Post-2013 elections, likely scenarios for PPP’s future in the Punjab – by Haris Gazdar
How do we read PPP’s collapse in Punjab? Not the immediate causes, but likely scenarios. It’s a long post, so take your time.
Some PPP well-wishers might take comfort from 1997 from which the party had rebounded by the time Musharraf held his 2001 local government elections. But there are two important differences:
(1) 1997 polls were heavily manipulated [under an ISI-installed pro-PMLN caretaker set-up] – no such plea can be sustained today. Yes there was manipulation, but the collapse is political.
(2) PPP was still the ‘second’ force in Punjab in terms of vote share, and had something to build upon to rebound – this time there is PTI.
I use the word ‘political collapse’ in the sense that even if there was rigging as being alleged (i.e non-political), the political failure was manifest in the fact that PTI emerged as the main challenger to Noon (i.e. PML-N). I agree that we should look into the reasons for the collapse – political and non-political. But accepting the political collapse as a fact has its own implications for future scenario-building. We are where we are and the clock cannot be turned back.
Three things can happen as future scenarios:
(a) the party attempts a rebuild in the south on Seraiki/regional development issues, i.e. give up on the north;
(b) it tries to become even MORE like a Muslim League faction and bide its time – ditching any remaining social-democratic hue and courting ‘electables’ (eg Wattoo), banking on inevitable failures of the coming government (inevitable, not because Noon are bound to fail, but because ALL governments are bound to fail);
(c) be aggressive about anti-jihadism, selected social-democratic/working class/women’s issues (eg ASWJ-Taliban’s violence against Shias and Sunni Barelvis, misuse of blasphemy law against Ahmadis, Christians etc) and selected secular causes (as opposed to middle class populism) across Punjab but particularly the north, where neither PML-N nor PTI can ever really outflank it – i.e court working classes, women, and pro-secular segments at the expense of the conservative middle classes. [It’s a fact that majority of Shia Muslims (traditional voters of the PPP, accounting for roughly one fifth of all voters in Pakistan) drifted away from PPP to PTI because of the fact that the party silently presided over Shia genocide in last 5 years and showed insensitivity and inaction on this issue. Also, the party alienated Sunni Barelvis whose shrines and leaders were regularly targeted by ASWJ-Taliban terrorists. Ahmadis, Hindus and other communities were alienated due to similar reasons.]
I state these as alternative scenarios, but in fact they are not mutually exclusive. Still, there is the issue of how much weight to give to each of the three possible lines.
I think option (b) has enjoyed the greatest weight up to now. The emergence of PTI, however, makes the viability of (b) questionable, as PTI can more comfortably occupy the space that exists for an anti-Noon party in Punjab. Of course, much of PTI’s policy platform is identical to Noon, hence its greater comfort. So, a choice between (a) and (c), or some combination of the two would seem logical – even if it is seen as challenging and disturbing to the leadership. But then if you have so little to lose, why not try something different.
The spoiler in any (a) (c) combo will be the uncertain durability of PTI which will face serious challenges now. The post-tumble Imran looks psychologically vulnerable, the tsunami did not happen, Punjab PTI is dominated by electables who owe less to Imran than he would have liked, and KP PTI may sooner or later go out of his control. So if PTI turns out to be a fizzle then the PPP leadership will continue to look favourably at scenario (b) which makes for a less interesting time for us all.
The PPP Co-Chairman is a player and likes to see opportunity in adversity, and here it is in ample proportions. I am convinced that it cannot be healthy for a large and vibrant society like that of Punjab to be without a viable centre-left, or at least centrist, political voice which it currently does not have. And please, let’s be serious, do not try to sell a small leftist faction for this voucher.
Source: facebook – with some edits and additions
Come again. Who are you referring to as the PPP co-chairman? Zardari has stepped down. There is only one chairman now. That statement in itself sums up this poorly written piece.
