نواز لیگ کے جادوئی کمالات
تحریر: امام بخش
شریف فیملی نے پاکستانی سیاست میں تجارت کی آمیزش کا ایک کامیاب تجربہ کیا۔ اس فیملی کے ایک فرزندمیاں محمد نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعداس فیملی نے بے انتہا ترقی کی۔ بعض رپورٹوں میں ان کے کاروبار میں ترقی 3600 فیصد تک رپورٹ کی گئی ہے۔ ایک برف خانے سے سفر کرنے والا خاندان اس وقت پولٹری، دودھ، چینی، پیپرز، سٹیل، سریا اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کا بے تاج بادشاہ ہے۔
تجارت کا وسیع تجربہ رکھنے والی شریف فیملی کے دو سپوت دو بار وزارت عظمیٰ اور پانچ بار پنجاب کی وزرارت اعلٰی سنبھالنے والے میاں محمد نوازشریف اور میاں محمد شہباز شریف نے اپنی سیاست کونظریات کی بجائے تجارتی بنیادوں پر چلانے کو ترجیح دی۔ اسی اصول کے تحت چھانگا مانگا طرز سیاست، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ، پلاٹ، پرمٹ، اقرباپروری اور عدالتی راہ و رسم کے ریکارڈز کی ایک طویل فہرست ہے. پاکستان میں قدم قدم پر اسٹیبلشمنٹ یا دوسرے اسٹیک ہولڈرز کی مانگیں پوری کرنا شریفوں کا ہی کمال ہے۔
شریف برادران کے طرزِ حکمرانی پر اگر عمومی سی نظر ڈالی جائے تو سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ فنِ تجارت میں مارکیٹنگ کے اہم ترین اصول یعنی ” پروجیکشن” کو اپنی سیاست میں بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے بعد سب سے زیادہ توجہ میڈیاپر دی، جس کے ساتھ اپنی سازباز کو یہ کامیاب سیاست کا جزولازم سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں ایسا شاید ہی کوئی سرکردہ صحافی ہو، جس سے میاں برادران نے اپنے ستارے ملانےکی کوشش نہ کی ہو۔ اگر میڈیا میں سے کوئی کٹھور دلی دکھائے اور ستارے ملانے سے انکار کرے تو ماضی گواہ ہے کہ شریف بڑے سے بڑے اخبار کو بھی ایک صفحے تک محدود کر دیتے ہیں۔شریف کشادہ دَست ہیں ، بس دوسروں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے “وزن” کے حساب سے کتنا زیادہ سے زیادہ فیض پاسکتے ہیں۔
میڈیا اور سرویز کمپنیوں کے کاروبار میں فعال کرداروں نے بھی شریف فیملی کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ ان کے قلموں اور زبان سے شرارے پھوٹتے ہیں اور خواہشیں خبریں بنتی ہیں، تخیل تجزئیے بنتے ہیں جومیاں برادران کی خواہشات کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ زمینی حقائق چاہے کچھ بھی ہوں، مگر میڈیا اورسرویز کمپنیوں نے ان کا جھنڈا ہمیشہ بلند رکھا ہے اور ان کے مخالفوں کو قابلِ نفرین اور دنیا جہان کی بُرائیوں کا منبع الوجود قرار دیا۔
عطاءالحق قاسمی صاحب جیسے ادیب جو لطیفے سُنانے اور لکھنے کا شغل رکھتے ہیں وہ میاں محمدنواز شریف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ‘وہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان بلکہ مدبر ہیں’۔ گُمان غالب ہے جس نے بھی یہ لطیفہ پڑھا ہوگا ہنسی سے ایک بار ضرورلوٹ پوٹ ہوا ہوگا۔عطاءالحق قاسمی صاحب نے زندگی میں شاید ہی اس سے زیادہ پُر مزاح لطیفہ سُنا یا ہو۔
