Another Rafiq Bajwa: Story of Babar Awan’s cheque to Qazi Anwar – by Nazir Naji


ایک اور رفیق باجوہ…..سویرے سویرے…نذیر ناجی

1977
ء کا سال تھا۔ پی این اے کی تحریک زوروں پر تھی۔ تمام مخالف سیاسی جماعتوں نے جمع ہو کربھٹو صاحب کے خلاف شدید نفرت پر مبنی تحریک چلارکھی تھی۔ پی این اے کا کوئی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو‘ کوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کی باتیں کر رہا تھا۔ کوئی انہیں ایوان اقتدار سے گھسیٹ کر باہر نکالنے کے اعلان کر رہا تھا۔ بھٹو صاحب کے پتلے جلائے جا رہے تھے۔ ان کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے عہدوپیمان ہو رہے تھے۔ یہ طے ہو چکا تھا کہ کوئی لیڈر بھٹو صاحب کے ساتھ غیررسمی ملاقات بھی نہیں کرے گا۔ بھٹو دشمنی پر مبنی موقف کے سب سے بڑے پرچارک رفیق احمد باجوہ تھے۔ وہ بھٹو صاحب کو گالیاں اور دھمکیاں دینے والے ہر شخص کے وکیل بن جاتے جس پر مقدمہ ہوتا۔ بھٹو کے باغیوں کے ساتھ انہی رشتوں کی بنا پر ان کے رابطے پی این اے کے قائدین سے ہوئے۔ ان رابطوں کی وجہ سے انہیں جلسوں میں خطابت کے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ پڑھے لکھے آدمی تھے۔ خطیبانہ جوہر غضب کے رکھتے تھے۔ لفاظی احراریوں کے طرزخطابت سے لی۔ آواز کا اتار چڑھاؤ شورش کشمیری سے اڑایا۔ قدوقامت میں انہی جیسے تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ ہر جلسے اور جلوس کی کامیابی کے لئے ان کی موجودگی لازمی ہو گئی۔ برسوں سے خارزار سیاست میں بھٹکنے والے ان سے پیچھے چلے گئے۔

جماعت اسلامی والے سراغرسانی میں کمال رکھتے ہیں۔ سیاستدانوں کی نفسیات کو خوب سمجھتے ہیں۔ انہوں نے جب راتوں رات رفیق باجوہ کو لیڈر بنتے اور بھٹو صاحب کے سب سے بڑے نقاد کی صورت میں ابھرتے دیکھا‘ تو ان کا ماتھا ٹھنک گیا۔ انہوں نے باجوہ صاحب کی نگرانی شروع کر دی اور جلد ہی ایک ہنگامہ خیز خبر نکال کر نہایت سادگی سے دو سطروں میں سمیٹی اور اخبارات کے حوالے کر دی۔ یہ خبر سنگل کالم شائع ہوئی‘ مگر کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔رفیق باجوہ نے اپنے معروف پرجوش انداز اور طوفان خیز لہجے میں اس کی تردید کی۔ اگلے روز جماعت والوں نے ان ٹکٹوں کی فوٹوسٹیٹ کاپیاں میڈیا کو دے دیں‘ جو باجوہ صاحب کو وزیراعظم ہاؤس کے اکاؤنٹ سے جاری کئے گئے تھے۔باجوہ صاحب جیسے جیسے انکار کرتے گئے‘ جماعت والے مزید شہادتیں منظرعام پر لاتے رہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے باجوہ صاحب جس طرح راتوں رات صف اول کے لیڈر بن گئے تھے‘ اس سے زیادہ تیزرفتاری کے ساتھ لمحوں کے اندر‘ ایک معتوب اور دھتکارے ہوئے شخص بن کر رہ گئے تھے۔ وہ جمعیت علمائے پاکستان کے رکن بن کر پی این اے کے پلیٹ فارم پر آئے اور پی این اے کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ نورانی میاں نے انہیں اپنی پارٹی سے نکال دیا۔ جس کے ساتھ ہی وہ جنرل سیکرٹری بھی نہ رہے۔ چند روز کے بعد دنیا انہیں بھول چکی تھی۔ وکلا نے جو کہ پی این اے کی تحریک میں آگے آگے تھے‘ ان کا بائیکاٹ کر دیا۔ لاہور ہائیکورٹ کا بارروم جس کے لان میں بیٹھ کر وہ اپنا دفتر لگاتے اور سردیوں میں دھوپ سینکتے ہوئے حقہ پیتے‘ ان کے لئے دشمنوں کا علاقہ بن گیا۔ وہ سیاست ہی نہیں سماجی زندگی سے بھی غائب ہو گئے۔

