Tariq Butt’s deep analysis of the PPP-PML-Q dialogue – by Sikandar Mehdi
Related articles:
Nawaz Sharif’s alliance with Musharraf League: Where are the principles now?
PML-N alliance with Musharraf League: Tariq Azeem to meet Nawaz in London
Butt Sahib’s analyses in The News (Jang Group) are so deep that you can literally drown yourself in such highly qualified depth of analysis. His analysis rakes of stink of a biased reporter.
Mr Tariq Butt did the “News Analysis” by the headline “Secret Behind the understanding”. His analysis was regarding the meeting between PPP & PML-Q representatives. Butt Sahib is quick to jump on the band wagon. Yesterday, all day & evening news retailers were breaking news of the meeting. I failed to understand what is the problem with the media. No news broke when Nawaz Sharif’s samdhi-cum-accountant Ishaq Dar met with SM Zafar (dictator’s stooge since the ages of Ayub Khan) and Tariq Aziz of PML-Q. There was no commotion caused by the media. Their meeting was treated and portrayed just like any meeting for the sake of politics but when PPP & PML-Q met it was treated as great treason.
Media’s name calling continued for over twenty four hours of musical news coverage. Media personalities called every name in the book to demonize the meeting but when PML-N & PML-Q or PML-N or MQM met they kept quiet. Those meetings were heralded as the meetings for the betterment of state. This two faced media now talks of principled stand of Nawaz, where was the same principled stand of Nawaz when they were meeting in the dark of night and when they were calling Pagara to unify Muslim Leagues to beat PPP to bring down the government. Media which is also acting like a political party is acting in defense of the fact that they have a stake in the power game. Media owes billions of rupees in back taxes as well as willful defaulter of loans, conveniently seeking stay order from our azad adliya.
Butt Sahib did you analyze numerous nightly meetings of Shabaz Sharif & Chaudhry Nisar with the chief of Army? Did you analyze Media persons nightly meetings with heads of spy agencies? Have you ever questioned daily meetings of Kamran Khan with head of one of the spook agencies? Dear first look around yourself before throwing stones at others.
Butt Sahib do some analysis on the following people Gen Hameed Gul, Gen Asad Durrani, Gen Aslam Beg, Roedad Khan, IJI, ISI and other former bureaucrats who have brought down democratically elected governments. You would definitely not do it because they will kick your rear end whenever they want to and your independent judges can’t do anything.