شریفوں اور آصف علی زرداری کے درمیان مری بھوربن میں ججوں کی بحالی کے سلسلے میں ہونے والے معاہدے سےپِھرنے پر زرداری کا بجا طور پر غلط کہا گیا طنزیہ فقرہ ‘وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے’ ان کی شخصیت کا مستقل حصّہ بنا دیا گیا۔ مگر میڈیا کی طرف سے کبھی نہیں سُنا گیا کہ مری بھوربن کے وعدے سے قبل ججوں کے بارے میں ایک پہلے بھی معاہدہ (چارٹر آف ڈیموکریسی) ہوا تھا جس پر میاں نواز شریف نے دستخط بھی کیےتھے۔ جس میں واضح تھا کہ پی سی او جج نہیں لیے جائیں گے۔ میڈیا نے شریفوں کی مرضی کی بات عوام کے کانوں میں باربار اُنڈیلی مگر یہ کہیں نہیں بتایا کہ ایک ڈکٹیٹر کو نکالنے کے موقع پر بلیک میلنگ کرکے ایک وعدے کو توڑ کر اُس پر بنایا گیا نیا وعدہ کیسے زیادہ متبرک ہوگیا؟
میاں برادران کو اپنے اصولوں پر بھر پور اعتقاد ہے اس لیے یہ فضول کاموں میں وقت ضائع نہیں کرتے۔ پارلیمانی نظام حکومت کو برائے نام ہی اہمیت دیتے ہیں۔ جیسا کہ میاں شہباز شریف نے پچھلے دورِ حکومت میں ڈیڑھ درجن وزارتیں اپنے پاس رکھیں ۔ پانچ پارلیمانی سالوں میں 452 روز اجلاس ہوئے اور قائد ایوان کی حیثیت سےمیاں شہباز شریف صرف 16 مرتبہ ایوان میں آئے۔ اس طرح میاں برادران قوم کی بہتری کے لیے قیمتی وقت بچاتے ہیں۔
شریف برادران ایمان کی حد تک سمجھتے ہیں کہ نیکی وہی ہے جو کیمرے کی آنکھ میں ریکارڈ ہو۔ کبھی پیلی ٹیکسی پر بیٹھ کر، کبھی موٹرسائیکل یا رکشے پر بیٹھ کر، کبھی خیمہ زن ہوکر اوردستی پنکھے جھل کر ، پانی میں اتر کر، کبھی ہاتھ سے دیوار میں اینٹ چن کر، غریب کی بیٹی کی عزت لٹنے پر فوٹوبازی کرکےاور کبھی میٹرو پر ٹکٹ کی لائین میں کھڑے ہو کر فوٹو سیشن کرواتے ہیں اور اپنے طبلیوں سے خوب مُنادی کرواتے ہیں۔
ماہِ رمضان میں مکّہ و مدینہ میں عبادات کی خُوب تشہیر کی جاتی ہے۔ اعتکاف میں بیٹھنے سے پرہیز کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں تصویر بازی نہیں ہوسکتی۔ افطاری کےلیے سامان بانٹنے کی خصوصی پوز کے ساتھ تصویریں بنائی جاتی ہیں۔
چھوٹے میاں یعنی خادم اعلٰی نے اپنےحالیہ پچھلے دور حکومت میں بجلی اور گیس کے معاملے میں بڑا کھڑکی توڑ شو پیش کیا۔ پنجاب کے ہر اہم شہر میں خادمِ اعلٰی کے لیے تمبو (خیمہ) دفتر بنائے گئے۔وہ تمبو دفتر میں تھوڑی دیر کے لیے تشریف لاتے اور فوٹوبازی کروانے کے فورًا بعد ہیلی کیپٹر میں بیٹھ کر مری پہنچتے اور اصل والی میٹنگیں اٹینڈ کرتے۔ جابجاسیکورٹی رُوٹس کی وجہ سےعوام تو تنگ ہوئی سو ہوئی مگر ان تمبو دفتروں کےمیڈیا میں اشتہارات سمیت اضافی اخراجات خوب کیے گئے۔ یہ شو بھرپور طریقے سے جاری تھا کہ جب میڈیا کے سلسلے میں اصحابِ کہف پارٹی کے قمرزمان کائرہ نے خادم اعلٰی کو بجلی اور گیس کے سلسلے میں آئینہ دِکھایا تو خادم اعلٰی کویہ اتفاقیہ ہونے والا مباحثہ ادھورا چھوڑ کر رفوچکر ہونا پڑا۔ اتنے عرصے تک عوام کو بھی پتہ چل چکا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد بجلی بنانا صوبائی معاملہ ہے۔ اس طرح ایک کامیاب شو کو بادل نخواستہ ادھورا بند کرنا پڑا۔
