٦٢- ٦٣ اور صادق الامین –٢
پرانی کہاوت ہے کہ نچلے درجے کی ذہانت رکھنے والےشخصیات پر بات کرتے ہیں، اوسط درجے کے لوگ واقعات پر اور اعلیٰ درجے کے لوگ نظریات پر. اسکول میں یہ کہاوت سننے کے بعد ایک عرصے تک ہم اور ہمارے ساتھی ہیڈ ماسٹر صاحب اور ماسٹر صاحب کے متعلق اپنے نظریات بیان کیا کرتے تھے، بلکہ ہم نے تو جب یہ بات بزرگوں تک پنہچائی تو بہت سے حضرات و خواتین نے دوران غیبت خالہ بی، ماموں جان، چچا جان اور ایسے دیگر رشتے داروں کے لئے ہمیشہ اپنے نظریات ہی کا بیان کیا کبھی بھی ان کو شخصیات پر بحث کرتے نہیں سنا. بہرحال اس کہاوت سے یہ پتا نہیں لگتا کہ اگر کوئی آپ سے یہ پوچھے کہ غسل کب فرض ہو جاتا ہے یا یہ کہ ہنی مون سے متعلق آپ کا کیا خیال ہے تو ایسے فرد کی ذہانت کو کونسا درجہ دیا جاۓ ؟ خیر ایسے سوالات سے ذہانت کا پتا چلے نہ چلے نیت کا پتا ضرور چلتا ہے.
اپنے تئیں راستی کے درجۂ اولیٰ پر فائز افراد ہمیشہ سے ہی ایسے سوالات کے ذریعہ سے عام آدمی کو ذلیل کرتے آ رہے ہیں، بات صرف یہ کہ آپ کب کہاں ایسے فرد کے ہاتھ چڑھتے ہیں. کسی ملازمت کے لئے انٹرویو دیتے وقت بھی ایسے سوالات سے پالا پڑ جاتا ہے، اعلیٰ افسران اپنے ماتحتوں کو ذلیل کرنے کے لئے بھی ایسے حربے استعمال کرتے ہیں، اکثر دیکھا گیا ہے کہ بزرگ رشتے داروں کا مرغوب ہتھیار بھی یہی ہے، جہاں جہاں اپنا نکمّا پن ، کھوکھلا پن یا محدود قابلیت چھپانا مقصود ہو، جہاں جہاں خوف انسان پر حاوی ہو، وہاں وہاں وہ ایسے ہی حربوں سے اپنی دھاک بٹھاتا ہے. اور مزے کی بات یہ ہے کہ آپ کا شکار یہی سمجھتا ہے کہ غلطی اسی کی ہے اور جملہ حاضرین، ناظرین ، سامعین و قارئین بھی اسی مغالطے میں رہتے ہیں
.
فرض کر لیں کہ آپ گئے ٹائپسٹ کی نوکری کے لئے انٹرویو دینے، وہاں آپ سے سوال ہونے چاہئیں اس پیشے سے متعلق، آپ کی ذاتی صلاحیتوں سے متعلق، یہ دیکھا جائے کہ آپ ادارے کےماحول میں گھل مل سکیں گے کہ نہیں، کار آمد ثابت بھی ہو سکیں گے یا نہیں. اب اگر یہ سب چھوڑ چھاڑ آپ سے یہ پوچھا جائے کہ بتاؤ بیویاں ایک اچھی کہ چار؟ مسجد میں داخل ہوتے وقت کون ساپیر پہلے اندر آئے اور باہر جاتے وقت کونسا؟ کبھی اس بازار میں جا کر گانے سنے ہیں؟ دوپہر کا کھانا شام کو کس وقت کھاتے ہو؟ فجر کو سوتے ہو یا نماز کے لئے اٹھتے ہو؟ جواب میں آپ خود کو چاروں خانے چت ہی پائیں گے. آپ کےكراماً كاتبين بھی یہی کہیں گے کہ دیکھا میاں یہ تو حال ہے اور چلے آئے نوکری کرنے، آپ خود شرم کے مارے کسی کو کہتےڈریں گے کہ آپ کا انٹرویو کیسا ہوا، اگر کسی کو بتائیں گے تو آپ ہی کو ڈانٹا جائے گا. یہ کوئی نہیں دیکھے گا کہ آپ کی ٹائپنگ کی رفتار کیا تھی، انگریزی زبان پر آپ کا کتنا عبور تھا، آپ ایسے ہی ایک ادارے میں پانچ سال کام کر چکے تھے، بلکہ خود آپ کا دھیان بھی اس حقیقت کی طرف شاید ہی جائے.ایسے واقعات ہمارے معاشرے کا روز مرّہ ہیں
.
