جمہوریت کے تضادات
پاکستان میں جمہوریت کے تضادات
پاکستان میں جمہوریت کا سفر ہموار کبھی بھی نہیں رہا-جمہوری عمل اور شہری آزادیوں کی جدوجہد خاصی کٹھن اور مشکل رہی ہے-اس عمل کے لیے سیاسی کارکنوں،صحافیوں،دانشوروں ،ادیبوں اور شاعروں نے بہت تکلیف اور مصائب برداشت کئے-اس پہلو کو آشکار کرنے والی بہت سی کتب ہمارے ہاں شایع ہوتی رہی ہیں-لیکن اس سے ہٹ کر جمہوری سفر کی بحالی اور جمہوریت کی طرف سفر کا جو عبوری مرحلہ ہے اس کے جو تضادات سامنے آتے رہے اس پر بہت کم لکھا گیا ہے-اس مرحلے میں بین الاقوامی قوتوں اور پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ سیاسی قوتوں نے جو سمجھوتے کئے ان کے بارے میں بھی بہت کم بات کی گئی ہے-
ان سمجھوتوں اور کردار کے بارے میں آگر کوئی نکتہ نظر سامنے بھی لایا گیا تو وہ زیادہ تر معذرت خواہانہ اور عذر تراشنے پر مبنی تھا-اور کسی نے غیر جانبداری کے ساتھ یہ جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی کہ پاکستان میں جمہوریت کے ثمرات اس سماج کے کمزور طبقات تک نہ پہنچ سکے یا اس جمہوریت پر اشرافیہ کے تاریک سایوں کی جو حکمرانی آج تک قائم ہے اس کی وجوہات کیا صرف بیرونی ہیں؟کیا اس میں جمہوریت کے دعوے داروں اور عوام کی ترجمانی کرنے کے دعوے کرنے والوں کا بھی کردار ہے؟
سلمان عابد نے انہی سوالوں کا جواب اپنے مضامین میں تلاش کرنے کی کوشش کی اور انہوں نے اپنے انہی مطالب پر مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہونے والی تحریروں کو یکجا کرکے ایک کتاب کی شکل دے ڈالی-یہ کتاب اہل جمہوریت کی خود احتسابی اور جمہوری کیمپ میں گھسی کالی بھیڑوں کی نشاندہی کرنے والی ایک اہم ترین دستاویز ہے-
سلمان عابد میرے بہت اچھے دوست ہیں-وہ ایک بہت بڑے آدمی عبدالکریم عابد کے بیٹے ہیں-لیکن ان کی اپنی ایک راہ ہے اور اپنا ایک اسلوب ہے جو ان کو ایک جداگانہ مقام و مرتبہ کا حامل بناتا ہے-عبدالکریم عابد سید مودودی سچے پیروکار اور جماعت اسلامی کے نظم میں رنگے ہوئے آدمی تھے اور اس سے کہیں بھی انحراف نہیں کرتے تھے-لیکن سلمان عابد شروع ہی سے ایک باغی شخص ہیں-وہ اسلامی جمعیت طلباء میں تھے تو پنجاب یونیورسٹی کے اندر انہوں نے جمعیت کے اندر تبدیلی کے مخالفوں کو للکارا تھا-اور جمعیت کے اندر موقعہ پرستانہ رجحان کو دیکھتے ہوئے اس سے الگ بھی ہوگئے تھے-وہ دائیں جانب سے آئے تھے اور پھر دائیں اور بائیں دونوں کی اندھی عقیدہ پرستی سے ہٹ کر انہوں نے اپنی الگ اور منفرد لائن اختیار کی-جمعیت کے وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے سول سوسائٹی اور ماڈرنٹی یعنی جدیدیت کے تقاضوں کو سمجھا اور اس شعبے میں کارہائے نمایاں بھی سرانجام دئے-
سلمان عابد کا شمار ان دانشور صحافیوں میں ہوتا ہے جوکہ 1988ء اور پھر 2008ء میں جمہوریت کی بحالی کے سفر کے طریقہ کار سے خاصا اختلاف رکھتے ہیں-ان کے خیال میں پاکستان کی جملہ جمہوری طاقتوں نے جس طرح سے اس دوران عالمی اسٹبلشمنٹ اور ملکی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتے کئے اس نے جمہوریت اور آمریت کے درمیان کیفیتی فرق کو ختم کرڈالا اور عوام کو جمہوریت سے مایوسی سی ہونے لگی-ان کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان میں مظلوم اور کمزور طبقات کی جدوجہد کے منطقی انجام تک پہنچنے سے قبل سٹیٹس کو کی ایک اور شکل میں رونمائی نے پاکستان میں طالب علموں،محنت کشوں،مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والوں میں جمہوری تحریک سے لاتعلقی کا احساس شدت سے جنم دیا اور آمروں کو مہم جوئی کا موقعہ ملتا رہا-
