پیپلز پارٹی کی قیادت اور عوام میں بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے
مانی پہلوان کا تعلق لاہور کے اندرون شہر سے ہے۔ پینتالیس برس پہلے وہ ذوالفقار علی بھٹو کے سحر میں مبتلا ہوئے تو پہلوانی کا شوق جاتا رہا۔ اب وہ نام کے پہلوان ہیں ان کے اندر ’جیالے‘ کی روح پوری طرح رچ بس چکی ہے۔
ساٹھ کی دہائی میں جب پنجاب میں پیپلزپارٹی کا دفتر بنایاگیا تو اسی وقت سے مانی پہلوان کا ڈیرہ یہیں جم گیا۔ پیپلزپارٹی پنجاب کے تمام صدور کے ساتھ مانی سائے کی طرح جڑے رہے۔ لیکن ہمیشہ خوش باش رہنے والےمانی پہلوان آج کل کچھ بجھے بجھے سے ہیں۔
مانی پہلوان کہتے ہیں ’لوگوں نے سارے پنجاب سے ہمیں اڑا کے ایسے پرے مارا ہے کہ جیسے پیپلزپارٹی کی کوئی حیثیت ہے ہی نہیں۔ ہم تو پریشان ہیں کہ پیپلزپارٹی نے تو ملک میں کھربوں روپے کے کام کروائے ہیں اس کے باوجود پارٹی برباد ہوگئی ہے۔‘
صرف مانی پہلوان نہیں، پیپلزپارٹی کے سبھی ’جیالوں‘ کے دل میں آج کل ایسے ہی جذبات اور خیالات ہیں۔ انتخابات کے دوران ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی حیران کن بات یا اپ سیٹ تو ہوتے ہیں، لیکن گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات میں سابقہ حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کو جو شکست فاش ہوئی وہ پیپلزپارٹی کے حامیوں اور مخالفین کے لیے دونوں کے لیے غیر متوقع تھی۔
واحد قومی جماعت ہونے کا دعویٰ کرنے والی پیپلزپارٹی حالیہ انتخابات میں اندرون سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی اور خاص طور پر پنجاب میں اس کا مکمل صفایا ہوگیا۔
نتائج کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت بھی حیران اور پریشان ہے اور جماعت کے عہدیداروں کے پے در پے استعفوں کے بعد اب سرجوڑنے پر مجبور ہوچکی ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ انھیں اس قدر شدید عوامی عتاب کا شکار ہونا پڑا۔
پیپلزپارٹی کے کارکن کامران مرزا تو ان نتائج کو بین الاقوامی سازش قرار دیتے ہیں۔ ’زرداری صاحب نے امریکہ کی خوشنودی کے خلاف ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا منصوبہ شروع کیا اور گوادر کی بندرگاہ چین کے حوالے کی۔ انھی فیصلوں کا خمیازہ پیپلزپارٹی کو انتخابات میں بھگتنا پڑا۔‘
تاہم عوامی حلقوں کی رائے مختلف ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی بری حکمرانی اور خاص طور پر پنجاب میں بجلی کے بحران نے انھیں سیاسی طور پر ہلا کر کے رکھ دیا۔
رکشہ ڈرائیور عبدالباسط کہتے ہیں، ’بجلی اور گیس ہر بندے کی ضرورت ہے چاہے وہ غریب ہویا امیر۔ لوگ اضافی بل تو بھرتے رہے لیکن پیپلزپارٹی کے دور میں نہ تو کسی تو بجلی ملی اور نہ ہی گیس۔‘
پنجاب میں شدید گرمی میں موسم میں اس سے بھی شدید لوڈشیڈنگ نے عوام کو پیپلزپارٹی کے خلاف کر دیا
لاہور میں گدھا گاڑی چلانے والے فتح محمد کے مطابق ’پیپلزپارٹی نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ غریب غریب تر ہوگیا، حالات کی چکی میں پستے پستے زندہ رہنا بھی مشکل ہے۔‘
پیپلزپارٹی کی شکست میں کچھ اور عناصر نے بھی فیصلہ کن کردار کیا۔ بلاول بھٹو زرداری کو بظاہر پارٹی کی قیادت سونپی گئی لیکن عملاً نہ تو وہ انتخابی مہم چلا سکے اور نہ ہی پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم میں کوئی ان کا کوئی کردار رہا۔
سیاسی مبصر حسن عسکری رضوی کے مطابق ’قیادت کا یہ بحران بھی پیپلزپارٹی کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ ورکر اور قیادت میں تعلق اور رشتہ ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی میں اس کا مکمل فقدان تھا۔ ایک لیڈر ان کے زرداری اور ایک بلاول ہیں اور دونوں کا کارکنوں اور عوام سے کوئی تعلق کوئی رابطہ اور کوئی سلسلہ نہیں۔ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی تنظیمی طور پر بھی خاصی حد تک تباہ ہو چکی ہے۔ اور یہ کوئی موثر سیاسی مشین کے طور پر کام نہیں کر رہی۔ بالائی اور وسطی پنجاب میں تو پیپلزپارٹی ویسے ہی کمزور تھی۔ یہاں تو انھیں عرصے سے ایسی قیادت نہیں ملی جو ورکروں کا مورال بلند کرسکے۔‘
