طالبان سے مذاکرات : اندیشہ ہائے دور و دراز۔۔ از علی ارقم
پاکستان کے عسکری اورسیاسی حلقوں میں تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مُذاکرات کی شدید خواہش دراصل ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھائے گئے اُس جہادی نیٹ ورک سے وابستہ نہٹوٹنےوالی اُن اُمّید وں کا اظہار ہے جن کے تحت یہ مقتدر ادارے ،مذہبی طرزفکر کےپروردہ اور ریاست اور برادر مُسلم ملکوں کی مالی اعانت پر قائم شدہ تشدّد کے اس وسیع نیٹ ورک پر مُکمّل کنٹرول کے حُصول کو ہنوزمُمکن سمجھ رہے ہیں۔ وہ اِس خوش فہمی میں ہیں کہ تشدّد اور قتل و غارت گری کے اس پورے گورکھ دھندے کو اب بھی اپنےحسبِ منشاء راہوں پر ڈالا جاسکتا ہے یا اپنے مُتعیّن کردہ مقاصِد کے حُصول کی راہ پرڈالا جاسکتا ہے۔
اگر دیکھاجائے تو شاید اِس خواہش کو یکسرمفروضے پر محمول نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ پاکستان میں موجود جہادی تنظیموں کا وسیع نیٹ ورک اب بھِی بالواسطہ ریاست ہی کے مُتعیّن کردہ کردار سے جُڑا ہوا ہے۔ جب بھِی ریاست کو خارجہ پالیسی کے محاذ پر مُقتدر عسکری اداروں کے قائم کردہ موَقّف کے پلڑے میں وزن ڈالنے کا ٹاسک مِلا ،ان تنظیموں نے اپنا کردار بخوبی نبھایا۔
اِس کا ایک مُظاہرہ ہمیں ممبئی حملوں کے بعد پیدا ہونے والی فضا میں ،فضل اللہ اور بیت اللہ کو حبّ الوطنی کی سند دیئے جانے کے موقع پربھی نظرآیا اور پھر سلالہ کی پوسٹ پرحملے کے بعد “دفاع پاکستان کونسل” کے پلیٹ فورم پر ”محمودوایاز ایک ہی صف میں کھڑے ”نظر آئے،جب پچھلی پوری دہائی میں نسبتاً غیرمُتحرّک اور منظر سے غائب حرکۃ المجاہدین العالمی، حافظ محمّد سعید کی جماعۃ الدّعوۃ کی ہم رکابی کے لئے اچانک بھرپور انداز میں انصارالاُمّہ کے نئے نام سے حرکت میں آگئی اور شہر کی دیواریں “سبیلُنا سبیلُنا الجھاد الجھاد” کے نعروں سے بھر گئِیں اور سپاہ صحابہ پاکستان جو کہ اَب اہلِ سُنّت والجماعت کے نام سے سرگرم ہے ،کے سربراہ نے بھی امریکہ سے جنگ کی خاطر چار لاکھ رضاکار،افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ دادِشجاعت دینے کے لئے پیش کرنے کے عزم کا اِظہار کیا۔
جُزوی طور پر تحریکِ طالبان پاکستان کے حملوں کی جغرافیائی تحدید کا تجربہ اُس وقت بھی کامیاب رہا جب پنجاب ا ور اسلام آباد میں تحریکِ طالبان کی کاروائیّوں کے لئے افرادی قوّت اور فنّی مہارتیں مُہیّا کرنے والی لشکرجھنگوی کی اعلٰی قیادت کو سہولتیں اورمراعات دے کر بڑی حد تک دہشت گردانہ سرگرمیوں میں تعاون فراہم کرنے سے بازرکھنے پر آمادہ کرلیاگیا۔ اگرچہ مالیاتی جرائم، اغواء برائے تاوان اور تاجروں اور کاروباری طبقے سے بڑی بڑی رقوم طلب کرنے کا سلسلہ نہیں روکا جاسکا ہے، اور آج بھی اس ضمن میں ہونے والے بڑے واقعات کے سرے وہیں جاملتے ہیں جیسا کہ لاہور سے اغواء ہونے اور بھاری تاوان کے عوض رہا ہونے والے کاروباری افراد، پنجاب کے شہید گورنرسلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر اورسابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کے اغواء کے واقعات۔گیلانی صاحب کی اکوڑہ خٹک میں سمیع الحق سے مُلاقات اور پھر انہی کے مشورے پر سعودی عرب کے دورے سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔
لہٰذہ اگر پنجاب اور اسلام آباد میں آزمائے گئے فارمولے کا دائرہ فاٹا اور پختون خواہ کے چند علاقوں کے استثناء کے ساتھ باقی علاقوں تک بڑھا کر کسی نہ کسی طرح طالبان کو دہشتگردانہ کاروائیّوں سے باز رکھنے میں کامیابی حاصل کربھی لی جاتی ہے اوراس کے عوض پاکستان طالبان کے ہاتھوں اپنے مقبوضہ علاقوں میں طالبان کی نیم خودمختار امارت میں عدم مُداخلت پراتّفاق کو قائم رکھتا ہے تو پھر بھی طالبان کے شہری علاقوں میں موجود نیٹ ورکس کے اغواء برائے تاوان، بھتّہ خوری، بینک ڈکیتیوں جیسے مالیاتی جرائم، اپنے کنٹرول کے علاقوں سے تعلّق رکھنے والے سرگرم مُخالفین کے قتل کئے جانے اوراپنے حمایتی گروہوں کو اقلیتی مکاتب فکر سے تعلّق رکھنے والے افراد کے ٹارگٹ کلنگ یا اجتماعی قتل کی کاروائیّوں میں تعاون فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
لیکن شاید پڑوسی مُلک کے آنے والے سیاسی منظرنامے میں انہی گروہوں کوبروئے کار لانےکی امّید پر اس حد تک دراندازی کو نظرانداز کیاجاتا رہے گاجوبہرحال اچھا شگون نہیں ہے۔۔