سلمان عابد کا کہنا ہے کہ اقتدار میں آنے کی جلدی میں پاکستان کے جمہوری حلقوں کی ترجمانی کرنے والی سیاسی قوتوں نے اسٹبلشمنٹ سے سمجھوتے کئے اور دیکھا یہ گیا کہ آخر میں بڑے چاؤ سے اقتدار میں آنے والے بڑے بے آبرو ہوکر کوچہ اقتدار سے نکال باہر کئے گئے-سلمان عابد نے اپنی کتاب میں موجود درجنوں مضامین میں اس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے-
اس کتاب میں سلمان عابد نے پرویز مشرف کے دور سے شروع ہونے والی جمہوری تحریک اور اس دوران سیاسی رہنماؤں ،دانش وروں ،صحافیوں کے کردار کآ جائزہ لیا ہے-سلمان عابد کا جھکاؤ عدلیہ کے جوڈیشل ایکٹوازم کی جانب نظر آتا ہے جے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور میں بھی کئی نکات پر ان ے اتفاق نہیں کرتا-لیکن سلمان عابد کی اہل جمہوریت کے جاگیردارانہ رویوں پر تنقید میں بہت جان ہے-
سلمان عابد کی تنقید سنٹر لیفٹ اور لبرل سیاسی جماعتوں کے کردار پر ہی نہیں ہے بلکہ وہ سنٹر رائٹ کی سیاسی جماعتوں جیسے مسلم لیگ نواز،جماعت اسلامی،جے یو آئی اور دیگر پر سخت تنقید کرتے ہیں اور ان سب کو ایک فعال جمہوریت کے نہ آنے پر قصوروار ٹہراتے ہیں-
سلمان عابد کا ایک نکتہ نظر اور اہم ہے-ان کے خیال میں جمہوریت کی فعالیت کا مطلب قومي اسمبلی اور سینٹ کو اختیارات کی منتقلی کا نام نہیں ہے-ان کا کہنا ہے دنیا بھر میں فعال جمہوریت کا مطلب اختیارات کے تین دائرے ہوا کرتا ہے-ایک دائرہ قومی اسمبلی اور سینٹ کا ہوتا ہے جس کا سائز سب سے مختصر ہوا کرتا ہے-دوسرا دائرہ صوبائ حکومت کا ہوتا ہے جس کا دائرہ مرکز سے کچھ بڑا ہوتا ہے-جبکہ تیسرا دائرہ لوکل گورنمنٹ کا ہوتا ہے اور یہ سب سے بڑا دائرہ ہواکرتا ہے-لیکن ہمارے ہاں باوا آدم نرالا ہے-یہاں سب سے بڑا اور طاقت ور دآئرہ مرکزی حکومت ہے اور پھر صوبے کی حکومت اور سب سے چھوٹا دائرہ لوکل حکومتوں کا ہے-اس کی وجہ وہ جمہوری سیاست پر جاگیرداروں کا ناروا اثر بتلاتے ہیں-
ان کے خیال میں اس اثر کو مٹائے بنا جمہوریت کو موثر نہیں بنایا جاسکتا-
سلمان عابد نے اس کتاب میں اپنے کئی ایک مضامین میں مذھبی سیاست کا جائزہ بھی لیا ہے-انہوں نے پارلیمانی اور لشکر وجہاد دونوں پر چلنے والی قوتوں کی کارکردگی اور طریقہ کار کا جائزہ بھی لیا ہے-اور انہوں نے ان طاقتوں کی مذمت بھی کی ہے جو تشدد اور دھشت گردی کا جواز تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں-سلمان عابد کی یہ گواہی مذھبی سیاست بارے ایک طرح سے گھر کی گواہی ہے جس سے زیادہ معتبر گواہی میسر نہیں آسکتی-
سلمان عابد نے اس کتاب میں میڈیا کے کردار کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے-اور یہاں بننے والے پریشر گروپوں کا پردہ بھی چاک کرنے کی کوشش کی ہے-انہوں نے کرپشن اور موقعہ پرستی کو دانشوروں کے اندر فکری انتشار کے پھیل جانے کی وجہ قرار دیا ہے-اور ان کے خیال میں سچ پر موقعہ پرستی اور وقتی فوائد کو ترجیح دینے کے اس عمل نے جمہوری اقدار کو سخت نقصان پہنچایا ہے-
سلمان عابد مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پاکستان کی سماجیات و سیاسیات کی حرکیات سے معاملہ کرنے والی ایک گراں قدر کتاب کا اضافہ کیا ہے-
Comments
Tags: Democracy