الیکشن کے بعد کا پاکستان – از حق گو
گیارہ مئی کے الیکشن ملکی تاریخ کے پہلے الیکشن تھے جن میں اقتدار ایک منتخب شدہ جمہوری حکومت سے ایک منتخب شدہ جمہوری حکومت کو منتقل ہوا – ایک ایسا ملک جہاں سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ جمہوری حکومتوں کو گھر بھیجنے کی ایک لمبی تاریخ رکھتی ہو وہاں یہ قدم ایک سنگ میل کی حثیت رکھتا ہے
اس مختصر سی الیکشن مہم میں عمران خان نو جوان اور پڑھے لکھے طبقے کو تو اپنی طرف ضرور متوجہ کرا پاے ہیں لیکن نواز شریف اور ان کی پارٹی پنجاب میں اپنے الیکشن مہم، سابقہ حکومت کی کسی حد تک کارکردگی اور گراؤنڈ ورک کی بدولت کافی مطمئن کر دینے والی فتح سے ہمکنار ہوے ہیں – اس فتح کے ساتھ ساتھ انھیں پنجاب سے ہی اتنی نشستیں مل گیں ہیں کہ وہ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیے ہیں
نو وارد تحریک انصاف خیبر پختون خواہ میں جماعت اسلامی کے ساتھ اور پیپلز پارٹی سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ مل کر حکومت بنایں گے اور بلوچستان ہمیشہ کی طرح ایک کچھڑی کی طرح سمجھ سے باہر ہے
متحدہ قومی موومنٹ ، عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی پر طالبان کے نہ روکنے والے حملوں کی وجہ سے یہ جماعتیں اپنی الیکشن مہم نہیں چلا سکی اور ویسے بھی الیکشن مہم صرف پنجاب میں ہی جاری رہی – حال ہی میں سیاسی افق پر نمودار ہونے والی درمیانے طبقے کے پڑھے لکھے نو جوان جو کہ ایک نیی سیاسی طاقت کے طور پر ابھرے ہیں انہوں نے سوشل میڈیا اور گلی کوچوں میں اس بات کو یقین کی حد تک پہچا دیا تھا کہ وہ ایک نیا پاکستان ایک نیی لیڈرشپ کی سرپرستی میں بنانے جا رہے ہیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہو سکا –
ویسے بھی عمران خان نے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ نوے دن کے اندر سب مسائل کیسے حل کریں گے اور اتنے مختصر وقت میں نیا پاکستان بنانا کیسے ممکن ہوگا – سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا عمران خان اس میدان کے کھلاڑی ہیں ؟؟ جہاں جماعت اسلامی ان کی اتحادی ہے ، وہی جماعت اسلامی جو تشدد کی سیاست کے حوالے سے بانی مبانی کا کردار رکھتی ہے اور اس کا یوتھ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ تو خیر عمران خان پر بھی ہاتھ صاف کر چکا ہے
تحریک انصاف کے کارکنوں اور لیڈرز نہ دھاندلی کا الزام تو عائد کیا ہے لیکن وہ اپنے الزام کی توثیق کسی ثبوت سے نہیں کر سکے اور ایسا کوئی اشارہ بھی نہیں ملا کہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ماضی کی طرح الیکشن کو ہائی جیک کیا گیا ہو – پہلی دفعہ ووٹنگ پراسیس میں حصّہ لینے اور ماضی کا تجربہ نہ ہونے کی بنا پر تحریک انصاف کے زیادہ تر کارکنوں کا یہی خیال ہے کہ ان کے ساتھ دھاندلی کر کے الیکشن چراے گیے ہیں
لیکن کراچی کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا، تحریک انصاف کا الزام ہے کہ ایم کیو ایم نے کراچی میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی ہے اور تحریک انصاف نے ایم کیو ایم کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے لیکن یہ احتجاج بھی صرف حلقہ این اے دو سو پچاس کے حوالے سے ہی رہا ہے جہاں پر زیادہ تر اونچے درجے اور اپر کلاس کی اکثریت ہے – اس صورت حال میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے جو دھمکی آمیز تقریر کی اور اس تقریر کے بعد تحریک انصاف سندھ کی نائب صدر کا قتل اس صورت حال کو زیادہ گھمبیر بنا رہا ہے
تاہم ابھی تک کسی نے اس قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن عمران خان نے بذات خود الطاف حسین کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جس کے بعد ایم کیو ایم اور تحریک انصاف میں کشیدگی کافی زیادہ ہوگیی ہے اور پورے ملک میں یہ تاثر زور پکارتا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کے خلاف جلد سے جلد کوئی کاروائی کی جائے
