شام کے حالات کو خراب کرنے میں امریکہ و اسرائیل کیساتھ خطے کی بادشاہتیں بھی ملوث ہیں، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی

شام کے حالات کو خراب کرنے میں امریکہ و اسرائیل کیساتھ خطے کی بادشاہتیں بھی ملوث ہیں، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی

جماعت اسلامی پاکستان صوبہ سندھ کے امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی کا تعلق کراچی سے ہے اور آپ

پیشے کے لحاظ سے پیتھالوجسٹ ڈاکٹر ہیں۔ آپ نے 1984ء میں اسلامی جمعیت طلباء میں شمولیت اختیار کی۔ آپ ناظم جمعیت کراچی رہنے کے ساتھ ساتھ صوبائی و مرکزی شوریٰ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی، جہاں 1994ء میں آپ امیر جماعت اسلامی ضلع وسطی منتخب ہوئے۔ 2000ء سے لیکر 2007ء تک جماعت اسلامی کراچی کے امیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دیں۔ 2012ء میں آپ کو جماعت اسلامی سندھ کا امیر منتخب کیا گیا۔ تاحال آپ اس عہدے پر اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ اسکے ساتھ آپ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ اور مرکزی مجلس عاملہ کے بھی رکن ہیں۔ آپ جماعت اسلامی کے مختلف فلاحی و رفاحی اداروں سے بھی وابستہ ہیں جن میں شہداء اسلام فاﺅنڈیشن، مسلم ملی ایجوکیشنل ٹرسٹ، الخدمت ڈائیگنوسٹک سنٹر وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان خصوصاً کراچی و سندھ بھر میں تمام سیاسی و مذہبی حلقوں میں آپ کی شخصیت کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے پاک ایران گیس پائپ لائن پر امریکی دباﺅ، نواز حکومت اور امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات اور شام کے قضیے سے متعلق الخدمت ڈائیگنوسٹک سینٹر ناظم آباد کراچی میں آپ کے ساتھ ایک خصوصی نشست کی۔ اس موقع پر آپ سے کیا گیا انٹرویو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ اگر پاکستانی حکومت نے پاک ایران گیس پائپ لائن اور پاک چین گوادر پورٹ معاہدے سے امریکی دباﺅ کے باعث دستبردار ہونے کی کوشش کی تو اسکے کیا نتائج برآمد ہونگے۔؟
ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ پاکستان میں پچھلی حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی تھی، جس نے بہت سارے غلط کاموں کے باوجود جو چند اچھے کام بھی کئے تھے، ان میں پاکستان و عوامی مفاد میں ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدہ اور چین کے ساتھ گوادر پورٹ معاہدے پر دستخط کرنا بھی شامل ہیں، جسے جماعت اسلامی نے ہر موقع پر سراہا بھی ہے۔ چونکہ پاکستان پر ان دونوں معاہدوں سے دستبرداری کیلئے شدید دباﺅ ہے، اس لئے لوگ اس حوالے سے اندازہ کر رہے ہیں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں معاہدے پاکستانی قوم کی خواہشات کے آئینہ دار ہیں۔ پاکستان اس وقت شدید ترین توانائی کے بحران سے گزر رہا ہے اور اس بحران سے نکلنے کیلئے ہمارا برادر ہمسایہ اسلامی ملک ایران ہماری مدد کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات عوام کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ کیوں ہم اس سے مدد لینا نہیں چاہتے، ایران سے تعلقات کو کیوں کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ امریکہ تو ابھی آیا ہے اور اسے جانا ہے، مگر ایران تو ہمسایہ ملک ہے ہمیں تو اس کے ساتھ ہمیشہ رہنا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنی ڈپلومیٹک پالیسی بھی انہیں حقائق کی بنیاد پر بنانی چاہئیے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر موجودہ نواز حکومت نے امریکی دباﺅ میں آ کر ان معاہدوں سے دستبردار ہونے کی کوشش کی تو پاکستانی عوام نواز حکومت کے خلاف شدید احتجاج بھی کریگی اور ان دونوں معاہدوں سے دستبرداری کو کسی صورت پاکستانی عوام میں قبولیت حاصل نہیں ہوگی۔ دنیا جانتی ہے کہ چین اس وقت معاشی و اقتصادی سپر پاور کی حیثیت سے سامنے آ رہا ہے اور دوسری جانب ایران پر امریکہ نے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو استعمال کرتے ہوئے بےانتہاء معاشی و اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، مگر ایران نہ صرف کھڑا ہے بلکہ ترقی کی منازل بھی طے کر رہا ہے تو اگر اس منظر نامے میں نواز حکومت نے امریکی دباﺅ میں آ کر ایران اور چین سے کئے گئے معاہدوں سے دستبردار ہونے کی کوشش کی تو اس کا ہمیں شدید ترین نقصان اٹھانا پڑے گا۔ بہتر یہی ہے کہ پاک چین گوادر بندرگاہ اور پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدوں کے معاملے میں پچھلی حکومت کے کئے گئے معاہدوں کی پابندی کی جائے اور ان کے مطابق معاملات کو آگے بڑھایا جائے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں طالبان کے درجنوں گروہ فعال ہیں۔ نواز حکومت کس طرح ان سے مذاکرات کرے گی؟ آیا الگ الگ ہر گروہ سے مذاکرات ممکن ہیں۔؟ مذاکرات کرنا درست اقدام ہے بھی یا نہیں۔؟
ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس طرح افغانستان میں طالبان ایک مرکز پر جمع ہیں، پاکستان میں یہ صورتحال بالکل مختلف ہے اور یہاں طالبان مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ پاکستانی طالبان کے حوالے سے آپ کا سوال بالکل صحیح ہے کہ انکا کچھ پتہ ہی نہیں چلتا، اسکا کوئی سرا ہی ہاتھ نہیں آتا، وہ پرو پاکستان بھی ہیں، اس سے زیادہ پاکستان مخالف بھی ہیں، وہ پرو اسلام بھی ہیں اور اس سے زیادہ اسلام مخالف بھی ہیں، وہ امریکہ مخالف بھی ہیں اور اس سے زیادہ پرو امریکہ بھی ہیں، وہ پرو پاکستان بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پرو بھارت بھی ہے۔ اس صورتحال میں ان سے مذاکرات کا راستہ نکالنا اپنی جگہ مشکل کام ہے۔ اگر امریکہ طالبان سے مذاکرات اور وہ بھی قطر میں کرسکتا ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں بھی اس معاملے میں راستے بند نہیں کرنے چاہیئے۔ حالات کو درست کرنے کیلئے جن جگہوں پر بات چیت کرکے معاملات کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے وہاں ڈائیلاگ کرنا چاہیئے۔ ڈائیلاگ کا دروازہ بند کرنا قطعاً مناسب نہیں ہے۔ پاکستان میں طالبان کی صورتحال عجیب ہے، ایک گاﺅں میں ایک قسم کے طالبان ہیں اور پڑوس والے گاﺅں میں دوسرے قسم کے طالبان ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہر جگہ قانون کی عملداری ہونی چاہیئے، ریاست کی رٹ قائم ہونی چاہیئے، اس رٹ کو قائم کرنے کیلئے ہر گروہ سے مذاکرات کرنا چاہیئے اور بہرحال اس کے ساتھ ساتھ ریاستی قوت کا استعمال بھی ہونا چاہیئے مگر ریاستی قوت کا استعمال اس طرح کیا جائے کہ جس سے پاکستانی عوام کو امن و امان میسر آسکے۔ ہماری نظر میں امن و امان کا قیام پاکستانی عوام کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی آئین اور نظام جمہوریت سے انکاری اور کفر قرار دینے والے طالبان سے کس طرح مذاکرات فائدہ مند ثابت ہونگے۔؟
ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی: دیکھیں، اگر کوئی ہائی جیکر کسی جہاز کو اغواء کرکے مسافروں کو یرغمال بنا لیتا ہے تو اس صورتحال میں اس سے بات چیت کی جاتی ہے، کیونکہ اس کے رویئے کے بارے میں کسی کو نہیں پتہ ہوتا، مگر اہمیت ہوتی ہے جہاز کے اندر بیٹھے ان مسافروں کی، جن کی جانوں کو ان ہائی جیکرز سے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ ان مسافروں کی جانوں کے تحفظ کیلئے مذاکرات کئے جاتے ہیں، ہائی جیکرز کے مطالبات کو سنا جاتا ہے، یہ سب اس وجہ سے نہیں کیا جاتا کہ ان ہائی جیکرز سے کوئی ہمدردی ہوتی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جہاں جہاں تنازعات ہیں، وہاں اگر ہم ان کی بات سنیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں یہاں تک بات جائز ہے، مگر اس سے آگے جائز نہیں ہے۔ یہاں میں یہ بات صاف الفاظ میں واضح کر دوں کہ ہم پاکستان کے آئین کو رد کرنے والی کسی قوت کو نہ تو تسلیم کرتے ہیں، نہ قبول کرتے ہیں اور نہ اسکی حمایت کرتے ہیں۔