THERE WAS NO CRY IN MEDIA WHEN ISHAQ DAR MET MQM WHILE PMLN ABBONCED THAT THEY WILL NEVER HOLD ANY TALKS WITH MQM,THEY PASSED A RESOLUTION IN APC IN LONDON THAT NO PARTY WILL MEET AND TALK TO MQM,THIS IS THE TACTICT OF JANG GROUP TO PUT SO MUCH PRESSURE ON PMLQ THAT THEY BACK OFF FROM PPP.IF PPP GOT PMLQ SUPPORT THEY WILL BE STRONG ON FEDRAL GOVT THTS WHY JANG GROUP IS SO WORRIED ABOUT THAT MEETING.JANG GROUP BECOME A PARTY AGAINST PPP.THAY WANT TO PUT TOO MUCH PRESSURE ON PMLQ AND ITS MEMBERS THAT THEY BACK OFF FROM PPP
AANNOUNCED,
تبدیلی کی تیاریاں..سویرے سویرے…نذیر ناجی
یہ بے معنی باتیں ہیں کہ مسلم لیگ (ق) کے لیڈروں نے پیپلزپارٹی کے لئے کیا کہا تھا؟ اور پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) کے لئے کیا کہا؟ سیاست میں وقت ہمیشہ آگے بڑھتا ہے۔ جو ماضی سے لپٹ کر بیٹھ گیا‘ وہ خود ماضی بن گیا۔ جماعت اسلامی نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ آج وہ نظریہ پاکستان کی سب سے بڑی محافظ بنی ہوئی ہے۔ خود قائد اعظم ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے۔ وہ دو قومی نظریے کے سب سے بڑے راہنما بن کر سامنے آئے اور پاکستان حاصل کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو اور نوازشریف دونوں ہی فوجی حکمرانوں کی قائم کردہ مسلم لیگوں میں شامل تھے۔ بعد میں دونوں ہی آمریت دشمن کی حیثیت سے ابھرے۔ پڑوسی ملک بھارت میں‘ ہم روز ہی ماضی کے مخالفین کو گلے ملتے اور حامیوں کو دست و گریباں ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ جمہوریت کا تسلسل قائم نہیں رہا اور آزادانہ سیاسی عمل آگے نہیں بڑھ سکا‘ اس لئے ہمیں سیاست میں وقت کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں کا تجربہ نہیں اور جب ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے‘ تو ہم ہڑبڑا اٹھتے ہیں اور پرانی باتیں دہرا کر طعنہ زنی کرنے لگتے ہیں۔
حال میں وزیرقانون و پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان اور چوہدری پرویز الٰہی کی ملاقات پر بھی اسی قسم کا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ باہمی الزام تراشیوں کی زد میں آنے والوں کو اس کی جو تکلیف ہوتی ہے‘ کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتی۔ اگر وہ خود بھول رہے ہیں‘ تو وہ لوگ جن کی حیثیت تماشائی سے زیادہ کچھ نہیں‘ ان کے سینوں میں زخم ابھی تک کیوں ہرے ہیں؟ کیا اس وقت انہیں یہ زخم لگے بھی تھے‘ جب وہ الزام تراشیاں ہو رہی تھیں‘ جنہیں اب دہرایا جا رہا ہے؟
وقت کے ساتھ سیاسی اقدامات اور تدبیرسازی ہوتی رہتی ہے۔نوازشریف نے برملا کہا تھا کہ وہ مشرف کے کسی ساتھی کو قریب نہیں پھٹکنے دیں گے۔ آج (ق) لیگ کے 40 سے زیادہ اراکین صوبائی اسمبلی مسلم لیگ (ن) کی آغوش میں بیٹھے ہیں اور کئی مرکزی لیڈر ہم خیالی کا لبادہ اوڑھ کرمذاکرات کرتے رہتے ہیں۔ حال میں جن لوگوں نے مسلم لیگوں کے اتحاد کا منصوبہ تیار کیا‘ وہ درحقیقت مسلم لیگ (ن) کو اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ سیاسی عناصر کے ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔ جی ایچ کیو کے معروف سیاستدان‘ پیرصاحب پگاڑا کی اپنی سیاسی حیثیت ساڑھے چار نشستوں کی ہے۔ ان کی قیادت میں مسلم لیگوں کو جمع کرنے کا واضح مقصد یہ ہے کہ ایک کنگز پارٹی پھر سے کھڑی کی جائے‘ جس پر اسٹیبلشمنٹ کو اعتبار ہو اور پیپلزپارٹی کے مخالف تمام سیاسی عناصر کو یکجا کر کے انتخابی میدان میں اترنے کی تیاریاں کی جائیں اور نئی کنگز پارٹی انتخابات میں کامیابی حاصل کرے۔
