پاور پولیٹکس ، جمہوریت اور خدشات – از عامر حسسینی

nawaz-sharif-in-Madina-e-Munawara

ڈاکٹر خاور علی شاہ سے میری یاد اللہ برسوں سے ہے-اور میں نے ان کو ہمیشہ دیانت دار،خدا ترس اور صاف گو انسان پایا ہے-ان کا پیغام ملا کہ ملاقات ہونی چاہئے-میں ملاقات کے لیے گیا تو اس دوران انہوں نے اپنی داستان سنائی-ان کے سنانے کا انداز ایسا تھا کہ مجھے لگا کہ بیدل حیدری کی طرح وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ “میری داستان الم تو سن کوئی زلزہ نہیں آئے گا”

وہ مجھے بتارہے تھے کہ 12 اکتوبر 1999ء سے قبل ہی پاکستان کے غیر منتخب طاقتور حلقوں نے ان کو “ہم خیال”گروپ میں شمولیت کی دعوت دی تھی-یہ حلقے ان سے میاں محمد نواز شریف اور ان کی جماعت کے خلاف تعاون چاہتے تھے-ان کے کزن سید فخر امام اور بھابی بیگم عابدہ حسین پہلے ہی اس کھیل میں شریک تھے-لیکن سید خاور شاہ نے ایسا کرنے سے انکار کرڈالا-پھر 12 اکتوبر 1999ء کے بعد 2000ء کے مقامی حکومتوں کے انتخابات کے موقعہ پر جنرل مشرف نے جنرل یوسف کے زریعے سے ان کو مسلم لیگ نواز سے الگ ہونے اور بدلے میں ضلع ناظمی کی پیشکش کی-اس آفر کو بھی ڈاکٹر خاور شاہ نے ٹھکرا دیا-اور یوں وہ اسٹبلشمنٹ کے ہاں ناپسندیدہ لوگوں میں شمار ہوگئے-

ڈاکٹر خاور شاہ جوکہ اب پیرانہ سالی کی عمر میں ہیں انہوں نے جوانوں سے بڑھ کر آمریت کے زمانے میں میاں نواز شریف کا ساتھ دیا-اور ان کی جماعت کو ملتان ڈويژن میں ذندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا-لیکن اس ساری محنت اور مشقت کا صلہ ان کو یہ ملا کہ این اے 156 پر ان کو ٹکٹ سے محروم کردیا گیا اور ٹکٹ سید فخر امام کو دے دیا گیا-جوکہ بس ایک ماہ قبل پارٹی میں شامل ہوئے-اور ان کی شمولیت بھی بس اکیلے ہی ہوئی ہے-جبکہ حال یہ ہے کہ ان کا بیٹا سید عابد امام پی پی پی کے ٹکٹ پر ضلع جھنگ سے انتخاب لڑ رہا ہے-اور ان کی بیٹی،بیوی بھی پیپلز پارٹی میں موجود ہیں-سید فخر امام کو مسلم لیگ نواز کے خلاف سازش اور آمریت کا ساتھ دینے کا انعام ملا ہے-اور ان کو آسانی سے مسلم لیگ نواز کا ٹکٹ دے دیا گیا ہے-

میں نے ڈاکٹر خاور شاہ صاحب سے پچھلے سال مئی کے مہینے میں ایک انٹرویو کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلم لیگ نواز ان کے حلقے میں سید فخر امام یا رضا حیات کو پارٹی میں شامل کرنے کے لیے کوشاں ہے-اور مسلم لیگ نواز کو اس حلقے میں اپنا وزن بنانے کے لیے “جیت والے گھوڑوں “کی ضرورت ہے-اس لیے ان کو تحریک انصاف میں اپنی جگہ بنانی چاہئیے-انہوں نے میری بات کو سنکر فقط اتنا کہا تھا “کہ ان کو یقین ہے کہ میاں نواز شریف اصول اور انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے-اور ویسے بھی وہ اس عمر میں پارٹی چھوڑتے اچھے نہیں لگتے”

لیکن مجھے انہوں نے میری کہی ہوئی بات یاد دلاکر کہا کہ”آپ کی پیشن گوئی ٹھیک تھی اور میاں نواز شریف بارے میں خوش فہمی کا شکار تھا”

ڈاکٹر صاحب واحد آدمی نہیں ہیں جن کے ساتھ ان کی جماعت نے ہاتھ کیا ہو-اصل میں یہ پاور پالیٹکس بے رحم کھیل ہوتا ہے-اس میں جذبات سے ذیادہ چالاکی اور نتائج کے حصول پر نظر رکھی جاتی ہے-اور مقاصد کے لیے اصول،ضابطے اور افراد قربان کردئے جاتے ہیں-