گیارہ مئی کے اب تک غیر حتمی انتخابی نتائج کے مطابق پاکستان میں پانچ سال تک حکومت کرنے والی جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمنٹ میں موجودگی لگ بھگ ایک تہائی تک سکڑ گئی ہے اور قومی اسمبلی میں اس کی بتیس نشستیں ہیں جبکہ گزشتہ انتخاب میں97 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔
اسی بارے میں
الیکشن 2013 کے تازہ ترین نتائج
اعتزاز احسن کی سینیٹ سے مستعفی ہونے کی پیشکش
پارٹی میدان میں رہے گی: اعتزاز
متعلقہ عنوانات
پاکستان, پاکستان پیپلز پارٹی
تجزیہ کار ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے نظریات کی سیاست چھوڑ کر سیاسی لوٹوں کو اپنی جماعت میں جگہ دی اور پیپلز پارٹی کے جن سیاستدانوں نے استعفے دیے ہیں وہ اچھا اقدام ہے اور ایسے لوگ جو اب بھی استعفے نہیں دے رہے ہیں تو انہیں زبردستی ہٹا دیا جانا چاہیے۔
کلِک پیپلز پارٹی پھر اٹھے گی: اعتزاز احسن کا آڈیو انٹرویو
سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے سینیئر وائس چیئرمین یوسف رضاگیلانی نےپارٹی کے عہدے سے، صوبہ پنجاب کے گورنر مخدوم احمد ممحود نے گورنر کے عہدے سے اور امریکہ میں پاکستان کی سفیر شیری رحمان سفیر کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے جبکہ منگل کو سینیٹر اعتزاز احسن نے سینیٹ سے مستعفی ہونے کی پیشکش کی ہے۔
انتخابی نتائج میں پیپلز پارٹی
اب تک کے غیر حتمی انتخابی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی کی 32، پنجاب اسمبلی کی 6، خیبر پختونخوا کی 2 اور سندھ سے 63 سیٹیں ملی ہیں جبکہ بلوچستان سے کوئی بھی نشست حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
اس کے علاوہ مقامی میڈیا کے مطابق پیپلز پارٹی کے وسطیٰ پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے، انہیں اوکاڑہ سے قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے شکست ہوئی ہے۔منظور وٹو سے اس ضمن میں رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہیں ملی۔
کلِک پیپلز پارٹی نظریات کی سیاست چھوڑ چکی ہے: ڈاکٹر مہدی حسن
سابق وزیراعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ وزیرِاعظم کی حیثیت سے اُن کی کارکردگی کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی کو انتخابات میں نقصان پہنچا ہے۔گورنر پنجاب کے بقول انتخابی نتائج کے بعد وہ اخلاقی طور پر مستعفی ہو رہے ہیں۔
اعتزاز احسن نے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کو بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس ناکامی پر خود احتسابی ہونا بہت ضروری ہے اور ہار کی وجوہات کو جاننے کے لیے پوسٹ مارٹم ہونا چاہیے تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شکست پر مایوس یا دلبراشتہ نہیں ہے اور پیپلز پارٹی میدان میں رہے گی اور دوبارہ ایک بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی۔
پیپلز پارٹی کی انتخابات میں شکست پر تجزیہ کار ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ یپلز پارٹی کے جن سیاستدانوں نے استعفے دیے ہیں وہ اچھا اقدام ہے اور ایسے لوگ جو اب بھی استعفے نہیں دے رہے ہیں تو انہیں زبردستی ہٹا دیا جانا چاہیے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ کارکردگی کا دفاع کیا جا سکتا تھا لیکن کسی نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ خراب کارکردگی کا دفاع ملک میں دہشت گردی، سکیورٹی کی ابتر صورتحال کی بنیاد پر ہو سکتا تھا لیکن نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ اتحادی جماعتوں کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کےلیے حکومت کی مدد نہیں کی۔’بعض سیاسی جماعتوں نے تو دہشتگردوں کی مدد کی۔‘
نظریات کی جگہ سیاسی لوٹوں کی سیاست
“جنرل ضیاالحق نے پیپلز پارٹی کے خلاف ایک مہم شروع کی تھی جس کا بینادی نکتہ تھا کہ پیپلز پارٹی سندھ کی ایک’ وطن دشمن جماعت‘ ہے۔پیپلز پارٹی کی قیادت اس مہم کا موثر جواب نہیں دے سکی ہے اور اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کا زوال جاری ہے۔ پیپلز پارٹی نے نظریات کی سیاست چھوڑ کر سیاسی لوٹوں کو اپنی جماعت میں جگہ دی۔ جن پیپلز پارٹی کے سیاستدانوں نے استعفے دیے ہیں وہ اچھا اقدام ہے اور ایسے لوگ جو اب بھی استعفے نہیں دے رہے ہیں تو انہیں زبردستی ہٹا دیا جانا چاہیے”
