امریکہ۔۔۔۔۔آل سعود و صہونیت کا محافظ اعظم

syriya

جنگوں کا خاتمہ کرنے کا نعرہ بلند کرکے آنے والے اور مارٹن لوتھر کا کاسٹیوم پہن کر “عظیم خواب” دکھانے والے باراک حسین اوبامہ بش جونئیر کی کاپی ثابت ہونے والے اوبامہ کا خطاب سن رہا تھا-تہذیب بچانے کا نعرہ لگاکر بش عراق اور افغانستان پر چڑھ دوڑے تھے اور اوبامہ انسانی حقوق کی پامالی سے روکنے اور ان کے مطابق ہٹلر وقت سے شامیوں کو بچانے کے لیے شام پر چڑھائی کا اعلان کرہے تھے-جان کیری جو جنگ مخالف کردار کے طور پر ابھرے تھے وہ بھی کنڈولیزا رائس کا ماسک پہن کر بیٹھ گئے-سوچا اسی پر بات کی جائے اور مجھے زیادہ فکر اپنے ملک کی لگی کہ جہاں پر شام اور عراق میں مذھبی بنیادووں پر ہونے والی خون ریزی نے شیعہ سنی تقسیم کو گہرا کرنا شروع کردیا ہے-اور ایک کلاسی فائیڈ رپورٹ میں انٹیلی جنس حکام نے انکشاف کیا ہے کہ ججوں کو ان کے اہل خانہ کو اغواء کرنے کی دھمکی دےکر بہت سے دھشت گردوں کو ججز نے ضمانت پر رہا کرڈالا-امریکہ شام پر محدود جنگ مسلط کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے-امریکی سینٹ نے اوبامہ کو عراق پر محدود اور مخصوص ‌فضائی حملے کرنے کی اجازت دے ڈالی ہے-جبکہ کانگریس سے بھی یہی توقع ہے کہ وہ بھی شام پر ‌فضائی حملوں کی اجازت دے گی- امریکہ کے صدر باراک اوبامہ نے شام میں بشارالاسد کی حکومت پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام لگایا ہے-اور اس حوالے سے اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹوں کو بنیاد بنایا ہے-ایسی خفیہ رپورٹس فرانس نے بھی اوپن کی ہیں-اوبامہ،سیکرٹری خارجہ جان کیری اور امریکہ کے دیگر خارجہ امور کے زمہ داران کی تقریبا روز ہی ہونے والی پریس بریفنگز کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کا لب لباب یہ بنتا ہے کہ امریکہ کو شام میں انسانی جانوں کے ضیاع پر بہت افسوس ہے-اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال نے ان کی روحوں کو بے چین کردیا ہے-ان کے ضمیر نے ان کو کچوکے دینے شروع کردئے ہیں-اوبامہ آنے والی تاریخ کے مورخوں سے ڈر رہے ہیں-ان کے خیال میں اس قتل عام پر امریکہ کی خاموشی ان کو تاریخ میں برے لفظوں سے یاد کرنے کی روائت ڈال دے گی-جان کیری کہتے ہیں کہ بشارالاسد اس دور کا ہٹلر ہے-اس لیے شام کی حکومت کو سبق نہ سکھایا گیا تو یہ بہت بڑا بلنڈر ہوگا- ایک طرف امریکی حکام کی انسان دوستی اور امن کو لاحق خطرات کی چیخ و پکار ہے دوسری طرف مڈل ایسٹ میں امریکہ کے اتحادی ہیں-جن میں خلیجی ریاستوں کے بادشاہ جو کہ آنے والے ہر انقلاب سے خوفزدہ ہیں جن کو عوامی ابھاروں سے سخت خوف اور دھشت لاحق ہے وہ امریکہ کو بار بار دعوت دے رہے ہیں کہ وہ نہ صرف شام میں آگ اور خون کا نیا طوفان لیکر آئے بلکہ اسی بہانے سے ایران اور لبنان کی حزب اللہ کا بھی باب بند کردے-کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ مڈل ایسٹ میں “انقلاب بہار عرب”ایران اور حزب اللہ کی سازش ہیں-یہ رجیم جو اپنی اسلام پسندی کا ڈھونڈرا خوب خوب پیٹتے ہیں اخوان المسلمون کے انقلاب کو بھی برداشت نہ کرسکے کیونکہ اس کے منتخب صدر نے احمدی نژاد کو مصر بلایا اور پھر حماس کے ساتھ ایران کے تعلقات بڑھتے چلے گئے-شام کے اندر خلیج کی ریاستوں نے اپنی ساری طاقت جھونکی کیونکہ ان کو لگ رہا تھا کہ اگر شام میں ان