لیفٹ بیانیہ ہوگا تو بات بنے گی: پیپلز پارٹی الیکشن کیوں ہاری؟
اس مرتبہ مقابلہ سنٹر رائٹ کی دو پارٹیوں میں تھا تو پنجاب کے اندر کہیں بھی سنٹر لیفٹ کی پارٹیاں اپنے سنٹر لیفٹرجحان کے ساتھ انتخابات کے اندر اپنے روائتی ووٹ بینک کو متحرک نہ کرسکیں-ویسے بھی پیپلز پارٹی کی صدارت پنجاب کے اندر شمالی اور جنوبی حصّوں میں جاگیرداروں کے ہاتھ میں تھی اور پھر ایسے میدوار زیادہ تھے جن کو پی پی پی کی تاریخی روائت سے کوئی لگاؤ نہیں تھا-میں نے پہلی مرتبہ کرسچن آبادیوں ،چکوک کے غریب آباد محلوں ،شہروں کی کچی آبادیوں میں نوٹ اور جبر کا غلبہ دیکھا اور ان آبادیوں سے جیالوں کو غائب پایا-ایک ہوک سی دل میں اٹھتی رہی-یہاں ان آبادیوں میں کسی نے وہ سوال اٹھانے کی کوشش نہیں کی جوکہ سنٹر رائٹ کے بارے میں اٹھائے جاتے رہے ہیں-اور کسی نے سنٹر رائٹ کے قائدین عمران خان اور نواز شریف کے خوشحال پاکستان کی اصل تعبیر بتانے کی کوشش نہیں کی کیونکہ پی پی پی نے پانچ سال اپنے سنٹر لیفٹ امیج کو دائیں بازو کی قیادت اور اس کے بیان کردہ بیانئے کے بوجھ تلے دبائے رکھا-اور اس سے نکلنے کی کوشش نہیں کی-اس کی قیادت مولویوں ،انتہاپسندوں اور نودولتیوں کو چیلنچ کرنے سے ڈرتی رہی اور جب سلمان تاثیر اور شباز بھٹی کا قتل ہوا تو اس کے بعد تو جیسے سنٹر لیفٹ بیانیہ ڈبے میں بند کردیا گیا اور کسی نے اس پر بات کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی- سلمان تاثیر کے خاندان کو اکیلاپن محسوس ہوا اور وہ چپ کرکے پاکستان سے نقل مکانی کرگیا-
بلاول بھٹو جن کے حوالے سے پارٹی کے کارکنوں میں میں نے گرم جوشی دیکھی تھی اور میں نے محسوس کیا تھا کہ ان کی کچھ تقریروں اور بیانات کے لیفٹ مواد سے امیدیں بندھنا شروع ہوئی تھیں ان کو بچانک بہت محدود کردیا گیا-بلاول بھٹو تو ٹوئٹر پر اور فیس بک پر بھی اپنی موجودگی کا احساس اس طرح سے نہیں دلا سکے جس طرح سے پی ٹی آئی کے لوگ اور مریم نواز شریف دلا رہی ہیں-
پارٹی قیادت تک رسائی اور عام کارکن کو اپنی آواز بلاول بھٹو تک پہنچانے کا جو مسئلہ درپیش ہے اس کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے-پی پی پی عوامی پارٹی سے زیادہ آواری ،پی سی ،میریٹ اور ہالیڈے ان کی پارٹی بن گئی تھی-
مجھے پانچ سالوں میں پی پی پی کی قیادت سے بہت سے اہم ایشوز پر بات کرنا تھی لیکن آصف علی زرداری سے دو ملاقاتیں ،یوسف رضا گیلانی سے ایک ملاقات بہت افراتفری میں ہوئیں نہ ان کے پاس سننے کا وقت تھا اور نہ میرے پاس ان کو زبردستی سنانے کی طاقت -جبکہ نیچے جو تھے صفدر امتیاز ،منظور وٹو،خواجہ شہاب الدین اور عامر ڈوگر سب کمال کے ایکٹر تھے ایک دن بھی یہ محسوس ہونے نہیں دیا کہ ہماری گفتگو “مرد ناداں پر کلام نرم و ناوک بے اثر “کے مصداق ہے-آج استعفے پر استعفے آرہے ہیں-اور کوئی کارکنوں سے معافی تک طلب نہیں کررہا-
بلاول بھٹو سے مجھے یہ کہنا ہے کہ وہ اپنے اور کارکنوں کے درمیان کھڑی دیوار برلن کوگرانے کا اقرام اٹھائے-اس کا انتظار ہے پی پی پی کے جیالوں کی صفوں میں وہ اس سے وہ سب نویدیں اور خوشخبریاں سننا چاہتے ہیں جو 1970ء میں بھٹو نے اور پھر 6 اپریل 1986 ء کو بےنظیر بھٹو نے سنانا شروع کی تھیں-
اس ملک کے محنت کش ۔غریب کسان اور طالب علم ،کجی ابادیوں کے مکین اور عام آدمی اپنی بھلائی اور اپنی زندگی کے سنورنے کے خواب دیکھنا چاہتا ہے-اور یہ خواب سنٹر رائٹ کے پاس نہیں ہیں-اس کے پاس تو بس اس ملک کی پروفیشنل مڈل کلاس اور ٹریڈر مڈل کلاس کو خوش کرنے اور نوازنے پر مشتمل خواب ہیں جن کی تجارت پنجاب میں اس لیے کامیاب ہوگئی کہ ان کی راہ میں غریبوں کی کوئی پارٹی روکاوٹ نہیں بنی-
پاکستان میں سنٹر رائٹ کا رجحان لیفٹ کی سیاست کے میدان چھوڑ جانے سے طاقت ور ہوا ہے-لیفٹ کو اپنی سیاست کا بیانیہ دوبارہ سے مین سٹریم پالیٹکس میں لانے کے لیے سخت محنت کرنا ہوگی-
Comments
Tags: Criticism of PPP, PPP