انہوں نے کہا کہ جنرل ضیاالحق نے پیپلز پارٹی کے خلاف ایک مہم شروع کی تھی جس کا بینادی نکتہ تھا کہ پیپلز پارٹی سندھ کی ایک’ وطن دشمن جماعت‘ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اس مہم کا موثر جواب نہیں دے سکی ہے اور اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کا زوال جاری ہے۔
انہوں نے کہا پیپلز پارٹی نے نظریات کی سیاست چھوڑ کر سیاسی لوٹوں کو اپنی جماعت میں جگہ دی۔
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا پیپلز پارٹی کی بھٹو خاندان پر مکمل انحصار پارٹی کی کمزروی نہیں بن گئی ہے، انہوں نے کہا کہ بلکل بن گئی ہے اور اب پارٹی کے حکمت عملی طے کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ مزید کتنا عرصہ تک بھٹو خاندان پر انحصار کر سکتے ہیں۔
گورنر پنجاب نے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ پارٹی کے عام کارکن کی حیثیت سے کام کریں گے
انہوں نے کہا تین چار کروڑ نئے ووٹروں نے نہ تو ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھا ہے اور وہ نہ بینظیر بھٹو سے اس طرح جذباتی طور پر منسلک ہیں جس طرح پوری نسلیں تھیں۔انہوں نے پیپلز پارٹی کی پوری انتخابی مہم’نوحہ گری‘ تھی۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب پارٹی قیادت ایک ایسے شخص کے حوالے کر دی جس کی ساری زندگی پیپلز پارٹی کے خلاف گزری۔
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ منظور وٹو کو کس کے مشورے پر پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر بنایا گیا تھا۔ انہوں نے جہانگیر بدر جو بیس سال تک پارٹی کے سیکرٹری جنرل رہے وہ ان انتخِابات میں کہیں نظر نہیں آئے اور اب پتہ چلا ہے کہ انہیں پارٹی کے عہدے سے ہٹایا جا چکا ہے اور ان کی جگہ لطیف کھوسہ کو پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی کو نہیں معلوم یہ کب اور کیسے ہوا۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی جو پنجاب کی انتہائی مقبول جماعت تھی اس کو اسی صورت میں دوبارہ کھڑا کیا جا سکتا ہے جب پارٹی اس نظریاتی سیاست کی طرف لوٹ جائے جہاں سے اسے شروع کیا گیا تھا
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/05/130514_ppp_politician_resigns_zz.shtml
پیپلز پارٹی نظریات کی سیاست چھوڑ چکی ہے
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2013/05/130514_dr_mehdi_audio.shtml
Excellent article Sharif 3.0 in Foreign Affairs. one of the few which has brought up Pogrom of Shia by Sunni Deobandi militants in Pakistan, as a major issue.
http://www.foreignaffairs.com/articles/139381/aqil-shah/nawaz-sharif-30?page=show
Sharif’s plans to confront terrorism are similarly suspect. Prominent members of his party have made politically expedient deals with Shia-baiting Sunni Deobandi militant groups, such as the Ahle Sunnat Wal Jamaat. And the outgoing PML-N provincial administration in Punjab was accused of turning a blind eye to the growing persecution of Christians and Ahmadi Muslims. Sharif has also been an advocate of talks with the Taliban. The problem with such talks is that all previous attempts at negotiation have backfired. For instance, the military made several peace deals with the Tehrik-e-Taliban between 2004 and 2009, which did little to curtail militancy. In fact, they emboldened the group to spread outward from its bases in Waziristan into Khyber Pakhtunkhwa. If Sharif and his party are really as friendly to business and investment as they claim to be, they will have to get serious about security to restore domestic and international investors’ confidence.
