نظام بدلے بنا بات نہیں بننے والی

aamir hussaini 2

کراچی صدر میں نشاط سینما کے عقب میں پی ایم اے ہاؤس کے حال میں ایک دن کا اسکول 2 جون اتوار کے روز منعقد ہوا-اس سکول کا انعقاد انقلابی سوشلسٹ نے کیا تھا-مجھے بھی اس سکول میں شیعہ برادری کے قتل عام  پر ایک خصوصی لیکچر دینے کو کہا گیا تھا-یہ ڈے اسکول جپنی نوعیت کا بہت ایھا اسکول تھا جس میں پورے ملک سے دانشوروں نے لیکچر دئیے -میں اس تجربے کو اپنے قاری سے شیئر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں-

اسکول میں پہلا لیکچر سرتاج خان نے دیا-سرتاج خان پولیٹیکل سائنس کے سکالر ہیں-وہ بہت سی کانفرنسوں میں اہم ترین مقالے پڑھ چکے ہیں-ان کو پاکستانی سیاسی تجزیہ نگاری میں اس وقت شہرت حاصل ہوئی جب انہوں نے سوات میں طالبان کے ابھار کا طبقاتی بنیادوں پر تجزیہ شروع کیا-=اور انھوں نے طالبان کی سماجی بنیادوں کو کی تلاش کی اور اس حوالے سے سٹیریو ٹائپس کو چیلنج کیا-حال ہی میں انھوں نے شیخ احمد سرہندی کی تحریک کی طبقاتی بنیادوں کی تلاش کی اور اس حوالے سے ایک تحقیقی مقالہ پشاور یونیورسٹی کی طرف سے ہونے والی ایک کانفرنس میں پیش کیا-شیخ احمد سرہندی کے بارے میں یہ اپنی نوعیت کی منفرد تحقیق ہے جو سرتاج نے کی ہے-سرتاج احمد خان صرف دانشور ہی نہیں بلکہ وہ سرگرم عملی سیاست دان بھی ہیں-وہ مزدور کسان پارٹی ،پختوں خوا سٹوڈنٹس فیڈریشن اور طبقاتی جہدوجہد میں رہے اور آج کل وہ انٹر نیشنل سوشلسٹ کے ساتھ ہیں-

سرتاج خان نے اس ڈے اسکول میں “طبقہ “اور افغانستان و سامراج جیسے ایھا موضوعات پر لیکچر دیا–ان کا کہنا تھا کہ میکس ویبر جو کہ معروف ماہر سماجیات تھا نے طبقہ سے مراد لوگوں کا سماجی رتبہ لیا اور اس نے جو تعریف کی اس کو سرمایہ داری کے حامی لوگوں نے اپنا لیا-اور میکس ویبر نے طبقے کی تعریف متعین کرنے کے لئے سرمایہ داری کے تناظر کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی-ان کا کہنا تھا کہ یہ کارل مارکس تھا جس نے طبقہ کو ایک جامد چیز کی بجائے ایک متحرک شکل میں دیکھنے کی کوشش کی-کارل مارکس کا کہنا تھا کہ طبقہ معاشرے میں تضاد کے سامنے آنے سے اور لڑائی کے دوران متشکل ہوتا ہے-کارل مارکس کا کہنا تھا کہ طبقے کے کا تعین کسی بھی فرد یا گروہ کے پیداوار سے رشتے سے ہوتا ہے-اسی بنیاد پر کارل مارکس نے کہا تھا کہ افراد ویسے تو امن کے دنوں میں پیداواری رشتوں سے جنم لینے والی طبقاتی شناخت کی بجائے اور شناختوں کے زیر اثر رہتے ہیں-لیکن جیسے ہی کام کی جگہ پر لڑائی ہوتی ہے اور مالکوں اور کام کرنے والوں کے درمیان لڑائی ہوتی ہے تو پیداواری رشتے سے بننے والی شناخت غالب آجاتی ہے-اور طبقاتی بنیاد نسلی،مذہبی ،گروہی اور قبائلی شناختیں دب جاتی ہیں-سرتاج نے افغانستان میں جنگ اور افغانستان میں سامراج کے کردار اور ان کے حکمران طبقے سے تعلقات پر روشنی دہلی-ان کا کہنا تھا کہ حکمران طبقے اور سامراج کی نام نہاد روشن خیالی کا ایجنڈا بدترین ناکامی سے دوچار ہوا اور افغانستان میں امریکی جس ایجنڈے کے ساتھ آئے تھے وہ ناکام ہوگیا-

