سرائیکی بیلٹ کے ووٹ کا اصل حقدار کون
تحریر: ڈاکٹرعبدالروف
سرائیکی بیلٹ جس کو بہت سے لوگ “حب الوطنی” کے ہاتھوں مجبور ہو کر “جنوبی پنجاب” کا نام دیتے ہیں، پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ سرایئکی بیلٹ کی حدود بھی محبتوں اور نفرتوں کے زیرِ اثر رہی، سرایئکی قوم پرستوں نے اگر 25 اضلاع کو سرایئکی بیلٹ کا حصہ گردانا ہے تو ملکی مفادپرستی سے شرابور تجزیہ کار ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان ڈویژنز اور بھکر کے ضلع کو ملا کر جنوبی پنجاب کی حدود کا تعین کرتے ہیں۔ سیاسی وابستگی کی بات کی جائے تو عمومی تصور یہی کیا جاتا ہے کہ سراِیئکی بیلٹ ملحقہ بالائی سندھ کی طرح بھٹوز کی پیپلز پارٹی کو سپورٹ کرتا ہے – لیکن اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو ایک ذرا مختلف تصویر نظر آتی ہے- مجوزہ صوبہ جنوبی پنجاب [ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان ڈویژنز اور بھکر] کے 14 اضلاع نے 1988 سے لیکر 2008 تک ہونے والے 6 انتخابات میں اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کیا ہے –
اس چارٹ سے یہ واضح ہے کہ سراِیئکی بیلٹ کا مینڈیٹ ہمیشہ ہی منقسم رہا ہے- اور ملک کے باقی حصوں کی طرح پیپلز پارٹی کو کبھی کم کبھی زیادہ سیٹیں ملتی رہی ہیں-
الیکشن 2013 میں سرایئکی علاقے کے سیاسی مستقبل پر نظر ڈالنے سے پہلے ایک ایسے نقطہ جو ہمارے بہت سے دوستوں کی طرف سے اکثر اُٹھایا جاتا ہے کہ علیحدہ صوبہ کی بجائے ہمیں خود کو تبدیل کرنا چاہیے، ہمیں اپنے نمائندے تبدیل کرنے چاہیں۔ اور اس قسم کی بہت سی توجہیات باقن کی جاتی ہیں سرائیکی صوبہ کی حمائت نہ کرنے کی۔ ہم سرائیکی صوبہ کی حمائت کیوں کرتے ہیں،پاکستان میں رائج پارلیمانی نظام کے تحت کسی بھی صوبے کی تعلیم، صحت، امن و امان اور بنیادی سہولیات کی فراہمی صوبائی گورنمنٹ کا کام ہے- پنجاب کی کسی بھی گورنمنٹ میں انتظامی عہدوں پر سرایئکی بیلٹ کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہی ہے- ہمیں وسائل پنجاب نے دینے ہیں کہ پنجاب وفاق سے اس ضمن میں ہماری گنتی کروا کر وصولی کر چکا ہوتا ہے- پنجاب کے موجودہ جغرافیے اور سیاسی حالات کے پیش نظر یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سرایئکی بیلٹ پنجاب میں وزارت اعلیٰ حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی پنجاب کے خزانوں پر اس کا حقِ اختیار تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ جب تک مالی خود مختاری نصیب نہیں ہوتی، فرشتوں کو بھی نمائندے بنا کر بھیجنے سے حالات کی تبدیلی ممکن نہیں-
پنجاب این ایف سی ایوارڈ کی مد میں وفاق سے52 فیصد [قریبا ِ 6.5 کھرب روپے]سالانہ لے رہا ہے اور بنیادی فارمولہ جو اس وصولی کو ممکن بناتا ہے اسکی تفصیل کچھ یوں ہے ۔ آبادی [82٪] ، غربت [10.3٪]، آمدن [5٪] اور کم شرحِ آبادی رقبے کے تناسب سے[2.7٪]۔ اسی تناسب کو سامنے رکھ کر پنجاب میں NFC ایوارڈ کی ضلعی سطح پر منصفانہ تقسیم کے اعداد و شمار پیش کرنے کی ہم نے کوشش کی ہے- چونکہ پچھلے پندرہ سال سے ملک میں مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سےآبادی کا تناسب 1998 کے مطابق ہے ، غربت کی شرح کے لئے سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹر – SPDC کے شائع کردہ ہارون جمال صاحب کے2007 میں جاری کردہ اعداد و شمار کو بنیاد بنایا گیا ہے ۔ جب کہ ضلعی سطح پر آمدن کے اعداد و شمار[NFC کا 5٪] نہ ہونے کی وجہ سے ہم 6.5 کھرب روپے کی بجائے 6.175 کھرب روپے [NFC کا 95٪]کی ضلعی بنیادوں پر منصفانہ تقسیم کا چارٹ پیش کر رہے ہیں ، جو سرائیکی بیلٹ کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو بہت حد تک نمایاں کرتا ہے ۔