پیپلز پارٹی تیر سے خود ہی گھائل ہوگئی
علی سلمان
بی بی سی اردو، ڈاٹ کام لاہور
آخری وقت اشاعت: بدھ 15 مئ 2013 , 03:29 GMT 08:29 PST
Facebook
Twitter
دوست کو بھیجیں
پرنٹ کریں
ملک کے بڑے حصے میں بے نظیر کی پیپلز پارٹی کا نام و نشان فنا ہو گیا ہے
ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ وہ کچھ ہوگیا ہے جس کا تصور شاید کبھی اس کے کارکن تو کیا اس کے مخالفین نے بھی نہیں کیا ہوگا۔
وہ پیپلز پارٹی جس کی مقتول چیئر پرسن کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہا جاتا تھا اس زنجیر کی کڑیاں سندھ سے نکل کر زیادہ دور نہ جا سکیں۔
متعلقہ عنوانات
پاکستان, الیکشن 2013
ایک صوبہ سندھ کو چھوڑ دیں تو پورے پاکستان سے اسے مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی صرف دو سیٹیں ملی ہیں۔
یہ دنوں سیٹیں بھی جنوبی پنجاب کے شہر رحیم یار خان کی ہیں اور گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کی مرہونِ منت ہیں جو حال ہی میں فنکشنل لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ان دو سیٹوں کو چھوڑ کر پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پیپلزپارٹی کا نام ونشان فنا ہو گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا رہنماؤں کے پاس ہارنے کی نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی بہانہ، سوائے یہ کہ مخدوم احمد محمودنے گورنر پنجاب کے عہدے سے، یوسف رضا گیلانی نے سینیئر وائس چیئرمین کےعہدے سے، منظور وٹو نے پارٹی کی صوبائی صدارت سے اور اعتزاز احسن نے اپنی سینیٹ کی سیٹ سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے حامی یہ دلیلیں دے رہے ہیں کہ چونکہ انھیں طالبان نے پر تشدد کارروائیوں کا نشانہ بنا رکھا تھا اس لیے وہ ہارے ہیں لیکن اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اسی نشانے پر ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی بھی تھی۔
ایم کیو ایم نے اپنی پکی روایتی سیٹیں حاصل کرلیں جب کہ عوامی نیشنل پارٹی نے کھلے دل سے تسلیم کرلیا ہے کہ انہیں عوام نے ووٹ بھی نہیں دیے۔
پیپلز پارٹی کے کئی رہنما اپنے پارٹی عہدوں سے مستعفی ہو رہے ہیں
مبصرین کا کہنا ہے کہ پنجاب میں کوئی خود کش حملہ ہوا نہ کوئی بم دھماکا۔ اس لیے پیپلز پارٹی کو اپنی انتخابی مہم چلانے میں کوئی امر مانع نہیں تھا، لیکن لگ یوں رہا تھا کہ پیپلزپارٹی کے امیدوار انتخابات میں دلچسپی ہی نہیں لے رہے۔
اب بظاہر وہ پارٹی رہنما خود کو عقلمند سمجھ رہے ہوں گے جنہوں نے مختلف بہانے بنا کر الیکشن نہیں لڑا اور بعض نے تو پارٹی ٹکٹ تک واپس کر دیے تھے۔
ایک سندھ کو چھوڑ کر پورے پاکستان میں پیپلز پارٹی کے زیادہ تر امیدوار دوسری پوزیشن پر بھی نہیں آئے بلکہ تیسری چوتھی حتیٰ کہ دسویں پوزیشن تک ان کا مقدر بنی۔
مبصرین کا کہناہے کہ پیپلز پارٹی تو دھاندلی کا الزام لگانے کے قابل بھی نہیں رہی کیونکہ جس حلقے میں مسلم لیگ نون کے امیدوار کے ووٹ ایک لاکھ سے زائد اور تحریک انصاف کے اسی ہزار سے زائد تھے، وہاں پیپلز پارٹی کے امیدوار تین چار ہزار ووٹوں سے آگے نظر نہیں آتے تھے۔
لاہور کے علاوہ تینوں صوبوں کے کئی حلقوں میں ووٹوں کے فرق کی اسی طرح کی ملتی جلتی صورتحال نظر آتی ہے۔
