آل سعود ،مرسی ،جدید عثمانی ،نوری المالکی – عامر حسینی

آج عید قربان ہے اور صرف ایک دن قبل یعنی نو زی الحج کو کوفہ کے میں مسلم بن عقیل کا لاشہ پڑا تھا-اور عقیل کا جرم صرف اتنا تھا کہ اس نے عدل اور مساوات کی دھجیاں اڑانے والے حاکم کے خلاف اس امام کی بیعت کی دعوت دی تھی جو ان دونوں اقدار کے بنا اپنے تصور توحید کو غیر مکمل خیال کرتا تھا-

دس زی الحج کو مکہ میں امام کعبہ نے ایک خطبہ پیش کیا-اس خطبہ میں امام کعبہ نے مسلمانوں کو کہا کہ وہ اپنی دولت مغرب سے نکال کر مسلم ممالک میں لے آئیں-اس کا ایک مطلب تو یہ ہوا کہ امام کعبہ کے مخاطب وہ لوگ تھے جو سرمایہ دار ہیں اور جن کی دولت کا غالب حصہ اس وقت امریکہ اور یورپ کے بینکوں میں پڑا سڑ رہا ہے-یہ مٹھی بھر سرمایہ دار مسلم دنیا کا مشکل سے ایک فیصد ہوں گور یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے مسلم ممالک کی محنت کش آبادی کا بد ترین استحصال کیا ہے-لوٹ مار کی ہے اور پیسہ مغربی ملکوں میں رکھ چوڑا ہے-یہ طبقہ مسلم ملکوں میں اپنا سرمایہ واپس کیوں لیکر آئے گا؟اور اگر اس میں سے کچھ لوگ واپس پیسہ لاکر بھی آتے ہیں تو اس کو بھی مزید استحصال کے لئے استعمال میں لیا جاتا ہے-مسلم ممالک کے یہ حکمران طبقات سامراج کے مفادات اور سامراج کی غلامی میں سب سے آگے ہیں-اور سرمایہ دارانہ سامراجیت کی فتح کے لئے ان کی کوششیں ہمیشہ جاری رہتی ہیں-امام کعبہ کو ان طبقات کا اصل چہرہ دکھانے کی ضرورت تھی جو انھوں نے نہیں دکھایا-بلکہ انھوں نے مسلم دنیا کی محنت کش کلاس کو اس استحصالی طبقے کی طرف دیکھنے کی ترغیب دے ڈالی-

مغربی ملکوں سے پیسہ مسلم ملکوں میں لاکر رکھنا ایک یوٹوپیا ہے اور یہ سرمایہ داری کے عالمی میکنزم سے جہالت کی علامت بھی ہے-سرمایہ کی عالمگیر حرکت کو قومی بنیادوں پر نہیں روکا جاسکتا اور سرمایہ کی عالمی نقل حمل کو آپ قومیتی یا پین اسلام ازم جیسے پرانے حربوں سے نہیں روک سکتے-اور سامراجیت کے غلبے کو سرمایہ کی ایک مرکز سے دوسرے مرکز میں انتقال سے سرمایہ دارانہ سامراجیت اور استحصال کو روکنا ناممکن ہے

میں امام کعبہ کو مشوره دیتا ہوں کہ وہ کارل مارکس کی کتاب سرمایہ کی اول سے لیکر تین جلدوں تک ضرور پڑھ لیں اور اگر اس کی فرصت نہ ہو تو اشتراکی منشور میں مارکس اور اینگلس نے سرمایہ کی عالم گیریت کے بارے میں جو کچھ لکھا اس کو پڑھ لیجئے-اور اگر الہامی کتاب قران سے رہنمائی لینی ہو تو پھر اس کو ابو زر غفاری کی نظر سے پڑھ لیجئے-اور ایک محقق تھا جس نے “حج” نامی ایک کتاب ہے اس کو ضرور پڑھ لینا چاہئے-لیکن میں بھی کس قدر سادہ ہوں کہ کس کو یہ مشوره دے رہا ہوں-آئمہ حج کے خطبات کی تاریخ اٹھا کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک امام حج حضرت محمد کی ذات تھی جن کا آخری خطبہ ہمارے پاس محفوظ ہے-اس خطبہ میں اس امام حج نے کہا تھا کہ “سب انسان آدم کی اولاد ہیں اور کسی کو کسی پر رنگ ،نسل،ذات کی وجہ سے کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے-گورے کو کالے پر نہ کالے کو گورے پر اور کسی عرب کو غیر عرب پر کوئی فضلیت حاصل نہیں ہے-“لیکن اس امام حج کے اس خطبے کی لاج کسی آنے والے امیر حج نے نہیں رکھی تھی-بنو امیہ اور بنو عباس سے لیکر سلجوقوں اور ترکوں تک اور پھر آل سعود تک جن کے بھی تنخواہ دار آئمہ حج آئے انھوں انصاف اور عدل کو توحید سے الگ کر ڈالا اور استحصال کرنے والوں کو تحفظ دیا-
آل سعود کے بنائے ہوئے آئمہ حج تو سابقین سے بھی بازی لے گئے-انھوں نے کبھی آل سعود کے حاکموں کی جانب سے حجاز کے اندر روا رکھے جانے والے نسلی اور مذہبی اور قبائلی جبر کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی

آج تک اس ملک میں شیعہ اور غیر سلفی سنیوں کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق نہیں دیا گیا-ستم ظریفی دیکھئے کہ حجاز میں آباد ہاشمی قابلے کی اکثریت آج بھی زیر عتاب ہے اور آل سعود کے جتنے بھی حریف قبائل ہوسکتے تھے سب کو جبر کی چکی میں پسنا پڑا ہے-اس وقت مشرقی سعودیہ عرب میں شیعہ کمیونٹی کی جو حالت ہے اس پر کوئی آواز سعودیہ عرب میں اٹھا نہیں سکتا-امام کعبہ نے اپنے خطبے میں مغرب کے مقتدر طبقات کا مسلمان ملکوں اور اقوام کے بارے میں رویہ کی مذمت تو کی اور کہا کہ ان کا مسلم اور غیر مسلم کے باب میں دوہرا معیار ہے-لیکن خود وہ جس ملک کے باشندے ہیں ان کے ملک میں ایک دوسرے مسلک کے ماننے والوں کی طرف رویہ اور ہے تو اپنوں کی طرف اور-جو جبر شام کی اکثریتی آبادی قابل مذمت ہے وہ جبر مشرقی سعودیہ عرب میں اوربحرین میں کیوں جائز ہے؟اور شام میں اگر اکثریت پر فوج کشی ظلم ہے تو پھر خلیج تعاون کونسل کی فوجوں کا بحرین میں جانا کہاں تک درست ہے-کس قدر حیرت کی بات ہے کہ دور حاضر کے آل سعود اور عثمانی ترک مل کر مڈل ایسٹ میں امریکی سامراج اور عالمی سرمایہ داری کی چاکری کر رہے ہیں-اور اس چاکری میں اب مصر کے ڈاکٹر مرسی اور تیونس کے رشید الغنوش کا اضافہ بھی ہوگیا ہے-یہ مل کر مڈل ایسٹ سے امریکہ مخالف رجیمز کو نکالنا چاہتے ہیں-ان کے ہاں نہ تو امریکی سامراجیت کوئی ایشو ہے اور نہ ہی سرمایہ داری-یہ امریکی سامراج کے لئے پوری مسلم دنیا میں فرقہ پرستی اور عسکریت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں-اسی لئے تو ان کے نمک خور امام کعبہ کو کسی بھی جگہ نہیں لگا کہ مسلم دنیا کی پسماندگی اور اس کی زبوں حالی کی ذمہ داری سامراج کے نوکروں اور غلاموں پر عائد ہوتی ہے اور اس کو مظلوم مسلم محنت کش آبادی سے اظہار یکجہتی کرنے کی ضرورت ہے

امریکی سامراج کی سامراجی حکمت عملی میں آل سعود ،جدید عثمانی ترک ،مصری اخوان تیونس کی اسلام پسند پارٹی کے لیڈر راشد الغنوشی ،رفیق حریری کے جانشین سعد حریری کی اور عراق کی سیاہ شعیت کے علمبردار نوری المالکی کی بہت اہمیت ہے-اور یہ کردار مل کر مڈل ایسٹ میں اور پوری مسلم ورلڈ میں سامراج کو مشکلات سے نکالنے کے لئے عوام دشمن ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں-اس کام میں درباری ملا بھی شریک ہے-امام کعبہ ان سب ملاؤں کی ترجمانی کرتے ہیں-یہی وجہ ہے کہ چالیس لاکھ مسلمان جو کہ مختلف مسسلک سے تعلق رکھتے تھے ان کے سامنے امام کعبہ نے سلفی توحید کی تبلیغ سے گریز نہیں کیا-امام کعبہ کا کہنا تھا “خدا اور مخلوق میں کوئی وسیلہ نہیں،اور خدا کے سوا کسی کو پکارنا گمراہی ہے”گویا اس کرۂ ارض پر رہنے والے سارے شیعہ اور غیر سلفی سنی جو وسیلہ پر ایقان رکھتے ہیں اور ندائے اولیاء کو جائز خیال کرتے ہیں وہ گمراہ ہیں اور رہ راست تو آل سعود کے پاس ہے-
آئیے خود میں جذبہ بو زر پیدا کریں اور سونے چاندی کے ڈھیر اور کنز جمع کرنے والوں کے محلات کے دروازوں کے سامنے الھاکم التکاثر سننانے کی روش کو فروغ دے ڈالیں اور اس پر اگر غریب ربذہ کے خطاب سے نوازے جائیں تو فکر نہیں کریں

خود کو کوفہ میں مسلم بن عقیل کی طرح کرلیں اور عدل و مساوات کا علم تھامے ہوئے اگر بازار کوفہ میں لاشے میں بدلتا دیکھیں اور اپنے بچوں کو دریائے فرات کے کنارے ذبح ہوتاتو پرواہ نہ کریں-آئیے دور حاضر میں ایک اور ڈاس کیپٹل لکھیں اوربرملا کہیں”سرمایہ کی تاریخ خوں میں لتھڑی ہوئی ہے

سرمایہ خواہ سعودی ہو یاا مریکی” سرمایہ داری کو اپنی لوٹ کھسوٹ سے غرض ہے اور وہ اس کے لئے کس بھی قدر اور کسی بھی اصول کو تلپٹ کرسکتا ہے-وہ سلفی آل سعود کے ساتھ بھی خراماں خراماں چلتا ہے اور عراقی شیعہ بلاک کے ساتھ بھی اور اخوانی مصری کے ساتھ بھی اور سنی سعد حریری کے ساتھ بھی-وہ ضیاء کے ساتھ بھی چلتا ہے اور لبرل ایوب کے ساتھ بھی

Comments

comments

Latest Comments
  1. Kashif Naseer
    -