ہم جمہوری، آئینی طریقے سے تبدیلی کے حامی ہیں۔ ہماری نظر میں معاشرے سے فساد کے خاتمہ کیلئے ڈائیلاگ ایک اچھا طریقہ ہے۔ ہائی جیکرز کو بھی تھکایا جاتا ہے، انہیں گفتگو میں لگایا جاتا ہے، جب وہ بھی تھکنے لگتا ہے، وہ بھی ذہنی ٹینشن میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے خلاف مناسب موقع ملتے ہی آپریشن بھی کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کی جانوں کو بچایا جاسکے۔ اس فارمولے پر دنیا عمل کرتی ہے، کوئی یہ نہیں کہتا کہ نہیں ہم ہائی جیکرز کی بات نہیں سنیں گے۔ لہٰذا ان کو پہلے بات چیت میں لگا کر مصروف کیا جاتا ہے اور پھر اتنی دیر میں آپریشن کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بھی یہی صورتحال نظر آتی ہے کہ ہائی جیکرز اور ایسی قوتیں عوام کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور انہیں بات چیت میں لگائے بغیر جب ان کے خلاف آپریشن ہوتا ہے تو زیادہ نقصان عوام کا ہوتا ہے۔ مثلاً پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کا شکار ہونے والی 97 فیصد عوام ہوتی ہے اور 3 فیصد اصل لوگ ٹارگٹ ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: دوحہ قطر میں حالیہ امریکہ طالبان مذاکرات کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی: امریکہ طالبان پر حملے بھی کر رہا ہے اور ان سے مذاکرات بھی جاری ہیں، دونوں چیزیں جاری ہیں۔ امریکہ پر یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ اس کا اب افغانستان سے انخلاء ضروری اور وہاں ٹہرنا اس کیلئے ناممکن ہوچکا ہے۔ امریکہ ان مذاکرات کے ذریعے محفوظ انخلاء چاہتا ہے۔ دوسری طرف وہ مستقبل کے افغانستان کی شکل و صورت کے حوالے سے بھی وہ نہ صرف طالبان بلکہ دیگر قوتوں سے بھی مذاکرات کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغرب میں بھی بہت زیادہ اس حوالے سے لکھا جا رہا ہے کہ افغانستان کو تقسیم کرنے کیلئے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ امریکی انخلاء کے بعد حامد کرزئی کی افغانستان میں کوئی اہمیت نہیں ہوگی اور افغانستان میں اسے معاملات پر گرفت کیلئے دوسرے عناصر کی ضرورت پڑے گی، کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ آئندہ کے افغانستان میں ان کا عمل دخل ہو اور انہوں نے جو وہاں انویسٹمنٹ کی ہے وہ ضائع نہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ ان تمام مقاصد کیلئے جن عناصر سے وہ جنگ کر رہا ہے، انہی سے وہ مذاکرات بھی کر رہا ہے۔ ہمیں بھی اپنے دشمنوں کو کم کرنا اور دوستوں کو بڑھانا چاہیئے۔ ہمیں یہ بات جان لینی چاہیئے کہ ہمسایہ ممالک اور ہمسایہ قوتوں سے خواہ مخواہ کی دشمنی کسی سامراج کے کہنے پر ہمارے لئے شدید نقصان کا باعث ہے۔ ہمیں اپنے حقائق و مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرنے چاہئیں اور اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ طالبان مذاکرات سے پاکستان کو کیا حاصل ہوگا۔؟
ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی: میں یہ سمجھتا ہوں کہ امریکہ طالبان مذاکرات سے پاکستان کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پاکستان کو ان تمام قوتوں سے بات چیت کے دروازے بند کرنے کے بجائے کھولنے چاہیئے کہ جن قوتوں کے ساتھ ہمیں رہنا ہے۔ جو ملے گا امریکہ کو ملے گا، وہ اپنے لئے مذاکرات کر رہا ہے، اس سے ہمیں کیا ملے گا۔ ہمیں تو اس وقت ملے گا کہ جب ہم اپنے مقاصد کو سامنے رکھ کر اپنی حکمت عملی مرتب کریں گے۔ امریکی حکمت عملی کا حصہ بن کر تو پاکستان پہلے بھی تباہ ہوا ہے، لاکھوں پاکستانی عوام اور فورسز اہلکار فوجی جوان شہید ہوئے ہیں۔ جنگ امریکہ کی ہے مگر امریکہ کے اتنے فوجی نہیں مارے گئے جتنے پاکستانی فوجی شہید ہوئے ہیں۔ امریکی جنگ نے ہمیں جھلسا دیا ہے، امریکی مفادات کیلئے آگے بڑھنے کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے مفادات کے حصول کیلئے اپنی حکمت عملی بنانی پڑے گی۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ مختلف قوتوں سے بات چیت کی جائے، یہاں مختلف قوتوں سے آپ کی کیا مراد ہے۔؟
ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی: مختلف قوتوں سے مراد یہ کہ جیسے ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے، چین و افغانستان ہمارے ہمسائے ممالک ہیں، یہ ہمارے دوست ممالک ہیں، ہماری آئندہ کے حالات اور خطے کے حوالے سے حکمت عملی امریکہ نہیں طے کریگا، کیونکہ اس سے ہمیشہ فساد برپا رہے گا۔ اگر ہم ان دوست ممالک کے ساتھ مل کر حکمت عملی طے کرینگے کہ جس میں ایران کا کردار ہو، پاکستان و چین کا کردار ہو، افغانستان کا کردار ہو، تو اس سے خطے میں امن و امان بھی آئے گا، ترقی و خوشحالی بھی آئے گی۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان، ایران، چین، روس جبکہ امریکی کیمپ سے انڈیا اور افغانستان کو نکال کر ایک مضبوط بلاک کو تشکیل دیا جانا چاہیئے۔؟
ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی: میں یہ سمجھتا ہوں کہ آئندہ کی حکمت عملی کو delay کیا جا رہا ہے ورنہ بننا تو یہی بلاک ہے۔ آپ نے بات کی انڈیا کی۔ تو دیکھیں بھارت کے ساتھ ہمارا کور ایشو کشمیر کا ایشو ہے۔ بھارت کو بھی چاہیئے کہ کشمیر کا ایشو حل کرے، ہمارا ہمسایہ ملک ہے ہم اسے قبول کرتے ہیں، ہم کوئی اسے تباہ و برباد کرنا نہیں چاہتے۔ لیکن اسے چاہیئے کہ کشمیریوں کے حق کو وہ تسلیم کرے۔ باقی جہاں تک دیگر ممالک کی بات ہے تو خطے کی قوتیں خطے کے مسائل کو حل بھی کرینگی، خطے کے بارے میں فیصلہ کرینگی اور یہی وہ جگہ ہے جو دنیا میں بڑی قوت بن کر ابھر رہی ہے۔ بقول شاعر کے ”مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ“ تو وہ یہیں سے ابھر رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم اس ابھرتے ہوئے سورج کا ساتھ دینے کی بجائے امریکہ اور مغرب کا ساتھ دے رہے ہیں کہ جہاں سورج غروب ہو رہا ہے۔ امریکی جنگ ہماری جنگ نہیں ہے، ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ آئندہ کے معاملات کو طے کرنے کیلئے پاکستان کو ایران اور چین سے اپنے تعلقات کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ہم اپنے خطے کی قوتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرینگے تو کوئی سامراج ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

