ایجاد کی ماں ضرورت نہیں،علم ہے – مبارک حیدر
کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے – ہمارے معاشرہ کو ان گنت دنوں سے ان گنت ضرورتوں کا سامنا ہے — تو کیا ہم نے کچھ ایجاد کیا؟ کیا رکی اور پھنسی ہوئی ٹریفک میں ضابطے توڑ کر نکل جانا یا کرپشن سے رستے بنانا ایجاد کہلائے گا ؟ نہیں ، ہم کچھ ایجاد نہیں کرتے – کیونکہ ایجاد کی ماں ضرورت نہیں،علم ہے – ضرورت اگرعلم کے اوزار سے محروم ہے تو کچھ ایجاد نہیں ہوتا –
علم کیا ہے ؟ کیا معلومات کوعلم کہہ سکتے ہیں؟ نہیں ‘ یہ الگ الگ ہیں – ہستی اور زندگی کے وہ حالات و واقعات جو معلوم کئے جا چکے ہیں ہم انھیں معلومات کہتے ہیں – معلومات علم کے لئے ضروری تو ہیں ، لیکن معلومات خود علم کو جنم نہیں دے سکتیں- معلومات کا رشتہ حافظہ سے ہے- حافظہ سنبھالتا ہے ، لیکن کچھ تخلیق نہیں کرتا – دنیا کے سارے کمپیوٹر اور سارے حافظ مل کر بھی خدائی ذ رہ (Higgs Boson) دریافت نہیں کر سکتے –
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایمان اورعلم ایک ہی حقیقت ہیں؟ نہیں- ایمان تو سچ پر بھی ہو سکتا ہے اور جھوٹ پر بھی – حقیقت پر بھی اور وہم پر بھی – ایمان تو فزکس کے کسی قانون پر بھی ہو سکتا ہے اور کسی مفروضہ پر بھی – ہر کوئی مفروضے بناتا ہے ، خود سائنس دان بھی مفروضے بناتے ہیں لیکن مفروضہ اس وقت تک علم نہیں ہوتا جبتک اسے انسانی مشاہدہ کے سامنے تصدیق کے ذریعہ ثابت نہ کر دیا جاۓ – چنانچہ کائنات اور زندگی کی ظاہری شکلوں کے پیچھے چھپے ہوئے قانون کو دیکھنے کی صلاحیت علم ہے –
علم اورعقیدہ میں فرق ہے – علم انسان کی مشترکہ ملکیت بن جاتا ہے ، لیکن کوئی عقیدہ آج تک انسانوں کی مشترکہ ملکیت نہیں بن سکا کیونکہ عقیدہ کی تصدیق کا کوئی ایسا طریقه موجود نہیں جو ہر نارمل انسان کو قبول ہو –
ہمارا معاشرہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں نہیں – سچ یہ ہے کہ ایجاد علم سے پیدا ہوتی ہے -علم غور و فکر سے ،غور و فکر سوال سے ،سوال جستجو سے اور جستجو اعتراض و اختلاف سے جنم لیتی ہے – –
لیکن اعترض و اختلاف منزل نہیں – اختلاف کی منزل اتفاق ہے اور اعتراض کی منزل اصلاح – لیکن انسان کے سفر میں ہر منزل فقط ایک پڑاؤ ہے ، مستقر ہے جس سے آگے ایک اور منزل یعنی ایک اور مستقر ہے – ہر اتفاق ایک نئے اختلاف ، نئے سوال ،جستجو سے گزر کر علم کے اگلے مرحلوں تک لے جاتا ہے – کوئی ایجاد آخری اور مکمل نہیں ، کوئی علم آخری اور مکمل نہیں – اسلئے کہ کائنات خود مکمل نہیں –
اعتراض اور اختلاف کرتے رہو ، اس نیّت سے کہ علم بڑھتا رہے – وہ علم جس کی تصدیق دنیا کا ہر شخص کرے ، وہ علم جو زندگی کی بقا اور مسرّت کے اوزار ایجاد کرتا رہے –
یہ تحریر مبارک حیدر کے فیس بک سے لی گئ ہے۔
Comments
Tags: Science