کی ایجنٹ حکومت نہ آ‎سکی تو مڈل ایسٹ میں بحرین،کویت،سعودی عرب کے اندر جمہوری نظام کے قیام اور بادشاہتوں کے خلاف جو اصلاح پسند تحریک ہے وہ مزید طاقت اور حوصلہ پکڑے گی-اور ان کی حکمرانی کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچاسکے گا-جبکہ ترکی کا نام نہاد اسلام پسند حکمران امریکہ ،اسرائیل اور یوروپی یونین کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اور خطے میں اپنی چودھراہٹ کو پھر سے حاصل کرنے کے لیے میر جعفر کا کردار ادا کررہا ہے-اور مڈل ایسٹ کے یہ غاصب حاکم مڈل ایسٹ میں امریکی سامراج کو چیلنج کرنے والے ممالک کے اندر امریکہ کی غلام حکومتوں کے قیام کے لیے کسی اصول کی پرواہ نہیں کررہے- سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکمران طبقات کی جانب سے مڈل ایسٹ میں طاقت کا استعمال اور بندوق کے زور پر حکومتوں کی تبدیلی کے لیے لاکھوں لوگوں کی جانوں کے ضیاع اور لاکھوں افراد کے مہاجر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہونے اور پورے مڈل ایسٹ میں عوام کے درمیان مذھبی اور نسلی بنیادوں پر خانہ جنگی کی کیفیت کے پیدا ہوجانے کو اہمیت نہ دئیے جانے کی وجہ کیا ہے؟ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ مڈل ایسٹ میں اس وقت جو سیاسی اور سماجی تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں اس سے مڈل ایسٹ میں امریکہ کے سب سے بڑے دوست حاکم خاندان آل سعود کی بادشاہت کو سخت خطرات کا سامنا ہے-سعودی عرب کے حاکم جوکہ 70ء اور 80ء کی دھائی میں سنّی اسلام پسندوں کو اشتراکیت کے خلاف لڑنے کے لیے اپنے اتحادی بنانے میں کامیاب رہے تھے اب ان اتحادیوں سے اپنے رشتے ختم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں-اخوان،حماس سے اس کے رشتے ٹوٹ گئے ہیں-اور سعودی عرب مصر کی آمر حکومت کا پشتیبان بنا ہوا ہے-جبکہ اسرائیل سے جتنی ہم آہنگی آج سعودی عرب کی ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی-تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ سعودی عرب فلسطین میں امریکہ نواز محمد عباس کے حق میں اپنا وزن ڈالنے کی کوشش کررہا ہے-جبکہ دوسری طرف مڈل ایسٹ میں ایران،شام،حزب اللہ ،حماس امریکہ کے مکمل کنٹرول کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں_اور یہ وہ طاقتیں ہیں جو چین اور روس کو اس خطے میں اپنے پیر جمانے میں مدد دے رہے ہیں-امریکہ کو خلیج عرب و فارس میں اگر گہرے پانیوں میں چین اور روس کے داخلے میں مدد دینے والے کوئی گروہ نظر آتے ہیں تو وہ یہی ہیں-اس لیے امریکہ کے خیال میں ان عناصر کو لگام دینا بہت ضروری ہے- امریکہ،اسرائیل،خلیج عرب ممالک اور ترکی کا خیال یہ ہے کہ اگر شام میں ان کے حامی برسراقتدار آجاتے ہیں تو اس سے ایک طرف تو حزب اللہ کی سپلائی لآئن کٹ سکتی ہے-دوسری طرف حماس کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے-اور ایران کے گرد مزید گھیرا تنگ ہوسکتا ہے-جبکہ ترکی کا خیال یہ ہے کہ اس طرح سے وہ بھی اپنے ہاں کردوں سے نبٹ سکتا ہے-رجیم کی تبدیلی سے مڈل ایسٹ میں سرمایہ کی گروتھ کی امید بھی کی جارہی ہے- یہ وہ اصل وجوہات ہیں جن کی وجہ سے امریکہ ،یوروپ اور مڈل ایسٹ کے حاکم طبقات شام میں رجیم کی تبدیلی فوری طور پر لانا چاہتے ہیں-یہ حکمران طبقات بہت تھوڑے ہیں مگر یہ اپنے مفادات کے لیے عوام