فرق یہ ہے کہ ماضی کی کنگز پارٹیاں تخت نشینی کے بعد بنائی گئیں اور موجودہ کنگز پارٹی‘ کنگ کے بغیر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس لئے اس کے بننے میں کافی مشکل ہو گی۔ کنگز پارٹیوں میں شامل ہونے والے پہلے کنگ کو دیکھتے ہیں اور پھر فیصلہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نئی کنگز پارٹی کا سلسلہ آگے نہیں بڑھ رہا۔ مسلم لیگ (ق) اس کنگز پارٹی کے امکانات کو جانچ رہی تھی۔ اس نے اب بھی دروازے بند نہیں کئے۔ وہ ”تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو“کے فارمولے پر چل رہی ہے۔ مگر بقول چوہدری پرویزالٰہی‘ دروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں۔ کھلے دروازوں کی سیاست میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے اور انہیں جذب کرنے میں آسانی رہتی ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت‘ ممکنات کے دروازے اپنے اوپر بند کرنا درست نہیں سمجھتی۔ ممکنات کو حقائق میں بدلنے کا نام ہی سیاست ہے۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) میں یہ پہلا کھلا رابطہ‘ ہنگامہ خیز اس لئے ہوا کہ بہت سے روایت پسند اور پیپلزپارٹی کے دشمن عناصر‘ اس کے لئے تیار نہیں تھے اور کئی ایک کو تو گہرا صدمہ ہوا۔ لیکن وقت اپنے آگے بڑھتے ہوئے قدموں کو اس لئے نہیں روک سکتا کہ چند لوگ تبدیلی کا عمل برداشت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ وقت کے قدم آگے بڑھتے رہتے ہیں اور گذشتہ روز چوہدری پرویزالٰہی اور بابر اعوان کی ملاقات کی صورت میں‘ ایک انتہائی اہم قدم آگے بڑھ گیا۔ ضروری نہیں کہ دونوں جماعتوں میں‘ ادغام‘ اتحادیا انتخابی گٹھ جوڑ ہو۔ یہ بعد کی چیزیں ہیں۔ ابھی موجودہ اسمبلیوں کو مزید اڑھائی سال رہنا ہے۔
پنجاب اور وفاق کی حکومتیں ایک دوسرے سے آسودہ نہیں اور سیاست کے مزاج میں تلون ہے۔ وہ نئے راستے اور نئے امکانات ڈھونڈتی اور پیدا کرتی رہتی ہیں۔ اسلام آباد اور لاہور میں‘ ان دونوں جماعتوں کا میل ملاپ نئے سیاسی حقائق کو جنم دے سکتا ہے۔ مسلم لیگوں کے اتحاد کا فارمولا اسی وجہ سے تیار کیا گیا کہ وفاق میں پیپلزپارٹی کی جگہ ایک نئی کولیشن کا راستہ ہموار کیا جائے۔ پیپلزپارٹی مفاہمت کی سیاست کی وجہ سے کسی قبل ازوقت تبدیلی کے لئے تیار نہیں تھی۔ لیکن نئے سیاسی اتحاد کی طرف سے‘ جب پیپلزپارٹی کو اپنے لئے خطرہ نظر آیا‘ تو اسے بھی متحرک ہونا پڑا۔
یہ خطرہ اس وقت واضح ہو گیا‘ جب چوہدری نثار علی خان اور جناب نوازشریف نے اسمبلیوں کے اندر تبدیلی کی حمایت کر دی‘ اس کے بعد پیپلزپارٹی میدان سے باہر کیسے رہ سکتی ہے؟ اس کیلئے یہ سوچنا لازم ہو گیا تھا کہ اگر تبدیلی ہونا ہے‘ تو پھر وہ اس کے اپنے حق میں کیوں نہ ہو؟ ایک طرف پتے لگائے جا رہے تھے‘ تو دوسری طرف والے ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیوں بیٹھے رہتے؟