اسلام ٹائمز: شام کے قضیے کے حوالے سے کیا کہیں گے، جہاں پر خطے کی واحد صیہونیت مخالف بشار الاسد حکومت کے خلاف باغیوں کو امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی جانب سے اسلحہ و دیگر مالی امداد کا اعلان سامنے آچکا ہے۔؟
ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی: دیکھیں عرب اسپرنگ ان مغلوب لوگوں کی جدوجہد ہے جن کو مختلف بادشاہوں نے مختلف اوقات میں دبایا ہے اور انہیں انکے حقوق سے محروم رکھا ہے۔ اس عرب اسپرنگ میں عرب ممالک کے بادشاہوں نے یہ کردار ادا کیا کہ اس کو مسلکی رنگ دے دیا جائے۔ مسلکی رنگ دینے کی کوششوں کی وجہ سے صورتحال بہتری کی طرف جانے کی بجائے خرابی کا شکار ہونے لگی۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ جو ٹولہ اقتدار میں بیٹھا ہے یہ نہ شیعہ ہے نہ سنی، یہ اپنے مفادات کیلئے ساری چیزیں کرتے ہیں۔ امریکہ کا ساتھ دیتے ہیں، اسکے گن گاتے ہیں، بحرین کے اندر جدوجہد کو شیعہ کہہ کر دباتے ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس ساری صورتحال کو مسلکی پیرائے میں نہیں دیکھنا چاہیئے، اسے مسلکی رنگ کا شکار نہیں ہونا چاہیئے۔ جہاں جہاں اس کو مسلکی رنگ دیا گیا ہم نے اس کی مخالفت بھی کی ہے۔ یہ جدوجہد رکے گی نہیں۔