وہ تمام امیدوار جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ ان کا اپنے حلقے میں اپنا ذاتی اثر ورسوخ بہت ہے، وہ پارٹی کے انتخابی نشان تیر سے خود ہی گھائل ہوگئے اور انہوں نے ثابت کیا کہ ان کے ذاتی اثر و رسوخ سے زیادہ پارٹی کی غیر مقبولیت کام دکھا گئی۔
تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ ووٹروں کے فیصلے سے لگتا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار سے خوش نہیں رہے اور انھوں نے معاشی بدحالی اور توانائی کے بحران کا انتقام جمہوری طریقے سے لیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد یہ پہلے الیکشن تھے جہاں مقابلہ پیپلز پارٹی اور اینٹی پیپلز پارٹی کے درمیان نہیں تھا اور اس کے ساتھ ہی دائیں بازو اور بائیں بازو کی کشمکش بھی معاشی بدحالی کے سامنے دم توڑتی نظر آئی۔
تین صوبوں میں پہلے دوسرے نمبر پر آنے والی جماعتوں کو اگر ماضی کی عینک سے دیکھا جائے تو بظاہر وہ دائیں بازو کی ہی دکھائی دیتی ہیں لیکن بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اصل بات یہ ہے لوگوں کو اس بات کی پروا نہیں رہی کہ کون دایاں ہے اور کون بایاں ہے۔
وہ صدر زرداری جن کے بارے میں پیپلز پارٹی نعرہ لگاتی تھی کہ ’ایک زرداری سب پر بھاری‘ وہ بظاہر اپنی پارٹی کے لیے بھاری ثابت ہورہے ہی
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/05/130515_ppp_defeat_sh.shtml
سندھ میں پیپلز پارٹی کی گرفت مضبوط
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت: اتوار 12 مئ 2013 , 09:38 GMT 14:38 PST
Facebook
Twitter
دوست کو بھیجیں
پرنٹ کریں
کراچی میں ووٹروں کی بڑی تعداد نے حقِ رائے دہی استعمال کیا
پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف کے جادو کا اثر صوبہ سندھ میں سر چڑھ کر نہیں بول سکا۔ دوسرے صوبوں کے برعکس یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی گرفت مضبوط رہی ہے۔
گھوٹکی، سکھر، لاڑکانہ، قنبر شہداد کوٹ، جیکب آباد، کشمور/کندھ کوٹ، نوابشاہ، مٹیاری، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈوالہ یار، بدین، میرپورخاص، عمرکوٹ، جام شورو اور دادو اضلاع میں پاکستان پیپلز پارٹی نے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی تمام نشستیں سمیٹ لی ہیں۔
اسی بارے میں
ووٹ گورننس کے لیے
مرکز اور پنجاب میں نواز لیگ، سندھ میں پیپلز پارٹی، خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف
’پشاور میں نیا پاکستان نظر آ گیا ہے‘
متعلقہ عنوانات
پاکستان, الیکشن 2013
انتخابات میں صدر آصف علی زرداری کے خاندان کے تمام افراد کامیاب ہوگئے ہیں۔ ان کی بہن ڈاکٹر عذرا پیچوہو نوابشاہ سے، دوسری بہن فریال تالپور قمبر شہداد کوٹ سے اور زرداری کے بہنوئی میر منور تالپور ڈگھڑی کوٹ غلام محمد سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔
سندھ کے مخدوم خاندان نے بھی کامیابی حاصل کی ہے، پاکستان پیپلز پارلیمینٹرین کے سربراہ مخدوم امین فہیم قومی اور ان کے بھائی مخدوم رفیق اور بیٹے مخدوم جمیل الزماں صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے ہیں، جب کہ مخدوم امین کے ایک اور بیٹے مخدوم نعمت اللہ کو ننگرپارکر شہر کی نشست پر برتری حاصل تھی۔
