جمہوریت کی گل ہوتی شمع
جمہوریت کی گل ہوتی روشنی اور سرائیکستان
لیل و نہار/عامر حسینی
انڈیا کی معروف ادیبہ ارون دھتی رائے نے اپنے مضامین کے ایک مجموعے پر مشتمل کتاب کا نام “ڈیموکریسی،ز فیلنگ لائٹ “رکھا ہے جس کا میں نے آزاد ترجمہ گل ہوتی ہوئی شمع جمہوریت کرنا مناسب خیال کیا ہے-ارون دھتی رائے کہتی ہیں کہ
“ہمارے ہاں اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا موت کے بعد زندگی ہوتی ہے؟تو ہمیں یہ سوال بھی اٹھانا چاہئیے کہ کیا جمہوریت کے بعد زندگی ہوگی؟
ارون دھتی رائے نے واضح کیا ہے کہ جمہوریت سے ان کی مراد جمہوریت ایک آئیڈیل نہیں ہے بلکہ وہ ورکنگ ماڈل مراد ہیں جو دنیا میں نافذ ہیں-مغربی جمہوریت کے یہ ماڈل پاکستان سمیت تیسری دنیا کے اکثر ملکوں میں نافذ ہیں-ارون کہتی ہیں کہ ہمیں یہ سوال اٹھانے کی ضرورت ہے کہ ہم نے “اس ڈیموکریسی”کے ساتھ کیا کیا ہے؟جب بھی ڈیموکریسی آجاتی ہے تو کیا وقوع پذیر ہوتا ہے؟کیا صورت حال بنتی ہے جب ڈیموکریسی کھوکھلی اور معنی سے خالی ہوجاتی ہے؟اور کیا ہوتا ہے جب ڈیموکریسی کا نکاح فری مارکیٹ کے ساتھ ہوتا ہے؟کیا ہوتا ہے جب یہ صرف و صرف منافع خوری کے گرد گھومنے لگتی ہے؟تو کیا اس طرح کے پروسس کو روکا جاسکتا ہے اور اس کو واپس پلٹایا جاسکتا ہے؟جو ایک مرتبہ جامد ہوکر بدل جائے کیا اس کو واپس اس شکل میں لایا جاسکتا ہے جوکہ وہ ہوا کرتی تھی؟
ارون دھتی رائے نے یہ سوالات ہندوستان میں جمہوریت کے موجودہ ماڈل پر اٹھائے ہیں-اور ان سوالات کے تناظر میں ارون دھتی رائے نے ریاست کے تصور ڈویلپمنٹ کا جائزہ لیا ہے اور اس ترقی کے نام پر جنوبی ہندوستان میں قبائلی علاقوں،آدی واسیوں،دلت ،کرسچن ،کسان اور شہری غریبوں پر ہونے والے جبر،ظلم اور زیادتی کی نقاب کشائی کی ہے-اور یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان کے کسانوں،اقلیتوں،عورتوں اور ریڈکوریڈور بن جانے والے علاقوں کے مسائل اور انتہا پسندی کا براہ راست رشتہ ہندوستانی جمہوریت کے فری مارکیٹ سے نکاح جبری اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والی ترقی سے جڑا ہوا ہے-اور ان کے خیال میں یہ جو نمائندگان عوام کی جمہوریت ہے یہ نمائیندے زیادہ اور جمہوریت کم رکھتی ہے-
میں نے ارون کی کتاب کا یہ پیش لفظ جب ملاحظہ کیا اور اسی دوران ڈیوڈ براسمین کو دئے گئے خصوصی انٹرویو کو انٹرنیشنل سوشلسٹ کے تازہ شمارے میں پڑھا تو مجھے خیال آیا کہ جو سوال ارون دھتی رائے نے ہندوستانی جمہوریت کے حوالے سے اٹھائے ہیں وہ سوالات پاکستان میں نافذ جمہوری ماڈل پر بھی اٹھائے جاسکتے ہیں-اور یہ اتنے ہی پاکستان کے جمہوری ماڈل بارے بھی درست ہیں جتنے یہ بھارتی جمہوریت کے ماڈل بارے ٹھیک ہیں-
مثال کے طور پر پاکستان کی جمہوریت جب مارکیٹ ریفارم کے ساتھ رشتہ باندھتی ہے تو اس کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ یہ ایسی اکنامک ریفارم لیکر آئے جس سے سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ نفع کماپائیں-اور یہ عالمی سرمایہ کاروں کو مفت زمین کی فراہمی،کن کے لیے زیرو ٹیکس،خصوصی اقتصادی زونز جیسی مراعات کا اعلان کرتی ہے-اور دوسری جانب یہ آئی ایم ایف،ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی سفارشات کی روشنی