شریفوں نے نمودونمائش کی پالیسی پر چلتے ہوئے صرف شارٹ ٹرم وژن کے بغیر منصوبے شروع کرنے کا شغل رکھتےہیں جوانھی کے دورِ حکومت میں مکمل ہوں اور خوب واہ واہ ہو، چاہے اس کے لیے عوام کو کتنی بڑی قیمت کیوں نہ دینی پڑے۔ یہ لوگ لانگ ٹرم منصوبوں کے قریب ہی نہیں بھٹکتے مبادا شوبازی کا سلسلہ بتدریج کم نہ ہوجائے۔ اشتہار باز ی کی انتہا یہ ہے کہ بعض مبینہ رپورٹوں کے مطابق اصل منصوبوں کا چالیس پرسنٹ اشتہار بازی پر خرچ ہو جاتا ہے۔ ان کے تمام میگا پروجیکٹس کو ایک جُملے میں سمایا جا سکتا ہے کہ ‘گھر میں بچوں کو کھانا دینے کے لیے برتن نہیں لیکن کھوٹھے پر ڈِش انٹینا’۔
پچھلے دنوں خادمِ اعلٰی نے فیروز پور روڈ پر جلسے میں جانے کے لیے پھنسی ہوئی ٹریفک میں ذاتی گاڑی چھوڑ کر رکشے پر بیٹھنے کو ترجیح دے کراپنی اشتہار بازی کی خوب درگت بنائی کیونکہ اسی روڈ پر شہبازشریف نے کم ترین وقت میں میٹرو بس کامہنگا ترین منصوبہ مکمل کیا ہے۔
نون لیگ کی میڈیا ٹیم میں بڑے قابل اور پُرکارلوگ بیٹھے ہیں۔اگر میاں برادران اربوں روپے خرچ کرکے قوم کی”سہولت” کے لیےجدید جوتوں کے جوڑے متعارف کروائیں اور یہ جوتے صرف ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن لاہور کے باسیوں میں تقسیم کیے جائیں توان کی تشہیر اتنی زیادہ کی جائے گی کہ جیسے وطن عزیز کی پوری اٹھارہ کروڑ عوام نے جوتے پہن لیے ہوں اور ہر شہری کا جوتوں کا مسئلہ ہمیشہ کے لے حل ہوگیا ہے۔ اور میڈیا میں بیٹھے ان کے مارکیٹنگ نمائندے پورے یقینِ محکم کے ساتھ ایسے پُرزور طریقے سے یقین دلائیں گے کہ یہ جوتا پہن کر پاکستان کا ہر شہر ی اُڑ سکتا ہے اور سواری کا جھنجھٹ ہمیشہ کے لیے ختم۔
شریف جو بھی کام کرتے ہیں اپنے ” جادو” سے بڑے دھڑلے سے کرتے ہیں ۔ مجال ہے کہ پاکستان کا کوئی ادارہ ان کو روک سکے۔ ابھی حال ہی میں آزاد عدلیہ، نیب اور الیکشن کمیشن کی مثالیں واضح ہیں۔
این –ایف-سی ایوارڈ کے بعدوزیرِاعلٰی پنجاب کے پاس وزیرِاعظم پاکستان سے زیادہ فنڈز ہوتے ہیں۔ اگر ان کھربوں روپے کے فنڈز کو صحیح طور پر خرچ کیا جاتا تو پنجاب میں بجلی، تعلیم اور صحت کے مسائل حل ہو چکے ہوتے۔ مگر پنجاب میں آئین و قانون سے بالکل ہٹ کراربوں روپے کے من پسند اشتہاری منصوبوں میں جھونکے گئے۔ وہ کہاں منظور ہوئے؟ کہاں سٹڈی ہوئی؟ کہاں فزیبلٹی رپورٹس بنیں ؟ ٹینڈر کیسے فائنل ہوئے؟سستی روٹی سکیم، یوتھ ایمپلائمنٹ/ییلوکیب سکیم، فری لیپ ٹاپ کمپیوٹر اور سولر لیمپوں میں کتنے ارب غرق ہوئے؟ کچھ معلوم نہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان ڈھونڈ کر دکھائےاور ریکارڈ مانگ کر دکھائے۔۔۔۔۔
