فرقہ واریت کون پھیلا رہا ہے؟
میں ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے صحافی ڈگلس اور ایک روسی نژاد خاتون صحافی کے ساتھ ضلع بھکر گیا اور وہاں جاکر ہم نے بھکر،کوٹلہ جام اور پنج گرائیں کا دورہ کیا-اس دورے کے دوران ہم بھکر کی انتظامیہ ،عام شہریوں،تاجروں،سول سوسائٹی کے ممبران اور شیعہ،سنی ،دیوبندی،اہل حدیث کے جید علمائے کرام سے بھی ملے-اور اسی دوران ہم نے آئی بی،سپیشل برانچ کے مقامی اہل کاروں سے بھی حال احوال کیا-
بھکر ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی سرحد پر واقع ہے-اور اس ضلع کی مذھبی ہم آہنگی کی فضاء ڈیرہ اسماعیل خان میں فرقہ وارانہ عسکریت پسندی میں اضافے اور اس ضلع کے ساتھ جنوبی وزیرستان کے اندر تحریک طالبان پاکستان اور پنجابی طالبان کے مراکز ہونے کی وجہ سے بھی منافرت اور تشدد میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے-اس اضافے کا ایک ثبوت بھکر میں فرقہ وارانہ تصادم میں ایک درجن سے زائد جانوں کے چلے جانے کی صورت نکلا ہے-
سوال یہ جنم لیتا ہے کہ بھکر میں حالیہ خونین تصادم کیا شیعہ-دیوبندی عام آبادی کے درمیان تناؤ اور تنازعہ کے نتیجے میں ہوا؟
اس سوال کا جواب نفی میں دیا جاسکتا ہے-ہم نے جامعہ بنوریہ سے فاضل ایک مفتی سے رابطہ کیا تو ان کا جواب یہ تھا کہ
“انتہاپسندی اور دھشت گردی میں ملوث افراد اور گروہ کا تعلق علماء حق سے نہ ہے-یہ لوگ تو فرائض شریعت سے نابلد ہیں-اور ان کو یہ بھی نہیں پتا ہے کہ دارالسلام اور ایسے ملک جن سے آپ کے معاہدے ہوں اور ان سے آپ حالت جنگ میں نہ ہو تو وہاں خود سے قتال کی جانب نکل جانا گمراہی ہے-پاکستان دارالسلام ہے یہاں پر ہتھیار اٹھانا بغاوت اور اطاعت امارت اسلامی سے انحراف ہے-اور جو بھی اس ملک کا شہری ہے چاہے وہ کسی مذھب سے تعلق رکھتا ہے اس کے قتل کی ترغیب دینا یا اس کےخلاف بندوق اٹھانا ریاست سے بغاوت کے زمرے میں آتا ہے-ریاست کو اس کے خلاف ایکشن لینا چاہئے-بھکر تو کیا پورے ملک میں عوام کے درمیان مسلک اور فرقہ کی بنیاد پر خلیج اتنی نہیں ہے کہ وہ کھلی خانہ جنگی میں بدل جائے-بلکہ یہ اقلیتی تکفیری گروہ ہیں جو عوام کو ایک دوسرے سے لڑانے اور ملک میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر فسادات کرانے کے درپے ہیں”
ان عالم دین نے بہت واشگاف الفاظ میں کہا
“علمائے دیوبند کا اتفاق اس امر پر ہے کہ جولوگ آج کل تکفیری کہے جاتے ہیں ان کا جمہور دیوبند سے کوئی تعلق نہ ہے-اور جو پاکستان کو دارالحرب قرار دیتا ہے وہ گمراہی کا شکار ہے”
ہمیں بھکر،کوٹلہ جام اور پنج گرائیں کے دکانداروں،محلے داروں اور عام شہریوں نے بتایا کہ بھکر میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مل جل کررہے ہیں-اور ان کے درمیان کبھی ایسا تناؤ نہیں ہوا جو کھلے تصادم پر منتج ہوتا-وہ سب اس کو بیرونی حملہ آوروں کی کارستانی گردان رہے تھے-
ہمیں اپنے زرایع سے معلوم ہوا کہ پنج گرائیں کے اندر سعید نامی ایک آدمی ہے جس نے شہباز شریف کے مقابلے میں بھکر سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تھا-جبکہ شہباز شریف اس حلقے سے بلامقابلہ منتخب ہونا چاہتے تھے-سو سعید نے فورتھ شیڈول سے اپنا نام خارج کرنے،ملک اسحاق کو ضمانت پر رہا کرنے اور بھکر میں پولیس پروٹیکشن دینے جیسی شرائط سامنے رکھی جو منظور کرلی گئیں-اور اس طرح سے شہباز شریف نے خود کو بلامقابلہ جتوانے کی چاہ میں کالعدم تنظیم اور پوٹینشل انتہاپسندوں کے ساتھ مصلحت پسندی اور موقعہ پرستی کے ساتھ اتحاد کرلیا گیا-اور بھکر کی مذھبی ہم آہنگی کی فضاء کو خراب کرنے کے امکانات پیدا کردئے گئے-
سعید جیسے کئی اور فورتھ شیڈول میں آنے والے لوگوں کو آزادانہ طور پر فرقہ وارانہ منافرت اور مسلکانہ اختلافات کو بڑھکانے کی اجازت دے دی گئی-کہا جاتا ہے پنج گرائیں ٹرنیڈ عسکریت پسندوں کا گڑھ ہے-اور بھکر کے اندر مسلح افراد اسی جگہ سے پولیس پروٹیکشن میں داخل ہوئے-ہمیں ایک تصویر بھی اس ضمن میں موصول ہوئی-