کوئٹہ کے ایک کالج میں اردو کے استاد نقیب خان کاکڑ ہیں-وہ تاریخ اور سائنس پر بھی مہارت رکھتے ہیں-ان کے زمہ سرمایہ داری کی تاریخ اور اس کے ارتقاء کے بارے میں لیکچر دینا تھا-انھوں نے بہت آسان پیرائے میں سرمایہ داری کی تعریف کی-انھوں نے بتایا کہ کس طرح جنس اور صارفیت پرستی سرمایہ داری کے امتیازی عناصر ہیں جو اس سے پہلے کے نظاموں میں ہم کو نظر نہیں آتے-ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ داری نے اجرت کی غلامی کو متعارف کرایا اور قوت محنت محنت کشاں کو بیچنے پر مجبور کردیا-اس دوران حاضرین نے کالونیل سسٹم اور اب تک سرمایہ داری کی پیش رفت پر اہم سوالات اٹھائے-

عاصم جان جوکہ پی آئی اے میں ملازم ہیں اور ٹریڈ یونین سیاست کا تجربہ  رکھتے ہیں -انھوں نے “انقلابی پارٹی کی ضرورت کیوں؟پر بہت زبردست لیکچر دیا-انھوں نے کہا طبقاتی سوال کو نظر انداز کرنے والی پارٹیاں نظام کو بدل نہیں سکتیں-اصلاح پسندی بھی نظام کے استحصالی پن کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں-تاریخ کا سبق بھی یہی ہے کہ بربادی،بربریت اور استحصال سر مایہ داری نظام کی فطرت ہیں-اور اس نظام کے اندر اصلاح پسندی کی گنجایش نہیں ہے-اس کی بجائے پیشہ ور انقلابیوں کی ایک جماعت بنانے کی ضرورت ہے-ایسی پارٹی جوکہ طبقاتی بنیاد پر تعمیر ہو-اور محنت کشوں کی نمائندگی کرتی ہو-عاصم جان نے پاکستانی ریاست کی بنیاد اور ساخت پر بھی اہم ترین نکات بیان کئے -ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ریاست سرمایہ دارانہ ریاست ہے-اور اس کی معشیت عالمی سرمایہ داری سے جڑی ہوئی ہے-اس کو جاگیردارانہ ریاست کہنے والے موقعہ پرستی کا شکار ہیں-اور ان کے خیال میں پرانے لیفٹ کی جماعتوں کی ناکامی کا سبب بھی ریاست کی ساخت کے بارے ابہام کا شکار ہونا ہے-

پشین ڈگری کالج کے استاد نیک محمد نے بلوچستان کے انتخابات کے بارے میں لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں بلوچ پٹی میں ٹرن آوٹ بہت مایوس کن رہا اور بلوچ عوام نے انتخابات کو مسترد کر دیا اور بلوچ قوم نے مطالبات کے حوالے سے اغماض برتنے پر انتخابات کو مسائل کے حل کے راستے کے طور پر نہیں دیکھا-نیک محمد نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ پشتوں اور بلوچ آبادی کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش کی جارہی ہے-اور پشتون آبادی میں موقعہ پرست سیاست استحصالیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی روش پر عمل پیرا ہے-

معروف صحافی ،مدیر رضوان عطا جوکہ لاہور سے تشریف لائے تھے انھوں نے عورت کی آزادی اور سوشلزم پر لیکچر دیا-ان کا کہنا تھا کہ عورت بطور صنف بھی استحصال کا شکار ہے-اور سرمایہ داری نظام میں عورت ایک طرف تو باہر محنت فروخت کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو گھر  میں بھی ایک ایسی محنت کا کام کرنا پڑتا ہے جس کی کوئی مزدوری نہیں ملتی-اور اس کا حل مارکسی دانش وروں نے نے ڈومیسٹک لیبر کا مکمل خاتمہ کرنا بتایا-ان کا کہنا تھا کہ مرد اور عورت دونوں کی حقیقی آزادی کے لئے سرمایہ داری نظام کے خاتمے کی ضرورت ہے-