نو وارد تحریک انصاف خیبر پختون خواہ میں جماعت اسلامی کے ساتھ اور پیپلز پارٹی سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ مل کر حکومت بنایں گے اور بلوچستان ہمیشہ کی طرح ایک کچھڑی کی طرح سمجھ سے باہر ہے- ایک مشاہدہ جو ممکنات پر مشتمل ہے
:1
پنجاب میں دھاندلی کے الزامات کسی نتیجے پر نہیں پہنچے گے اور نواز لیگ بلا شرکت غیرے پنجاب پر حکومت کرے گی اگر اس کو کسی کسم کے سیکورٹی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑا، ان کے ترقیاتی منصوبے اسی طرح جاری رہیں گے البتہ امن و امان کی صورت حال کو بہتر کرنے کے لئے انھیں سنجیدہ کوششیں کرنی پڑے گی جو کہ ان کے ماضی کی حکومتوں کا ریکارڈ دیکھ کے نا ممکن نظر اتا ہے -پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو خود کو اصلی اپوزیشن ثابت کرنے کے لئے کڑی محنت کرنی ہوگی ، تحریک انصاف ابھی مضبوط نظر آرہی ہے مگر پیپلز پارٹی بھی اتنی کمزور نہیں ہے اگر وہ پھر سے اپنی اساس بایں بازو کی جماعت بن کر غریبوں کی نمائیندگی کرے تو وہ پھر سے ایک طاقت ور جماعت بن سکتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ منظور وٹو جیسے سیاسی لوٹے کے بجاے کسی حقیقی جیالے کو پارٹی کے معاملات چلانے دے – اس کو اپر مڈل کلاس کی جماعت تحریک انصاف سے زیادہ سخت مقابلے کی توقع نہیں ہے لیکن کیا وہ موجودہ لیڈر شپ کے ساتھ ایسا ممکن بنا سکے گی – دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ تحریک انصاف کیا سیاسی بلوغت کی منازل تہہ کرتی ہے یا صرف تنقید براے تنقید کی سیاست کرتی ہے
:2
عمران خان کی تحریک اصناف کی خیبر پختون خواہ کی حکومت کو پہلے دن سے طالبان کی دہشت گردی کا سامنا ہوگا اور وہ یہ مسلہ حل کرنے میں ناکام رہیں گے – کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو تحریک انصاف کی حکومت خیبر پختون خواہ میں اس لئے چاہیے تھی کہ وہ اچھے اور برے طالبان کو بہتر طریقے سے ڈیل کر سکیں تا کہ امریکا کے افغانستان سے نکلنے کے بعد کے حالت کو قابو میں لیا جا سکے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہونگے – امریکا کے افغانستان سے جانے کے بعد پاکستان فوج مجبوری ہوگی کہ وہ اچھے اور برے طالبان دونو سے جنگ کرے اور ویسے بھی جب بات سرمایا دارانہ حکومت اور جہاد کی ہو تو پاکستانی اشرافیہ سرمایا دارانہ جمہوریت کو ہی جداد پر ترجیح دیگی کیوں کہ اسے امریکا سے امداد بھی تو لینی ہے –
3 :
تحریک انصاف کی حکومت اپنے امن کے وعدے میں کامیاب نہ ہو سکے گی لیکن حکومتی معاملات اور بعد عنوانی جیسے مسائل سے اچھے طریقے سے نبات سکتی ہے اگر عمران خان وہاں بھی شوکت خانم جیسے لوگوں کو حکومت کی باگ دوڑ سمبھالنے کا موقعہ دیں- دیکھنا یہ ہوگا کہ جماعت اسلامی سے اتحاد کے بعد کیا تحریک انصاف اپنے سیکنڈ نوین اسلام اور اسلامی فلاحی ریاست کا وعدہ جماعت کے انتہاپسندانہ اور کسی حد تک بیوقوفانہ اتحادی کے ہوتے پورے کر سکتی ہے یا نہیں –
4 :
کراچی کے حالت درد ا سر کی وجہ رہیں گے اور اگر تحریک انصاف یہ سوچتی ہے کہ وو اپنے بل بوتے پر متحدہ قومی موومنٹ کو کراچی میں چیلنج کر سکتی ہے تو ایسا بلکل نہیں ہو سکتا کیوں کہ تحریک انصاف نہ کوئی مسلح ونگ رکھتی ہے نہ ہی کسی مافیا کا حصّہ ہے اور تحریک انصاف کو فایدہ صرف ایک صورت میں ہو سکتا ہے کہ اگر ریاست خود متحدہ کے خلاف کسی قسم کی کروائی کرنے کا فیصلہ کر لے اور کراچی کے موجودہ حالت اس بات کے گواہ ہیں کہ ایسا کرنا اب آسان نہیں ہوگا – امن امان کی خراب صورت حال کے ساتھ ساتھ متحدہ کے اپنے لیڈر عمران فاروق کا قتل بھی متحدہ کے اندرونی اختلفت کی کہانی سنا رہا ہے – نواز لیگ کی حکومت کے لئے کراچی میں متحدہ کے خلاف کوئی کروائی کرنا نہ ممکن ہوگا اب جب کہ کراچی کے زیادہ تر حصّوں پر طالبان کا قبضہ بھی کھل کر سامنے آ چکا ہے تو دیکھنا یہ کہ حکومت طالبان کے خطرے سے کیسے نبٹے گی –
