کتاب ،قلم سے خوفزدہ لوگ

Qalam Drone

کتاب اور قلم سے حوفزدہ قبیلے

لیل و نہار/عامر حسینی

12 جولائی 2013 سہ پہر میں اقوام متحدہ کے ہال میں یوتھ اسمبلی ہوئی جس میں ترقی پذیر ملکوں کے سو کے فریب نوجوان وفد شریک ہوئے-اس دن پاکستان کے علاقے سوات میں دھشت گردوں کے ہاتھوں نشانہ بننے والی ملالئی یوسف زئی کا سولہواں جنم دن تھا-یہ تقریب برطانیہ کے ڈیوڈ کیمرون کی ذاتی کاوشوں سے منعقد ہورہی تھی-ملالئی یوسف زئی اس تقریب کی ہیروئین تھیں-

ملالئی یوسف زئی نے اس روز گلابی رنگ کا سوٹ جس پر سلمہ ستارہ کا کام ہوا تھا زیب تن کررکھا تھا-سر پر سکارف تھا-اور کندھوں پر گلابی رنگ کی وہ شال تھی جو ملالئی یوسف زئی کو شہید بے نظیر بھٹو نے ہدیہ کی تھی-اس گہری رمزیت اور علامت کے ساتھ ملالئی یوسف زئی یو این کے اندر تقریر کرنے کے لیے کھڑی ہوئی-

اس دن پوری دنیا کی نظریں ملالئی یوسف زئی کے خطاب پر لگی ہوئی تھیں-پوری دنیا کے اخبارات،رسائل ،جرائد،ریڈیو ،ٹی وی کے کیمرہ مین اور رپورٹرز اس تقریب کی کوریچ کے لیے نیویارک میں پہنچے ہوئے تھے-جبکہ پوری دنیا کے اکثر شہروں میں بڑی سکرینیں لگاکر ملالئی کی ت‍قریر سننے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا-میں نے بھی یہ تقریر انٹریٹ پر براہء راست دیکھی-سوات سمیت خیبر پختون خوا کے اندر سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق وہاں دھشت گردوں کے خوف سے بڑی سکرینیں تو نہیں لگیں لیکن گھروں ،دکانوں،ٹی وی سٹالوں پر بی بی سی ،فاکس نیوز سمیت غیر ملکی نیوز چینل پر اس تقریب کو ہزاروں خاندانوں نے براہ راست دیکھا-جبکہ افسوس کی بات ہے کہ اس تقریب کی کوریج میڈیا کے ایک حصّے نے اس طرح سے نہیں کی جس کی یہ حق دار تھی-اور بعض اخبارات نے اس کو تین کالمی شہ سرخی کے ساتھ شایع کرنا پسند کیا-

ملالئی یوسف زئی کی تقریر بہت نپی تلی اور جاندار تقریر تھی-یہ تقریر ظاہر کرتی ہے کہ اپنے اوپر ہونے والے حملے نے ملالئی کو کس قدر بالغ کرڈالا ہے-ملالئی یوسف زئی نے اس تقریر کے دوران جو باتیں کیں وہ سب اہم ہیں-لیکن ان کا یہ کہنا بہت اہم تھا کہ دھشت گرد قوتیں اور بندوق والے کتاب ،قلم اور علم سے خوفزدہ ہیں-اور یہ تین چیزیں اگر عورتوں کے پاس آجائیں تو ان کے خوف میں اور اضافہ ہوجاتا ہے-وہ عورتوں کو کتاب،قلم اور کاپی کے ساتھ نہیں دیکھ سکتے –ان کا لڑکیوں کو اسکول جاتے دیکھنے سے خوف مزید بڑھ جاتا ہے-اسی لیے وہ اسکول،کالج جانے والی لڑکیوں پر حملے کرتے ہیں-ان کے سکول و کالج تباہ کردیتے ہیں-اور پورے سماج میں خوف پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں-