پتوں کے کھیل میں مسلم لیگ (ق) کے پاس ترپ کا پتہ ہے۔ اس کی مشکل صرف ایک ہے کہ اس کے اراکین اسمبلی کسی ڈسپلن میں نہیں۔ ان کے کئی ممبر بازار کے مال کی طرح ہیں‘ جو کسی بھی گاہک کو دستیاب رہتے ہیں۔ ان کا زیادہ مول اس لئے نہیں پڑتا کہ فروختگی کے بعد ان کا ووٹ خریدار کے کام نہیں آ سکتا۔ ووٹ دیتے ہی اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ اس مجبوری کے نتیجے میں پارٹیوں کے رہنماؤں کی طاقت فیصلہ کن ہے۔ لوٹے ہمیشہ اقتدار سے فائدے اٹھانے والے افراد بنتے ہیں۔ ابھی تک مسلم لیگ (ق) پنجاب میں‘ اس لئے بے بس رہی کہ اس کے اراکین کی بڑی تعداد باغی ہو کر لوٹا بن گئی۔ یہ لوٹے حکومت کی حمایت تو کرتے ہیں‘ مگر ووٹ صرف ایک بار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ جیسے ہی انہوں نے پارٹی کے ایک فیصلے کے خلاف ووٹ دیا‘ چوہدری شجاعت حسین کا ایک خط انہیں ممبری سے محروم کر دے گا۔ جبکہ پیپلزپارٹی باضابطہ کولیشن پارٹنر ہونے کی وجہ سے پنجاب کی موجودہ حکومت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یوں لگتا ہے کہ دونوں طرف کے ضامنوں کی وجہ سے ایک دوسرے کی حکومت کو سہارا دینے کے جو وعدے ہوئے تھے‘ انہیں برقرار رکھنے کے ارادوں میں کمزوری آنے لگی ہے۔ دونوں فریق جانچ پرکھ کر رہے ہیں کہ وعدہ توڑنے کی صورت میں کیا فائدہ ہو گا؟ اور ضامنوں کی طرف سے اس کا ردعمل کیا ہو گا؟ اگر ضامنوں نے وعدہ شکنی کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ تو یہ دونوں جماعتیں وعدے توڑنے میں تاخیر نہیں کریں گی۔ ایوانوں کے اندر تبدیلی لانے کا جو اعلان نوازشریف اور چوہدری نثار علی خان نے کیا ہے‘ اس پر وعدہ شکنی کے بعد ہی عمل ہو سکتا ہے۔
مسلم لیگ (ق) اور پیپلزپارٹی کا پہلا کھلا سیاسی رابطہ ‘اسی صورتحال کی تیاری کے لئے ہے‘ جو پیپلزپارٹی کے لئے پیدا کی جا رہی ہے۔ تبدیلی کا یہ کھیل شروع ہوا‘ تو چوہدری شجاعت حسین سب سے طاقتور کھلاڑی کی صورت میں سامنے آئیں گے۔ وفاقی حکومت میں ان کی جماعت پیپلزپارٹی کو کئی غیرمطمئن اتحادیوں سے بے نیاز کر سکتی ہے اور تخت لاہور پر براجمانی کا مسئلہ بھی پیدا کر سکتی ہے۔جیسے ہی اسٹیبلشمنٹ کے تیور بدلے‘ سب لوٹے اور متذبذب اراکین اسمبلی‘ لپک کر پارٹی کے ڈسپلن میں آ جائیں گے۔ پھر سیاسی نقشہ بدلنے میں کتنا وقت لگے گا؟
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=478762
PPP courts PML-Q in bid to derail unification
By Amjad Mahmood
Tuesday, 26 Oct, 2010
Babar Awan and Chaudhry Pervaiz Elahi addressing a joint press conference.—Online
PAKISTAN
PPP, PML-Q agrees on strengthening democracy
LAHORE: Two bitter political rivals, the PPP and PML-Q, on Monday tried to give a new meaning to the adage, “Politics is the art of the possible”, by expressing intent to “find a way forward through reconciliation in view of the crisis besetting the country”.
The drama unfolded with a visit to the residence of Chaudhry Pervaiz Elahi, leader of the Pakistan Muslim League-Q, by Law Minister Babar Awan. As if this were not enough, the two men addressed a joint press conference in which they dropped hints that the two parties were exploring prospects of forging a “working relationship”.
Political observers interpreted the development as an attempt by the People’s Party to pre-empt the efforts for reunification of all Muslim League factions spearheaded by Pir Pagara.