گزشتہ روز وفاقی وزیرقانون بابر اعوان نے سپریم کورٹ بار کے صدر قاضی انور کے ساتھ اسی طرح کی واردات کر دکھائی۔ بھٹو حکومت نے خفیہ ٹکٹ اور خفیہ ملاقات کی کہانی‘ اپنے ذرائع سے یوں ٹپکائی کہ جماعت اسلامی کا سکوپ بن گیا۔ لیکن بابر اعوان دن دیہاڑے سپریم کورٹ کے بار روم میں گئے۔ قاضی انور کے ساتھ بے تکلفی سے یوں ملے‘ جیسے ان کے درمیان پہلے سے کوئی انڈرسٹینڈنگ ہو چکی ہے۔ انہوں نے قاضی صاحب کی خدمت دو چیک پیش کرنے کا اعلان کیا۔ ان میں بار کے ملازمین کے لئے 10 لاکھ روپے اور لائبریری کے لئے 40لاکھ روپے کی رقم درج تھی۔ قاضی صاحب اس مہم پر شدید تنقید کرتے رہے تھے‘ جس میں بابر اعون نے چھوٹے چھوٹے باررومز کو مالی گرانٹس مہیا کی تھیں۔ یہ چیک لینے والے وکلا پر شدید تنقید کی گئی۔ ان پر الزامات لگائے گئے کہ وہ حکومت کے ہاتھوں بک گئے ہیں۔ حالانکہ ان سب کو ملنے والے چیک بھی باررومز ہی کے لئے تھے۔ کسی نے ذاتی حیثیت میں کوئی چیک نہیں لیا۔ لیکن قاضی انور ان پر بھی بری طرح سے گرجتے برستے رہے تھے اور وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ وزارت قانون کے ساتھ کوئی رابطہ نہ رکھا جائے۔ پھر اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ بابر اعون بے دھڑک بارروم میں داخل ہوئے اور قاضی صاحب سے یوں پرجوش طریقے سے ملے‘ جیسے پہلے کچھ ملاقاتیں کر کے وہ باہمی تلخیوں کو ختم کر چکے ہیں۔ چیکوں کے لین دین کے دوران قاضی صاحب نے بابر اعون کے ساتھ پیشہ وارانہ یگانگت کا اظہار کیا‘ جس پر وکلا حیرت زدہ رہ گئے۔ بابر اعوان تو چیک دے کر چلتے بنے‘ مگر اس کے بعد قاضی انور کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ اس کے مناظر دیدنی تھے۔

سپریم کورٹ کے باہر موجود رپورٹروں کے جھمگٹے سے ایک ایک رپورٹر لپک کر ان کی طرف جاتا اور سوالات کی بوچھاڑ کر دیتا۔ ہر ایک کا یہی سوال تھا کہ باہمی خیرسگالی کے اس مظاہرے سے کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ قاضی انور اور وزیرقانون کے مابین کوئی درپردہ مفاہمت ہو چکی ہے؟ قاضی انور اس پر سٹپٹا کر جواب دیتے کہ میں نے صرف چیک لئے ہیں‘ جو بار کے ملازمین اور لائبریری کے لئے دیئے گئے۔ مگر رپورٹر مزید سوالات کی بوچھاڑ کر دیتے اور قاضی صاحب کندھے جھٹکتے اور پاؤں پٹختے ہوئے رپورٹروں کے چنگل سے نکل بھاگنے کی کوشش کرتے‘ مگر چند دوسرے رپورٹروں کا گروپ انہیں آگے سے پھر گھیر لیتا۔

سب سے دلچسپ منظر اس رپورٹر کا تھا‘ جس نے قاضی صاحب کو ایسے طریقے سے گھیرا کہ وہ کھسکنے کے لئے جس طرف کو منہ موڑتے‘ رپورٹر ان سے پہلے سامنے آ کھڑا ہوتااور سوالات شروع کر دیتا۔ رپورٹرکا اصرار تھا کہ قاضی صاحب نے باررومز کے لئے پہلے چیک لینے والے وکلا پر الزام تراشی کی تھی اور اب وہ اپنے آپ کو الزامات سے مبرا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ رپورٹر سوالوں پر سوال کر رہا تھا۔ قاضی صاحب سے جواب نہیں بن پا رہے تھے۔ وہ ٹال مٹول میں مزید پھسل جاتے اور ہر پھسلن کے بعد کھسکنے کی راہ ڈھونڈتے‘ مگر رپورٹر انہیں جانے نہیں دے رہا تھا۔ اس کشمکش میں ان کی جھلاہٹ‘ غصے‘ بے بسی اور سٹپٹاہٹ میں اضافہ ہو رہا تھا۔ انہیں اس حالت میں لا کر رپورٹر لطف اٹھانا شروع کر چکا تھا۔ مزے لینے کے لئے اس نے مزیدپوچھا کہ ”جب وزیرصاحب آئے‘ تو آپ نے چائے ضرور پوچھی ہو گی؟“
”ہاں۔ وہ میرے پاس آئے تھے‘ میں نے چائے پیش کی۔“
”آپ نے ساتھ بیٹھ کر چائے پی ہو گی؟“
”میں پختون ہوں‘ ہم لوگ گھر آئے مہمان کی عزت کرتے ہیں۔“
”تو آپ نے وزیرقانون کی عزت کی؟“

