سرائیکی تحریک کا ناٹک

saraiki

پنجاب کے وزیر اعلی میاں محمد شہباز شریف نے “سرائیکی تحریک “کو ناٹک قرار دیا اور کہا کہ اس ناٹک کو عوام نے مسترد کرڈالا ہے-ان کے اس بیان پر سرائیکی تحریک سے وابستگان اور ہمدردوں کی جانب سے شدید رد عمل کا اظہار کیا جارہا ہے-سرائیکستان یوتھ پارلیمنٹ کے قائد ایوان رانا محمد فراز نون نے تواس بیان کے ردعمل میں پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کرڈالا ہے-میں بھی پنجاب کے چیف منسٹر کے اس بیان سے خوش نہیں ہوں-کیونکہ اس بیان سے ایک درینہ تعصب کی بو آتی ہے-یہ تعصب کی بو ہمیشہ سے اس نسلی گروہ کی حکمران اشرافیہ سے آتی رہتی ہے جو کسی ریاست میں بالادست مقام کی حامل ہوا کرتی ہے-اس نسل کی حکمران اشرافیہ کی یہ بیماری نیچے بھی سفر کرتی ہے اور عام لوگ بھی اس بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں-

میاں محمد شہباز شریف بالائی پنجاب کی حکمران اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ سرائیکی بیلٹ کے وسائل کی لوٹ مار اور اس خطے سے سستی لیبر کے حصول کے ساتھ ساتھ اس خطے کی زرعی و کمرشل زمینوں کی الاٹمنٹ سے مطلب رکھتی ہے-ان مفادات سے ہٹ کر اس خطے کے عوام کی فلاح و بہبود سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہے-مسلم لیگ نواز پاکستان کے ان بالادست طبقات کی ترجمان ہے جو پاکستان کے اندر اختیارات کی نیچے منتقلی اور صوبوں کے وسائل پر ان کے حق کو مقدم رکھنے کی سخت ترین مخالفت کرتے آئے ہیں-یہ طبقات پاکستان کے اندر پائے جانے والے صوبائی اور قومیتی تضادات اور اختلافات کے ممکنہ حل کو بگاڑنے میں اپنا کردار ادا کرنے میں ہمیشہ مستعد رہے ہیں-اسی لیے ہم نے دیکھا کہ جب اے این پی صوبے کا نام پختون خوا رکھنا چاہتی تھی تو یہ مسلم لیگ نواز تھی جس کی وجہ سے خیبر ساتھ لگانا پڑا-یہ مسلم لیگ نواز تھی جس نے میثاق جمہوریت میں موجود آئینی کورٹ کے قیام کی شق کو اٹھارویں ترمیم کا حصّہ نہیں بننے دیا-یہ مسلم ليگ نواز تھی جس نے پنجاب اسمبلی سے دو صوبوں کی ناقابل عمل قراداد پاس کرائی اور ایک بھی صوبہ نہیں بن سکا-یہ مسلم لیگ نواز تھی جس نے ديگر صوبوں کی تقسیم کا ایشو کھڑا کیا جس کی وجہ سے سندھ سے تعلق رکھنے والے ممبران نے ضیاءالحق کی ڈالی گئی ترمیم کو ختم کرنے کی مخالفت پر آمادہ کیا-

گویا قدم قدم پر ایسی روکاوٹیں کھڑی کی گئیں جن کی وجہ سے سرائیکستان کے الگ صوبے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا-

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ میاں محمد شہباز شریف کو کھلے عام سرائیکی تحریک کو ناٹک قرار دینے کی ہمت کیسے ہوگئی؟جبکہ یہی میاں شہباز شریف کیا بلوچ تحریک مزاحمت کو ناٹک یا ڈرامہ کہنے کی ہمت رکھتے ہیں؟کیا وجہ ہے کہ مسلم لیگ نواز پنجاب کے اندر اپنی شناخت اور حقوق مانگنے والوں کی تذلیل کرتی ہے اور سندھ میں سیاسی یتیم قوم پرستوں کی جھولی میں بیٹھتی ہے؟کیا وجہ ہے کہ بلوچستان میں مسلم لیگ نواز قوم پرستوں کی جھولی میں چیف منسٹرشپ اور گورنری ڈال دیتی ہے اور اس کو اپنا کارنامہ بتلاتی ہے جبکہ سرائیکی خطہّ کے لوگوں کے حقوق کی تحریک کی تذلیل کرنے سے باز نہیں آتی؟