Pervaiz Elahi, once named as her possible killer by slain PPP chairperson Benazir Bhutto in a letter to Mark Siegel, her lobbyist in Washington, welcomed the Babar Awan-led PPP team, arguing “doors cannot be shut (on opponents) in politics”.
“It is a duty of both the government and the opposition to sit together as equal stakeholders in the democratic system for giving the masses a message of hope about their future as well as democracy,” the minister told the media after the meeting, endorsing his host’s views that all political players should jointly discuss issues facing the people.
He said it was neither the first encounter (with the Q League) nor the last as “the contacts would continue in the future as well”.
A PML-Q leader said representatives of the two parties met to chalk out modalities of cooperation on the agenda already set in principle at a recent meeting with President Asif Zardari in Islamabad.
Underlining the importance of the contacts, he said the meetings could not have taken place without a green signal from the establishment.
Prime Minister Yousuf Raza Gilani had phoned Q president Chaudhry Shujaat Husain two weeks ago after reports that the party was making efforts to reconcile with the Nawaz Sharif-led faction of the League.
In reply to a query, Mr Awan did not rule out electoral cooperation between both the parties.
“The party (PML-N) in whose regime Mohtarma Benazir Bhutto was disqualified (to contest the polls) also remained a coalition partner for six months in our federal government,” he said.
The law minister, reacting to an interpretation that by joining hands, both parties were insulting the mandate the voters had given them, asserted that people voted only for those who had ‘positive’ agendas. Otherwise political parties could never have got votes.
“Democracy learns a lesson from the past, but does not go by the past. Democracy is an approach to future.”
Recalling that his party had been cooperating with the government on national issues like the 18th Amendment and terrorism, Mr Elahi said they were ready to sit with everyone “for solving problems of the masses”.
He did nothing to scotch speculations that the Q-League had decided to dissociate itself from the unification process. Pervaiz Elahi said “the deserters” (the Likeminded faction led by Salim Saifullah and Unification Bloc in Punjab Assembly) should first return to their parent party and only then talks of joining hands with other Leaguers could be held.
Chaudhry Shujaat, along with his party’s secretary-general, had recently visited PML-F chief Pir Pagara in Karachi and told the media that unity would be forged among all factions of the League under the leadership of the Pir.
Two senators of the party, S.M. Zafar and Tariq Azeem, had called on Punjab Chief Minister Shahbaz Sharif and other PML-N leaders in Lahore on Oct 17.
Punjab Law Minister and PML-N leader Rana Sanaullah termed the Awan-Elahi meeting an effort of the Q leader to remain alive in the media.
He said “the Lota League formed as per requirement of the establishment will dissolve after serving its utility as some of its members will go with the PPP and the rest will join their mother party (N League) leaving the Chaudhrys alone.”
http://news.dawn.com/wps/wcm/connect/dawn-content-library/dawn/the-newspaper/front-page/ppp-courts-pmlq-in-bid-to-derail-unification-600
Junaid Qaiser says:
October 26, 2010 at 9:27 pm (Edit)
Nothing wrong in reaching out to PML-Q: Gilani
* PM says govt pursuing policy of reconciliation, will take all political parties along
* Judiciary playing its due role
LAHORE/KARACHI: There is no problem in meeting the Pakistan Muslim League-Quaid (PML-Q) leaders for the sake of democracy, a private TV channel quoted Prime Minister Yousuf Raza Gilani as saying on Tuesday.
According to the channel, Gilani said continuing the policy of reconciliation, all parties would be taken onboard on all important matters.
Talking to reporters outside the shrine of Abdullah Shah Ghazi in Karachi, the premier said that establishing peace in the city was the top priority of the government as a few unfriendly elements were trying to disturb the peace of the city, adding that those who were attacking shrines could not be Pakistanis, the channel reported. He said that everyone acknowledged Karachi as the country’s economic hub and a “mini Pakistan”, adding that everyone should jointly ensure maintenance of peace in the city.
The prime minister also said that so far 1,704 megawatts of electricity had been added to the national grid, while another 1,700MW would be added to it by the end of this year.