میں بجلی کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ کرتی ہے-تیل اور گیس پر سبسڈیز واپس لیکر ان کی قیمتوں میں اضافہ کرڈالتی ہے-تیل کی لابی کو خوش رکھنے کے لیے تیل سے بجلی پیدا کرنے کے رجحان میں کوئی کمی نہیں لیکر آتی-جبکہ مقامی گیس کو سی این جی اسٹیشنوں پر پھونک دیتی ہے-اور مقامی فرٹیلائزرز اور ٹیکسٹائل کو سستے داموں گیس فراہم کرتی ہے جو پھر بھی کھاد کی قیمتوں میں کمی نہیں کرتے-یہ سارا بوجھ ورکنگ کلاس پر پڑتا ہے-غریب کسانوں پر پڑتا ہے-اور اس طرح کے اقدامات سے غریب اور غریب ہوتا ہے جبکہ بڑے سرمایہ داروں کے سرمایہ اور حصص مین مزید اضافہ ہوجاتا ہے-حکومتی سیکٹرز کے ادارے جن کا دیوالیہ نکالے جانے میں ان اداروں میں کام کرنے واے افسران،ان کے چئیرمین کا کردار اہم ہوتا ہے ان کو سزا دینے اور ان کے اثاثے ضبط کرنے اور ان کے بینک اکاؤنٹس ضبط کرنے کی بجائے ان اداروں سے لاکھوں مزدور فارغ کردینا اور ان اداروں کے قیمتی اثاثوں کو اپنے من پسند سرمایہ داروں کے حوالے کردینا بھی جمہوریت کے مارکیٹ اکنامی کے ساتھ رشتہ داری کرنے اور جمہوریت کو سرمایہ داروں کی چاکر بنادینے کی مثال ہے-
یہ سرمایہ دارانہ سامراجیت کی غلام جمہوریت ڈویلپمنٹ اور پروگریس کا مفہوم اکنامک ریفارم،ڈی ریگولیشن اور نجکاری کردیتی ہے-فریڈم کا مطلب آپ کی چوائس کو محدود کرنا ہوتا ہے-اور مارکیٹ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ مارکیٹ میں جائیں اور جو چاہیں خرید لیں-بلکہ اس کا مطلب ایسی جگہ جہاں فیس لیس کارپوریشن کاروبار کرتی ہیں-اور وہ مستقبل کو خریدنے اور پیچنے کا کام بھی کرتی ہیں-جسٹس یعنی انصاف کا مطلب صرف ہیومن رائٹس کی زبانی چیخ و پکار ہے-
ارون کہتی ہے کہ
“زبان کی یہ چوری،لفظوں پر حملہ کرنے کی یہ تکنیک اور پھر ان لفظوں کو ہتھیاروں کی طرح سے ڈپلائے کرنا اور پھر ان کو ان کے روائیتی معنی سے ہٹ کر بالکل الٹ معنی میں استعمال کرنا اس دور کے زار کی شاندار تزویراتی کامیابیوں میں سے ایک اہم کامیابی ہے”
یہ جو زبان کی چوری اور لفظوں کے الٹ معنی ایجاد کرنے کی کامیابی ہے اس نے اس ڈویلپمنٹ اور سرمایہ داری کے جمہوریت سے نکاح سے متاثر ہونے والوں کو اس زبان کے استعمال سے محروم کردیا ہے جو ان کی ترجمانی کرتی تھی-اور اب ان کو ترقی مخالف،ریفارم مخالف اور یہاں تک کے ان کو غدار کہنا بہت آسان ہوگیا ہے-اور ان کے موقف اور آواز کو اس طرح سے آسانی کے ساتھ رد کرنا بھی آسان ہوگیا ہے-
جب آپ کسی دریا یا کسی جنگل یا کسی صحراء کو بچانے کی بات کرتے ہیں تو وہ فوری طور پر یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ پراگریس پر یقین نہیں رکھتے؟
کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ پنجاب کی حکومت جب سرائیکستان کے اندر تھل سے ایک نہر نکالنے کا فیصلہ کرتی ہے اور تھل کی ترقی کے نام پر یہاں جدید چکوک بنانے کا سلسلہ قائم کیا جاتا ہے تو یہاں کے مقامی باشندے تھل کو بچانے کے لیے اور یہاں پر سنٹرل پنجاب سے آبادکاری کی مخالفت کرتے ہوئے تحریک چلاتے ہیں تو ان کو ترقی کا دشمن کہہ دیا جاتا ہے-جبکہ اس عمل سے ماحولیات کی جو تباہی ہوئی اور تھل کے علاقوں میں کماد کاشت کرنے اور شوگر ملز لگنے سے زمین کی جو تباہی ہوئی اس کے بارے میں سرمایہ دارانہ جمہوریت نے کوئی ترود نہیں کیا-ترقی کا مطلب ماحولیاتی تباہی ہوگیا اور ڈویلپمنٹ کا ایک مطلب مقامی اکثریتی آبادی کو کٹ ٹو سائز کرنا بھی ہوگیا
