عباس ٹاؤن کے مکینوں پر ٹوٹ پڑی قیامت

abas town

لیل و نہار/عامر حسینی

میں آج رات جب یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو ایک غم جس میں میرا ذاتی دکھ بھی شامل ہے میرے ساتھ ہے اور میں ایک بہت بڑے امتحان سے گزر کر اپنی بصیرت کو غم کے ساتھ ساتھ درآنے والے غیض اور غصّے سے خلط ملط ہونے سے بچانے میں کامیاب ہوا ہوں-کیونکہ غیض کی حالت میں بہت آسانی سے آپ نفرت کی گھاٹی میں گرجاتے ہو- ایک معصوم بچی اور ایک معصوم بچہ ہے اور دو جوان رعنا ہیں جن کی خون میں لت پت لاشیں ہیں جو ہسپتال میں میرے سامنے پڑی ہیں اور میں ان کے جینے کے دوران کی یادوں کو اپنے دماغ کی سکرین پر بار بار ابھرنے سے روک نہیں پارہا ہوں-اور یہ مناظر بار بار ان خون آلود لاشوں سے گڈمڈ ہوتے ہیں تو میری آنکھوں میں خون اترآتا ہے-اور دکھ کی ایک لہر کسی ان دیکھے مقام سے سفر کرتی ہوئی میرے کندھوں تک آتی ہے اور میں درد کی شدت سے کانپنے لگتا ہوں-رضوان حیدر (نام تبدیل ہیں)آج سے پانچ سال پہلے میرے پاس آیا تو کہنے لگا کہ وہ کراچی میں اپنا گھر بدل رہا ہے-

کہاں جارہے ہو؟میں نے فوری سوال کیا-کہنے لگا کہ عباس ٹاؤن –کراچی میں اس کے مذھبی خیال کے لوگ اب ایسے ہی علاقوں کا رخ کررہے تھے-عبادت گاہیں تو پہلے ہی الگ تھیں ،اب قبرستان بھی الگ تو پوری پوری کمیونٹی کی رہائش بھی الگ ہوگئی-یہ مخصوص کمیونٹيز کے گھیٹوز کراچی کے اندر روز بروز بڑھتے ہی جاتے تھے-شہر کراچی پہلے ہی نسلی بنیادوں پر تقسیم تھے اور ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے-اب وہ مذھبی بنیادوں بھی تقسیم ہورہے ہیں

یہ تقسیم نوے کی دھائی میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے دوران ہی شروع ہوگئی تھی-ابو الحسن اصفہانی روڈ پر واقع عباس ٹاؤن میں شیعہ آبادی کی اکثریت ہے-اقراء سنٹر کے فلیٹس شیعہ برادری کے لوگوں کے ہیں-ساتھ ہی ایک مسجد ہے جہاں سے نمازی نماز ادا کرکے نکل رہے تھے-اسی وقت ایک پک اپ جس میں ڈیڑھ سے کلو گرام بارود تھا لاکر اقراء سنٹر کے سامنے والے حصّے سے ٹکرا دیا گیا اور اسی دوران فائرنگ بھی کی گئی-آگ،بارود کے دھماکوں نے خاص طور پر فلیٹوں میں بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں پر ایک قیامت ڈھا دی

