مسلم پاکستان میں کافر یوٹیوب – عمید ملک
ستمبر ٢٠١٢ میں ایک متنازعہ فلم کو بنیاد بنا کر حکومت پاکستان نے یوٹیوب کو پاکستانی صارفین کے لئے بند کر دیا۔ آسان الفاظ میں ہیروئین، چرس گانجا، خطرناک ہتھیار، بارود، خودکش جیکٹ اور اسی طرح کی خطرناک اور تباہ کن اشیاء کی طرح یوٹیوب کو بھی اہلیانِ پاکستان کے لئے شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مندرجہ بالا اشیاء کی طرح یوٹیوب بھی ہمارے سماج میں ویسے ہی عام ہے جیسے متذکرہ بالا منشیات اس ملک کے کونوں کھدروں میں اور خود کش جیکٹیں ہماری مساجد میں! میں اکثر سوچتا ہوں آخر یوٹیوب بین کر کے حکومت نے کس سے بدلہ لیا؟
کیا ملاؤں کو اس متنازعہ فلم دیکھنے سے باز رکھنے کی لیے جو پہلے ہی سرکاری طور پر منائے گئے “یوم عشق رسول ” میں ٢٠ لوگوں کو اپنی عاشقی کی بھینٹ چڑھا کر یہ ثابت کر چکے تھے کہ وہ کفر پروف ہیں؟ یا حکومت بذات خود یوٹیوب سے کوئی بدلہ لینا چاہتی تھی جسے تمام عالم اسلام ، بشمول سعودی عرب مارکہ اصلی اسلام والوں نے بھی، اپنے انٹرنیٹ صارفین کے لئے کھول دیا تھا۔ یوٹیوب انتظامیہ اب بھی اس فلم کو ہٹانے سے ایسے ہی انکاری ہے جیسے امریکا ڈرون حملے بند نہ کرنے پر بضد! سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ بنی کہ یوٹیوب کو پاکستان میں بلاک کرنا پڑا۔
یوٹیوب کی بندش دراصل ہمارے معاملات کو کنٹرول کرنے کی اہلیت کے فقدان اور اس سفلے پن کی غماز ہے کہ جب بھی کسی مسئلے کا کوئی حل ہمارے پاس نہ ہو تو ہم اس پر پابندی لگانے کو ترجیح دیتے ہیں کہ شاید ایسے راوی چَین ہی چَین لکھنے لگے گا۔ یوں لگتا ہے کہ قومی اتفاق ہو چکا ہے کہ ہم نا اہل ہیں ، کسی مسئلے کا کوئی بہتر حل نہیں نکال سکتے اور واحد حل راہِ فرار ہے۔ اس مزاج کی بہترین مثال ماضی میں بسنت کے تہوار کے ساتھ سلوک میں دیکھی جا سکتی ہے۔
بہار کی خوشی کا یہ تہوار، بسنت صدیوں پرامن طریقہ سے منایا جاتا رہا، مگر جوں جوں پاکستان “اسلامی” ہوتا گیا اورکلاشنکوف ‘مردانگی’ کی علامت سمجھی جانے لگی توں توں بسنت کا تہوار بھی خطرناک ہوتا گیا۔ مذہبی ٹھیکیداروں نے انتظامی خامیاں ٹھیک کرنے کی بجائے تہوار کی بندش کو زیادہ آسان اورقابل عمل خیال کیا۔ اگرچہ بسنت کے تہوار کے خلاف پروپیگنڈا مذہبی بنیادوں پر شروع کیا گیا تھا مگر پھر بھی لوگ اس کافر تہوار کو منانے سے باز نہ آئے۔ آخر اسے خونی تہوار قرار دیا گیا اور میڈیا کے شدید دباؤ پر بند کر دیا گیا۔ تاہم انتظامی معاملات اور “انسانی جانوں کے تحفظ” (پاکستان میں یہ الفاظ مذاق ہی لگتے ہیں) کے پیش نظر بند کیا گیا یہ تہوار تو دوبارہ شروع کیا جا سکتا ہے،مگر یوٹیوب خالصتا ً مذہبی غیرت و حمیت کا معاملہ بن چکا ہے، یا اسے بنا دیا گیا ہے۔