میں بھلا ڈاکٹر صاحب کو پاکستانی سیاست میں ہوس اقتدار کی خاطر ہونے والے ڈراموں کی تاریخ کیا دکھا پاؤں گا-انہوں نے سارے نظارے دیکھ رکھے ہیں-

6-اپریل 1986 کو بے نظیر بھٹو پاکستان تشریف لائیں تھیں-اور ان کی آمد کے بعد 1986 سے لیکر 1988 تک ان کے گرد ایسے لوگوں کا گھیرا تنگ ہوتا گیا جنہوں نے ضیاءالحق کی آمریت میں مزے کئے تھے اور وہ پجارو میں چڑھ گئے تھے-مجھے یاد ہے کہ 1988ء میں کلفٹن میں بلاول ہاؤس میں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے جو اجلاس ہورہے تھے تو بلاول ہاؤس کے باہر پجاروز کی ایک لمبی قطار لگ گئی تھی-اور پی پی پی کے وہ کارکن جنہوں نے کوڑے کھائے ،جیل گئے اور گیارہ سال ضیاء کے خلاف پی پی پی کے جھنڈے کے بلند رکھا بے سروسامانی کے عالم میں کھڑے تھے-ان کو ٹکٹوں کے لیے کسی نے زیر غور ہی نہیں رکھا تھا-سترہ ٹکٹیں کارکن کلاس کو دی گئیں تھیں اور ان کارکنوں کی انتخابی مہم کو پارٹی نے اولیت نہ دی-ان کے لیے فنڈز بھی اکٹھے نہ کئے گئے-اور ان میں اکثر کارکن ہار گئے تھے-اور بےنظیر بھٹو کو گلزار احمد اور زرداری کے سیٹھ دوستوں نے یرغمال بنا لیا تھا-

ہماری سیاست میں ایسے مناظر کئی بار دیکھنے کو ملے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت جن جاگیرداروں اور سرمایہ داروں پر نوازشات کی بارش کرتی رہیں اور انہوں نے فوجی آمروں کے ساتھ ملکر ان جماعتوں اور اپنے مربیوں کو دیوار سے لگانے میں پوری حمائت فراہم کی-اور جب اس جماعت کے کارکنوں نے اپنی ہمت سے آمریت سے نجات حاصل کی تو پارٹی کی قیادت پھر انہی لوٹوں کو نوازنے پر لگ گئی-

ایاز امیر اس کی ایک اور مثال ہیں-جنہوں نے مشرف کے پورے دور میں اپنی تحریروں سے آمریت کو بے نقاب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا-اور اس نےانتخاب میں مسلم لیگ نواز کا ٹکٹ اس زمانے میں لیا جب کوئی ٹکٹ لینے کو تیار نہ تھا اور نواز شریف کے پرانے مسلم لیگی یار مجید ملک پرویز مشرف کی کابینہ میں مزے کررہے تھے –بی فاختہ کی طرح دکھ تو سہے ایاز امیر نے اور جب انڈے کھانے کی باری آئی تو ان کو کھانے کا اختیار مجید ملک کے صاحبزادے کو مل گیا-اب ایاز امیر تو خوش ہیں کہ ان کی ایک ایسی جماعت سے جان چھوٹ گئی ہے جس کی آئیڈیالوجی سے ان کو اتفاق نہیں تھا-اور وہ ایک دن بھی ضیاءالحق کی روائت کے اسیر ہوکر نہیں چل سکے-مسلم لیگ نواز کے سابق ایم پی اے شہریار ریاض جن کا تعلق راولپنڈی سے ہے وہ بھی اسی سیاست کا شکار ہوئے-کیونکہ چوھدری نثار علی خاں کو پارٹی سے بھی زیادہ اپنے وفادار ایم پی ایز کی ہے جو نثار علی خاں کو وزیر اعلی پنجاب بنوانے میں کسی قسم ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں-وزارت اعلی کے لیے اصولوں اور حلقے کے ووٹرز کو نظرانداز کرنے کا سلسلہ جاری ہے-