یقینی بات ہے کہ اس خطے میں حقوق کی تحریک چلانے والوں کی داخلی کمزرویاں اس قدر زیادہ ہیں کہ اس تحریک کے مخالف اب اس کی سرعام تذلیل کرنے میں عار محسوس نہیں کررہے-

میرے نزدیک سرائیکی خطے میں حقوق کی تحریک کی پامالی میں سب سے زیادہ کردار پاکستان پیپلز پارٹی کی اول اور دوسرے درجہ کی قیادت کا ہے-اس قیادت نے پانچ سالہ دور حکومت میں سرائیکی خطے کی صنعتی ترقی میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا-سرائیکی خطے کے اندر فنشنگ آیٹم کی تیاری کرنے والی صنعت لگانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی-اور اس کا سٹیٹس خام مال کی منڈی کا رہا-پانچ سالوں میں پی پی پی کی قیادت نے بھارت سے تجارت کے لیے سرائیکی خطّہ کا کوئی روٹ اوپن نہیں کیا-اس روٹ پر تو کوئی ہوم ورک بھی نہیں کیا گیا-

صدر زرداری اور سید یوسف رضا گیلانی نے ان پانچ سالوں میں بزنس اور بروکرز کی ایک ایسی کھیپ کو نوازا جن کا تعلق کراچی ،لاہور اور فیصل آباد سے تھا-جبکہ ملتان،بہاول پور کے تاجروں،صنعتکاروں اور ٹریڈرز کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی-ان کو اے مقام تک لیجانے کا کسی کو خیال نہیں آیا جس مقام تک ہم نے عقیل ڈھڈی۔عارف حبیب،اشتیاق بیگ اور اویس ٹپی یا ملک ریاض کو جاتے دیکھا-

صدر زرداری،سید یوسف رضا گیلانی نے سرائیکی خطے کے اندر عوام کے ایک حصے کو غربت کی دلدل سے نکال کر مڈل کلاس کی اتنی پرت پیدا کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جتنی کوشش وہ سندھ میں کرچکے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے-

صدر زرداری اور سید یوسف رضا گیلانی پانچ سال میں بیانات اور بے اثر قسم کے کمیشن بناتے رہے اور جب ان کے پاس موقعہ تھا اور مہلت تھی اور اہلیت تھی کہ ایوان زیریں سے آئینی ترمیم پاس ہوسکتی تھی اس وقت ایسا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی-

ذرداری صاحب ملتان آئے اور سرائیکی بینک کے قیام کا شوشہ چھوڑ گئے-لیکن یہ بینک نہ تو بننا تھا اور نہ ہی بنا-جبکہ زرداری صاحب کے بنائے ہوئے ڈمی صدر پی پی پی جنوبی پنجاب اور جنرل سیکرٹری دھمال ڈالنے میں مصروف ہوگئے-اور جنرل سیکرٹری نے تو مجھے رانا فراز نون کے گھر یہ نوید سنائی کہ بینک پر پیپر ورک ہوچکا ہے بس اب اعلان ہوگا-مجھے جنرل سیکرٹری پر ترس آتا ہے جو اپنے عہدے کو پہلے پہل خاصا بااختیار عہدہ خیال کرتے رہے-انہوں نے سینکڑوں فائلیں عوام سے اکٹھی کیں اور ان میں سے ایک پر بھی عمل نہ ہوا-ٹکٹوں کی تقسیم میں جو گت سید یوسف رضا گیلانی نے جنوبی پنجاب کے بعض عہدے داروں کی بنآئی وہ بھی اپنی جگہ ایک کہانی ہے-

یوسف رضا گیلانی سرتاپا ایک روائتی اور موقعہ شناس سیاست دان ہیں-انہوں نے جب سرائیکی صوبے کے قیام کا شوشہ چھوڑا تو پہلے انہوں نے ایک بیان بہت تسلسل کے ساتھ دینا شروع کیا-انہوں نے ایک کہانی بنائی(اور مجھے شک ہے کہ کہانی گھڑنے کا فن ان کو شاکر حسین شاکر نے سکھایا ہوگا کیونکہ ان کی قربت میں ایک ہی سچا اور حقیقی ادیب و نقاد تھا اور وہ شاکر صاحب تھے)