کے مفادات کی تباہی کو گوارا کئے ہوئے ہیں- خطے میں جس کنٹرول اور علبے کے خواب امریکی،آل سعود اور صہیونی دیکھ رہے ہیں وہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا-بلکہ پورے مڈل ایسٹ میں انارکی پھیلے گی-مزید خون بہے گا-مزید مہاجر کیمپ قائم ہوں گے-نسلی اور مذھبی بنیادوں پر مزید تصادم ہوگا-اور شام کی تقسیم کے خدشات بھی ہیں-شام کے تنازعے کی وجہ سے پہلے ہی عراق کے اندر شیعہ-سنی تقسیم بہت زیادہ گہری ہوچکی ہے-القاعدہ عراق میں ہزاروں عراقیوں کو ان کے عقیدے کی وجہ سے ہلاک کرچکی ہے-اس تنازعے کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہورہے ہیں-یہاں بھی فرقہ پسندی میں اضافہ عروج پر ہے-اور مذھبی بنیادوں پر تصادم کے شدید خطرات ہیں- امریکی سامراجیت،اسرائیلی صہونیت اور عرب آمریتوں کے باہمی گٹھ جوڑ کے خلاف عوام میں شعور اور بیداری پیدا کرنے کی ضرورت سب سے زیادہ ہے-ہمیں اس گٹھ جوڑ کی جانب سے تفرقہ بازی،دھشت گردی اور عوام کو تقسیم کرنے کی سازش کا بروقت ادراک کرنا ہوگا- پاکستان خطے میں بدلتی جیو پالٹیکل صورت حالات اور امریکی سامراجیت کے عزائم بد کا براہ راست نشانہ اور متاثرہ ہے-شام پر امریکی حملے کے امکانات سے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا سارا بوجھ عوام تک منتقل کیا جانا اس کی پہلی علامت ہے-دوسرے مرحلے پر جب شام اور مڈل ایسٹ میں امریکہ کے اتحادیوں کو ان کے مخالف نشانہ بنائیں گے تو اس کا ایک لازمی نتیجہ مذھبی بنیادوں پر منافرت اور تقسیم کی صورت نگلے گا-ماضی میں پاکستان مڈل ایسٹ کے ملکوں کی باہمی پراکسی جنگوں کا میدان بنتا رہا ہے-اور اس کو میدان بنانے میں ہماری اسٹبلشمنٹ کے اندر ضیاءالحقی باقیات کا بڑا ہاتھ رہا ہے تو اس بار بھی ایسا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں-خاص طور پر عرب آمریتوں کے پاکستان میں فرقہ پرستوں اور کئی سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے خدشات کے حقیقت بننے کے کافی امکانات ہیں-پاکستان کو مڈل ایسٹ کی پراکسی جنگوں کا میدان بننے سے روکنا ہی سب سے بڑا چیلنج ہوگا-لیکن جب پاکستان کے اندر عوام کی اکثریت سخت معاشی مشکلات کا شکار ہے-اور حکومت کی جانب سے بھی چند درجن سیٹھوں کو خوش کرنے کے لیے سارے بوجھ عوام تک منتقل کئے جارہے ہوں اور غربت کی شرح میں بے انتہا اضافہ ہورہا ہو-اور ترقی کا سارا رخ بگ کارپوریشن کےمنافعوں کے لیے ہو تو ایسے میں وبال کو اٹھنے سے ہم روک نہیں سکتے-باہر سے آنے والا پیسا جو پراکسی کو بڑھانے کے لیے ہو اس کی طرف کشش سے بھی روکا نہیں جاسکتا-اور جبکہ پاکستان میں ایسے فرقہ پرست نیٹ ورکس بھی قائم ہوگئے ہوں جن کو چلانے کے لیے کافی سرمایہ کی ضرورت ہے تو ہم امید کم ہی رکھ سکتے ہیں-پورے ملک میں گینگ وار کلچر جنم لے رہا ہے-اور یہ کلچر بذات خود غربت کی خلیج وسیع ہونے اور طبقاتی تفریق کے گہرے ہونے کی علامت ہے-پاکستان میں جب جمہوری حکومتیں اور اس سے پہلے عسکری حکومتیں بھی کچھ ڈیلیور کرنے سے قاصر رہی ہیں اور وہ نااہل اور بدعنوان دونوں ہی ثابت ہوئی ہیں تو ایسے میں انارکی کے جڑ پکڑنے بہت زیادہ ہیں-اور مجھے پاکستان کے سیاست دانوں اور عسکری قیادت میں کوئی بھی اتنے بڑے وژن کا حامل نظر نہیں آرہا کہ وہ اس انارکی کے خطرے سے نمٹ ہی سکے-

Comments

comments

Latest Comments
  1. تعبیر خواب
    -