میں یہاں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ یہ جو عرب اسپرنگ ہے یہ نتیجہ ہے اس جدوجہد کا کہ جو امام خمینی (رہ) نے ایران میں سامراج کو شکست دینے کے سلسلے میں کی تھی۔ امریکی سامراج و استعمار کو ایران سے نکالا، ایک بھی گولی چلائے بغیر۔ ایسی پرامن جدوجہد جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ امام خمینی (رہ) کے پیغام کو ایران عراق جنگ کے ذریعے امریکہ نے آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی۔ امام خمینی (رہ) کا تصور انقلاب ہے وہ شیعہ انقلاب کا تصور نہیں ہے۔ ان کا انقلابی پیغام دنیا کے تمام مغلوب و مظلوم انسانوں کی آزادی کیلئے ہے، اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں جہاں جہاں سامراج و استعمار کے ٹٹو اور پٹھو حکمران بیٹھے ہیں ان کو مسترد کرکے ہٹانے کا پیغام ہے۔ امام خمینی (رہ) کا یہ تصور ساری دنیا میں قبولیت رکھتا ہے اور مغرب میں رہنے والوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ تو یہ عرب اسپرنگ امام خمینی (رہ) کے انقلاب کی دوسری نسل ہے۔ اس کو خراب کرنے کیلئے اسے مسلکی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا سارا فائدہ ان عرب بادشاہوں کو ہوتا ہے۔