رضوان حیدر ،عرفان حیدر،شبر اور فاطمہ اس دھماکے کی زد میں آئے اور پھر یہ خاندان جو اپنے تحفظ کے لیے اقراء سنٹر کے فلیٹ میں منتقل ہوا تھا اس ناگہانی موت کا شکار ہوگیا-رضوان حیدر ایک سال سے اس فلیٹ کو فروخت کرنے کی کوشش کررھا تھا-وہ سب کچھ بیچ کر ملک سے باہر جانے کی کوشش میں تھا-لیکن ان مخصوص کمیونٹیز کے علاقوں کے مکانات بھی اب خریدنے والا کوئی نہیں ہے-اگر قیمت لگے بھی تو اونے پونے لگتی ہے-اس گھر کی دو عورتیں رباب حیدر اور زینب عرفان جو کل سہاگنوں سے بیواؤں میں بدل گئیں ہیں بچی ہیں-صرف اس وجہ سے کہ وہ ناظم آباد ایک رشتہ دار کے گھر ایک نوجوان لڑکے کے قتل پر اس کے گھر والوں کو پرسہ دینے گئیں تھیں-اب وہ وہیں پر سوگ منائیں گی-کیونکہ گھر والے بھی نہیں رہے اور جو گھر تھا وہ بھی نہیں رہا-یہ ایک گھر کے ڈھے جانے اور اس کے کچھ مکینوں کے مرجانے اور باقیوں کے بے گھر ہوجانے کی کہانی ہے-عباس ٹاؤن کے اندر ایسی بہت ساری کہانیوں نے اتوار اور سوموار کی شب جنم لیا جن کا بیان بس سے باہر ہے

رضوان کے والدین نوے کی دھائی میں ایک مجلس میں ہونے والے بم دھماکے میں چل بسے تھے-اور اب ان پر آنسو بہانے والے دور دراز کے عزیز ہی ہیں کراچی میں-جو زرا قریب ہیں ان کو پنجاب سے آنا ہے-مطاہر کاظمی کہتا ہے کہ وہ عباسی شہید ہسپتال سے ان تین لاشوں کو اپنے گھر لےجارہا ہے-اور اس ہسپتال میں بہت سی ایسی لاشیں ہیں جو ابھی شناخت سے محروم ہیں-اور پرسے کی منتظر ہیں-یہ ساری قیامت اسی طرح سے ٹوٹ رہی ہے جس طرح سے عراق پر ٹوٹی تھی-اور آج شام پر ٹوٹ رہی ہے

جب یہ قیامت خیز واقعہ ہوا تو فائر بريگیڈ ،پولیس اور دیگر ادارے کے لوگ کئی گھنٹے تک جائے وقوعہ تک آنے کی ہمت نہیں کرسکے-کیونکہ ان کو لگتا تھا کہ وہ اگر وہاں گئے تو دوسرا دھماکہ بھی ہوسکتا ہے-اس طرح سے لوگوں کے مصائب میں مزید اضافہ ہوگیا-لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے اوپر ٹوٹی قیامت کو ٹالنے کی کوشش کرتے رہے-کوئی حکومت نظر نہیں آئی-اور کہیں سے کوئی مدد بھی نہیں پہنچی-عباس ٹاؤن کے مکینوں کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہے-یہ وہ طبقہ ہے جو 65 سالوں میں اپنی چھت بنانے کے قابل ہوتا ہے-اور بس ایک آفت ان کے گھر پر ٹوٹی نہیں اور ان کے گھر کی چھت ان پر رہی نہیں-میں جانتا ہوں کے رضوان کے نے کیسے یہ چھت اپنے اوپر قائم کی تھی-اور کس طرح دن رات ایک کرکے وہ صاحب مکاں ہواتھا-اب اس کی بیوہ بیوی اور بیوہ بھابی اس ظالم سماج میں تن تنہا رہ گئی ہیں-اور وہ کیسے ملبے کے ڈھیر پر مکان اٹھانے کے قابل ہوں گی؟یہ سوچتا ہوں تو ھول آتا ہے-کتنی رباب اور زینب ہوں گی کہ جو اسی طرح سے اکیلی ہوگئی ہوں گی اور ان کو پھر سے اپنی زندگی کی شروعات کرنا ہوں گی

ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب کابل کی ایک لڑی جو کہ ریپر ہے اور سماجی اور سیاسی ایشوز پر گانے گاتی ہے اس نے ایک گیت میں کہا کہ وہ بہت چھوٹی تھی جب اس کو کابل کی تباہی پر گھر چھوڑنا پڑا تھا-اور ایران و پاکستان کے مہاجر کیمپوں میں اس کی زندگی کے دن کٹ رہے تھے اور ایک نان لینے کے لیے اس کو دھکوں،جنسی چھیڑ چھاڑ کا سامنا کرنا پڑتا تھا-وہ پہلے اداکاری کے زریعے سے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتی رہی اور اپ ریپر بن کر پال رہی ہے-اس دوران اس کو دھمکیاں ملتی ہیں-اور کچھ لوگ اس کے چہرے پر تیزاب پھینکنا چاہتے ہیں