Meanwhile, talking to editors and chief executive officers (CEOs) of Sindhi newspapers and TV channels at a meeting at the Sindh Chief Minister’s House, Gilani said the construction of Kalabagh Dam would not be executed without a consensus among all the provinces.
He termed economic stability and maintenance of law and order first and second priorities of the government, adding that the government was pursuing the policy of reconciliation, which was also the vision of former premier Benazir Bhutto.
Gilani said the process of transition from dictatorship to democracy was underway in the country and the state institutions were also passing through an evolutionary phase. He said the country faced different challenges but never deviated from the party’s manifesto.
Judiciary: To a question, the PM said that judiciary was playing its due role. “We respect all institutions,” he added. He also said there was no settlement between the government and the judiciary.
Also on Tuesday, a delegation of the Muttahida Qaumi Movement called on the PM at the Sindh Governor’s House to discuss the situation in Karachi in detail. daily times monitor/staff report
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2010\10\27\story_27-10-2010_pg1_1
When the axis of Judiciary Media & Nawaz cant do anything they start yapping. When they meet there is no objection an principled stands go to back burner but when PPP meets everybody starts to get cramps.
Media rather gutter media who is leading the campaign against the government is itself a huge defaulter of the taxes which runs into billions of rupees. Government should first check their degrees and then their bank accounts.
کچھ کے لیے پریشان، کچھ کے لیے حیران کن
علی سلمان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
ملاقات لاہور میں مسلم لیگ قاف کے رہنما اور سابق وزیر اعلیْ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے گھر پر ہوئی۔
پیپلز پارٹی کے اہم ترین وفاقی وزیر بابر اعوان کی مسلم لیگ قاف پنجاب کے صدرپرویز الہی سے ملاقات کے بعد مختلف حلقوں اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے طنز و طعن کے تیر برسانے شروع کر رکھے ہیں۔
ٹی وی چینلز پر خصوصی پروگرام نشر ہو رہے ہیں، مخالفین اور حامیوں کے ردعمل آن آ رہے ہیں۔ طرح طرح کی پھبتیاں کسی جا رہی ہیں۔
کلِک پی پی پی اور قاف لیگ ملاقات: رپورٹ سنیے
ایک ٹی وی چینل نے تو اس جملہ پر پورا پروگرام کر ڈالا کہ ’شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے‘۔
کہا جارہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے پہلے جس کو قاتل لیگ کہا اب اسی سے کس طرح اتحاد کرسکتے ہیں۔
اسی طرح کہا گیا کہ چودھری بردران جس پیپلز پارٹی کو کرپٹ اور اس کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو کو چودھری ظہورالہی کا قاتل قرار دیتے ہیں وہ اسی پارٹی سے کس طرح ہاتھ ملا سکتے ہیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ پرویز الہی تو آج تک نواز شریف پر اس بنیاد پر تنقید کرتے رہے کہ وہ مسلم لیگی ہوکر پیپلز پارٹی کے اتحادی کیوں ہیں؟ اب وہ خود کسں طرح پیپلز پارٹی حامی ہوگئے ہیں؟