کہانی یہ تھی کہ سید یوسف رضا گیلانی جب طالب علم تھے تو انہوں نے بیرسٹر تاج لنگاہ کی تقریریں سنیں اور ان تقریروں سے ان کو سرائیکی قوم کے مقدم کی سمجھ آئی اور وہ قوم پرستی کی طرف مائل ہوگئے-انہوں نے ملتان سرکٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے تاج لنگاہ کو اپنا سیاسی استاد قرار دے ڈالا-اور پھر تاج لنگاہ مرحوم کو پرائم منسٹر ہاؤس کا مہمان بھی بناڈالا-مرحوم تاج لنگاہ سے میری آحری ملاقات عامر شہزاد صدیقی کے گھر ہوئی تھی-اس ملاقات میں رات گئے تک وہ سید یوسف رضا گیلانی کی جانب سے دئے گئے دھوکے کا زکر تاسف کے ساتھ کرتے رہے-وہ صدر زرداری پر سخت نالاں تھے اور پی پی پی کے صوبے پر بنائے گئے کمیشن کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دے رہے تھے-انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کو اسلام آباد لیجانے کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد میں حکومت کے اہم لوگوں کو صوبے کے بارے میں آئینی ترمیم بارے بریفنگ دینی ہے-لیکن جب وہ اسلام آباد پہنچے تو وہاں بہت سرد ماحول تھا-بہت جلد تاج لنگاہ کے بقول ان کو احساس ہوگیا کہ یہ سب سیاسی سٹنٹ کے طور پر کیا جارہا ہے-لیکن تاج لنگاہ مرحوم کا کہنا تھا کہ وہ “برے کو اس کے گھر تک پہنچاکر آنا چاہتے تھے”اسی دوران تاج لنگاہ اپنی ناکارہ اور نااہل ٹیم کو فارغ کرنا چاہ رہے تھے اور وہ اپنی پارٹی کی قیادت نوجوان نسل کے سپرد کرنے کے خواہاں تھے-اس کا اظہار انہوں نے اس رات کی طویل نشست میں کیا بھی تھا-وہ رانا فراز نون پر زور دے رہے تھے کہ وہ ان کی پارٹی کی قیادت سنبھال لیں-لیکن یہ بیل ان کے چند رفقاء کی ہٹ دھرمی کے سبب منڈھے نہ چڑھ سکی اور تاج لنگاہ انتقال کرگئے-

مجھے حال ہی میں سندیسہ ملا کہ سید یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کرنی ہے-یہ دوسری مرتبہ دعوت نامہ تھا-دعوت کے محرک رانا فراز نون تھے-میں نےدونوں مرتبہ معذرت کرلی-وجہ یہ ہے کہ گیلانی صاحب وزیراعظم تھے اور سرکٹ ہاؤس ملتان میں ان سے ایک ملاقات تھی-میں نے اس ملاقات کے دوران بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں پر ان کے وعدے یاد دلاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے وعدے کے مطابق بلوچ گمشدہ اپنے گھر جارہے ہیں مگر میتوں کی صورت اور مسخ شدہ لاشوں کی صورت-اس تنقید کو موصوف برداشت نہیں کرپائے تھے اور ڈپٹی انفارمیشن سیکرٹری کو کہہ کر آئیندہ مجھے کسی جگہ مدعو نہ کرنے کا حکم صادر فرماڈالا-زردای صاحب ملتان تشریف لائے تو فرحت اللہ بابر کو کہہ کر آخری وقت میں میرا نام میڈیا لسٹ میں شامل ہوا-مگر میں نے پھر بھی جانا مناسب خیال نہیں کیا-مجھے گیلانی صاحب کے صاحبزادے کے اغواء پر سخت تشویش ہے-میں وہ آدمی ہوں جس نے یوسف رضا گیلانی کی میمو سیکنڈل کے حوالے سے قومی اسمبلی میں کی جانے والی تقریر پر برملا لکھا تھا کہ ایسی تقریریں کرنے والوں کے ساتھ عسکری ہئت مقتدرہ اچھا سلوک نہیں کرتی اور انتقام مسلسل کا ایک سلسلہ لازم آیا کرتا ہے-ضیاء کی باقیات نے زرداری کے ساتھ جو کچھ کیا اس کی وجہ بھٹو کا داماد ہونا تھا-اور جب سے اور جس طرح سے حیدر گیلانی کا اغواء ہوا ہے میں مسلسل کہتا آیا ہوں کہ یہ اغواء بھی یوسف رضا گیلانی کی اسی تقریر کا شاخسانہ ہے-لیکن سید یوسف رضا گیلانی آج اگر سیاست کے میدان میں دیوار سے لگے نظر آتے ہیں تو اس کی زمہ داری ان کی بزدلی اور کم ہمتی پر بھی عائد ہوتی ہے-