یہ سب وہ لوگ کررہے ہیں جن کو کلـچر اور آرٹ سے نفرت ہے-ایک بچی جس کو سنگ تراشی کا فن آتا ہے اور وہ گرافٹی کی ماہر ہے وہ قندھار کے ایک گاؤں میں جب سنگلاخ پتھروں کی بے ڈھنگی شکل کو اپنے فن سے ڈھنگ دینا چاہ رہی تھی تو اس پر پتھر مارے گئے-اور اس کے باپ کی ٹانگ توڑ دی گئی اور اس کو سنگین دھمکیاں ملنے لگیں-یہ لڑکی قندھار کیا افغانستان چھوڑ کر چلی گئی-لیکن کتنے لوگ ہیں جو اپنی دھرتی کو چھوڑ سکتے ہوں گے-کتنی “میلنا سلیمان”ہوں گی جن کے سفینے کو ساحل ملا ہوگا-میں نے لکھا تھا اور لکھ رہا ہوں کہ اس ملک کے اندر لشکروں اور کرائے کے قاتلوں کا مشن یہ ہےکہ اس ملک میں ہر گلی اور ہر محلہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہوجائے-اور پورے پاکستان میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی ہو-نوجوان یہاں کے سب کے سب ایک دوسرے پر بارود برسانے لگیں-اور اس ملک کے غریب اور لوئر مڈل کلاس آبادی کے لوگ کسی اور ملکوں میں مہاجر کیمپوں کے اندر زندگی گذارنے پر مجبور ہوں اور ہماری بچیاں ایک نان پر دھکے اور گالیاں کھائیں

یہ فرقہ وارانہ خانہ جنگی کیا کرتی ہے تو اس کے لیے آپ کو افغان مہاجر کیمپوں،شامی مہاجروں،فلسطینی مہاجر کیمپوں ،اور روھینگا مسلمانوں کے کیمپوں کی کہانیاں پڑھنا کافی ہوگا-اس انجام سے بچنے کے لیے اب بھی وقت ہے کہ شیعہ،سنی،ہندؤ،سکھ اور دیگر مذھبی برادریوں کو اکٹھا ہوجانا چاہئے-اور ان کو گلی،گلی ،محلے،محلے امن کمیٹیاں بنانا چاہئیں-میں جانتا ہوں کہ اس وقت جب کہ ہر طرف نفرت اور تقسیم کرنے کا عمل جاری ہے-تو ایسے میں اتحاد اور امن کمیٹوں کی بات عجیب سی لگے گی-لیکن یہی جل ہے-یہاں کچھ قوتوں کو یہ ذعم ہے وہ “فتنہ و فساد”پھیلانے والوں کو درس امن دےکر اور دھشت گردی کو “بدامنی”کا نام دےکر “خون ريزی”کے اور وحشت و درندگی “کے اس بازار کو بند کیا جاسکتا ہے-تو وہ غلط فہمی کا شکار ہیں یا ان کے مفادات اس دھشت گردی سے جڑے ہوئے ہیں-عوام کو اپنی بقاء کی جنگ خود لڑنا ہوگی-اور ان کو خود ان دھشت گردوں سے نمٹنا ہوگا-

picpic

Video of funeral: http://www.facebook.com/photo.php?v=570180143005684

At least, 200,000 people participated in funeral of Shia victims of Abbas Town attack

At least, 200,000 people participated in funeral of Shia victims of Abbas Town attack

Comments

comments

Latest Comments
  1. انجم رضا
    -
  2. Ali Erfani
    -
  3. khawarrana
    -
  4. Fazil Barelvi
    -