ملتان سے پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک ہمدرد طالب علم ادا خاکوانی کہتی ہیں کہ پارٹی قیادت اور عوام میں بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے عوام میں یہ تاثر بہت گہرا ہے کہ پارٹی قیادت کو چند مفاد پرست خوشامدیوں اور درباریوں نے اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے جو انھیں زمینی حقائق اور عوام سے دور رکھتے ہیں انہوں نے کھا کہ نہ صرف صدر زرداری بلکہ ان کے بچوں بلاول ، بختاور اور آصفہ کے گرد بھی ایسے لوگوں کا دائرہ موجود ہے جن کا تعلق مفاد پرست اشرافیہ سے ہے اور پارٹی کے نظریات اور تاریخ سے ایسے درباری بالکل بے بہرہ ہیں خاص طور پر پارٹی کے میڈیا منیجرز اور مشیران نے پارٹی سے زیادہ اپنے مفادات اور پاکستان مسلم لیگ نون کو پروموٹ کیا
خاص طور پر شیعہ اور بلوچ نسل کشی، مسیحی ، پشتون اور دیگر معاملات پر پارٹی عوام کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی
ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ وہ کچھ ہوگیا ہے جس کا تصور شاید کبھی اس کے کارکن تو کیا اس کے مخالفین نے بھی نہیں کیا ہوگا۔
وہ پیپلز پارٹی جس کی مقتول چیئر پرسن کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہا جاتا تھا اس زنجیر کی کڑیاں سندھ سے نکل کر زیادہ دور نہ جا سکیں۔ ایک صوبہ سندھ کو چھوڑ دیں تو پورے پاکستان سے اسے مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی صرف دو سیٹیں ملی ہیں۔ یہ دونوں سیٹیں بھی جنوبی پنجاب کے شہر رحیم یار خان کی ہیں اور گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کی مرہونِ منت ہیں جو حال ہی میں فنکشنل لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ان دو سیٹوں کو چھوڑ کر پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پیپلزپارٹی کا نام ونشان فنا ہو گیا ہے۔
ایک سندھ کو چھوڑ کر پورے پاکستان میں پیپلز پارٹی کے زیادہ تر امیدوار دوسری پوزیشن پر بھی نہیں آئے بلکہ تیسری چوتھی حتیٰ کہ دسویں پوزیشن تک ان کا مقدر بنی۔ مبصرین کا کہناہے کہ پیپلز پارٹی تو دھاندلی کا الزام لگانے کے قابل بھی نہیں رہی کیونکہ جس حلقے میں مسلم لیگ نون کے امیدوار کے ووٹ ایک لاکھ سے زائد اور تحریک انصاف کے اسی ہزار سے زائد تھے، وہاں پیپلز پارٹی کے امیدوار تین چار ہزار ووٹوں سے آگے نظر نہیں آتے تھے۔ لاہور کے علاوہ تینوں صوبوں کے کئی حلقوں میں ووٹوں کے فرق کی اسی طرح کی ملتی جلتی صورتحال نظر آتی ہے۔
پیپلزپارٹی نے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے جماعت کے اندر تنظیمِ نو کا عندیہ دیا ہے۔ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سردار لطیف کھوسہ کہتے ہیں ’پیپلزپارٹی ہاری نہیں ہے بلکہ سازش کے تحت اس کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ عدالتوں نے بھی ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ آخری دن تک ہمارے امیدوارں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہوتے رہے لیکن اس کے باوجود ہم نتائج کو تسلیم کرتے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک نئے عزم اور نئے جذبے کے ساتھ قوم کی خدمت کے لیے ایک مرتبہ پھر خود کو مضبوط کریں گے۔‘
لیکن تجزیہ نگاروں کے نزدیک پیپلزپارٹی کی شکست میں دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے بھی واضح پیغام ہے کہ آئندہ عوام کے لیے نظریے وعدوں یا شخصیات سے زیادہ کارگردگی اہم ہوگی۔
Source: Adapted from various sources including BBC Urdu
Comments
Latest Comments
Aseefa Bhutto will be the Lady Bhutto who will bring the positive change in our country, mark my words!
Baji Ji,
All respects for Zardari daughters. Bring Fatima Bhutto to forefront. Though she is an orphan, but definitely more capable than all Ale-Zardari. Trust me.