کہانی ، طالبان سے مذاکرات کی – زالان

nego2

کہانی ، طالبان سے مذاکرات کی

زالان

Twitter: zalaan1

ہر دھماکے اور قتل و غارت کے بعد عوام میں طالبان کے خلاف کروائی کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا تھا مگر میڈیا میں بیٹھے طالبان کے حمایتیوں ،سابقہ جماعتی صحافیوں ،جہادی ریٹائرڈ فوجیوں اور ناکام مذہبی جماعتوں نے ایسا شور ڈالا کے لگتا تھا پورا پاکستان ہی طالبان سے مذاکرات کا حامی ہے ، اتنا شور کے طالبان دہشتگرد بھی سوچنے لگے کہ ہم تو اتنا نہیں چاہتے جتنا ہمارے چاہنے والے مذاکرات چاہتے ہیں

بلا آخر حکومت نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ، معاف کیجئے گا طالبان سے زیادہ طالبان کے وفاداروں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور طالبان سے مذکرات کرنے پر راضی ہو گئی اور یہ فیصلہ کیا کہ جو طالبان سے سب سے مذاکرات کا سب سے زیادہ شور مچاتے ہیں انہیں ہی طالبان سے مذاکرات کے لیہ بھیجا جائے یہ سنتے ہی منور حسن ،فضل الرحمان ،عمران خان وغیرہ سکتے میں آگیے ، منور حسن نے فوری پینترا بدلہ اور کہا کہ وزیرستان میں انڈیا بھی گھس گیا ہے اس لیہ میں اکیلا وہاں نہیں جاؤں گا ، عمران خان نے کہا کہ جب تک کرپٹ حکمران ہیں میں وزیرستان نہیں جاؤں گا ،فضل الرحمان کی تو سٹی گم تھی وہ فوری عمرہ کے لیہ روانہ ہو گئے پھر حکومت نے طالبان فیکٹری کے مالکان دیوبند مدارس کے علماء سے پوچھاانہوں نے بھی خوف سے انکار کر دیا ، بڑی مشکلوں سے فیس بک سے جذباتی پاکستانی مسلمانوں سے رابطہ کیا اور وہ طالبان کے پاس شمالی وزیرستان جانے پر راضی ہوے کیونکہ انکے خیال میں طالبان “اچھے ” ہیں ، اصل طالبان کون ہیں اور کن سے رابطہ کیا جائے یکے لیہ مدارس میں طالبان کی ہمدرد جماعتوں اور دھماکے سے پہلے پکڑے گئے طالبان دہشتگدوں سے رابطے کیے گئے اور پھر “اچھے ” طالبان کا وزیرستان کا ایڈریس لیا گیا اور انہیں پیغام دیا گیا کہ پاکستانی حکومت اور فوج آپ طالبان سے ماکرات چاہتی ہے . طالبان کو جب یہ پیغام ملا تو بہت خوش ہوے کہاں دیکھو ہمارے دھماکوں اور چالیس ہزار لوگوں کو قتل کرنے کی کتنی اہمیت ہوئی کہ آج پاکستان کی حکومت اور فوج ہمارے آگے سر نگوں ہو گئی ہیں جو ہماری عظیم فتح ہے . خیر طالبان کے نہ چاہتے ہوےبھی اس “زبردستی مذاکرات ” کے لیہ طالبان نے ہاں کر دی اور پاکستان نے یہ “مذاکراتی ” وفد بذریعہ ڈرون پیرا شوٹ سے طالبان کی بتائی ہوئی جگہ پر اتار دیا

جیسے ہی حضرت مذاکرتی صاحب اترتے تڑا تڑ چاروں جانب سے فائرنگ اور الله اکبر کے نعرے لگنے لگے پھر ان ” مذاکراتی ” صاحب کو طالبان نے رسینوں سے باندھتے ہوے کہا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اس لیہ ہم آپ سے اچھا برتاؤ کرنا چاہتے ہیں ، ہمارے امیر آج کل افغانستان اور نائب امیر لاہور اور کراچی میں “فدائیوں ” کی نگرانی کے لیہ گئے ہوے ہیں اس لیہ آپ ہمارے ” مہمان ” خانے میں چلیں جہاں ہم نے اور بھی اغوا براے تاوان کے قیدی اکھٹے کیے ہیں .

خیر مذاکراتی صاحب دو دن “مہمان ” رہنے کے بعد انہیں ” امیر ” صاحب اور انکی شوریٰ سے ملنے کی اجازت مل گئی

مذاکراتی صاحب زنجیروں جکڑے ہوے طالبان کمانڈر کے پاس لاے گئے طالبان نے دیکھ کر ایک زور سے قہقہہ مارا اور نعرہ تکبیر لگایا

طالبان : اوے تمہیں کس نے یہاں بلایا تھا ، ہمیں ابھی بھی شک ہے کہ تم یہودیوں کے ایجینٹ ہو

مذاکراتی : نہیں جناب آپ تو اچھے طالبان ہیں اور ہم آپ کی بات سنے اور آپ کے ساتھ مذاکرات کے لیہ آے ہیں ، جو آپ کے مطالبات ہیں ہم پورے کر دینگے

طالبان : ایک تو تم لوگ ہم سے زیادہ مذکرات کی بات کرتے ہو ، جینا ہم نہیں چاہتے ہیں اس سے زیادہ تم لوگ میڈیا پر شور مچا کر ہمیں کمزور کرتے ہو

مذاکراتی : طالبان بھائی آپ تو اچھے طالبان ہیں ، برے طالبان تو وہ ہیں جو خود کش دھماکے کرتے ہیں جو انڈیا اور امریکہ کے ایجینٹ ہیں

طالبان ( تعیش میں آکر ) کمینے یہ دھماکے ہم کرتے ہیں اور یہ ہم اسلام کے احکام سمجھ کر کرتے ہیں .. سمجھا

مذاکراتی : وہ تو افغان طالبان کرتے ہیں ، اور آپ اور افغان طالبان الگ ہیں

طالبان ( مزید غصے میں آکر ) خبر دار جو تو نے افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کو الگ کرنے کی کوشش کی ، ہم سب ایک ہیں اور ایک ہی کمان میں کام کرتے ہیں یہ تجھ جیسے جماعتی ہماری پوزیشن کمزور کرتے ہیں اور جو ہم نے کہا ہی نہیں وہ کہتے ہیں

مذاکراتی : اصل میں

طالبان : اصل وصل چھوڑ اب  توہم تجھے اپنے قبضہ میں رکھیں گے ، ہمارا مقصد پورے پاکستان پر قبضہ کرنا ہے ،تیرے جیسوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ، ایک آیا تھا ڈبل گیم کھیلنے والا کرنل امام بھی ،اب تو بھی ایک نیا کرنل امام بنے گا ،

مذاکراتی خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا

اگلے دن پاکستانی میڈیا پر اک ویڈیو موصول ہوئی جس میں یہ مذاکراتی درمیان میں بیٹھا اور اس پاس ڈھاٹے باندھے طالبان کھڑے تھے اور مذکراتی اپنی رہائی کے عیوض تمام طالبان کی رہائی کے مطالبہ کر رہے تھے …. اور میڈیا میں پھر مذاکرات مذاکرات کا منترا پیٹا جا رہا تھا

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.