حال ہی میں وفاقی اور صوبائی حکومت چولستان کی 21000 ہزار ایکٹر اراضی جینی سولر کمپنیوں کو دینے کا فیصلہ کرچکی ہے-اس اقدام سے چولستان میں مقامی کسانوں کو کتنی چراگاہوں سے محروم ہونا پڑے گا اور اس چولستان کی ماحولیات پر اس کا کیا اثر ہوگا ایسی کوئی بھی سٹڈی پنجاب حکومت نے نہیں کرائی-پھر قومی اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں متبادل انرجی بورڑ کے چیئرمین نے یہ انکشاف بھی کیا کہ سولر انرجی سے پیدا ہونے والی بجلی کا خرچہ تھرمل بجلی یونٹ سے زیادہ ہوگا-اور یہ بجلی نینشل گرڈ اسٹیشن میں شامل ہوگی اور اس کی رائلٹی چولستانیوں کو نہیں ملے گی-جن کی زمینوں کو 20 ڈالر فی ایکٹر لیز پر دے دیا گیا ہے-اور جب یہ بجلی پیدا ہوگی تو اس کو خریدنے کے لیے جو رقم درکار ہوگی وہ بھی اس خطے کے عوام سے وصول کی جائے گی جس طرح اور لوگ اس کی قیمت ادا کریں گے-
سرائیکستان کی زرعی اور کمرشل اراضی کو پہلے انگریز سامراج نے برطانیہ سے کپاس کی تلاش میں آنے والے ماہرین کو دی جیسے رابرٹ ولیم تھا جس کی رابرٹ ولیم سیڈ کارپوریشن کو ہزاروں ایکڑ زمین خانیوال اور رحیم یار خان میں دی گئی تھی-اور انگریز سامراج نے سرائیکستان میں گنجی بار اور ستلج ویلی میں کینالز نکالنے کے بعد کالونیز میں لاکھوں ایکڑ رقبہ مشرقی پنجاب اور سنٹرل پنجاب کے لوگوں کے حوالے کردیا-جبکہ فوجی ،سرکاری ملازمین کو بھی یہ رقبے الاٹ کئے گئے-اور اس دور کی زمین کی بندر بانٹ سے اوکاڑا،ساہیوال ،پاکپتن،وہاڑی تا خانیوال کے علاقے مقامی آبادی کو اقلیت میں بدلنے کا سبب بنے-اور اس عمل نے ریاست بہاول پور کے اندر بھي ڈیموگرافک تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کیا-
پھر پاکستان بننے کے بعد سرائیکستان کے اندر جو زرعی رقبے اور کمرشل اراضی سکھ اور ہندؤ چھوڑ کر گئے ان میں سے اکثر رقبے اور شہری متروکہ املاک پاکستان کی سول اور ملٹری افسر شاہی اور سیاست دانوں کی ٹولی کے قبضے میں آگیئں اور اس وقت اس کا سب سے زیادہ فائدہ پنجابی اور اردو بولنے والے مہاجر افسر شاہی اور سیاسی کلاس کو ہوا-اور اس میں سنٹرل پنجاب کی پنجابی اشرافیہ نے بھی خوب فائدہ اٹھایا-یہ سلسلہ یہاں نہیں رکا بلکہ ایک مربوط طریقے سے سرائیکستان کی زرعی اراضی پر پاکستان کے بیوروکریٹیس،ضلعی افسران،سیاست دان اور جرنیلوں اور دیگر فوجی افسروں کے قبضے جاری رہے-جبکہ پاکستان کی ریاست نے متحدہ عرب امارات ،سعودی شیوخ کو بھی بڑے پیمانے پر شکار گاہوں کی مد میں اراضی کی الاٹمنٹ جاری رکھی جبکہ اب پنجاب حکومت لائیو سٹاک اور سیڈ و پیسٹی سائیڈز غیرملکی کمپنیوں کو اس خطے کی قیمتی زرعی اراضی الاٹ کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل کررہی ہے-