دوسری طرف اہل تشیع کی مجالس اور جلسوں کے اندر بقول ایک شیعہ عالم دین کے جاہل ذاکروں اور جاہل مجلس پڑھنے والوں نے تاریخ کے پرانے تنازعوں کو آگ لگانے کا زریعہ بنا رکھا ہے-اور آج کل سوشل نیٹ ورک سائیٹس اور موبائل پر متبرک اور مقدس ہستیوں کے بارے میں نازیبا کلمات اور تصاویر کو ارسال کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے-
شیعہ عالم کہتے ہیں جیسے اہل سنت کے نام پر نیم مولویوں نے نفرت کا بازار گرم کررکھا ہے ایسے ہی اہل تشیع میں جاہل ذاکروں نے منافرت کو تیز کررکھا ہے-ہر دو اطراف کے سنجیدہ اہل علم،مفتیان کرام،علم تفسیر،حدیث و فقہ کے شناور اور عالم سب کو پس پردہ دھکیل کر خام فکر کے حامل نابالغ حکماء کو دین پر اتھارٹی بناکر پیش کیا جارہا ہے-شیعہ عالم کا کہنا تھا کہ ایسے لوگ فرقہ پرستی کا زھر پھیلانے میں ملوث ہیں جن کو مڈل ایسٹ اور خلیج فارس کی ان قوتوں نے ریال،تومان،ڈالر کی لالچ ریکر خرید رکھا ہے جو محض اپنے اقتدار اور وسائل پر قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے فرقہ وارانہ جھنڈوں کو بلند کئے ہوئے ہیں-اور پاکستان کو وہ ان خطوں کے ملکوں کی باہمی جنگ کا میدان بنائے ہوئے ہیں-
ان شیعہ عالم کی بات سے اہل سنت بریلوی سے تعلق رکھنے والے علماء بھی اتفاق کرتے ہیں-مجھے بھکر بار ایسوی ایشن ،وہاں کی پی ایم اے کے اراکین،سماجی ورکروں نے کہا کہ شیعہ –سنی،یا شیعہ –وہابی یا شیعہ دیوبندی تصادم موجود نہیں ہے-بلکہ دونوں اطراف کے اقلیتی انتہا پسند ہیں جو اس آگ کو بھڑکانے میں مصروف ہیں-
یہاں پر بھکر ضلعی انتظامیہ کے رویئے پر بھی ہر سمت سے بات ہوئی-لوگ سب سے بڑا سوال یہ اٹھاتے ہیں کہ پولیس نے ایک کالعدم تنظیم کے 400 سے زائد مسلح لوگوں کو ایسے علاقے (حسینی چوک)کی جانب جانے کیوں دیا جہاں اس مسلک کے لوگ موجود تھے جن کے خلاف یہ تنظیم مسلسل منافرت پھیلانے کا کام کررہی ہے-پھر پنچ گرائیں سے مسلح لوگ کیسے حملہ کرنے اس علاقے میں آپہنچے-ڈی پی او کے کردار کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا-
سپیشل برانچ اور آئی بی کے مقامی اہل کاروں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے کئی ماہ سے بھکر میں انتہا پسندوں کی سرگرمیوں اور بھکر کے اندر مذھبی منافرت کے ممکنہ نتائج بارے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا تھا-لیکن اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا-اپنے زرایع سے خبر ملی کہ ایک حساس ادارے نے پنجاب کے اندر فرقہ ورانہ بنیادوں پر خانہ جنگی کے منصوبے بنائے جانے اور پنجاب میں شیعہ کا بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے-
کیا پنجاب حکومت اس خطرے سے نمٹنے کے لیے کامیاب سٹریٹجی تیار کرنے کی پوزیشن میں ہے؟بھکر ،اسلام آباد میں ہونے والے واقعات کے بعد ڈی پی او آفسز،ڈی سی او آفسز اور تھانہ لیول پر مختلف مکاتب فکر اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو جمع کرنے کا سلسلہ جاری ہے-گلی ،محلے اور بازار کی سطح پر تصادم کو روکنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں-
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا پنجاب حکومت ،وفاق اور دیگر صوبائی حکومتیں اپنے اپنے علاقے میں کالعدم تنظیموں کے تنظیمی روٹس کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کریں گی؟کیا ان لوگوں کو دوبارہ فورتھ شیڈول میں لایا جائے گا جو سیاسی بنیادوں پر اس شیڈول سے نکال دئے گئے-
کیا ان فورتھ شیڈول اور بی کیٹیگری افغان ٹرینڈ لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے اور ایسے تمام ذاکروں اور مولویوں کی ذبان بندی اور ان میں سے ذیادہ خطرناک لوگوں کی نظر بندی جیسے اقدامات اٹھانے پر موجودہ حکومت راضی ہوگی؟
ایسے تمام عناصر جو پاکستانی سماج کے اندر فرقہ وارانہ بنیادوں پر سول وار کی جانب لیجانے والے مذموم مقاصد رکھتے ہیں ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی جہاں اشد ضرورت ہے وہیں پر تمام مسالک کے جید علمائے کرام اور مفتیان عظام اور مراجع تقلید کو آگے بڑھ کر جاہلوں اور نادانوں اور چند ٹکوں کی خاطر لوگوں میں نفرت پھیلانے والوں کو بے نقاب کرنا چاہئے-