کچھ سوال تو ایسے ہیں کہ جن کا جواب اثبات میں ہو یا نفی میں، دونوں صورتوں میں جوابدہ ہی خوار ہوتا ہے. جیسے کوئی کسی سے پوچھے ‘آپ نے کبھی جھوٹ بولا ہے؟’ یا یہ کہ ،جب چھوٹے تھے تو بستر میں پیشاب کرتے تھے؟ ‘ یا یہ کہ ‘آج تک کتنے عشق کیے ہیں؟’ کسی کنوارے سے پوچھنا کہ ‘شادی ہو گئی آپ کی؟’، پھر پوچھنا ؛بچے کتنے ہیں؟’ یا کسی شادی شدہ سے یہی سوال الٹی ترتیب میں پوچھنا
.
ہمارے معاشرے میں خوف کا بھی بڑا کلیدی کردار ہے، چھوٹے ہوں تو گھر میں والد یا والدہ کا خوف، اسکول میں استاد کا خوف، یا اسکول قسمت میں نہیں بلکہ کوئی کارخانہ تو بھی استاد کا خوف ، ملازم ہیں توخود سے اوپر والوں کا خوف، شادی شدہ ہیں تو خاوند یا بیوی کا خوف، بزرگ ہیں تو موت کا خوف، اور اس طرح بڑھتے بڑھتے اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے میں بے عزتی کا خوف، کیونکہ ہر وہ خوف جو اس معاشرے میں ہماری ذات کا حصّہ بنتا ہے اس میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کمزوری کی بنا پر دوسروں پر انحصار ہی اصل وجہ ہوتی ہے، یہ بھی ہے کہ جاگیردار، سپاہ گیر جنگجو معاشروں میں کمزور کی کوئی جگہ ہی نہیں . نتیجہ یہ کہ ہم اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ڈرتے ہیں، اگر آپ کو دعائے قنوت یاد نہیں تو شرمندگی کی کیا بات ہے؟ آپ کو تمام کلمے یاد نہیں تو اس میں شرم کی کیا بات ہے؟ ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کی کمزوریاں ہوں مگر اس میں بری بات کیا ہے؟ اگر آپ کا حافظہ اچھا نہیں یا آپ نے کبھی اتنا وقت ہی نہیں نکالا کے آپ ان کو یاد کرتے تو یہ آپ کا ذاتی فعل ہے، اس سے کسی طرح بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ سمجھ بوجھ ، بلوغت، صداقت یا امانت میں کسی سے کم ہوں. ہاں یہ شرم کی بات ہے کہ اگر آپ کو یہ نہیں پتا کہ آپ کے ملک کا پہلا گورنر جنرل کون تھا اور وزیر اعظم کون، مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آپ کو اپنے لوگوں کے مسائل کا علم ہو، آپ جو سچ سمجھتے ہوں اس کا ساتھ دے رہے ہوں، آپ نیک نیت ہوں اور لوگ آپ کو ایسا جانتے اور سمجھتے ہوں، اگر آپ عوام میں مشہور اور مقبول ہیں، آپ پر لوگ اعتماد کرتے ہیں تو آپ کا حق ہے کہ آپ انتخابات میں حصّہ لے سکیں. بندوں کو تولنے کی اتنی مختلف اور منفرد کسوٹیاں ہو سکتی ہیں کہ کسی کا بھی سب پر کھرا اترنا نا ممکن ہے
.
ہمارا معاشرہ بھی عجیب ہے کہ ٹیکس چوروں، قرض نادھندوں ، نا قابل اعتبار شخصیات جو کبھی کسی کے ساتھ ہوتی ہیں کبھی کسی کے ساتھ، ان سب سے تو پہلو تہی کرتا ہے، ایسے لوگوں کے خلاف عدالت میں جانے کی ہمّت کسی میں نہیں، خود قانون دان جو کسی شخص کو کلمے یاد نہ ہونے کی بنا پر تو مسترد کر دیتے ہیں مگر قرض نا دہندہ ہونے پر کچھ نہیں کہتے اور ان سب سے بڑھ کر عوام جو ان سب کو بار بار چن لیتے ہیں اور ان کی غیرت و حمیت کو کچھ نہیں ہوتا، مگر اگر کسی کو یہ پتا نہ ہو کہ غسل کب واجب ہے یا اگر کوئی یہ اعتراف کر لے کہ وہ شراب پیتا ہے تو ہم سب کی آن بان اور شان کو بٹے لگ جاتے ہیں، ہماری دنیا اور دین خطرے میں پڑ جاتے ہیں، صداقت اور امانت کی نفی ہونے لگتی ہے . مگر قول و فعل کے بے پناہ تضاد رکھنے والے ہمارے عزت و احترام کے مستحق ٹھہرتے ہیں.