گھوٹکی کی دونوں قومی اسمبلی کی نشستوں پر مہر برادران علی گوہر مہر اور علی محمد مہر نے کامیابی حاصل کی ہے، اسی طرح بدین میں قومی اسمبلی کی نشست پر سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا اور صوبائی اسمبلی پر ان کے بیٹے حسنین مرزا نے کامیابی حاصل کی ہے۔
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر الٰہی بخش سومرو ہار گئے ہیں، وہ قومی اسمبلی کے حلقے این اے 208 سے امیدوار تھے، یہاں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر اعجاز جکھرانی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
خیرپور میں سابق وزیرِاعلیٰ اور میاں نواز شریف کے جلاوطنی کے ساتھی غوث علی شاھ کو قومی اور صوبائی نشستوں پر شکست ہوئی ہے، صوبائی اسمبلی پر سابق وزیرِاعلیٰ سید قائم علی شاہ اور قومی اسمبلی پر پیپلز پارٹی کے نواب وسان نے کامیابی حاصل کی ہے۔
مسلم لیگ ن سے وابستہ سابق وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزیر لیاقت جتوئی قومی اسمبلی کی نشست ہار گئے ہیں، انھیں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار عمران لغاری نے شکست دی، لیاقت جتوئی کو خیرپور ناتھن شاہ کے صوبائی حلقے سے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی امیدوار پروین عزیز جونیجو امیدوار تھیں۔
سندھ میں مسلم لیگ ن کو کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 258 سے کامیابی حاصل کی ہے، یہاں سے حکیم بلوچ امیدوار تھے، جن کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے راجہ رزاق بلوچ سے تھا۔
1988 سے اس نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی یہاں کامیابی حاصل کرتی رہی ہے، لیکن تنظیمی کے اندرونی اختلافات کے باعث حکیم بلوچ پیپلز پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے تھے۔
تحریکِ انصاف کے امیدوار شاہ محمود قریشی کو قومی اسمبلی کے حلقے این اے 228 پر شکست ہوئی ہے، یہاں ان کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر نواب یوسف ٹالپور سے تھا، شاہ محمود قریشی چھاچھرو تھر کی قومی اسمبلی کی نشست سے بھی امیدوار تھے، جہاں نتائج روک لیے گئے ہیں۔
سندھ میں عوام نے ایک بار پھر قوم پرستوں کو مسترد کر دیا ہے۔ قوم پرست مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ فنکشنل کے اتحادی تھے۔ پاکستان عوامی تحریک کے امیدوار ایاز لطیف پلیجو شکست کھا گئے ہیں، قاسم آباد حیدرآباد کے صوبائی حلقے میں ان کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے جام خان شورو سے تھا۔
سندھ یونائٹڈ پارٹی کے سربراہ اور جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ انھیں این اے 231 پر پاکستان پیپلز پارٹی کے ملک اسد سکندر نے شکست دی، سید جلال محمود شاہ کے بھائی زین شاہ کو سکرنڈ کے صوبائی حلقے سے شکست ہوئی ہے، یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کے غلام قادر چانڈیو نے کامیابی حاصل کی ہے۔
کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی کوئی نشست حاصل نہیں کرسکی ہے، گذشتہ انتخابات میں اے این پی نے صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں حاصل کی تھیں۔
مسلم لیگ فنکشنل سندھ کی تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ تنظیم کے رہنما پیر پگاڑا کے بیٹے صدر الدین شاہ نے قومی اسمبلی کی دو نشستوں خیرپور اور سانگھڑ سے کامیابی حاصل کی ہے، اس کے علاوہ جماعت کے شکارپور سے امیدوار سابق وفاقی وزیر غوث بخش مہر، اور سانگھڑ سے پیر بخش جونیجو کامیاب ہوئے ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/05/130512_election2013_sindh_trends_zis.shtml
