تحریر: امام بخش
(imamism@gmail.com)
آصف علی زرداری کے خلاف جھوٹ کی بنیا د پر بنائے گئے سارے کیسز کی تفاصیل لکھنے کے لئے توایک کتاب درکار ہوگی۔ جو کہ انشاءاللہ لکھی جائے گی کہ کس طرح “صادق و امین فرشتوں” نے آصف علی زرداری کو مطعُون کرنے کے لیے کمینگی کی ساری حدیں بے شرمی سے پھلانگ دیں۔ میں یہاں صرف ایک مشہورومعروف سوئس کیس، یعنی سب کیسز کے باپ، کی تفصیل لکھنے جا رہا ہوں۔ یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالف حکمرانوں، جنرلز اور ججوں نے “کرپٹ” آصف علی زرداری کو عمر قید جتنا عرصہ جیلوں میں رکھ کراور لاتعداد جھوٹے کیسز چلا کر اپناکلیجہ ٹھنڈا کیا مگر تُف ہے ان کی چالبازیوں پر کہ آج تک ایک بھی کیس سچا ثابت کر سکتے۔
پچیس سال کی ذِلت آمیزخوارگی کے بعد صادق و امین فرشتوں کو آصف علی زرداری کے خلاف سوئس کیس (یا کیسز) کو مصالحے دار بنانے کے زیادہ مواقعے نظر آئے۔ اِسی لیےتو انھوں نے این-آر-او کی پٹاری سے اِسے سب سے اہم آئیٹم سمجھ کرنکالا اور شعبدہ بازی شروع کر دی۔ قوم سوئس کیس نامی ناٹک کو پندرہ سال سےجھیلتی آرہی ہے۔ اور احتساب عدالت کی لِیلا دھاری کے بعد پاکستان کی عدالتِ عظمٰی میں بھی تین سال سے کھڑکی توڑ شو جاری رہا ہے۔ تعفُّن زدہ عدالتی ڈائیلاگز کو چسکے لے لے کر شام کو ٹی وی کی سکرینوں پر دُہرایا گیا اور اخبارات میں بڑی بڑی ہیڈ لائنز لگا کر صفحات کالے کیے گئے۔ قوم مُدت سے اِس کیس سے متعلق ساٹھ ملین ڈالرزکی رقم کی آمدکی تکرارسن رہی ہے مگر طُرفہ تماشا یہ ہے کہ اِلزام لگانے والے آج تک اِن اکاؤنٹس کے نمبرز تک نہیں دے سکے مگر ان کے بے سروپا اصرار کا اندازہ لگائیں کہ اِن کے بقول اکاؤنٹس کا بیلنس ساٹھ ملین ڈالرز ہی ہے۔ یہ مکار پاکستانی گوئبلز بے غیرتی کا ٹھیکرا آنکھوں پر رکھ کر پندرہ سال کے تواتر سے جھوٹی نوید سنائے جا رہے ہیں کہ سانس روک کر بیٹھئے کہ بس قوم کی لوٹی ہُوئی دولت (ساٹھ ملین ڈالرز) آنے کوہی ہے۔
نوازشریف کے دُوسرے دورِحکومت میں احتساب بیورو کے چیئرمین سیف الرحمٰن نے 10اکتوبر 1997ءکو سوئس حکام کومندرجہ ذیل سات لوگوں کے خلاف ایس جی ایس اور کوٹیکنا کیسز کے متعلق مقدمات چلانے کے لئے ایک خط لکھا تھا۔
1۔آصف علی زرداری
2۔ بےنظیر بھٹو
3۔ ذوالفقار علی بھٹو
4۔ نصرت بھٹو
5۔ حاکم علی زرداری
6۔ جیمزشینگلل (وکیل)
7۔ ڈیلٹرپلینٹو( فرنٹ مین)
ایس جی ایس اور کوٹیکنا کیسز میں پانچ پاکستانیوں میں سے چار لوگ یعنی ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، نصرت بھٹو اور حاکم علی زرداری اس دنیا میں نہیں رہے اور اکیلے آصف علی زرداری زندہ ہیں۔ حکومت پاکستان کے ایس جی ایس اور کوٹیکناکمپنیزکے ساتھ کنٹریکٹ 1994ء میں ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل 1979ء میں ہوا اور 1997ء میں اُن کےنام کو ان کیسز میں ملوث کرنے کا مقصد میڈیا ٹرائل کے علاوہ کیا ہوسکتاہے؟ پاکستانی گوئبلز میں سے کوئی تو اِس گتھی کو سلجھا کر ذوالفقار علی بھٹو کے نام کو ان کیسز میں ڈالنے کو معنی آفرینی کردے۔
بعدازاں 1997ءمیں ہی سوئس حکام کو ایک اور خط لکھا گیا اور درخواست کی گئی کہ ان کیسز کو ہنگامی بنیادوں پر دیکھا جائے اور فوری طور پر فیصلہ کیا جائے۔ یہ خط اُس وقت کے اٹارنی جنرل چوہدری محمد فاروق کے لیٹر ہیڈ پر لکھاگیا تھا۔ دستخط کی جگہ اُس وقت کے اٹارنی جنرل چوہدری محمد فاروق (جسٹس خلیل رمدے کے بھائی) کا نا م لکھا ہوا تھا مگر دستخط شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار حسن وسیم افضل نے کئے تھے جو اُس وقت احتساب بیورو میں کام کرتے تھے۔ پھر19 فروری 1999ء کو سوئس حکام کو تیسراخط چوہدری محمد فاروق کے لیٹر ہیڈ پر ہی لکھاگیا تھا۔ دستخط کی جگہ چوہدری محمد فاروق کا نا م تھا مگر دستخط تھے سیف الرحمٰن کے۔
