Ahmad Qureshi’s website justifies Shia genocide in Pakistan

This hate-Shia article published on Ahmed Qureshi’s website (PKKH) is a must read to understand why certain pro-Taliban elements are helping Deobandi Jihadist militants (of Deobandi Taliban and Deobandi Sipah Sahaba) to kill Shia Muslims in Pakistan. In the aftermath of the recent twin suicide attacks by Deobandi terrorists on Shia Muslims in Parachinar in which more than 75 Shias were killed, this notoriously pro-ISI website blames Shia Muslims of Pakistan, and also Iranian government, for the suffering of Sunni Muslims and Pakistan army. It also claims that it were Shias who staged suicide attacks on themselves to defame Pakistan army.

This LeJ style hate propaganda against Shias and Toori Pashtuns of Parachinar is brought to you by his blog PKKH.

1 2 3 4
Published On: Tue, Jul 30th, 2013

پاڑہ چنار دھماکے اور پاکستانی فوج کے خلاف پروپیگنڈہ

 

 

شہر پر قبضے کے خواب دیکھنے والوں کے ہاتھوں پاکستانی فوج کے خلاف نفرت اور پروپیگنڈے کے لئے اندر ہی اندر سے بہت کچھ ہوسکتا ہے جس پر ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے۔

Parachanar Bomb Blast

کوہِ سفید (سپین غر) کے برفیلے پہاڑوں کے دامن میں آباد شہر پاڑہ چنار کو اگر پاکستان کا سویٹزرلینڈ نہ کہا جائے تو اس کی خوبصورتی کے ساتھ ناانصافی ہوگی، اور اس کی تائید وہ لوگ ضرور کریں گے جو اس شہر سے تعلق رکھتے ہیں یا وہاں رہ چکے ہیں۔ پشاور کے جنوب میں واقع یہ شہر کرم ایجنسی کا صدر مقام ہے، اور پاکستان کا کابل سے قریب ترین شہر جس کی سرحدیں صوبہ پکتیا اور افغانستان کے مشہور تورا بورا پہاڑی سلسلوں سے ملتی ہیں۔ پاڑہ چنار میں پاڑہ چمکنی (جن کے نام پر یہ شہر ہے)، منگل، جاجی، طوری، بنگش، مقبل، اورکزئی اور بہت سے پشتون قبائل آباد ہیں، جبکہ یہاں پر کچھ سکھ اور عیسائی بھی عرصۂ دراز سے آباد ہیں، اور سالہاسال سے باوجود کچھ تلخیوں کے ان سب قبائلیوں نے آپس میں شیر و شکر رہنے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔ اور اگر کبھی کچھ تلخیاں آبھی جاتیں تو غیور مشران جرگے کی مدد سے حل کرلیتے اور باعزت نوجوانان پھر اُس فیصلے کو دل وجاں سے قبول کرلیتے۔ اب حالات کافی مختلف ہو گئے ہیں پر جرگے کی اہمیت ابھی بھی قبائلیوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

پاڑہ چنار میری جائے پیدائش ہے، جہاں میں نے اور مجھ جیسے کئی قبائیلیوں نے زندگی کی کئی دہائیاں گزاری ہیں۔ تاہم یہ شہر اور اس کے مضافاتی گاؤں کچھ سالوں سے فرقہ پرستی کی آگ میں جل رہے ہیں، آگ بھی اتنی سخت اور ظالم کہ کچھ لوگوں کو تو زندہ کنکریٹ کرش مشین میں ڈال کر اُن کا قیمہ بنایا گیا اور کچھ پر پٹرول ڈال کر جلا دیا گیا، جس کے بعد پاڑہ چنار شہر میں محصور سُنی قبائل (جو کہ اقلیت میں تھے) نے سنہ 2007ء میں وہاں سے نقل مکانی کرلی تاکہ حالات ٹھیک ہونے کے بعد واپس ہوں۔ لیکن اُن کے جانے کے بعد وہاں اُن کی املاک کو لوٹنے کے بعد جلادیا گیا تاکہ اُن کی واپسی کے سارے راستے بند ہوجائیں اور ایسا ہی ہوا، پاڑہ چنار کے سُنیوں کے رہے سہے بھروسے اور اعتماد کو خاصی ٹھیس پہنچی اور جواباً اکثر مخالفین کی راہ چلتی گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس سب کے باوجود سُنیوں کی اکثریت پاڑہ چنارمیں سُنی مخالف تنظیموں کے خلاف آپریشن نہ کرنے اور پاکستانی فوج کی جانب سے شروع کئے گئے “آپرشن کوہِ سفید” کو صرف صدہ شہر کے مضافاتی علاقوں (سینڑل کرم ایجنسی) تک محدود کرنے پرحکومت اور پاکستانی فوج سے سخت نالاں ہیں، تاہم اس خیال سے خاموش ہیں کہ شاید پاکستانی فوج ایک وقت میں کئی محاذوں پر مصروف ہے اور اس کو وقت آنے پر پاڑہ چنار اور اسکے مضافاتی دیہات زیڑان، پیواڑ (اپر کرم ایجنسی) میں آپریشن کے لئے وقت مل جائے گا تاکہ اُن کی واپسی کا راستہ ہموار ہوسکے، اور یہ انتظار تا حال جاری ہے تاکہ اُن کی باعزت واپسی کا راستہ ہموار ہو۔