ظاہر ہے ایسے سوالات پر قاضی انور کا موڈ خراب ہو گیا۔ اس مرتبہ وہ طاقت کا استعمال کر کے کھسکے۔ رپورٹر نے ناظرین کو مخاطب کر کے ایک ایسا جملہ کہہ دیا جس پر قاضی صاحب کو واپس آنا پڑا۔ اپنی وضاحت کے بعد وہ جانے لگے‘ تو رپورٹر نے ناظرین کو پھر بلند آواز میں مخاطب کر کے ایک اور تبصرہ کر دیا‘ جس پر قاضی صاحب پلٹ کے پھر مائیک پر جھپٹے اور اپنی پوزیشن کی وضاحت کی۔

یہاں پر منظر تو ختم ہو گیا‘ یہ معلوم نہیں کہ بعد میں کب تک قاضی صاحب کو پلٹ اور جھپٹ کر مائیک چھیننا پڑا ہو گا؟قاضی صاحب وکلا قیادت کی مشاورت اور ساتھیوں سے پوچھے بغیر وہ کام کر بیٹھے ہیں‘ جو رفیق باجوہ سے سرزد ہو گیا تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے وہ اپنے گروپ کی طرف سے خفیہ طور پر‘ کسی سودے بازی کے لئے مامور کئے گئے ہوں۔باجوہ صاحب کو تو پارٹی کی رکنیت اور برادری کی رفاقت سے محروم ہونا پڑا تھا۔ دیکھتے ہیں قاضی انور کا کیا بنتا ہے؟

Source: Jang, 20 October 2010

Hamid Mir’s Capital Talk 18 October 2010

Apex court bar accepts Rs five m govt donation
Dawn Report
Tuesday, 19 Oct, 2010

The supreme court of Pakistan bulding. – File Photo
PAKISTAN
Qazi Anwar returns Babar Awan’s Rs1 million cheque
ISLAMABAD: The Supreme Court Bar Association (SCBA) accepted on Monday a donation of Rs5 million from the government, although such grants were criticised in the past by the top organisation of lawyers.

Law Minister Babar Awan surprised many when he announced the donation at the Supreme Court premises and it was immediately accepted by SCBA president Qazi Anwar who received a cheque for Rs1 million, while Rs4 million will be paid to the association’s new leaders to be elected on Oct 27.

Qazi Anwar, a prominent critic of the government who had severely criticised donations made by the law minister to different bar associations, praised the gesture of Mr Awan and said that he had always been a lawyer and would again join the ranks when he would not be a minister.

Talking to reporters, he said the cheque was meant for employees of the association which he promptly handed over to them, while the rest of the donation would be utilised for upgrading its library.

The donation of Rs1 million was announced by the minister some time back.

Qazi Anwar had earlier announced at a seminar organised by the SCBA that during his tenure no donations from the government would be accepted and over Rs112 million given by former president Pervez Musharraf to the association would be spent for lawyers’ welfare.

The acceptance of the donation raised many an eyebrow with Advocate Athar Minallah, former spokesperson for the chief justice, immediately criticising the reception given to the minister and acceptance of the funds. He accused Mr Awan of being instrumental in government’s refusal to implement the Supreme Court’s judgment against the National Reconciliation Ordinance.

The minister spent about 25 minutes in the office of the SCBA president and then appeared before the media along with Qazi Anwar and some other lawyers to announce the donation.

He said the meeting had been held in line with the government’s policy of reinvigorating contacts with different bar associations which were necessary to redress the grievances of the legal fraternity.

Qazi Anwar said he was always willing to play his role in this regard.

(Source: Dawn, 19 October 2010)

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Abdul Nishapuri
    -
  3. Abdul Nishapuri
    -
  4. ReasonablePriceSoufeel
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.