ایک مرحلہ اور طے ہوا
جمہوریت کا ایک اور سنگ میل طے ہوگیا-پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک سویلین حکومت نے اپنی مدت پوری کرنے کے بعد الیکشن کراڈالے اور اب جلد ہی نئی حکومت بھی سامنے آجائے گی-
اس مرتبہ پھر سے الیکشن کے نتائج ظاہر کررہے ہیں کہ مینڈیٹ تقسیم شدہ ہے-مسلم لیگ نواز کو پنجاب میں شاندار کامیابی ملی ہے-خیبرپختون خوا میں پی ٹی آئی کو اکثریت ملی ہے-جبکہ سندھ میں پی پی پی کو برتری ملی ہے-کراچی سے ایم کیو ایم جیت کر ابھری ہے-
اس الیکشن کے نتائج میں اگر ہم پی پی پی کی پنجاب میں شکست کا جائزہ لیں تو اس کا سب سے بڑا فیکٹر پنجاب میں پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کے بارے میں قائم ہونے والا یہ تصور تھا کہ پی پی پی اور اس کے اتحادیوں نے پنجاب کو وسائل کی تقسیم ،بجلی کی ترسیل اور سی این جی کی فراہمی سمیت کئی اور معاملات میں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا-میاں محمد شہباز شریف نے انتخابی مہم کے آخری دنوں میں اس الزام کو شدت سے دوہرایا-پنجاب کے اندر بجلی ،گیس کی لوڈ شیڈنگ اور درمیانہ اور چھوٹے کاروباری طبقے کی بری حالت نے بھی مسلم لیگ نواز کو پنجاب میں کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا-جوڈیشل ایکٹوازم،جارح میڈیا بھی پنجاب سے پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کی ہار کا سبب بنا-
پی پی پی کی پنجاب میں ہار کے داخلی اسباب بھی ہیں-پی پی پی کا پنجاب میں تنظیمی ڈھانچہ تباہ ہوچکا ہے-اس پارٹی کی قیادت منظور وٹو کے ہاتھ میں آنے اور پانچ سالوں میں کارکنوں سے قیادت کی دوری اور ان کو اپنے سے دور کرنے کی پالیسی نے پی پی پی کے کارکن کو پنجاب میں غیر متحرک رکھا-اور اس کی صوبائی قیادت نااہل ثابت ہوئی وہ پنجاب میں بھی کوئی موثر مہم چلانے میں کامیاب نہ ہوسکی-
پنجاب میں پی پی پی کی ناکامی کا ایک اور سبب بھی ہے-اور یہ سبب اس کے وزیروں،مشیروں اور ان دوستوں کی شہرت کا ہے جن کی وجہ سے پارٹی کا امیج بری طرح سے متاثر ہوا-پی پی پی کے کائرہ،راجہ رینٹل ،اور دیگر بڑے نام اس لیے بری طرح سے ہارے کہ وہ ایک طرف تو خود کرپشن میں ملوث ہوئے دوسری طرف وہ بڑے چوروں کے وکیل صفائی بھی بنتے رہے-عام ووٹرز میں ان کے خلاف بہت نفرت تھی-
پی پی پی کا برا رزلٹ اس لیے بھی آیا ہے کہ اس کی قیادت انتخابات کے دوران پنجاب کے اندر کوئی بڑا جلسہ نہ کرسکی-اور اس کے بڑے لیڈر بھی منظر سے غائب رہے-منظور وٹو شمالی پنجاب میں اپنے حلقوں سے باہر نہ نکلے اور یوسف رضا گیلانی اور خواجہ شہاب الدین بھی جنوبی پنجاب کے اندر کوئی متاثر کن مہم نہ چلاسکے-