سید یوسف رضا گیلانی کو جب اقتدار سے فارغ کیا گیا تھا تو ان کو سرائیکی خطے کی عوام سے رجوع کرنا چاہئیے تھا-اور پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کے بارے میں وہ سارے سچ بولنے چاہئیے تھے جو ان کو معلوم ہوئے تھے-میں نے ایک جگہ لگھا تھا کہ بھٹو صاحب کے پاس عوام میں جانے کا وقت نہیں تھا تو انہوں نے کوئلے سے “اگر میں قتل کیا گیا لکھ ڈالی تھی-اور پھر سپريم کورٹ میں ایک طویل بیان ریکارڈ کرایا تھا-یہ دستاویزات اسٹـبلشمنٹ اور ان کے پالنہاروں کے خلاف ٹھوس انکشافات پر مشتمل ہیں-بھٹو کی یہ تحریریں جہاں جہاں پہنچی مردہ بھٹو زندہ بھٹو سے زیادہ خطرناک بن گیا-میاں محمد نواز شریف کا تختہ الٹا گیا تو نواز شریف نے کارگل سمیت بہت سارے رازوں سے پردہ اٹھا دیا اور لڑائی کی-اور وہ سرخرو ہوگئے-مگر یہ یوسف رضا گیلانی کی بے بصیرتی تھی یا ان کو اسٹبلشمنٹ سے کچھ غلط توقعات تھیں کہ انہوں نے عوام سے مدد مانگنے کا فیصلہ نہ کیا-وہ اس قدر عاقبت نااندیش نکلے کہ جنوبی پنجاب کے اندر وہ سیاسی فتح حاصل کرنے کے لیے پگاڑا ہاؤس کی مدد کے طالب ہوئے-مخدوم زادوں سے مدد مانگی-اور بہاول پور میں ممتاز گیلانی جیسے جیالے کا ٹکٹ ضیاء الحق کے چیلے لالیکا کو دے ڈالا گیا-

ان پر الزام ہے کہ جس امیدوار نے ان کی پوری فیملی کو لندن کی سیر اور شاپنگ کرائی اس کو این اے 159 کا ٹکٹ دے دیا گیا-ان کے سیکرٹری پر الزام ہے کہ اس نے پی پی 218 کا ٹکٹ پیسے لے یر تبدیل کیا-ایسے اور بہت سارے الزامات ان کی ذات اور خاندان پر لگے اور لگ رہے ہیں-اگر گیلانی خطے میں اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست کا علم اٹھا لیتے اور سرائیکی حقوق کی تحریک کے مخالفوں کو بے نقاب کرتے اور عوام سے مدد مانگتے تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے-یوسف رضا گیلانی نے مردہ گھوڑے نور ربانی کھر کی خاطر جیتے والے گھوڑے کو پارٹی سے نکلنے پر مجبور کرڈالا-ان کی پانچ سال کی پارٹی سیاست میں مداخلت تباہ کن ثابت ہوئی-اور سرائیکی تحریک کو ناٹک میں بدلنے میں ان کا بہت بڑا کردار ہے-

اس ناٹک کی زمہ داری ان لوگوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو پی پی پی ،پاکستان تحریک انصاف کی نعرے بازی کو حقیقت بناکر دکھانے کی کوشش کرتے رہے-اور عوام میں جھوٹی امیدیں پیدا کرتے رہے-

مجھے محترم بزرگ ساتھی حیدر جاوید سید کی اس بات سے اتفاق ہے کہ سرائیکی عوام کے حقوق کی تحریک کو جاگیرداروں اور سرمایہ دار سیاست دانوں کے ڈیروں اور دھیلزوں پر سجدہ ریز کرانے کی بجائے طبقاتی بنیاد پر یہاں کی ورکنگ کلاس کی نجات کے اصول پر تحریک کو منظم کرنے کی ضرورت ہے-اور اس کے لیے نوجوان قیادت کے آگے آنے کی ضرورت ہے-مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ سرائیکی خطے کے باشعور اور بیدار مغز نوجوان ایسی تحریک کی داغ بیل ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں جس میں بہت سے سئینرز ساتھیوں کا تعاون بھی شامل ہے-یہ کوشش کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے اگر ماضی کی غلطیوں کو دوھرانے سے پرھیز کیا گیا تو کامیابی مقدر بنے گی

Comments

comments