ریاض شاہ جو کہ پیشہ کے  اعتبار سے ڈاکٹر ہیں انھوں نے سندھ میں میگا پروجیکٹس کے بارے میں لیکچر دیا اور بتایا کہ کیسے یہ پروجیکٹ عوام دشمنی کا سبب بن رہے ہیں اور ان کا مقامی آبادی کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہورہا-ناہموار ترقی اور سرمایہ داری نظام میں جو رشتہ اور تعلق ہے اس کو بھی ڈاکٹر ریاض نے اچھے طریقے سے واضح کیا-

کراچی یونیورسٹی میں اپلائیڈ کیمسٹری کے استاد ریاض احمد نے پاکستان کے اندر حکومت کی تبدیلی اور موجودہ سیاسی حالت پر بات کی-ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مئی کٹوتیوں کا موسم شروع ہونے والا ہے-حکمران طبقہ معاشی بحران،بجلی کے بحران اور کمزور خزانہ کا حل مزید سبسڈی کے خاتمے ،سرکاری اداروں کو بیچنے اور ملازمیں کو نکالنے میں تلاش کررہا ہے-اور آنے والا دور محنت کشوں پر مزید سخت اور بھاری ہوگا-ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکمران کلاس صرف و صرف سرمایہ داروں کے تحفظ کے لئے کام کر رہی ہے-اس ملک میں ورکنگ کلاس کی آواز بلند کرنے والی سیاسی قوت کا ابھرنا بہت ضروری ہے-

میں نے پاکستان میں شیعہ برادری کے قتل عام کی وجوہات پر روشنی ڈالی-میرے خیال میں اس کی ایک عمومی وجہ تو سرمایہ داری کی تقسیم کرنے اور بیگانگی پھیلانے میں چھپی ہوئی ہے-پاکستان میں غربت کے پھیلنے،بری معاشی صورت حال نے انسانوں کے انسانوں کے خلاف ہونے کے عمل کو تیز کیا ہے-اس وجہ سے پاکستان میں خاص طور پر کراچی میں سرمایہ کے بڑھتے ہوئے حجم اور اس کے مقابلے میں ریاست کے کمزور ڈھانچے کی وجہ سے بھی ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے-پھر ریاست کے اندر ڈیپ ریاست کے حامی اور سیکورٹی سٹیٹ میں بدلنے کے حامی ،تزویراتی گہرائی کے حامی بھی اس قتل عام کے ذمہ دار ہیں-اس کے پیچھے خطہ میں جاری طاقتوں کی باہمی بالا دستی کی جنگ بھی اپنا کردار ادا کررہی ہے-مڈل ایسٹ کی مخصوس صورت حال ،شام ،بحرین اور لبنان کی صورت حال کا اثر بھی اس ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ کر رہا ہے-ہمیں نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف واضح موقف اختیار کرنے ،اس کا نشانہ بننے والی برادریوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے-ان جماعتوں اور قوتوں کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے جو اس ٹارگٹ کلنگ کا جواز تلاش کرتی ہیں اور سیاسی موقعہ پرستی کا مظاہرہ کرتی ہیں-

ڈے اسکول بہت اچھا تھا اور اس اسکول میں جو نوجوان شریک تھے انھوں نے بھی سرگرم اس اسکول میں شرکت کی-نغمہ شیخ  این جی اوز اور ان کے سامراج سے مبینہ رشتہ داری پر بہت خوبصورت لیکچر دیا-اور بہت سارا لٹریچر بھی اس موقعہ پر موجود تھا-کراچی میں اس اسکول میں شرکت ایک اچھا تجربہ تھا-اور اس دوران وہ آوازیں سنائی دیں جو میں سٹریم میڈیا میں نہیں آ پاتیں-

کراچی کے اس اسکول میں مومن خان سے بھی ملاقات ہوئی جو ضیاء دور میں این ایس ایف کے مرکزی صدر تھے اور انھوں نے طلبا برادری کو آمریت کے خلاف متحرک کیا-اور قید بھی ہوئے-اور انھوں نے کراچی یونوورسٹی  سمیت پاکستان بھر کی جامعات کو ضیاء آمریت کے خلاف مرکز میں بدل ڈالا تھا-وہ اپنے بیٹے کے ساتھ  آئے تھے-اور وہ آج بھی اتنے ہی پرجوش تھے جتنے وہ زمانہ طالب علمی میں ہوا کرتے تھے-

Comments

comments