پیپلز پارٹی کو کیا ہوا ؟
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت: اتوار 5 مئ 2013 , 06:21 GMT 11:21 PST
Facebook
Twitter
دوست کو بھیجیں
پرنٹ کریں
’تم ہمیں موت سے ڈراتے ہو۔ارے ہم تو وہ لوگ ہیں جو خود موت کا تعاقب کرتے ہیں‘ یہ تیور تھے آصف علی زرداری کے چار اپریل سنہ 2012 کے گڑھی خدا بخش میں۔ اور پھر بلاول کو اسی گڑھی خدا بخش میں باضابطہ طور پر پارٹی کے کراؤن پرنس کے طور پر مرکزی مقرر کا منصب دیا گیا، پھر نہ جانے کیا ہوا اور ہوتا چلا گیا۔
اسی بارے میں
ایک چاند کافی نہیں
کیا ایسے ہی ہوگا ؟
یم راج کا رقصِ مرگ تو جاری ہے
متعلقہ عنوانات
پاکستان
اب یہ حال ہے کہ سندھ کو چھوڑ کے ’تیر‘ اڑ تو رہا ہے مگر اندھیرے میں۔ پینتالیس سال پہلے پاکستان میں عوامی جلسہ کلچر کو متعارف کرانے والی پیپلز پارٹی کے جیالا بریگیڈ کے پاس ایسی فرصت کبھی نہ آئی تھی کہ وہ کسی انتخابی دفتر میں بیٹھنے کے بجائے ٹی وی پر اپنی جماعت کی اشتہاری مہم دیکھتا رہے اور سوچتا رہے کہ کچھ کام نکالو میری فرصت کے برابر۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور جس سے زوالفقار علی بھٹو کو لاڑکانہ جیسا لگاؤ تھا، جہاں بے نظیر بھٹو انتخابی مہم کا آخری جلسہ کرنے کی عادی تھیں، اسی لاہور میں کئی جیالے ایسے بھی ملے جنہیں انتخاب کے دنوں کی عدم مصروفیت اندر ہی اندر یوں کھائے جا رہی ہے جیسے نئی دلہن کو شوہر کی بے اعتنائی کھا جائے۔قیادت یا تو ویڈیو میں قید ہے یا اونچی دیواروں کے پیچھے یا پھر اپنی خاندانی دنیا میں۔
پہلے پیپلز پارٹی کے ہر دورِ حکومت میں یہ ہوتا تھا کہ کارکن بھلے خود کو اقتدار کے دنوں میں کتنا ہی نظرانداز محسوس کریں لیکن انتخابی موسم میں وہ سب کچھ بھلا کر ناراض بیٹوں کی طرح گھر لوٹ آتے تھے۔ کسی کا شکوہ گلے لگ کر دور ہوجاتا، کوئی حرفِ معذرت پر ہی راضی ہوجاتا، کوئی دو گالیاں دے کر خود کو ہلکا کرلیتا اور پھر دیوانوں کی طرح اپنی جماعت کی انتخابی مہم میں مصروف ہو جاتا۔
پیپلز پارٹی کے جیالا بریگیڈ
پینتالیس سال پہلے پاکستان میں عوامی جلسہ کلچر کو متعارف کرانے والی پیپلز پارٹی کے جیالا بریگیڈ کے پاس ایسی فرصت کبھی نہ آئی تھی کہ وہ کسی انتخابی دفتر میں بیٹھنے کے بجائے ٹی وی پر اپنی جماعت کی اشتہاری مہم دیکھتا رہے اور سوچتا رہے کہ کچھ کام نکالو میری فرصت کے برابر۔
اب کی بار وہ ہُوا ہے جو پہلے نہیں ہُوا۔ جتنے بھی ٹکٹ بٹے ان میں سے اکثر خاندانوں میں بٹ گئے۔جیسے اوکاڑہ میں پیپلز پارٹی کا مطلب ہے وٹو خاندان۔ ملتان میں انتخابی فرنچائز گیلانیوں کے پاس ہے، سندھ میں مخدومین، مرزا اور زرداری خاندان نے ٹکٹوں کا سٹاک لے لیا، خیبر پختون خواہ میں سیف اللہ فیملی اور ان کے حواری ٹکٹوں ٹکٹ ہوگئے باقی ٹکٹ ارب پتی الیکٹ ایبلز لے اڑے ۔
یہاں تک ہُوا کہ کچھ الیکٹ ایبلز نے ایک شام ٹکٹ لے لیے اور اگلی شام کسی اور پارٹی سے اچھی ڈیل ہونے پر واپس کر دیے۔ پھر بھی جو ٹکٹ بچ گئے وہ کارکنوں کے لیے چھوڑ دیے گئے جیسے ساغر کی تہہ میں قطرہ چھوڑ دیا جائے، جیسے میز پر بچا ہوا کھانا ملازموں میں بانٹ دیا جائے۔ ایسے میں اگر کارکن غائب ہے تو حیرانی کیوں ؟