پی پی پی ،اے این پی کی خیبر پختون خوا میں شکست کی بڑی وجہ ان جماعتوں کی سابقہ کارکردگی تو تھی ہی اس کی ایک وجہ جس کی وجہ سے رزلٹ بہت ہی برا آیا وہ خیبرپختون خوا میں طالبان کے حملے تھے-پی پی پی اور اے این پی ان حملوں کی وجہ سے اپنی کمپئن ہی نہ چلا سکے-
لیکن اس سارے عمل میں ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان کے اندر خاص طور پر پنجاب،خیبرپختون خوا کے اندر امریکہ کے خلاف جذبات عروج پر ہیں-ان دونوں صوبوں کے اندر ترقی پسند خیالات اور روشن خیالی سے جڑے خیالات بھی اقلیت میں ہیں-یہی وجہ ہے کہ دونوں صوبوں میں سنٹر رائٹ کی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ اور تحریک انصاف کامیاب ہوئی ہیں-پنجاب کی طرف سے میاں نواز شریف کو مینڈیٹ دینے کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس صوبے کی عوام مسلم لیگ نواز کی قدامت پرستی کو ٹھیک خیال کرتی ہے-
مسلم لیگ نواز نے جنوبی پنجاب سے بھی ٹھیک ٹھاک کامیابی حاصل کی ہے-اور اس نے ملتان میں یوسف رضا گیلانی کے عروج کو بھی ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے-لیہ سے بھی مسلم لیگ نواز کامیاب ہوئی ہے-اور ایک طرح سے سرائیکی صوبہ اور ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ مانگنے والی پیپلزپارٹی مسلم لیگ نواز،تحریک انصاف اور کچھ آزاد امیدواروں کے ہاتھوں ڈھیر ہوگئی ہے-جنوبی پنجاب کے ووٹرز نے بجلی ،گیس کے بحران اور مہنگائی کے بڑھنے جیسے اشیوز کو بنیادی اشیو خیال کیا اور پی پی پی کو جنوبی پنجاب نہیں دیا-
میں نے ہمیشہ ق لیگ سے اتحاد کی مخالفت کی-اور لکھا کہ یہ اتحاد پی پی پی کو پنحاب میں مسلم لیگ نواز کے خلاف فتح نہیں دلا سکتا-یہ بات پنجاب میں انتخابی نتائج ثابت کرچکے-آج بی بی فریال تالپور سے پوچھا جانا چاہئے کہ ریاض ملک ،منظور وٹو کے ساتھ ملکر پنجاب میں جو حکمت عملی بنائی گئی تھی اس کی ناکامی کی زمہ داری کون قبول کرے گا؟اور کون اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگا-
سرائیکی قوم پرستوں سے بھی یہاں پر ایک سوال بنتا ہے کہ وہ بتائیں کہ راجن پور کے ایک حلفے سے میاں شباز شریف کیسے کامیاب ہوگئے؟اور رحیم یار خان سے جعفر اقبال جیت گئے-لیہ سے ثقلین بخاری جیت گئے-گویا وہ جنوبی پنجاب کے عوام کو اپنے موقف سے اتفاق کرانے میں ناکام رہے ہیں-
جمشید دستی جیت گئے ہیں-یادش بخیر پی پی پی کا کوئی لیڈر سنتا ہو تو اپنے سابقہ خیالات پر اجتماعی معافی مانگنے کا انتظام ضرور کرے-
میرے ضلع میں پی پی پی جنوبی پنجاب کے سنئیر نائب صدر حیدر زمان قریشی غریب کارکنوں کی نفرت اور موقعہ پرستی کی گندی سیاست کرنے کی سزا کے نتیجے میں بری طرح سے ہارے ہیں-اور این اے 157 ،پی پی 215 پر کھڑے سردار حامد یار ہراج اور احمد یار ہراج اپنے انجام کو پہنچے ہیں-احمد یار تو جنوبی پنجاب کا چیف منسٹر بننے کے خواب دیکھا کرتے تھے-ایک اشتہار چھپایا کہ”اے میرے قائد تیرے کام بولتے ہیں”یہ اشہتار بدترین شکست کے بعد ایک ایسی کامیڈی ہے جو بہت بوجھل ٹریجڈی کے بعد ضروری ہوجاتی ہے-