ملالئی جس دن یہ تقریر یو این میں یوتھ اسمبلی میں کررہی تھیں تو اس دن پاکستان میں عائشہ صدیقہ جوکہ معروف دفاعی تجزیہ نگار ہیں کو دھمکیاں ملنے اور ان کی کردار کشی کا سلسلہ جاری تھا-یہ سب اس لیے ہورہا تھا کہ عائشہ صدیقہ کے ٹیوٹس کو لیکر ٹائمز آف انڈیا کے واشنگنٹن میں نمائندے نے ایک سچ چھوٹ سٹوری لکھی جس کو ٹائمز آف انڈیا نے تزک اہتمام کے ساتھ شائع کرڈالا-اس بارے انہوں نے وضاحتی نوٹ بھی ٹیوٹ کئے اور فیس بک پر بھی شائع کئے-میں نے بھی اس حوالے سے ایک نیوز سٹوری بناکر ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو دی جس کے لیے میں دفاغی امور،انسانی حقوق اور ملیٹینسی پر رپورٹس،فیچر اور خبریں ارسال کرتا ہوں-یہ رپورٹس کئی بین القامی جریدوں میں شایع ہوئی-اور ٹھیک اس کی اشاعت کے ایک دن بعد مجھے نامعلوم نمبرز سے فون کالز موصول ہوئیں اور مجھے دھمکیاں دی گئیں-اور دو دن بعد گذرے سوموار کو دن دیہاڑے میرے گھر کے سامنے دو نامعلوم نقاب پوش موٹر سائیکل سواروں نے اندھا دھند فائرنگ کی اور فرار ہوگئے-یہ واضج طور پر مجھے ڈرانے اور ہراساں کرنے کی کوشش تھی-اور ظاہر سی بات ہے یہ ان لوگوں کی کاروائی تھی جو میرے قلم سے قرطاس پر لکھے جانے والے لفظوں سے خوفزدہ ہیں-اور ان کو میرا سچ لکھنا پسند نہیں ہے-

میں نے اس حوالے سے ایک درخواست تھانہ سٹی خانیوال کے انچارج کو جمع کرادی اور ڈی ایس پی اشرف ملک کے نوٹس میں یہ بات لے آیا-اس کے بعد نہ انہوں نے مجھ سے کوئی رابطہ کیا اور میں نے تو کرنا ہی نہیں تھا-کیونکہ پاکستان اب ان ریاستوں میں سرفہرست ملک بن چکا ہے جہاں سیکورٹی ادارے اور خفیہ ایجنسیاں قانون کی حکمرانی کے لیے نہیں بلکہ قانون شکنی پر عمل پیرا ہیں-یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ سپریم کورٹ کے ججز صاحبان تقریبا ہر ایک مقدمے کی سماعت کے دوران یہ بات تواتر سے کہہ رہے ہیں-میں نے اس لیے خود سے کسی صحافتی اور سماجی و سیاسی تنظیم کو نہیں کہا کہ وہ اس حوالے سے آواز اٹھائیں-اس طرح سے میں نے اپنے ان دوستوں کو شرمسار ہونے سے بجالیا جن کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ ان عفریتوں کے خلاف ایک مذمتی بیان بھی جاری کرسکیں جن سے مجھے سابقہ پڑا ہے-میرے سامنے سلیم شہزاد کے سلسلے میں بنایا جانے والے تحقیقی کیمشن کا حشر موجود تھا-اور مجھے معلوم ہے کہ سپریم کورٹ بھی لاپتہ افراد کے معاملے میں بے بسی کا اظہار کرچکی ہے-اور ہمارے پرائم منسٹر ابھی کل ہی درخواست لیکر گئے تھے ایک جگہ کے جن افراد کو اٹھایا گیا ہے ان میں سے جو زندہ ہیں ان کو چپکے سے چھوڑ دیں –کوئی کاروائی نہیں ہوگی-یہ ساری باتیں میرے سامنے تھیں تو ایسے میں جن لوگوں پر مجھے شک ہے ان کے بارے میں اگر میں پولیس سے کاروائی کے لیے کہوں تو يہ بہت مضحکہ خیز بات ہوگی-میرے دوست میرے اس روئے سے شرمندہ ہونے سے بچ گئے اور میں نے بس محترم امتیاز گھمن جی ایم خبریں ملتان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے واقعے کی اطلاع پولیس کو کرڈالی-

یہ واقعہ یہاں درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو بتاتا چلوں کے ہمارے سماج کے اندر ایک اقلیتی گروہ کس قدر طاقت ور ہوچکا ہے-یہ گروہ ہماری پولیس،آرمی،ایجنسیوں اور ضلعی ایڈمنسٹریشن تک کے اندر اپنے سورس رکھتا ہے-سندھ میں جسٹس باقر پر حملہ اسی مداخلت کا نتیجہ تھا-جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے اندر کے کوڈ سے واقف تھے-مہران ائربیس پر حملہ اندرونی لوگوں کی مدد سے ہوا تھا-اور ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ نے ہمارے اداروں کی نااہلی اور غفلت کو بیچ بازار میں ننگا کردیا ہے-اور اسامہ بن لادن 9 سال سے ابیٹ آباد میں چھپا ہوا تھا-اس انکشاف سے ہمیں کوئی دھچکہ نہیں لگا-