اس وقت پاکستان کی معیشیت کا سالانہ گروتھ ریٹ 3.4 ہے اور پنجاب حکومت کی اپنی رپورٹوں کے مطابق امیر صوبے پنجاب کا 2.5 ہے ۔باقی کہانیاں ہیں چاہے جتنی سُن لو۔
نون لیگ میں تجربہ کار لوگوں کی ٹیم الیکشن جیتنے کی باکمال سٹریجی بناتی ہے۔ ابھی نگران حکومت قائم ہونے سے قبل پنجاب سے قومی اسمبلی کے 148 حلقوں کا سروے ایک بین الاقوامی فرم سے کروایا، جسے فی حلقہ 3 لاکھ روپے ادائیگی کی گئی تھی۔ سروے میں بتایا گیا کہ کس حلقہ میں کون سی بڑی برادری اور مؤثر شخصیات ہیں ، کس برادری یا فرقے کے امیدوار کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں ، سروے میں صرف ذات پات برادری ، فرقہ بندی ، مقامی دھڑوں اور امارت کو مدنظر رکھا گیا ۔ پنجاب میں ڈی سی اوکے ذریعے امیدواروں کے انٹرویوکر کے سکروٹنی کی گئی۔ گرافوں اور چارٹوں سے مزین مکمل رپورٹیں بنوائی گئیں۔ پھر کہیں جا کران رپورٹوں کو مدِنظر رکھ کر ٹکٹ صرف الیکٹ ایبلز میں تقسیم کیے گئے۔
آج کل میڈیا میں نون لیگ کی مقبولیت کے بارے میں سرویز کی بھرمار ہے کہ اس پارٹی نے مقبولیت کے تمام ریکارڈز توڑ دیئے ہیں اور یہ پارٹی الیکشن بھاری اکثریت سے جیت لے گی۔ اگر جائزہ لیا جائے کہ کیسے؟ کیاالیکشن کمیشن کے تین کروڑ جعلی ووٹ خارج کرنے سے، جو 2008ء کے الیکشن میں ڈالے گئے تھے؟ کیا یہ بھی سوچنے کی بات ہےکہ اتنی بھاری تعداد میں ووٹ کس پارٹی نے درج کروائے ہوں گے۔ ایم کیوایم کے علاوہ تین پارٹیاں بچتی ہیں جواس جعل سازی میں ملوث ہو سکتی ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی جو 1996ء کے بعد حکومت میں نہیں رہی تھی؟ نون لیگ نے،جس کا کردار اصغر خان کیس کے لنگڑے لُولے فیصلے کے باوجود بھی عوام پر پوری طرح واضح ہے؟ ق لیگ نے، جو تقریباً پوری کی پوری نون لیگ کے بدن میں سما چکی ہے۔ اب یہ ووٹ خارج ہوچکے ہیں تو یہ سمجھنا کون سا مشکل ہے کہ کس پارٹی کے ووٹ کم ہوئے ہوں گے؟
گو کہ الیکشن کمیشن نے چار کروڑ نئے ووٹر رجسٹر کیے ہیں۔ جو کہ صاف ظاہر ہے کہ سارے جی ٹی روڈ پر نہیں بستے جہاں نون لیگ کی اکثریت ہے۔ کیا یہ بھی کسی کو سمجھانے کی بات ہے کہ بنیادی طورپر نون لیگ اور تحریک ِانصاف دونوں پارٹیاں اینٹی بھٹو ووٹر رکھتیں ہیں۔ تحریک ِانصاف نے کس پارٹی کے ووٹ زیادہ توڑے ہوں گے؟ سوچیں جب اینٹی بھٹو ووٹ الیکشن کے دن نون لیگ ، تحریکِ انصاف ، اِسلامی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کی مچھلی منڈی میں بٹے گا تو اس کا فائدہ کس پارٹی کو ہوگا؟ اور یہ سچ کدھر جائے گا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹر ٹوٹ نہیں سکتا۔کیااُس کےووٹر سے اپنی پارٹی کی کارکردگی میڈیا کے پروپیگنڈے کے باوجود اُوجھل ہے؟
سرائیکی بیلٹ میں نئے صوبےکے حوالے سے کس پارٹی کے ووٹوں میں اضافہ ہوا ہو گا؟