اگر اس چارٹ کو مد نظر رکھا جائے تو لاہور کو سالانہ تقریبا 45 ارب روپے ملنے چاہیے اور رحیم یار خان کو 26 ارب، اسی طرح پنجاب گورنمنٹ نے ملتان کے حصے کے تقریبا ساڑھے 24 ارب ، مظفر گڑھ کے 23 ارب، راجن پور کے 13 ارب اور بھکر کے قریبا دس ارب وفاقی گورنمنٹ سے سالانہ وصول کیے ہیں۔ اب اس میں سے کتنی رقم ان اضلاع پر خرچ کی گئی، اسکا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں-
اگر موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت اب اٹل ہے کہ پنجاب کی سابقہ،موجودہ اور آنے والی ہر گورنمنٹ میں سرائیکی کردار بہت محدود ہے اور رہے گا – لاہور ی وزیر اعلیٰ کو سرائیکی بیلٹ میں ترقیاتی کاموں سے کوئی کنسرن تھا ، ہے اور نہ ہو گا- کہ سرائیکی بیلٹ سے چاہےلغاری جیتے یا کھوسہ، چاہے نوانی جیتے یا ڈھانڈلہ مگر انہوں نے حمایت لاہور کے وزیر اعلیٰ کی ہی کرنی ہے [میں سیاستدانوں کو اس حمایت پر ملزم نہیں گردانوں گا کہ سرایئکی بیلٹ کے سارے سیاستدان اکٹھے ہو کر بھی پنجاب اسمبلی کی ایک اقلیت ہی رہیں گے] ۔ تلخ سچائی کہ پانچ سال میں پنجاب کا وزیر اعلیٰ سرائیکی بیلٹ سے اپنے حلقہِ انتخاب [بھکر]میں ایک بار بھی نہ آئے ، اور نہ ہی سرائیکی بیلٹ کے سب سے بڑے اور پنجاب کے چوتھے بڑے شہر ملتان کو شرفِ بخشا ،اُس کی وزارتِ اعلیٰ پر حرف آئے گا نہ اگلے الیکشن میں سرائیکی بیلٹ کے عوام اور عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کی طرف سے ملنے والی حمایت پر۔
اوپر دیئے گئے حقائق کی بنیاد پر مسلم لیگ نواز کو ووٹ دینا کسی بھی سراِیئکی کی طرف سے سمجھ سے بالاتر ہو گا۔
عمران خان صاحب کی تحریک انصاف ویسے تو ہمیشہ اقتدار کے ایوانوں سے بہت دور رہی ہے، مگر موجودہ الیکشن کے لئے ان کی کی گئی کمپین اور اعلان کردہ منشور میں بھی سراِیئکی عوام کے لئے کوئی خیر کی خبر نہیں- سونے پہ سہاگہ، پارٹی کی اندرونی صفوں میں “ملکی مفاد” میں پنجاب ، سندھ ، پختونخواہ اور بلوچستان کی موجودگی میں کسی لسانی صوبے کا سوچنا بھی گناہ ڈیکلیر کیا گیا ہے- اور اس کی زد میں سرایئکی بیلٹ کے عوام کے لئے اٹھنے والی ایک بہت بڑای آواز ‘باغی’ جاوید ہاشمی بھی خاموش کروا دِئے گئے ہیں۔ اتنی بڑی آواز کا چپ ہونا ایک پارٹی کی علی اعلان پالیسی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا کردار سرائیکی بیلٹ کے حوالے سےالم نشرح ہے کہ کس طرح اِس پارٹی نے سرائیکی صوبے کی مردہ تحریک میں جان ڈالی۔ پی پی پی نے عملی طور پر اپنے تَئیں سرائیکی صوبہ بنانے کی اِنتہائی کوشش کی ۔ مگر پارلیمنٹ میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ اپنے مقصد کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکی۔ پروپیگنڈا سیلز کی ہزار کہانیاں سُن لیں مگر اِس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پارلیمنٹ کے علاوہ کون سا جادو تھا جس سے سرائیکی صوبہ بن جاتا۔
اِس سچائی کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ اگر نون لیگ کا کردار مثبت رہتا اور یہ پارٹی خوامخواہ کے روڑےنہ اٹکاتی، تو اس وقت سرائیکی صوبہ معرض وجود میں آ چکا ہوتا اور تخت ِلاہور کا کوئی غاصب سرائیکیوں کا کسی قسم کا حق مارنے سے قاصر ہوتا۔
سرائیکیو! اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ: ”میں اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جس کو اپنے آپ کو بدلنے کا خیال نہ ہو”۔
خُدارہ خوابِ غفلت سے جاگو،قُنُوطیت سے باہر نکلو، اپنے ووٹ کی طاقت پہچانو اور اس کےصحیح استعمال سے آپ اپنی تقدیر بدل ڈالو۔ تختِ لاہور کے چیلوں کو شرمندگی کے نشان بنا دو۔
دراصل جب آپ متحد ہوکر کسی ایک پارٹی کو ووٹ دیں گے تو اس پارٹی کی جیت یقینی ہوجائیگی کیونکہ آپ کا ووٹ ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔
Comments
comments