پھر یہ تجزیہ بھی سامنے آیاکہ شاید پیپلز پارٹی پنجاب حکومت گرا کر مسلم لیگ قاف کے ساتھ ملکر نئی حکومت بنانا چاہتی ہے لیکن بعض مبصرین اس تجزیہ کو رد کرتے ہیں۔
دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب پیپلز پارٹی پنجاب میں گورنر راج لگا کر بھی کوئی تیر نہیں مار سکی تھی تو اب کیا کر لے گی۔
دس بارہ نشستوں کے ضمنی انتخابات نے پارٹی پوزیشن میں کوئی خاص فرق نہیں ڈالا ہے۔
آج بھی پنجاب اسمبلی کی عددی صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کو اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے محض درجن بھر غیر نون لیگی اراکین درکار ہیں جب کہ پیپلز پارٹی کو ستر سے زیادہ اراکین کی ضرورت ہے۔
منتشر اور منقسم مسلم لیگ قاف اس قابل نہیں کہ پیپلز پارٹی کو ستر ووٹوں کی حمایت دے سکے۔ یہ بات چودھری بردران بھی جانتے ہیں اور پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ بھی اس کا ادراک رکھتی ہے۔
فاقی وزیر قانون بابر اعوان کا کہنا ہے کہ سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا اورنہ ہی ضد کی گنجائش ہوتی ہے۔
یہ ممکن نہیں کہ اتنی سیدھی سادھی بات کا علم ان رہنماؤں کو نہیں ہوگا جنہیں ان کے مخالف بھی شاطر سیاستدان قرار دیتے ہیں۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ وفاقی وزیر قانون بابر اعوان کی پرویز الہی سے ملاقات ایک سوچی سجھی چال ہے جس سے دونوں سیاسی جماعتوں نے کسی نہ کسی انداز میں سیاسی فائدہ حاصل کیا ہے۔
چودھری پرویز الہی کو شریف برداران پر ایک سیاسی وار کرنے کا ایک اور موقع ملا ہے جو انہیں ہمیشہ اپنے سے کم تر مخالف سیاستدان سمجھ کر تحقیر آمیز سیاسی سلوک کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کو نواز شریف کے ان مخالفانہ بیانات کا جواب دینے کا موقع ملا جس میں وہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو کرپٹ ظاہر کر کے حکومت کو جمہوری انداز میں رخصت کرنے کی خواہشات ظاہر کرتے ہیں۔
مبصرین کاکہنا ہے کہ یہ حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کو بھی ایک دندان شکن پیغام ہے جو ان دنوں ایک بڑا سیاسی خطرہ بن کر ابھر رہی ہے۔
معروف صحافی اور تجزیہ نگار امتیاز عالم کاکہنا ہے کہ ایم کیو ایم والے یہ دھمکانا شروع ہوگئے تھے کہ وہ اتحاد سے الگ ہوئے تو شاید پیپلز پارٹی کی حکومت ہی گر جائے گی۔ ان کاکہنا ہے کہ مسلم لیگ قاف کی مدد سے ایم کیو ایم کے بغیر بھی پیپلز پارٹی اپنی عددی برتری قائم رکھ سکے گی۔
پیپلزپارٹی کے بعض سیاستدان نجی محلفوں میں برملا کہتے ہیں کہ وہ تمام عناصر جنہیں سٹیبلشمنٹ کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف سرگرم ہیں۔
سٹیبلشمنٹ کو اپنی من مانیوں کے لیے پنجاب میں اثر و رسوخ رکھنے والی کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا کندھا بھی درکار ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایک ممکنہ سیاسی کندھے پر اپنا دوستانہ ہاتھ رکھ کر غیر جمہوری طاقتوں کو سیاسی طور پر پیغام دیاہے کہ وہ اس محاذ پر بھی منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے
سٹیبلشمنٹ کو اپنی من مانیوں کے لیے پنجاب میں اثر و رسوخ رکھنے والی کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا کندھا بھی درکار ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایک ممکنہ سیاسی کندھے پر اپنا دوستانہ ہاتھ رکھ کر غیر جمہوری طاقتوں کو سیاسی طور پر پیغام دیاہے کہ وہ اس محاذ پر بھی منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ماضی کی قاتل لیگ اور مارشل لا کی ایکسٹنشن قرار دی جانے والی مسلم لیگ قاف کے رہنما پرویز الہی سے ملاقات کے جواز میں پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر قانون بابر اعوان کا کہنا ہے کہ سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا اورنہ ہی ضد کی گنجائش ہوتی ہے۔