5 :
نواز لیگ شروع شروع میں تو فوج کے ساتھ معاملات کو نرمی سے آگے بڑھاے گی لیکن ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ آرمی کو سویلین کنٹرول میں لانے کے لئے انھیں لانگ ٹرم پلاننگ کرنی پرے گی اور آرمی کی قیادت بھی یہ بات جانتی ہے اگر دونوں قیادتیں بالغ نظری کا ثبوت دیں تو معاملات آسانی سے بہتری کی جانب جا سکتے ہیں – دونوں کے تعلقات کو ماضی میں دیکھا جائے تو کوئی اچھی امید نہیں ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کو ایک اور ملٹری ٹیک اوور کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا
6 :
انڈیا کے ساتھ تعلقات نواز شریف کی حکومت میں کافی بہتر ہو جاہیں گے ، نواز شریف اچھی طرح جانتے ہیں کہ انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات دونوں ملکوں خاص طور پر پاکستان کی معیشت کے لئے کتنے اچھے ثمرات لا سکتے ہیں لیکن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ آرمی کشمیر میں جہاد کو دوبارہ سے طاقت دے کر کشمیر کے مسلے کو پاس پشت ڈالنے سے روک سکتی ہے یا کوئی ممبئی طرز کا حملہ- اب اب کوئی بھی ملک پاکستان کی کسی ایسے حرکت کا ساتھ نہیں دیگا یہاں تک کہ چین بھی – تحریک انصاف کی شیریں مزاری بھی کشمیر کے مسلے کو پاس پشت ڈالنے پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں – باوجود اس کہ کے نواز کے دور میں انڈیا سے تعلقات بہتر ہو جیئں گے عوامی سطح پر پھر بھی نواز لیگ کے انڈیا کے ساتھ تعلقات کو مقبولیت حاصل نہیں ہوگی
7 :
بلوچستان کے حالت میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آے گی اور بلوچ قوم پرست جو کہ تعداد میں کافی کم ہیں وہ ناٹو کی کسی بری مدد کے بغیر پاکستان سے علیحدگی میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے ، آرمی اور ایجنسیاں بھی اسی طرح اپنے کام میں مصروف رہیں گی جیسے کہ آج ہیں – جہموری حکومت سے بھی بلوچستان کے حوالے سے کسی معجزہ کی توقعہ کرنا خام خیالی ہوگی
8 :
عوامی نیشنل پارٹی طالبان کے عتب کا نشانہ بنتی رہے گی اور تب تک جب تک ریاست کی طرف سے طالبان کو ایسا کرنے کی اجازت ہے اور اس میں کسی طالبان کی طرف سے کسی قسم کی رعایت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
الیکشن ایک مثبت سنگ میل کی حثیت رکھتا ہے پاکستان میں طالبان کی دھمکیوں کے باوجود لوگوں نے بری تعداد میں ووٹ ڈال کے نظام جمہوریت کو نظام طالبان پر ترجیح دینے کے ثبوت دیا – زرداری کی حکومت باوجود تمام غلطیوں کے اس بات پر تعریف کے لائق ہے کہ اس نے عوام کے ووٹ سے حکومت بدلنے کا عمل کو یقینی بنایا – حالت کی بہتری کے لئے کراچی اور بلوچستان میں کسی معجزہ کی ضرورت ہے – اگر نواز لیگ معیشت اور امن امان کے حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھا سکے تو پانچ سال بعد پاکستان ایک کافی حد تک خوش حال جگہ میں تبدیل ہو چکا ہوگا وہ آخری چیز پاکستان جس کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے وہ ہے انقلاب نہ اسلامی نہ تحریک انصاف والا نہ مارکسٹ لیننسٹ انقلاب لیکن کامریڈز ابھی بھی اس کوشش میں لگے ہوے ہیں – ہم نے اس بار تو طالبان کی گولیوں سے بچ کر پاکستان کہے لئے حکومت بدل لی ہے شاید اگلی بار بھی ہم اس قابل ہو سکیں
This article is a faithful translation of :
http://www.3quarksdaily.com/3quarksdaily/2013/05/aftermath-pakistan-elections-2013.html