طالبان سٹیک ہولڈر نہیں،مذاکرات بے معنی ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔علامہ اصغر نقوی

علامہ عسکری شفقنا اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے
علامہ عسکری شفقنا اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے

طالبان سٹیک ہولڈر نہیں، مذاکرات بے معنی ہوں گے:علامہ اصغر عسکری کی شفقنا اردو سے خصوصی گفتگو

علامہ اصغر عسکری پاکستان کے مذہبی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔آپ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما ہیں ۔شفقنا اردو نے ان کے ساتھ معروضی حالات پر گفتگو کی ۔جو قارئین کرام کے لئے پیش کی جارہی ہے۔

شفقنااردو: پاکستان کی موجودہ صورتحال کو آپ کیسے دیکھتے ہیں ؟

علامہ اصغر عسکری: موجودہ صورتحال جس میں طالبان سے مذاکرات کی بات چل رہی ہے اور آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی جس میں حکومت اور تمام سیکیورٹی ادارے بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات میں ہی پاکستان کی بھلائی ہے۔ ہمارا اس بارے میں موقف واضح ہے کہ مذاکرات تو ہمیشہ اپوزیشن کے ساتھ ہوتے ہیں، طالبان دہشت گرد ہیں ان کی جماعت کالعدم ہے ، کم و بیش چالیس ہزار پاکستانیوں کے خون سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ وہ سٹیک ہولڈرنہیں لہذا ان سے مذاکرات کرنا تو کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ہمارا دو ٹوک موقف ہے کہ ریاست کے پاس طاقت ہے لہذا ان دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جانا چاہیے ۔ پاک آرمی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں کہ وہ ان دہشت گردوں کا خاتمہ نہ کرسکے۔ اتنی طاقت ور فوج ہے تو ان کا بھر پور مقابلہ کیا جائے اور دوسری بات یہ ہے کہ جو مذاکرات کی بات کرتے ہیں کہ پاکستان میں شاید امن قائم ہوجائے تو آپ جن سے مذاکرات کررہے ہیں تو کیا ضمانت ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر جو طے کریں گے تو کیا اس پر عمل بھی کریں گے ؟ اس کی ضمانت کون دے گا ۔ پہلے بھی طالبان کے بہت سے گروہوں کے ساتھ مذاکرات ہوئے ہیں اور انہوں نے طے شدہ معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے اور دوبارہ دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کردی تھیں۔لہذا یہ ا حل نہیں اور تیسری بات یہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے لیے جو متاثرین ہیں جو دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں جن میں اقلیتیں بھی شامل ہیں ان کو اعتماد میں نہیں لیا جارہا، ان تمام لوگوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے چاہے وہ عیسائی ہوں ، اہل سنت ہوں یا اہل تشیع ہوں، جو بھی متاثرین ہیں اگر ان سب کو اعتماد میں نہیں لیا جائے گا تومیں نہیں سمجھتا کہ مذاکرات کا کوئی فائدہ ہے اور اس سے امن پیدا ہوسکے گا۔

شفقنااردو: وہ کون سی مجبوریاں ہیں جن کے تحت حکومت طالبان سے مذاکرات کررہی ہے؟

علامہ اصغر عسکری: میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان کو مشکل میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس میں کچھ بیرونی قوتیں ہیں جو پاکستان میں کبھی امن قائم نہیں ہونے دینا چاہتیں، جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ بیرونی قوتیں متحرک ہو گئی ہیں اور یہ جو مذاکرات کا ڈراما رچایا جارہا ہے اس کے پیچھے دراصل ان قوتوں کا ہاتھ ہے جو پاکستان کی دشمن ہیں اور جو پاکستان او راسکی اقتصادیات کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ میرے خیال میں مسلم لیگ (ن) کو چاہیے کہ پاکستان کے عوام کی ترجمانی کریں، لوگ اس وقت طالبان سے مذاکرات نہیں چاہتے، یہ چند سیاسی جماعتیں ہیں اور جو سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ ہے انہوں نے اپنی اپنی پارٹی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا ۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ ان تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنے عوام کی ترجمانی کرنی چاہیے ۔

شفقنااردو: ایران اور امریکہ کے تعلقات استوار ہورہے ہیں اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

علامہ اصغر عسکری: ایران اور امریکہ دونوں اس بارے میں بہتر سمجھتے ہیں ۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اگر وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مذاکرات ہونے چاہئیں تو ٹھیک ہے، مذاکرات کا راستہ بند نہیں ہوتا ۔ امریکہ دنیا میں ناکام ہوچکا ہے جیسا کہ شام اورعراق میں وہ پنی پالیسی کے مطابق حالات پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے اس لیے وہ مجبوری کے تحت مذاکرات کی طرف بڑھا ہے۔ اگر دونوں ملک مذاکرات کی طرف آتے ہیں تو وہ اپنے مسائل کو بہتر سمجھتے ہیں ۔ وہ اپنے ملک کی بہتری کے لیے جو بھی فیصلہ کریں ان کی مرضی ہے۔

شفقنااردو: کیا ایران امریکہ تعلقات ، ایرانی علما اور بالخصوص امام خمینی کے فلسفے کے خلاف نہیں ؟

علامہ اصغر عسکری: پالیسیاں حالات کے تناظر میں بدلتی رہتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ سلوگن میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔ ممکن ہے امام خمینی کے دور میں آج سے 35سال پہلے یہ چیزیں نہیں تھیں] موجودہ صورتحال اور ہے اگر ان حالات میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو میرا نہیں خیال کہ وہ امام خمینی کے اصولی موقف کے خلاف ہوگا \یہ حکمت عملی کا تقاضا ہے اور ملک کے مفادات اور مصلحت کو نظر میں رکھتے ہوئے اگر دونوں ملک مذاکرات کی طرف آتے ہیں تو کوئی منفی بات نہیں۔

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.