پیپلز پارٹی کی بالائی قیادت کہتی ہے کہ روائیتی جلسوں اور ریلیوں سے اس لیے گریز کیا جارہا ہے کیونکہ وہ اپنے کارکنوں اور لوگوں کی جان خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی۔ لیکن پانچ سالہ دور میں اس نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافے اور اٹھارویں ترمیم سمیت بعض ایسے بنیادی اقدامات کیے ہیں کہ عام آدمی ووٹ ڈالتے وقت انہیں ضرور پیشِ نظر رکھے گا۔
ٹکٹ خاندانوں میں بٹ گئے
اب کی بار وہ ہُوا ہے جو پہلے نہیں ہُوا۔ جتنے بھی ٹکٹ بٹے ان میں سے اکثر خاندانوں میں بٹ گئے۔جیسے اوکاڑہ میں پیپلز پارٹی کا مطلب ہے وٹو خاندان۔ ملتان میں انتخابی فرنچائز گیلانیوں کے پاس ہے، سندھ میں مخدومین، مرزا اور زرداری خاندان نے ٹکٹوں کا سٹاک لے لیا، خیبر پختون خواہ میں سیف اللہ فیملی اور ان کے حواری ٹکٹوں ٹکٹ ہوگئے باقی ٹکٹ ارب پتی الیکٹ ایبلز لے اڑے ۔
اگر یہ منطق درست ہے تو پھر بے نظیر بھٹو کو پاکستان آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔سب ہی ووٹر جانتے تھے کہ وہ کس کی بیٹی ہے؟۔آمریت کے خلاف اس کی کتنی قربانیاں ہیں؟ اور پاکستان آمد پر بے نظیر بھٹو کو سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز کی جانب سے کس قدر شدید جانی خطرات لاحق ہیں۔اگر وہ آ بھی گئی تھیں تو 18 اکتوبر سنہ 2007 کو کارساز بم دھماکے کے اگلے دن انہیں دوبئی میں ہونا چاہیے تھا۔
جس خطرے کو بے نظیر بھٹو خاطر میں نہیں لائیں۔ آج اسی خطرے سے ان کی جماعت بھاگی پھر رہی ہے۔ یہ جانے بغیر کہ پسپا ہوتی فوج کا جانی نقصان کھڑی رہ جانے والی فوج سے دوگنا ہوتا ہے۔
آج کی پیپلز پارٹی ( احتیاطی گروپ ) سے بہتر تو عوامی نیشنل پارٹی ہے جس کے سیاسی حجم کے اعتبار سے اس کی جانی قربانیاں کسی بھی ملک گیر جماعت سے زیادہ ہیں۔
اس نے پانچ برس کی خام حکمرانی کے باوجود شدت پسندی کے خلاف جو موقف اپنایا اس پر آج تک ڈٹی ہوئی ہے ۔ اسے جتنی بھی گنجائش میسر ہے وہ اسے استعمال کرتے ہوئے ووٹر تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔حالانکہ کتنا آسان ہے اس کے لیے یہ کہنا کہ شدت پسندی کے خلاف ہمارا موقف اور قربانیاں سب پر عیاں ہیں لہذا ووٹر تک پہنچنے کی ضرورت نہیں ۔ووٹر سب جانتا ہے۔
مگر میں صرف پیپلز پارٹی کا نوحہ ہی کیوں پڑھ رہا ہوں ؟ اور بھی تو جماعتیں ہیں۔ بات یہ ہے کہ عوامی سیاست اور قربانیوں کا چار عشرے اونچا علم جب کسی وفاق پرست جماعت کے ہاتھ سے صرف اس لیے گر جائے کہ اپنی ہی تاریخ اور مذاج سے نابلد پارٹی قیادت نے دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھا دیے ہوں تو بظاہر کچھ بھی نہیں ہوتا مگر ایک پورا مکتبِ فکر ڈھے جاتا ہے۔
یہی تو کسی کی فتح اور کسی کی شکست ہوتی ہے۔اب یہ فتح و شکست عارضی ہے کہ مستقل۔اس پر بحث کے لیے زندگی پڑی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/05/130505_wusat_baat_sy_baat_rwa.shtml
I have a better solution , stage a big rally anywhere in Pakstan , bring Bilawal and Bakhtawar to address to the crowds, after the jalsa make them exit through the crowds, use rehman malik to trigger RDX , let Bilalwal and Bakhtawar sleep for ever with mom and gradpa and let the blame go to Imran Khan, 20 NA seats and 30 Provincial seats confirmed.