میں یہ سطور لکھ رہا تھا تو مجھے مظفر گڑھ سے بہت سارے جیالوں کا فون آیا-جو پارٹی قیادت کی جانب سے میاں محسن علی قریشی کے بیٹے سے ٹکٹ واپس لئے جانے کی کوششوں کی مذمت کررہے تھے-میں ان کی کیا مدد کرسکتا ہوں ؟میں تو صرف اتنا کہوں گا کہ مظفر گڑھ کو پی پی پی کا لاڑکانہ بنانے میں جن لوگوں کا ہاتھ ہے ان کو ایک ایک کرکے پارٹی سے نکلنے پر مجبور کیا-جمشید دستی کے بعد ڈاکٹر شبیر علی قریشی اور یوسف ہنجراء کی رخصتی پی پی پی کو اس ضلع میں کمزور کرے گی-

میں یاد کراتا چلوں کہ 1988ء میں یہ جہانگیر بدر تھے جن کے بارے میں یہ افواہ عام تھی کہ انہوں نے میاں برادران سے رشوت لیکر لاہور ڈویژن میں کمزور امیدوار اتارے تھے-آج تک لاہور کو دوبارہ منی لاڑکانہ نہ بنایا جاسکا-

بلکہ وسطی پنجاب کے اکثر اضلاع میں پی پی پی اپنا وزن کھوبیٹھی ہے-آج مسلم لیگ نواز نے ایک مرتبہ پھر پاور پالیٹکس میں اپنے اھداف پانے کے لیے رطب و یابس سب کو شامل کر لیآ ہے-اور مجھے یہ حکمت عملی بیک فائر کرتی نظر آرہی ہے-لیکن اس کا زیادہ فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا پی پی پی کو نہیں-

پنجاب میں مسلم لیگ نواز کو اگر کٹ ٹو سائز کوئی جماعت کرسگے گی تو وہ پاکستان تحریک انصاف ہوگی-اور پاکستان تحریک انصاف کو اب ایک فائدہ اور بھی ہوگا-اور وہ فائدہ ہم خیال اور جماعت اسلامی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ بارے قول سے پھر جانے اور اکیلے اڑنے کے فیصلے سے پیدا ہونے والے رد عمل سے ہوگا-یہ دونوں دھڑے پی ٹی آئی کو اپنا ووٹ دینے کا فیصلہ کرسکتے ہیں-

پی ٹی آئی پنجاب سے اگر تیس سے چالیس سیٹوں کو نکال پائی اور یہ پورے ملک میں 60 کے قریب قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی تو پھر مسلم ليگ نواز کا حکومت بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوپائے گا-

حالات روز بروز غیر یقینی کفیت کا شکار ہوتے جارہے ہیں-ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا یہ کہنا کہ “انتخابات کی مہم تو صرف پنجاب میں چل رہی ہے”اگر مبالغہ آرائی بھی ہے تو پھربھی تشویش کی بات ہے-

مجھے تو انتخابات ہونے کی اتنی فکر نہيں ہے جتنی اس کے بعد کے حالات کی ہے-بہت سارے جہاں دیدہ سیاست دان اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں –پاکستان میں بہت تیزی سے نظریاتی صف بندی ہورہی ہے-اور سنٹر رائٹ کا ابھار ہوتا نظر آرہا ہے-اس ابھار کے جلو میں دھشت گردی پوری طرح سے پوشیدہ ہے-اور افسوس اس بات کا ہے کہ کوئی بھی جماعت اس خطرے کی پیش بندی کرتی نظر آتی نہیں ہے-سیاست کرنا آج کسی حد تک مشکل ہے لیکن آنے والے وقت میں تو یہ ناممکن ہوجائے گا-

میں ایم کیو ایم،اے این پی اور پی پی پی جیسی جماعتوں کی موقعہ پرست پالیسیوں کا سخت ناقد ہوں لیکن ان کی انتخابی مہم کو دھشت گردوں کی یلغار کا جو سامنا ہے اس کی پرزور مذمت کرتا ہوں-یہ دھشت گردی اس لیے ہورہی کہ ان جماعتوں نے  مذھبی بنیادوں پر اور فرقہ وارانہ سیاست اور عسکریت پسندی کی مخالفت کی ہے-اور ہمارے سماج کو طالبانائزشن سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے-پنجاب کے لوگوں کو خیبر پختون خوا کے اندر جمہوریت کو جو خطرات لاحق ہيں ان کو ختم کرنے کے لیے احتجاج ریکارڑ کرانا چاہئے-اور اس حوالے اور صوبوں میں جمہوریت دوست طاقتوں کا ساتھ دینآ بہت ضروری ہے-مسلم لیگ نواز کی اس حوالے سے بہت اہم زمہ داری بنتی ہے-وہ پنجاب کی عوام کو اس بارے میں موبلائز کرسکتی ہے-

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.