ملالئی یوسف زئی کی تقریر کے دوران انٹرنیشنل میڈیا نے “سیو دی چلڈرن “نامی این جی او کی رپورٹ “چلڈرن بیٹلنگ ٹو گو ٹو سکول” بھی سامنے لائی گئی –جس کے مطابق پرائمری اسکول کی تعلیم سے محروم رہنے والے بچوں کی تعداد 2008ء میں 60 ملین تھی جو 2011ء میں کم ہوکر 57 ملین ہوئی ہے مگر چار سالوں میں صرف 3 ملین کمی کوئی کارنامہ نہیں ہے-لیکن اس دوران جن علاقوں میں جنگ،تصادم اور لڑائی ہورہی ہے ان علاقوں میں پرائمری اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح 42 فیصد سے پچاس فیصد ہوگئی ہے-اس مین 44 فیصد سب صحارا افریقہ ،19 فیصد جنوبی اور مشرقی ایشیا اور 14 فیصد عرب ملکون مین ہے-بچیاں جوکہ بچوں کی کل بابدی کا 55 فی صد ہیں ان کو تعلیم سے محرومی کے ساتھ ساتھ جنسی زیادتی اور اور دوسری جنسی طور پر ہراساں کئے جانے والے اعمال کا سامنا ہے-

یہ تقریر اپنے ساتھ کئی اور خبریں بھی لیکر آئی-سوات سے ایک اچھی خبر یہ آئی کہ مردوں کے شاؤنزم سے تنگ اور مرد چرگوں میں عورت دشمن فیصلے کئے جانے کی روش کے رد عمل میں خواتین چرگہ کا قیام عمل میں آچکا ہے-تیزاب سے مرنے والی ایک سولہ سالہ لڑکی کا مقدمہ ملزم کے خلاف اسی جرگہ کی کاوشوں سے درج کیا گیا ہے-سوات میں لڑکیوں کے ڈاخلے میں اضافے کا رجحان دیکھنے کو ملا ہے-

میں اپنے پڑھنے والوں کو یہ خبر بھی دینا چاہتا ہوں کے افغانستان کے اندر فیمنسٹ تحریک اپنے عروج پر ہے-افعان لڑکیاں اپنے حقوق کے لیے اب جدوجہد کرنے اور لڑنے سے گریزاں نہیں ہیں-اور وہ سڑکوں پر احتجاج کرتی ہیں-کابل یونیورسٹی اس تحریک کا مرگو ہے-یہ سب کتاب،قلم،کاپی اور علم کے معچزے ہیں-اور ہم نے مصر ،تنزانیہ ،بحرین میں عورتوں کی بیداری کو اپنی آنکھوں سے پروان چڑھتے دیکھا ہے-یہاں تک کہ سعودی عرب کی خواتین کے اندر بھی یہ جذبہ عروج پر ہے-

ایران میں آیت اللہ خمینی کی پوتی نے رجعت پسندی اور عورتوں کو قید کرنے کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور وہ ایران میں عورتوں کے حقوق کی توانا آواز ہے-ہمارے سماج میں ملالئی یوسف زئی لڑکیوں کے لیے انسپائریشن کا سبب بن رہی ہے-اور مجھے خوشی ہے کہ وہ بے نظیر بھٹو شہید سے انسپائریشن لیکر آئی ہے-اورپاکستان کے اندر اپنے اوپر گذرنے والے سانحات پر وہ جو آب بیتی لکھنے جارہی ہے اس میں اس کی مدد کرسٹینا لیمب کررہی ہے-یہ وہی معروف خاتون صحافی ہے جس نے پاکستان،افغانستان کے بارے میں وہ حقائق شائع کئے جن کو برداشت کرنا  قلم ،کتاب اور کاپی سے خوفزدہ قبیلے کے بس کی بات نہیں ہے-اس لیے اس کو نا پسندیدہ کہہ کر پاکسستان سے نکال دیا گیا-اس خاتون صحافی کا قصور یہ تھا اس نے بے نطیر بھٹو کی 1986ءمیں وطن واپسی پر “ویٹنگ فار اللہ”جیسی معروف کتاب لکھی تھی-جس پر ضیاءالحق کی باقیات آج تک بروفروختہ ہے-ملالئی یوسف زئی کی یہ کتاب پاکستان کے اندر اور باہر نوجوان لڑکیوں کو مزید حوصلہ دے گی-اور اس کے شعور کی روشنی مزید پھیلے گی-

Comments

comments