لوٹا لوجی
ایک دفع پھر انتخابات کی گہماگہمی ہے، اور ایک دفع پھر تمام اصول پرست یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آنے جانے میں مصروف ہیں کیونکہ اصول کی بات ہے کہ اصولوں کی سیاست میں یہی اصول کام کرتا ہے کہ سیاسی وابستگی کو صرف انتخابات کے دوران بدلنا ہی ہر اصول پرست کی دیانت کا ثبوت ہے، بعض جلد باز انتخابات کا انتظار بھی نہیں کرتے اور آمد و رفت ایسے جاری رکھتے ہیں جیسے سیاست کا اصل مقصد یہی ہو. ہر دو اقسام کو عمومی روایات جیسے نظریاتی وابستگی، دائیں بازو ، بائیں بازو، وفاداری، شرم، حیا اور اس قسم کی خرافات سے کوئی دلچسپی نہیں، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ہے کہ ڈیمانڈ اور سپلائی کا اصول بھی تو لاگو ہوتا ہے،
لوٹے لوٹے پے لکھا ہے پانے والے کا نام
یہ لوٹے کا لفظ بھی خوب ہے، بھلا تھالی کے بینگن میں وہ بات کہاں جو سیدھے سادھے لوٹے میں ہے. لوٹا کئی معنوں میں استمعال ہوتا ہے، جیسے واپس لوٹنے والا ، لوٹنا پوٹنا، اور وہ شے کہ جسے لوٹا کہتے ہیں جس کے بغیر انسان کئی نازک مقامات سے گزر ہی نہیں سکتا ، مگر جب بات سیاست کے لوٹے کی ہو تو یہ سب معنویات ایک جگہ جمع ہو جاتی ہیں. صرف یہی نہیں کہ لوٹا ضرورت مندوں کے کام آتا ہے بلکہ ہماری آپ کی دلبستگی کا سبب بھی ہے.
ایک لوٹے پے موقوف ہے گھر کی رونق
اگر لوٹے نہ ہوتے تو بحر سیاست میں یہاں وہاں ڈولنے والوں کی نیا کیسے پار لگتی؟ یہ توڑ وہ جوڑ کے اپنا مقصد پورا کرنے والی ہماری مقتدرہ کیا کرتی؟ ہماری اشرافیہ جو عوام سے خوفزدہ رہتی ہے وہ کہاں جاتی؟
وہ اک لوٹا کہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار ووٹوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
بات یہ ہے کہ لوٹے اپنا ووٹ بینک بڑا مضبوط رکھتے ہیں، ہماری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی جو جانے مانے لوٹے ہیں، ان سے پوچھا کہ حضرت یہ کیا گر ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو، وزیر آپ ہی ہوتے ہیں؟ کہنے لگے کہ ہم تو صرف اپنے حلقے کے لئے کام کرتے ہیں، دائیں بائیں الٹا سیدھا سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں بس ہمارا یعنی ہمارے حلقے کا کام نکلنا چاہیے، ہم اپنی برادری کے پنچ ہیں اور برادری اتنی بڑی (بری پڑھیں تو بھی مضائقہ نہیں) ہے کہ تین چار صوبائی اور ایک دو قومی سیٹیں اپنی ہی جیب میں رہتی ہیں، اب جب اتنی اچھی پوزیشن ہو تو پھر اصولوں میں کیوں خود کو اور پورے حلقے کو برباد کریں؟ ہم جہاں بھی رہیں، ووٹ تو ہمارے ہی رہتے ہیں نا، بس یہی گر ہے:
ووٹوں کو کر بلند اتنا کہ ہر لوٹے سے پہلے
پارٹی تجھ سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہ برادری، جاگیرداری ،سرداری، قبائلی انتظامات و روایات بھی وطن عزیز کی سیاست میں لوٹے کے عروج کی ایک وجہ ہیں. جددی پشتی حیثیت و مراتب رکھنے والے اپنے علاقوں کے بلا شرکت غیرے مالک و مختار ہیں، اس پارٹی میں ہو یا اس پارٹی میں یا اکیلے ہی انتخابات میں حصہ لیں، جیتنا ان کو ہی ہوتا ہے، پھر وابستگیاں کیوں پالیں؟ بلا وجہ کسی کو جواب دہ کیوں بنیں؟ خاندان کے خاندان سیاست دان ہیں، ابا جی ادھر ہیں تو بیٹا جی ادھر ، بیٹی جی یہاں ہیں تو اماں جی وہاں، چاچا بھی ہیں، بھتیجا بھی، ماموں بھی ہیں، بھانجا بھی، اثر و رسوخ کی انتہا ہے کہ پرندہ بھی ان کی مرضی کے بغیر پر نہیں مارتا، اگر کسی اور با اثر خاندان سے اختلافات ہیں بھی تو بھی ایک دوسرے کی حیثیت کو متاثر نہیں کرتے، یعنی چپقلش ہو بھی تو اس کا فائدہ کوئی اور نہیں اٹھا سکتا. یہ ملکوتی نظام آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے یونہی پنپ رہا ہے، شہنشا، بادشاہ، راجہ، مہاراجہ، اور ان کے تحت نواب، جاگیردار، سردار،ٹھاکر، یہ ملکوتی وفاداریوں کا نظام طاقت پر قائم رہا ہے، جس کے پاس طاقت ہو وفاداری اسی کے ساتھ قائم رہتی ہے، اور طاقت کے ساتھ سازشیں اور خرید و فروخت تو