پاکستان کی مختصر تاریخ پر نظر ڈال کر سمجھا جا سکتا ہے کہ جو بھی قوانین مذہب کی مقدس چادر اوڑھا کر بنائے گئے انھیں پھر ختم نہ کیا جا سکا۔ الٰہی قوانین حرف آخر ہوا کرتے ہیں اور آپ ایک قانون یا انتظامی حکم کو الٰہی قانون یا حکم بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کریں گے تو کون کافر انہیں تبدیل کرے؟! یہ وہ بلی ہے جس کے گلے میں کوئی گھنٹی نہیں باندھ سکتا۔
پس یوٹیوب کی بندش کو بھی ضیاالحق سے ڈیڑھ دہائی بعد آپ انہی ضیائی قوانین کی فہرست میں شامل کر لیں جن کو ختم کرنے کی بات کرنے والے کا مقدر گولی ہوگی اور قاتل قومی ہیرو۔۔ نہ یوٹیوب مسلمان ہوگی اور نہ ہی کافر کو ہم اپنے گھر گھسنے دیں گے۔ یہاں مذہبی ٹھیکیداروں کو اپنی کامیابی پر خوش ہونا چاہیے تھا کہ کفر کے خلاف ایک اور فتح حاصل ہوگئی مگر جناب انٹرنیٹ کی دنیا حقیقی دنیا سے الگ ہے، یہاں ڈنڈے کے زور پر بات نہیں منوائی جا سکتی بلکہ اس کے قانون الگ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں یوٹیوب اب بھی ویسے ہی ہر کمپیوٹر پر چلتی ہے ،پراکسی سائٹس اور سافٹ وئیرز زندہ باد!
پارن (Porn) دیکھنے میں بھی ہم ویسے ہی دنیا میں نام کما رہے ہیں مگر ساتھ ساتھ مذہبی ٹھیکیداری بھی جاری و ساری ہے۔ ان بندشوں سے سوائے معاشرے میں مزید منافقت اور عدم برداشت کے پھیلاؤکے، کچھ نہیں بدلا۔ مذہبی ٹھیکیداروں کی مذہبی جنونیت میں اضافی ہوا ہے اوران کے حوصلے مزید بڑھے ہیں۔
انٹرنیٹ ایک آزاد دنیا ہےجہاں لوگ اس ملک کے پرتعفن اور گھٹن زدہ ماحول سے فرار ہو کر اپنی مرضی کی تفریح کے لئے آتے ہیں۔ یہاں کافر مسلم کہنے سے کام نہیں چلتا، یہاں حلال فیس بک کے ڈھکوسلے نہیں چلتے، یہاں صارف کی مرضی چلتی ہے۔ آپ منبر پر اپنا مذہبی نعرہ لگا کر لوگوں کو اپنی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور تو کر سکتے ہیں مگر بند کمروں کا قانون مختلف ہوا کرتا ہے۔اسی لئے ہم نے دیکھا کہ یوٹیوب پر پابندی بے کار رہی اور لوگوں نے پھر بھی اسے استعمال کرنا نہ چھوڑا کیونکہ یوٹیوب مولوی کے ذہن کی طرح کوئی بند گلی نہیں بلکہ معلومات کی وسیع دنیا ہے۔
یہ تو ایسے لائبریری ہے جس کی نظیر تاریخ میں کہیں نہیں ملے گی اور علم کے اس خزانے کے دروازے اپنی عوام کے لئے بند کرنا اور انہیں دوغلی زندگی پر مجبور کرنا نہایت لغو امر ہے۔ اگر یوٹیوب پر پابندی یوں ہی برقرار رہی تو اور کچھ نہیں ہوگا بس یہ مولوی پابندی لگوانے لیے مزید سائٹس ڈھونڈے گا، اس عمل کا آغاز ہو بھی چکا ہے اور اب ٹورنٹ سائٹس بھی بند کی جارہی ہیں۔ جب تک اس منافقت اور جہالت کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا ہاں قوم پراکسی سائٹس کی غلام ضرور ہو جائے گی۔۔۔
Source :
Comments
Tags: Youtube