میڈیا اور اینٹی فیمنسٹ رویے – عامر حسینی
لیل و نہار /عامر حسینی
آج سے چند ہفتوں قبل ہمارے میں سٹریم میڈیا نے اچانک یہ انکشاف کرنا شروع کر ڈالا کہ پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور بینظیر بھٹو کے بیٹے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کے درمیان محبت ہوگی ہے اور دونوں عنقریب شادی کرنے والے ہیں-میڈیا کے اندر یہ بھی خبریں آئیں کہ دونوں کے افئیر سے حنا ربانی خر کے شوہر سخت دباؤ میں ہیں-پھر حنا کے شوہر فیروز کی بہنوں کو بھی اس معاملے میں گھسیٹ لیا گیا -اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ اس کے بعد تجزیوں اور تبصروں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا گیا-ابھی یہ افئیر سیکنڈل چل رہا تھا کہ مخدوم امیں فہیم کے بیٹے مخدوم جمیل الزمان اور سسی پلیجو کے افئیر کی خبریں عام کی جانے لگیں
اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو ہمیں ایسا نظر آتا ہے کہ ہمارے میں سٹریم میڈیا میں یہ ایک باقاعدہ رجحان بنتا جارہا ہے کہ سماج کے اندر کسی بھی شعبہ میں اگر کوئی نوجوان خاتون کوئی نمایاں کردار ادا کر رہی ہو تو اس کی ذات کو سیکنڈل میں گھسیٹ لیا جائے–مشرف دور میں جب قومی اسمبلی کے اندر خواتین کی نشستوں پر خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد سامنے آئی تو ہمارے میں سٹریم میں سٹریم میڈیا نے خواتین میں جو خوش شکل اور نوجوان خواتین تھیں ان کی ذات کے بارے میں ایسی خبریں اور ایسے تجزیے شایع کرنے شروع کر دئے کہ جن سے بجا طور پر اینٹی فیمنسٹ رویے جھلکتے نظر آرہے تھے-المیہ یہ ہے کہ ہمارے اندر بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس رجحان کے خلاف آواز اٹھانے کو تیار ہوتے ہیں
حنا ربانی کھر جب سے وزارت خارجہ کے منصب پر فائز ہوئی ہیں تو اس وقت سے ان کی کم عمری اور ان کی شکل و صورت ،ان کے لباس کے بارے میں میڈیا کے اندر خبروں کا سیلاب ایسے آرہا ہے جیسے وہ کوئی سیاست دان نہ ہوں بلکہ شوبز کی کوئی اداکارہ ہوں -انھوں نے جب وزیر خارجہ بننے کے بعد ہندوستان کا دورہ کیا تو پاکستانی مینسٹریم میڈیا بھی ہندوستانی میڈیا کے ساتھ ان کے بارے میں غیر سنجیدہ تبصروں میں شریک ہوگیا-دوسرے ملکوں کے مرد ہم نسب افراد سے ملاقاتوں پر غیر اخلاقی تبصرے سننے کو ملے اور امریکی وزیر خارجہ کو ساس اور حنا ربانی کھر کو بھو کہا گیا-اس کے بعد حنا کی ازواجی زندگی کو تباہ کرنے کی سازش کی گئی-اور یہ بہت خطرناک حملہ تھا
ہم پاکستانی سیاست اور سماجی خدمت کے شعبوں میں نوجوان عورتوں کی آمد کے بعد ان کی ذات اور کردار کو جس طرح سے نشانہ بنانے کی روش اختیار کر رہے ہیں کیا وہ روش اس سماج میں عورتوں کے سیاست میں آنے یا کسی اور بھی شعبے میں نمایاں کردار ادا کرنے کی کوشش کی حوصلہ شکنی کرنے سے عبارت نہیں ہورہی ؟
یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ حنا ربانی خر اور سسی پلیجو جتنی عورتیں اس سماج میں کتنی ہیں جنھوں نے خواتین کی نشستوں پر آنے کی بجائے جنرل سیٹ پر انتخاب لڑا ہو اور وہ جیت کر اسمبلی میں بھی پہنچ گئی ہوں-ایسی مثال کم ہی ملین گیں -ہمارے میں سٹریم میڈیا کے اندر کون سی خاتون ہے جو سیاست میں آئی ہو اور اس کے بارے میں سیکنڈل نہ گھڑے گئے ہوں-محترمہ فاطمہ جناح نے جب ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تو ان پر غیر فطری زندگی بسر کرنے کا الزام لگا-اور جب محترمہ بیگم نصرت بھتو سیاست میں آئیں تو ان کے بارے میں طرح طرح کے گھٹیا الزامات لگائے گئے-اور جھوٹے قصے اور کہانیاں گھڑ یر ان کی کردار کشی کی گئی-محترمہ بینظیر بھٹو نے جب سیاست میں قدم رکھا تو ان کی آکسفورڈ میں گزاری گئی زندگی پر کہانیاں اور قصے اخبارات اور کتابوں کی زینت بنائے گئے-جب تک ان کی شادی نہیں ہوئی اس وقت تک ان کو پی پی پی کے کسی رہنماء سے جوڑنے کی بھرپور کوشش ہوتی رہی-ان کی جھوٹی تصویریں تک بناکر انتخابی مہم میں استعمال کی گئیں-پھر آصف علی زرداری سے ان کی شادی کے بارے میں جھوٹے قصے بنائے گئے-اور شادی کے بعد دونوں کے ازواجی تعلقات میں خرابی کے مفروضات تیزی سے پھیلائے گئے-یہ سلسلہ محترمہ کی شہادت تک بہت تزک و احتشام کے ساتھ چلتا رہا-اور کسی نے صحافتی اخلاقیات یا کود آف کنڈکٹ کی بات نہیں کی-پاپا رازی ٹائپ کی یہ صحافت اگر میں سٹریم میڈیا کی نامور تنظیموں میں بھی دیکھنے کو ملے تو پھر بہت ہی افسوس ناک بات ہے
یہ سلسلہ اس لئے بھی اب ترقی پر نظر آرہا ہے کہ ہمارے سماج میں اخلاقیات کے ایسے گرو گھنٹال پیدا ہوگئے ہیں جن کے اندر جنسی نفسیاتی بیماری بہت زیادہ اعصاب پر سوار ہوگی ہے-اور یہ گرو گھنٹال ہر نوجوان عورت کو ایک ویشیا کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں-مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ ان کی ذاتی زندگی کی محرومیاں اس قدر ہیں کہ یہ اس سماج کی نوجوان عورتوں ا انتقام لینے سے بھی گریز نہیں کرتے-یہ جنسی بیمار المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہاتھ میں قلم یا کسی ٹاک شو میں اینکر یا مہمان بنکر آتے ہیں-اور اپنے ذہن کی گندگی یا تو قرطاس پر انڈیل دیتے ہیں یا پھر ہمارے کانوں میں سیسہ کی طرح اس کو ڈال دیتے ہیں-اور اس طرح سے سارے سماج کو بیمار کردینے کی روش پر کسی خوف کے اور دار کے بنا چلے جاتے ہیں
تقسیم سے قبل جب ہماری مسلمان عورتوں نے پردہ ترک کیا اور تعلیم یا نوکری کے لئے باہر آئیں تو بھی اس وقت کے بہت سارے اخبارات اور رسائل میں ایسے مریض مدیر اور صحافی موجود تھے جنھوں نے صفحات کے صفحات کالے کرڈالے تھے-اکبر الہ آبادی اور عبد الماجد دہرایا آبادی سمیت بہت سارے تنگ نظر ایسے تھے جن کے نزدیک اسیاست،صحافت اور ادب کی دنیا میں قدم رکھنے والی خواتین حیا اور شرم سے خالی تھیں-ہماری اردو صحافت کا تو شائد یہ وتیرہ ہوگیا ہے-اور بیمار ذہنوں کو رہنما ملک قوم بناکر دکھانے اور اس سماج کی نوجوان عورتوں راندہ درگاہ کرنے والی سوچ کفروغ دینے کا اس نے گویا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے-سب سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس عمل کو خود خواتین کا ایک ایسا طبقہ بھی ترقی دے رہا ہے جو خود کو صرف اس وجہ سے بی بی نیک پروین خیال کرتا ہے کہ ان کو جماعت اسلامی کے دانشوروں نے نیک اور صالح ہونے کا سرتیفکیٹ دے ڈالا ہے-اور یہ خواتین ہوکر بھی مریض مردوں کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کو سند تصدیق دیتی پھرتی ہیں–راحیلہ قاضی ،عایشہ منور حسن اور عامرہ احسان جیسی عورتوں نے بھی اینٹی فیمنسٹ رویوں کو فروغ دینے میں ہاتھ بتایا ہے-وہ مسلمان عورتوں کو پھر سے اس پسماندگی کے اندھے کنوئیں میں دھکا دینا چاہتی ہیں جس سے ترقی پسند تحریک نے ان کو باہر نکالا تھا
میں یہاں پر عصمت چغتائی ،رشید جہاں کو یاد نہ کروں تو یہ بے انصافی ہوگی-انھوں نے پہلی مرتبہ برصغیر کی عورت کے بارے میں وہ تصویر دکھانے کی کوشش کی تھی جو ان بیمار اخلقات کے چلتے پھرتے مزائلوں کی صورت کے رنگ اور برشوں سے مل کر بنتی تھی-اور منٹو کو بھی یاد کرنا بنتا ہے جس نے مردوں کے ٹھیک ٹھیک چہرے دکھائے تھے کہ کیسے وہ عورت کو کچرے سے بھی کم اہمیت دیتے تھے اور ان مردوں کی ساری کی ساری سائیکی عورت کی آبرو سے کھیلنے یا ذہن میں خیالوں میں ہی اس کے ویشیا ہونے کو ثابت کرنے کے گرد گھومتی تھی–مگر ایک بات ہے اور وہ یہ کہ منٹو کے ٹھنڈا گوشت جیسے افسانے کے کردار ایشر سنگھ میں اتنی انسانیت تھی کہ اس کی جنسی کج روی ایک ٹھنڈی لاش دیکھ کر سرد پڑ گئی تھی مگر یہاں تو کوئی ایشر سنگھ نہیں ہے-یہ اس سے بھی گرے ہوئے لوگ ہیں-اردو میں کون ہے جو جو بے باکی سے جنسی مریضوں کے مریضانہ رویوں پر لکھنے کی جسارت کرے گا-اور کون ایسی عورت ہے جو اس طرح کے رویوں کے خلاف اپنے قلم اور اپنی زبان کوحرکت میں لائے گی-ادب اور صحافت میں ایسی عورتوں کا وجود ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا-یہاں تو عمیرہ احمد جیسی لکھاریوں کا سکہ چل رہا ہے جو عورت کو راحیلہ قاضی یا عامرہ احسان کی صورت ڈھالنا چاہتی ہیں اور بیمار مردوں کی خواہش کے مطابق عورتوں کو ڈھال جانے کا درس دیتی دکھائی دیتی ہیں-جن کے نزدیک یورپ اور امریکہ میں عورت کال گرل ہی ہوتی ہے اور کچھ بھی نہیں-لوئر مڈل کلاس کی عورتوں کو یہ لکھاریاں ڈرا ڈرا کر ہی مار ڈالتی ہیں-اور اپنے ادھورے پن کو کامل بنا کر اور آخر میں ایک مرد کے قدموں میں جھکاکر ان کا “پیر کامل”مکمل ہوجاتا ہے-ہمیں کب تک بشریٰ رحمان ،رضیہ بٹ ،بانو قدسیہ کے مرد پوجا قصے و کہانیوں پر گزارا کرنا ہوگا-جدید دور میں جدید کہانی کون لکھے گا
میں تو اس خوف کا بھی شکار ہوں کہ ہمارے میں سٹریم میڈیا میں آنے والی عورتیں بھی مرد مرکز مائل رجحانات کا شکار ہورہی ہیں-وہ بھی نادانستہ طور پر مردوں کو کاپی کرنے کی کوشش کر رہی ہیں-اور مرد بھی کیسے جن میں مرد شاونزم نکالے نہیں نکلتا
very well written