مئی 2008ء کو سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر اُس وقت کے اٹارنی جنرل کی سوئس حکام کو لکھی گئی درخواست کو عدالتِ عظمٰی شائد قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔ جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت پاکستان نے زرداری اور اس کے ساتھیوں پر جو کیس دائر کیا تھا وہ واپس لے رہے ہیں۔ اور مزید اس ٹرائل کو جاری نہ رکھاجائے۔
سوئس حکام نے پہلے ہی اپنی انکوائری کا دارومدار پاکستان میں احتساب عدالتوں میں زیر التوا ایس جی ایس اور کوٹیکنا کیسزکے فیصلے سے مشروط کر رکھا تھا اور پاکستانی عدالتیں ان کیسز کو جھوٹے شواہد کی بنیاد پر پہلے ہی ملزموں کو بری کرکے خارج کر چکی تھیں۔ تاہم پاکستان میں آصف علی زرداری کے حوالے سے معاملہ آئینی صدارتی استثنٰی کے باعث مؤخر کر دیا گیا۔ اِس کے باوجود اِس “سٹار پلس ڈرامے” کو دیدہ دلیری اور ڈھیٹ پن سے طُول دینا سمجھ سے باہر ہے۔
اب آزاد عدلیہ کے بند گلی کے آخری سِرے پرپہنچنے کے بعد “چیمبر ڈیل” عدالتی حکم کے تحت حکومت نے 6 نومبر2012ء کو سوئس حکام کو خط میں لکھا ہے کہ 2008ء میں اس وقت کے اٹارنی جنرل ملک قیوم کی طرف سے صدر زردار ی کے خلاف مقدمات کو بند کرنے کے خط کو واپس تصور کیا جائے ۔ تاہم خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پاکستان کے صدر کو جو عالمی سطح پر ایسے مقدمات سے استثنٰی حاصل ہے ، اسے نہیں چھیڑا جائے گا۔ اِسی ٹیکسٹ کے ساتھ خط لکھنے کی درخواست تو حکومتی وکیل اعتزاز احسن کرتے رہے ہیں۔ پھر سوال اُٹھتا ہے کہ یہ خط تو پہلے بھی لکھا جا سکتا تھا پھرصداقت و امانت کے درجے پر فائز آزاد عدلیہ نے ایک منتخب وزیرِاعظم کو گھر بھیجنے کاایک اور داغ ِتذلیل اپنے سینے پر کیوں سجایا؟ کیا اِس سےآئین و قانون کی اصل تعبیروتشریح سے پرہیز کرنے والے خود پسند اور تذبذب و خلجان کے مارے آزادعدلیہ کے ججوں کا آمریت پسند رویہ کھل کر سامنےنہیں آتا ؟
حیرانی تب بھی ہے جب پاکستان کی آزاد عدلیہ بُھول جاتی ہے کہ اِنہی کیسز میں شواہد نہ ہونے کے باوجودآصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف شریف برادران نے لاہور ہائیکورٹ کے ججز کے سا تھ مِلی بھگت کے بعدمن پسند فیصلہ حاصل کیا تھا۔ مِلی بھگت کی تفصیل یہ ہے کہ نواز شریف کے آخری دور اقتدار میں نواز شریف، شہباز شریف، وزیرقانون خالد انور، اٹارنی جنرل چوہدری فاروق، احتساب بیورو کے چیئرمین سیف الرحمٰن، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس راشد عزیزنے احتساب عدالت کے جج ملک محمد قیوم سے باربار فرمائش کی تھی کہ محترمہ بےنظیربھٹو اور آصف علی زرداری کو جلد از جلد اور سخت سزا سناؤ۔ بلکہ نواز شریف تو مقدمے کے فیصلے میں تاخیرکی وجہ سے جسٹس ملک محمد قیوم سے بھی ناراض ہو گئے تھے۔ لاہور ہائی کورٹ کی احتساب عدالت کے جج نے “صادق وامین” جماعت کے افراد یعنی نواز شریف، شہباز شریف، خالد انور، چوہدری فاروق اور سیف الرحمن کی فرمائش اور اپنے باس، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس راشد عزیز کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اچانک عدالتی کاروائی روک کر ایک دن قبل لکھا ہوا فیصلہ سنا کرشریف برادران کی پرانی خواہش پوری کر دی۔ بعد میں جب ان کی ٹیلفون پر ریکارڈڈ گفتگو منظر عام پر آگئی۔ توپاکستان کی سپریم کورٹ نے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اور اِسی بنا پر راشدعزیزچیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک محمد قیوم جسٹس لاہور ہائی کورٹ دونوں کو اپنی اپنی نشستوں سےاستعفے دینے پڑے۔
میں آئندہ قسط میں آڈیوٹیپس میں ریکارڈ کی گئی “صادق و امین فرشتوں” کی تفصیلی بات چیت لکھوں گا۔ (جاری ہے)
Comments
comments