میرے خیال میں عوام نے اپنا انتقام لےلیا ہے-مجھے آج وہ تجزیہ نگار نظر نہیں آتے جو کہتے تھے کہ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والی پنجاب کی خواتین تیر پر ٹھپے لگا کر بیٹ باکس بھر دیں گی-لیکن یہ سب خام خیالی چھومنتر ہوگئی ہے-بیلٹ باکس اکثر تیر کی چند مہروں والے نکلے-باقی شیر اور بلے کے درمیان مقابلہ ہوتا رہا-
پی پی پی کی قیادت کے لیے یہ سوچنے کا وقت ہے کہ وہ کارکردگی کے بغیر سستی جذباتیت کے سہآرے دوبارہ پنجاب میں عوام سے ووٹ مانگنے چل پڑے-اس دوران میڈیا وار بھی میاں محمد نواز شریف کے خلاف چلائی-لیکن اس میڈیا وار کا پنجاب میں کیا اثر ہوا؟چند سیٹیں جیتیں باقی سب ہار گئے-
ان انتخابات میں بلوچستان کے اندر بجاطور پر بائیکاٹ کرنے والے بلوچ ٹرن آؤٹ کم رکھنے میں کامیاب رہے-بلوچستان میں کم شرح ووٹ بلوچ قوم کی ناراضگی ک ثبوت ہے-ان انتخابات میں سامراجی ایجنڈے کے خلاف ردعمل بھی سامنے آیا ہے-لیکن اس رد عمل میں قدامت پرستی گھلی ملی ہے-
بائیں بازو کی قوتوں کو سوچنا چاہئے کہ پورے ملک میں باالعموم اور پنجاب میں باالخصوص ان کی ناکامی کا سبب کیا ہے؟
میاں نواز شریف کا امتحان بھی شروع ہونے والا ہے-کیا اسٹبلشمنٹ کے بارے میں وہ اپنے خیالات کو ریاستی پالیسیوں کی شکل دیں گے؟کیا کارگل پر کمیشن بنائیں گے؟کیا آئی ایس آئی کو زبادہ جواب دہ بنائیں گے؟میاں نواز شریف نے بھارت سے مذاکرات 1999ء کی سطح پر دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے-پھر وہ پاک ایران گیس پائپ لائن بارے کیا حکمت عملی اپنائیں گے؟بلوچستان میں قوم پرستوں سے انہوں نے جو وعدے کیے ہوئے ہیں کیا ان وعدوں کو وہ فوج سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کی بھینٹ تو نہیں چڑھنے دیں گے؟میاں محمد نواز شریف کے سامنے ایک بڑا چیلنج دھشت گردی کے خلاف جنگ بارے موقف اپنانا بھی ہے-ان کے ساتھ کھڑا دائیں بازو کا ووٹر تو ان سے اس جنگ کو ختم کرنے کی امید رکھے گا-جبکہ جنرل کیانی اس جنگ کو اپنی جنگ کہہ چکے ہیں-امریکہ سے تعلقات اور خطے میں جاری گریٹ گیم میں وہ پاکستان کو کس سمت لیجائیں گے؟یہ سوال بھی بہت ہی اہمیت کا حامل ہے-مسلم لیگ نواز کے لیے اس مرتبہ حکومت پھولوں کا سیج نہیں ہے-ان کو خارجہ اور داخلہ امور پر ایک طرف تو اسٹبلشمنٹ کا سامنا ہوگا تو دوسری جانب ان کو اس مرتبہ اپوزیشن میں پاکستان تحریک انصاف کا سامنا بھی کرنا پڑے گا-اور یہ اپوزیشن خاصی ٹف ہوگی-
Comments
Tags: Democracy, Pakistan Elections 2013