پاڑہ چنار شہر میں ایف سی ہیڈ کوارٹر، پاک افواج کے ایک رجمنٹ اور مقامی انتظامیہ کی موجودگی کی وجہ سے حالات قابو میں تھے ، لیکن سنہ 2007ء کے بعد ان کی موجودگی کے باوجود بیرونی امداد سے مقامی سطح پر بنائی گئی عسکری تنظیموں (مہدی ملیشیا، حزب اللہ، بقیۃ اللہ یونٹ اور حُسینی لشکر) نے حفاظتی انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا اورکچھ سالوں تک شہر میں من مانی کرتی رہیں جو کہ ظاہر ہے حکومتی رٹ (writ) کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا، اور ساتھ ساتھ ایسے اقدام اُن لوگوں کے واپس آنے پر بھی سوالیہ نشان لگاتے تھے جو واپسی کی راہیں ہموار کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ تاہم پاکستانی فوج نے ایک سال قبل یہ کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا کیونکہ مصدقہ اطلاعات اور مقامی لوگوں کے مطابق کچھ عناصر نے اس عرصے میں پاکستان کے جھنڈے ایک خاص سازش کے تحت اُتار کر وہاں نیٹو کے جھنڈے لگا دئے تھے، اور نیٹو کی طرف سے مداخلت کی درخواستوں کی دھمکی بار بار حکومت کو دی جانے لگی تھی، اور یہ واقعہ بھی مشہور ہو رہا تھا کہ ایک دن جب ایف سی اور آرمی کے اہلکار سابقہ سینیٹر عابد حُسین کو گرفتار کرنے اُن کے مدرسے پہنچے تو چاروں طرف سے آرمی اور ایف سی کا اُن کے ذاتی ملیشیا نے گھیراؤ کرلیا اور اُن کو گرفتاری سے بچالیا، ان سب واقعات سے بغاوت کی بو آرہی تھی، بہرحال آرمی کے کنٹرول نے سب کئے دھرے پر پانی پھیر دیا۔ اور فوج کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا ظاہر ہے اہل تشیع کے مہدی ملیشیا اور مقامی حزب اللہ کے لیڈران کو ہضم نہیں ہوا ہوگا تبھی اس کے ساتھ ہی شہر میں حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ ہر حملے کے بعد اُنگلیاں پاکستانی فوج پر اُٹھا کر سیکیورٹی پھر سے اپنے ہاتھ میں لینے کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں، اور الزام سُنیوں پر لگنا شروع ہوجاتا ہے حالانکہ پاڑہ چنار میں اس وقت ایک بھی سُنی گھرانہ آباد نہیں۔ اور عقل و دانش سے عاری لوگ یہ سوچنے کی کوشش تک نہیں کرتے کہ جب اس شہر میں سالوں سے سُنی آباد تھے تب اہلِ تشیع پر کوئی خود کش حملہ کیوں نہیں ہوا؟

سنہ 2007ء کی فرقہ وارانہ لڑائی بھی اسی بنیاد پر لڑی گئی کہ وہاں کے مقامی سُنیوں پر عسکریت پسند اور دہشت گرد طالبان کے ساتھ گٹھ جوڑ کے بے بنیاد الزامات لگائے گئے جو کہ آج تک ثابت نہ ہو سکے۔ دراصل سنہ 1979ء کے بعد کے پاکستان میں تحریک جعفریہ کے رہنما عارف الحسینی کا پاڑہ چنار سے تعلق ہونے کے بعد پاڑہ چنار پاکستان بھر میں فرقہ وارانہ دہشت گردوں کیلئے لانچنگ پیڈ بن گیا، اور اب سُنیوں کے وہاں سے جانے کے بعد مقامی شرپسندوں کی آنکھوں میں پاکستانی فوج کھٹک رہی ہے، اور دن کو خواب دیکھنے والے شاید یہ خواب دیکھ رہے ہوں کہ ان دھماکوں کی آڑ میں آرمی سے کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے لئے ایران اور شمالی افغانستان کی جانب راستہ ہموار کیا جائے، تبھی تو ہر حملے کے فوراً بعد پاکستانی فوج کے خلاف ہرزہ سرائی شروع ہوجاتی ہے جو کہ ذمہ دار اداروں کے لئے پریشانی کا باعث ہونا چاہئے، اور ان حملوں کے پیچھے کار فرما افراد کو بھی بے نقاب ہونا چاہئے۔ کیا پتہ یہ سب ایک فرقے کی طرف سے پاکستانی فوج کی موجودگی کے خلاف سازش کے ناپاک منصوبے کے تحت ہورہا ہو جس میں غریب اور قیمتی جانوں کو ایندھن بنایا جا رہا ہے! کیونکہ جس شہر میں ایک عدد سُنی بھی نہیں رہ رہا اور شہر کے تمام داخلی راستے پاک فوج کے جوانوں کی نگرانی میں ہوں وہاں خودکش حملہ آور کا داخل ہونا یقیناً ایک ناممکن سی بات ہے، البتہ شہر پر قبضے کے خواب دیکھنے والوں کے ہاتھوں پاکستانی فوج کے خلاف نفرت اور پروپیگنڈے کے لئے اندر ہی اندر سے بہت کچھ ہوسکتا ہے جس پر ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے۔

Tags:  |  |  |  | 

 

About the Author

 – belonging to Parachanar, works in UAE for an Engeneering Company. He is a keen observer of ongoing situations in FATA, Pakistan, he tweets @itsme_Baseer

http://www.pakistankakhudahafiz.com/opinion/%D9%BE%D8%A7%DA%91%DB%81-%DA%86%D9%86%D8%A7%D8%B1-%D8%AF%DA%BE%D9%85%D8%A7%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%81%D9%88%D8%AC-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D9%84/

Comments

comments

Latest Comments
  1. Samad Khan Mangal
    -
  2. Zia
    -
  3. mughees ahmad tariq
    -
  4. mughees ahmad tariq
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.