لیکن ایک بات جو انہوں نے نہیں کی وہ یہ ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے اور یہ کہ اگر ایک بڑا دشمن سامنے ہو تو ہر طرح سے اپنا بچاؤ کرنا حق ہی نہیں فرض ہوتا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/10/101027_ppp_mlq_meet_sen.shtml
Hasan Nisar:
سمجھ نہیں آتی کہ پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے مکالمہ میں ایسی کون سی قیامت پوشیدہ ہے کہ اتنا شور مچایا گیا۔ وہ کون تھا جو آج پیپلزپارٹی کی گود میں بیٹھا ہے اور کل ن لیگ کی طرف سے بی بی مرحومہ اور بیگم نصرت بھٹو کی کردارکشی کے لئے غلیظ ترین مہم چلا رہا تھا اور ان کے لئے وہ زبان استعمال کر رہا تھا جس کا کوئی خاندانی آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ابھی کل کی بات ہے جب میاں نواز شریف کہتے تھے کہ پیپلزپارٹی کا نام سنتے ہی ان کا خون کھولنے لگتا ہے اور ان کا بس چلے تو پی پی پی کو بحیرہ ٴ عرب میں غرق کردیں۔ محترمہ بینظیرحقارت سے جواباً میاں صاحب کو ”نوازو“ کہا کرتی تھیں۔ جنرل ضیاء الحق کی قبر پر کھڑے ہو کر اس مشن کی تکمیل کا عہد کرنے والے وہی میاں نواز شریف آج فوجی مداخلت کا ذکر سننا بھی پسند نہیں کرتے اور اسی ”سکیورٹی رسک“ کے ساتھ سائن کئے گئے ”میثاق جمہوریت“ کے بغیر ان کی کوئی گفتگو مکمل نہیں ہوتی تو بھائی! ہم جیسے ملکوں میں، ”جمہوریت پذیر“ ملکوں میں میچورٹی اسی طرح سلوموشن میں آتی ہے اسی لئے دھیرج حضور! دھیرج… صرف ق لیگ اور پیپلزپارٹی ہی کیا، میں تو بہت پہلے لکھ چکا کہ اس ملک کی تمام تر سیاسی و دیگر قوتیں سرجوڑ کر بیٹھیں، اصل مسائل کی نشاندہی کریں اور پھر ان کے مختلف حل تجویز کرکے کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کرکے تندہی سے اس پر عمل کریں ورنہ سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا اورہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ بعد ازاں اسی بات کو میاں نواز شریف نے اک اورطرح بیان کیا کہ آئندہ 25سال کے لئے کچھ نکات پر متحد ومتفق ہونے میں ہی بہتری ہے۔
لوٹ کے مال پر قتل و غارت اور سیاست میں بہت فرق ہے، سیاسی اختلاف کو قبائلی دشمنی کا روپ دینا خودکشی کے سوا کچھ نہیں بالخصوص ہم جیسے حالات میں جہاں ملک اور معاشرہ اک ایسے وحشی اونٹ کی شکل اختیار کرچکا جس کی کوئی ایک آدھ کل بھی سیدھی نہیں رہ گئی۔ بنی نوع انسان کی تاریخ میں بدترین معاشرے بھی دکھائی دیتے ہیں لیکن ان میں بھی چند مثبت باتیں مل جاتی ہیں مثلاً اسلام کی آمد سے قبل عربوں کے ایام جاہلیت لیکن ان میں بھی چند خوبیاں تھیں مثلاً شجاعت، زبان اورپناہ دے کر نہ پھرنا، مہمان نوازی وغیرہ لیکن آج اپنے اردگرد دیکھتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں کہ سیاست و معیشت توالگ… یہاں توہر اچھی روایت بھی قتل عام کی بھینٹ چڑھ چکی تو ایسے میں جتنے سر بھی جڑ سکیں… بہتر ہوگا۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=479039
Asadullah Ghalib:
Chaudhry Zahool Elahi’s pen:
http://express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1101085381&Issue=NP_LHE&Date=20101028