لازم ہی ہے. اور اوپر والوں کے آنے جانے سے نیچے والوں کو کوئی فرق بھی نہیں پڑتا، ہمایوں رخصت ہوتا ہے تو شیر شاہ آ جاتا ہے، اس کے وارث کمزور پڑتے ہیں تو پھر ہمایوں آ جاتا ہے، طاقت کے اصل مراکز پر حاوی حضرات کو کوئی فرق نہیں پڑتا، وفاداریاں یہاں سے وہاں بدل لی جاتی ہیں، بہادر شاہ رنگون جاتے ہیں تو انگریز بہادر ان کی جگہ لے لیتے ہیں، مگر ہماری مقامی سیاست کے پیادے وہی رہتے ہیں، جناح جاتے ہیں تو غلام محمد آ جاتے ہیں، وہ جاتے ہیں تو اسکندر مرزا آ جاتے ہیں، آنے جانے والے آتے جاتے رہتے ہیں مگر جن کو رہنا ہے وہ ہر ایک کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں. تو آج بھی یہی حقیقت ہے کہ طاقت ہی اصل مقصد ہے، وفاداری، نظریات، ملک، قوم، عوام، جمہوریت یہ سب انسانی ارتقا کے جس مرحلے میں اہمیت حاصل کرتے ہیں ہم وہاں ابھی تک پنہچے ہی نہیں ہیں. اسی لئے لوٹے کی کوئی وابستگی ہی نہیں ہے، اور جو یہ بات جانتے ہیں وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں،
سنا ہے اس کی طوطا چشمگی قیامت ہے
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
اور جو اسے پسند نہ بھی کریں لوٹا تب بھی ان کی مجبوری ہے، مفاہمت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے، مگر ایسی سیاسی جماعتوں کے لئے بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ
تو ہی ناداں چند لوٹوں پر قناعت کر گیا
یہ لوگ لوٹوں کو اس لئے بھی برداشت کر لیتے ہیں کہ
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
مگر یہ ان کی سادہ دلی ہی ہے کیوں کہ لوٹے کا اس کے علاوہ کوئی استعمال ہی نہیں ہے کہ وہ لوٹا ہے، اور لوٹا کسی کا نہیں ہوتا. اب تو لوٹوں کی اہمیت اس قدر بڑھ گئی ہے، اور لوٹا ہونا باقائدہ ایک ہنر اور اہلیت بن گیا ہے، لوٹا کریسی سیاست میں اب اتنی ہی طاقتور ہے کہ جتنی بیورو کریسی ملکی انتظام و انصرام میں، دونوں کے بغیر کوئی حکومت میں نہیں رہ سکتا. ہمارا تو مشورہ ہے کہ لوٹالوجی کو باقائدہ مضمون کی صورت جامعات میں پڑھایا جانا چاہیے تاکہ ہم کو اہل اور قابل لوٹے مل سکیں، ساتھ ہی ساتھ یاروں کو لوٹالوجی پڑھتے ہوئے اتنی دشواری بھی پیش نہیں آئے گی جتنی دیگر مضامین میں آتی ہے اور بیچارے ڈگری نہیں حاصل کر پاتے، لوٹالوجی میں ڈگری لے کر وہ سب پڑھے لکھوں کا منہ بند کر سکیں گے کہ جو جعلی ڈگریوں پر شور مچاتے ہیں، الیکشن کمیشن کی بھی تسّلی ہو جائے گی، ایک تیر سے کتنے شکار، پھر وزیر بھی بن سکیں گے اور کوئی نہیں کہے گا کہ بھائی جان آپ نے انٹر سے پہلے ڈگری کیسے لے لی؟ پھر سند یافتہ لوٹوں کی کونسل بھی بن سکے گی جیسے پاکستان انجینیرنگ کونسل ہے، اور لوٹوں کو باہم مشاورت اور صلاحیتیں بڑھانے کا ایک پلیٹ فارم بھی مل جائے گا، پھر لوٹوں کے لئے اتنا ہی کہا جا سکے گا کہ
لوٹے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
پھر یہ فایدہ بھی ہوگا کہ جس کو لوٹے کی ضرورت ہوگی وہ لوٹا کونسل سے باقائدہ تصدیق شدہ لوٹوں کی فہرست حاصل کر کے ان سے رابطہ کر سکے گا، اور جو بہت سے آرزو مند آج یہ کہتے ملتے ہیں کہ:
وہ تو لوٹا تھا مگر اس سے آشنائی نہ تھی
ان کو بڑی آسانی میسر آ جائے گی، ساتھ ہی ساتھ ہر میعار کے لوٹوں کی ایک باقائدہ قیمت بھی لگائی جا سکے گی، جس کی جتنی استطاعت ہو اتنی اعلیٰ سطح کا لوٹا خرید لے،
لوٹے سے لوٹا ملے کر کر لمبے ہاتھ
ہماری سیاست کو بھی خاصا سہارا مل جائے گا، اور ہماری شہری مڈل اور اپر مڈل کلاس جس نے کبھی ہمارے گاؤں دیہاتوں کی صورت نہیں دیکھی، جس کی اکثریت کا گاؤں کا تصور پنگھٹ سے پانی بھرتی خواتین سے آگے نہیں بڑھ پاتا، جو چھوٹےشہروں، قصبوں دیہاتوں سے گزرتے بھی ہیں تو ایئر کنڈیشنڈ کار اور بس سے جھانکتے، کسی سٹاپ پر اترتے ہیں تو ناک پر رومال رکھے، مکھیوں کو کوستے اور گرد میں چھینکتے کھانستے، ان سب کی بھی تسلی ہو جائے گی کہ ایچ ای سی سے تصدیق شدہ ڈگریوں کے حامل اسمبلیوں میں براجمان ہیں.