پاکستان میں جمہوریت سرائیکستان کے خطے کے وسائل کی لوٹ مار کے عمل کو آسان بنانے کے سوا کوئی اور کام نہیں کررہی ہے-سرائیکستان کے باشندے جوکہ بیوروکریٹس،جرنیل،ججز،سرمایہ داروں کی جانب سے سرائیکیستان کی زمینوں کو غصب کرنے سے پہلے ہی ستم رسیدہ تھے اب کارپوریٹ یلغار کا سامنا کررہے ہیں-ان کی زمینوں کو چینی،ترک،کورین،بھارتی،سعودی،متحدہ عرب امارات،امریکی ،جرمن اور تو اور لاطینی امریکہ کی انرجی ،فوڈ،سیڈ سیکٹر میں کام کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی یہاں کی زمینوں اور لائیو سٹاک پر قبضے کے خطرے کا سامنا ہے-یہاں کی آبادی پہلے کی غذائی قلت اور یہاں بچے ،بوڑھے ،مرد جوان اور عورتیں پہلے ہی دودھ کی کمی سے پیدا ہونے والی کیلشم کی کمی سے مختلف بے ماریوں کا شکار ہیں-اور لائیو سٹاک،فوڈ،سیڈ اور بیوریچز میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اس خطے میں یلغار یہآں دودھ،انڈے،گوشت،سبزیاں،دالیں،یہآں تک کے پانی کو بھی ان کی استعداد سے باہر کریں گی-جبکہ یہاں کے باشندے اپنی زمینوں سے بتدریج محروم ہوتے چلیں چائیں گے-
پاکستان میں جمہوریت کی روشنی سرائیکستان کے کسانوں،شہری غریبوں اور یہاں کے عام لوگوں کے لیے آہستہ آہستہ گل ہوتی جارہی ہے جبکہ یہ روشنی دن بدن ملٹی نیشنل کمپنیوں ،سنٹرل پنجاب کے سرمایہ داروں اور زمین پر قبضہ کرنے والے ہوس کاروں اور ان کے ممد و معاون وفاق اور صوبے میں موجود حاکم طبقات کے لیے بڑھتی جارہی ہے-یہ روشنی بلوچستان،خیبر پختون خوا اور اندرون سندھ ،گلگت بلتستان و کشمیر کے باشندوں کے لیے بھی گل ہورہی ہے –
جمہوریت،ڈویلپمنٹ ،ترقی اور اکنامک کوریڈور یہ سب کے سب سرائیکستان کے لیے ایک دھوکے اور سراب کے سوا کچھ نہیں ہیں-ان سے مراد کاروپوریشنوں کی قبضہ گیری ،مقامی آبادی کے مزید استحصال،لوٹ مار اور ان کی شناخت و ثقافت پر ڈاکہ ڈالنے اور ان کو بے شناخت کردینے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے-
لیکن کیا اس بات کا احساس یہاں کے عام باشندوں کو ہے؟کیا اس خطے کی ورکنگ کلاس جس میں سروسز سیکٹر کے ڈاکٹر،وکیل،صحافی،نرسیں طالب علم سب شامل ہیں وہ ڈولپمنٹ ،ترقی اور پراگریس کے حکمرانوں کے نعروں کا مفہوم سمجھتے ہیں؟
مجھے جب بھی اس خطے کے اکثر سیاسی کارکنوں،سول سوسائٹی کے ورکرز،صحافیوں،وکلاء سے بات کرنے کا موقعہ ملا تو مجھے شک ہوا کہ وہ سرائیکستان کی محکومی ،مظلومیت اور اس کی پسماندگی و دور افتادگی کے سوال کو حکمرانوں کے ترقی ،پراگریس اور ڈیموکریسی کے ایجاد کردہ مفاہیم اور مطالب کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھتے-
کیونکہ وہ سرائیکستان کے اندر فوڈ،سیڈ،انرجی ،ٹیکسٹائل،لائیوسٹاک ،فرٹیلائزرز کے شعبوں میں ملٹی نیشنل کمپنیوں اور عالمی سرمایہ کو آنے کی دعوت کے پس پردہ محرکات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے سے قاصر نظر آتے ہیں-ان کو اس عالمی سرمایہ کے سرائیکستان کے اندر چلے آنے سے یہاں کی ماحولیات ،یہاں کی زرعی زندگی کو جو خطرات لاحق ہوں گے ان کا ٹھیک ٹھیک اندازا نہیں ہے-اور اس سے مقامی ثقافت اور مقامی آبادی کی شناخت کو کو فنا ہونے کے جس خطرے سے دوچار ہونا پڑے گا اس کا اندازا بھی نہیں ہے-
اس لیے اس خطے کے عوامی دانشوروں ،شاعروں،ادیبوں اور صحافیوں کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ سرائیکستان پر کاروپوریٹ سرمایہ کے حملے (جس کی شدت مسلم لیگ نواز اور ان کے سربراہاں میاں نواز شریف و شہباز شریف کے برسراقتدار آنے سے زیادہ ہوگئی ہے)کے ٹھیک ٹھیک محرکات ،اغراض و مقاصد سے عام آدمیوں کو آگاہ کرنا چاہئیے-