کیا الیکشن کے دن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ماہانہ 1000روپے کی ماہانہ معاونت لینے 70 لاکھ غریب گھرانے کے ووٹر گھر بیٹھے رہیں گے؟ وسیلہ حق پروگرام کے تحت مفت ٹریننگ کے بعد 3لاکھ روپے بلاسود قرضہ لینے والے اوروسیلہ روزگار پروگرام کے تحت60 مختلف شعبوں میں 456 ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز میں دوران تربیت 6000 روپے وظیفہ لینے والوں کے خاندان الیکشن کے دن ووٹ ڈالنے کی بجائےہوا میں اُڑجائیں گے؟
کیا ایران پاکستان گیس پائپ لائن پاکستانی شہریوں کی نظر سے پوشیدہ ہے؟ جس سے پاکستان کو روزانہ 2 کروڑ 15 لاکھ مکعب میٹر گیس ملے گی جس سے توانائی کے حالیہ بحران میں نمایاں کمی ہوگی۔ لاکھوں پاکستانوں کو روز گارملے اور پاکستان کی اقتصادی حالت بہتری آئے گی؟
گوادر بندرگاہ کا فیصلہ میڈیا چُھپا سکتا ہے؟ جس سےملکی دفاع پر دور رس مثبت اثرات اور ملک بھر میں تعمیروترقی اور معاشی خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔
پی پی پی جو دیہاتوں میں زیادہ ووٹر رکھتی ہے اپنے دورِ حکومت میں فصلوں کا معقول معاوضہ بڑھایا ہے اور ٹیوب ویلوں پر رعائتی بجلی کی ریٹ دیئے ہیں۔کیا کسان ووٹ دینا بھول جائیں گے؟
پی پی پی کی حکومت نے عالمی کساد بازاری کے باوجود سٹاک ایکسچیج کے عروج اور 19 ارب سے ساڑھے تیئس ارب تک برآمدات بڑھانے کی حقیقت کہاں چھپائی جا سکے گی؟
24578میگاواٹ سستی بجلی کے پروجیکٹس کو کون جھٹلا سکتا ہے؟
کیا 1973ء کے آئین کے بحالی اور این۔ ایف۔ سی ایوارڈ کی متفقہ منظوری کے بعد وسائل کی منصفانہ تقسیم کے دور رس فیصلے یادوں سے محو ہو جائیں گے؟
80 قومی اداروں میں 100 ارب روپے کے 12 فیصد مفت شیئرز لینے والے 5لاکھ ورکرز پولنگ اسٹیشن تک نہیں آئیں گے؟
وفاقی اداروں میں لاکھوں عارضی ملازمین جو مستقل ہوئے کیا وہ ووٹ ڈالتے ہوئے ایک لمحے کے لیےپی پی پی کے بارے میں نہیں سوچیں گے؟
سب سے اہم بات یعنی پی پی پی کا ووٹر عدلیہ، آرمی اور میڈیا کے اہم کرداروں کو الیکشن کے دن کیسے بُھولے گا؟
پھر یہ میڈیا اور خود ساختہ سرویزکمپنیوں کاپھیلایا ہُوا پروپیگنڈا چہ معنی، جو کہ ماضی کے الیکشنز میں غلط ثابت ہو چکا ہے۔
مگر یہ ساری حقیقتیں شریفوں کے “جادو” کے سامنے رَ د کی جاسکتی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ ماضی کی طرح وزارتِ عظمٰی ان کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کرسکتی ہے اس بار تو “قابلِ نفرین” صدر آصف علی زرداری کے گوادر بندرگاہ اور ایران گیس پائپ لائن کے فیصلوں پر عالمی طاقتیں شریفوں کو بونس دینے کے لیے بیقرار بیٹھی ہیں۔
مگر پاکستان کا ایک ایک شہری سمجھ چکا ہے کہ نون لیگ کے پاس کون سے “جادوئی کمالات” ہیں۔
کیا عوام اس بار الیکشن میں ان “جادوئی کمالات” کو چلنے دے گی؟
بشکریہ ٹاپ سٹوری آن لائن، 8 مئی2013ء
http://www.topstoryonline.com/imam-bakhsh-blog-130507