! کون سا قطب ہے جوشہادت حسین کی خبرسن کر
نہ پھٹ جائے، کونسا قلب ہے جومحزون نہ ہو، کونسا کان ہے جو اس مصیبت کوسن کرجس
سے دیواراسلام میں رخنہ پڑا،بہرہ نہ ہو، اے لوگو! ہماری یہ حالت تھی کہ ہم
کشاں کشاں پھرائے جاتے تھے، دربدر ٹھکرائے جاتے تھے ذلیل کئے گئے شہروں سے
دورتھے، گویا ہم کو اولاد ترک وکابل سمجھ لیا گیا تھا،حالانکہ نہ ہم نے کوئی
جرم کیا تھا نہ کسی برائی کا ارتکاب کیا تھا نہ دیواراسلام میں کوئی رخنہ ڈالا
تھا اورنہ ان چیزوں کے خلاف کیا تھاجو ہم نے اپنے آباؤ اجداد سے سنا تھا،خداکی
قسم اگرحضرت نبی بھی ان لوگوں(لشکریزید) کو ہم سے جنگ کرنے کے لیے منع کرتے
(تویہ نہ مانتے) جیسا کہ حضرت نبی نے ہماری وصایت کا…

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.