افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں سینکڑوں اعتدال پسند سنی علماء کی شہادت
طالبان مخالف مولویوں کے قتل کی منظم مہم خاموشی سے جاری
داؤد اعظمی
بی بی سی پشتو سروس
آخری وقت اشاعت: منگل 19 نومبر 2013
افغانستان میں پچھلی ایک دہائی میں افغان طالبان کے طریقوں اور نظریات سے متفق نہ ہونے والے افغان سنی دیوبندی، بریلوی اور سلفی مولویوں کو ایک منظم مہم کے تحت قتل کیا جا رہا ہے۔
اس مہم میں آٹھ سو مولویوں نے طالبان کے طریقوں کو غیر اسلامی اور غیر قانونی قرار دیا اور ان سب کو قتل کردیا گیا۔
اس سلسے میں تازہ ترین قتل پچھلے ہفتے عالم مولوی عطا محمد کا ہوا جن کو قندھار میں گولی مار کر قتل کردیا گیا۔ وہ وائس آف اسلام نامی مقامی ریڈیو سٹیشن میں پروگرامنگ کے سربراہ تھے۔
طالبان کی منظم مہم میں ہلاک کیے جانے والوں میں کئی اہم مولوی یا علما تھے۔ اہم شخصیات میں ہلاک ہونے والے سب سے پہلے مولوی عبداللہ فیاض تھے۔ وہ قندھار مذہبی علما کونسل کے سربراہ تھے اور ان کو مئی 2005 میں قتل کیا گیا۔
طالبان نے زیادہ تر ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے طالبان ان دیوبندی مولویوں کے شاگرد رہ چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ شاگرد اپنے استادوں کو قتل کر رہے ہیں۔
قومی علما کونسل کے علما
پاکستان میں بھی درجنوں سنی علما جن میں سنی بریلوی اور اعتدال پسند دیوبندی شامل ہیں طالبان اور ان کی حلیف دہشت گرد جماعت سپاہ صحابہ کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں جن میں مولانا حسن جان، مولانا نظام الدین شامیزائی ، ڈاکٹر سفراز نعیمی وغیرہ شامل ہیں
ہلاک کیے جانے والوں میں سے زیادہ تر مسجدوں کے امام یا سرکاری سکولوں میں استاد تھے۔ قومی علما کونسل کے 50 سے زیادہ رکن قتل کیے جا چکے ہیں۔
ان مولویوں اور علما کے قتل کے باعث مذہبی تعلیم میں خلا پیدا ہو گیا ہے اور مذہبی اسٹیبلشمنٹ میں تفریق پڑ گئی ہے جس کے باعث مستقبل میں مثبت بات چیت خطرے سے دوچار ہو گئی ہے۔
میرے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ قتل افغانستان کے جنوبی حصے میں ہوئے ہیں جہاں پر طالبان کی پوزیشن مضبوط ہے اور جہاں کئی قبائلی عمائدین اور بااثر شخصیات کو قتل کیا گیا ہے۔
افغان حکومت نے قومی علما کونسل 2002 میں قائم کی اور اس کا مقصد طالبان کے تحریک کے قانونی جواز کو چیلنج کرنا تھا۔ اس کونسل کا ایک اور مقصد یہ بھی تھا کہ حکومت کی مذہبی ساکھ کو بہتر کیا جا سکے۔ یہ کونسل صدر حامد کرزئی کی کھلے عام حمایت کرتی ہے اور صدر کے فیصلے پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
اس کونسل کے زیادہ تر ممبران سابق مجاہدین ہیں جنہوں نے روس کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔
قومی علما کونسل کے تین ہزار ارکان ہیں جو افغانستان میں نیٹو افواج کی موجودگی کے حق میں فتوے جاری کرتے ہیں اور طالبان سے شدت پسندی ترک کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
طالبان کا موقف
قومی علما کونسل سیکریٹیریٹ کے سربراہ قاضی نثار احمد صدیقی کا کہنا ہے: ’بہت سے اقدامات اسلام کے نام پر کیے جاتے ہیں جو کہ اسلام میں جائز نہیں ہیں، مثلاً مساجد اور سکولوں کو تباہ اور نقصان پہنچانا۔‘
حکومت کے سینکڑوں حمایتی مولویوں کو طالبان کی جانب سے دھمکیاں دی گئی ہیں کہ اگر وہ طالبان کے خلاف بولے تو ان کو مار دیا جائے گا۔
طالبان کا موقف ہے کہ حکومت کے حمایتی مولوی لوگوں کو درست راستے سے بھٹکا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک مقامی طالبان کمانڈر نے کہا تھا: ’اگر وہ صحیح راستے سے بھٹکتے ہیں تو بہت مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہماری جدوجہد کی حمایت کریں۔‘
طالبان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت ’ناجائز‘ ہے کیونکہ وہ ’کفار‘ کی حمایت سے چل رہی ہے جنہوں نے ’افغانستان اسلامی امارات‘ کی حکومت کا تختہ الٹا تھا۔
کچھ علاقوں میں طالبان نے مولویوں کو تنبیہ کی ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی نماز جنازہ نہ پڑھائیں۔
اس قسم کے ایک واقعے میں مئی 2013 میں کنڑ صوبے میں ایک مولوی کی لاش پر ایک نوٹ چھوڑا گیا جس پر تحریر تھا: ’جو مولوی سکیورٹی اہلکاروں کی نماز پڑھائیں گے ان کا انجام اس جیسا ہو گا۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/2013/11/131119_afghanistan_taliban_clerics_killing_rh.shtml