شام کا مسئلہ ہے بہت نازک۔ شام کے اسرائیل مخالف کردار کو ہم تسلیم کرتے ہیں اور یہ ٹھیک ہے کہ شام کے اس کردار سے بالکل انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شام نے اسلامی مزاحمتی تحریکوں حماس اور حزب اللہ کو اسرائیل کے خلاف بہت کھلے طریقے سے سپورٹ کیا۔ ہم یہ کہتے ہیں شام کے مسئلے کو مسلکی رنگ نہیں دینا چاہیئے، اس مسئلے کو بہترین حکمت کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے۔ اس لڑائی میں شامی عوام کا جو جانی نقصان ہو رہا ہے، اس نقصان سمیت دیگر تمام نقصانات سے بچنے کیلئے شامی حکومتی نمائندوں اور وہاں جو باغی ہیں ان کو بھی مذاکرات کی میز پر بٹھانا چاہئیے، تاکہ مسئلہ کا پرامن حل نکل سکے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بہت سی ایسی قوتیں ہیں کہ جو اس مسئلہ کے حل میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ شاید OIC کے رکن ممالک کوئی کردار ادا نہیں کرسکیں، کیونکہ اکثریت امریکہ کی آشیرباد کے زیر سایہ ہیں۔ عالم اسلام میں ایسے علماء و فقہاء موجود ہیں کہ جو یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ شام کے اندر جو مسئلہ پیدا ہوا ہے اس کے اندر امریکہ اور اسرائیل ملوث ہیں، یہ بات بالکل ٹھیک ہے، ہم اس حقیقت کو مانتے ہیں، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی کہتے ہیں وہاں جو ظلم و زیادتی ہوئی ہے وہ بھی بہت بڑی ہوئی ہے۔ وہاں جو عوام قتل ہو رہی ہے، وہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ عوام کی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جانا سب سے اہم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس ساری صورتحال کو سنبھالنے کیلئے عالم اسلام کی معتبر شخصیات کو بلایا جانا چاہیئے۔ یقینا امریکہ ان شخصیات کا راستہ روکے گا، تاکہ شام کا مسئلہ حل نہ ہوسکے۔ بہرحال معتبر شخصیات کے ذریعے پیغامات بھجوائے جاسکتے ہیں، مزاکرات کروائے جاسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: دیکھا گیا ہے کہ عالمی ایشوز خصوصاً مشرق وسطٰی کے معاملے پر جماعت اسلامی کا موقف ایران کے موقف سے نزدیک نظر آتا ہے۔ مگر شام کے معاملے میں صورتحال اسکے برعکس نظر آتی ہے۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ شام کے معاملات بگاڑنے میں کن قوتوں کا ہاتھ ہے۔؟
ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی: ایران اور ایرانی قیادت پر ہمارا پورا اعتماد ہے، حزب اللہ اور حسن نصر اللہ صاحب پر ہمارا مکمل اعتماد ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس میں مزید اہلسنت نمائندوں، معتبر شخصیات کو شامل کیا جائے۔ جب یہ سب مل کر شام کے مسئلے کے حل کیلئے کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کرینگے تو انشاءاللہ راستہ نکل آئے گا۔ جہاں تک بات ہے شام کے مسئلے کو خراب کرنے کی تو امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ شام کے مسئلہ کو خراب کرنے میں ان قوتوں کا زیادہ بڑا کردار ہے جو اپنی بادشاہتوں کو قائم رکھنا چاہتے ہیں، اس کیلئے یہ بادشاہ مسلک کا ڈھونگ استعمال کرتے ہیں، جبکہ ان کوئی مسلک نہیں ہے، بادشاہ تو بادشاہ ہوتا ہے اس کا کیا مسلک ہے، نہ وہ سنی ہے نہ وہ شیعہ ہے۔ یہ بادشاہتیں تو امریکہ کی غلام ہیں۔ کس نے کہا ہے کہ تم امریکہ کی افواج کو بلا کر اپنے ہاں بٹھا دو، امریکہ کو اڈے بھی فراہم کر دو، اس کو ہر طرح کی سپورٹ بھی دیتے رہو۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ خطے کے معاملات خطے کے اندر رہ کر خطے کی قوتوں کے باہمی اعتماد کے ساتھ حل ہونے چاہیئیں۔ سامراجی قوتوں کو ہزاروں میل دور سے بلا کر لوگ ان کی ہدایات پر عمل کرنا شروع کر دینگے تو حالات بہتری کی جانب جانے کے بجائے خرابی کا شکار ہونگے۔

Source :

http://www.islamtimes.org/vdcjome8muqeavz.3lfu.html

Comments

comments