جو بے نوا ہیں، وہ ہی نداۓ عالم ہیں

نام کمانا بھی ایک فن ہے، کچھ لوگ اپنی محنت سے نام کماتے ہیں، کچھ لوگ دوسروں کی محنت سے . آج کی کاروباری دنیا میں کچھ دو اور کچھ لو یا کچھ بیچو اور کچھ حاصل کرو کا فارمولا چلتا ہے، تو کچھ لوگ دنیا میں کچھ حاصل کرنے کے لئے اپنا فن بچتے ہیں. کچھ دوسروں کا اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کو ہی بیچ دیتے ہیں. اس بے رحم لین دین میں کون کہاں کیا بیچ دے، کون خود بک جاے اور کون اوروں کو بیچ دے، یہ اندازہ لگانا بڑا مشکل ہے.
خاص و عام کی جنگ بھی دنیا میں نہ جانے کب سے جاری ہے. خواص کی اجارہ داری کے خلاف ہمیشہ سے ہی کچھ نہ کچھ لوگ سرگرداں رہتے ہیں، جہاں طبقاتی جنگ میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مراعات یافتہ طبقات کا ساتھ دیتے ہیں، وہیں ایسے بھی ہوتے ہیں جو نچلے اور کچلے هوئے طبقات کے لئے آواز اٹھاتے ہیں. گزرے زمانے میں ایسے دیوانے مزاحمت کے علمبردار ہوتے تھے، جماعتیں بناتے تھے، تحریکیں چلاتے تھے، سیاست کرتے تھے، بغاوت کرتے تھے، لڑتے تھے اور نتیجتاً مرتے تھے. اب نیا زمانہ ہے تو یہ دیوانے بھی زمانے کا ساتھ دینے لگے ہیں، مزاحمت، سیاست، بغاوت سب کرتے ہیں مگر احتیاط سے کہ  نئے زمانے میں سیاست اور بغاوت کے ساتھ ساتھ نزاکت بھی چلی آئی ہے،
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آب گینوں کو
مزاحمت اور سیاست کے اہتمام کے ساتھ ساتھ اب یہ التزام بھی موجود ہے کہ نام بھی ہوتا رہے اور  کام بھی ہوتا رہے، بھوکوں ننگوں کی فکر بھی رہے اور پیٹ بھی بھرا رہے، سیاست کی گرم بازاری بھی ہو اور غیر سرکاری تنظیموں کی ٹھنڈی چھاؤں بھی، بلکہ اب تو ایسا لگنے لگا ہے کہ سب کا فایدہ اسی میں ہے کہ جو جہاں ہے وہیں رہے تاکہ تیرا میرا کام جیسے چلتا ہو ویسے ہی چلتا رہے. خود سوچیں اگر مجنوں کی کوئی لَیلٰی نہ ہوتی تو کیا اس کا نام بھی کوئی جانتا؟ شیریں نہ ہوتی تو فرہاد صاحب کو دودھ کی نہریں کیوں نکالنی پڑتیں ؟ اگر غربت نہ ہوگی تو غریبوں کے ہمدرد کہاں جائیں گے؟  یہاں وہاں کے فلمی میلوں میں دستاویزی فلمیں بناکر کون جاے گا؟ ایوارڈ کس کو ملیں گے؟ کتابیں کون لکھے گا، ہماری طرح بلاگ  کے ڈھیر کون لگاۓ گا؟
ویسے تو یہ سب ضروری ہے کہ پچھڑے طبقات کی حالت زار کو دنیا کے سامنے لایا جاے، ورنہ تو حاوی طبقات کو کھلی چھوٹ مل جاءے گی، مگر کتنا اچھا ہو ہے غریب کی بات کہنے کا حق غریب کو ملے، عالیشان طرز رہائش اختیار کئے منہگے علاقوں کے مکین ، امریکا اور یوروپ ایسے گھومنے والے جیسے ہم آپ محلے میں گھومتے ہیں، لاکھوں روپے میں تعلیم پانے والے، ڈیڑھ لاکھ کا کیمرہ جیب سے خرید کر دو ہزار ماہانہ کمانے والوں پر فلم بنانے والے، مکین ادھر کے اور جلوے ادھر کے دکھانے والے، غریبوں کی حالت درست کرنے لیئے لاکھوں کی تنخواہ لینے والے، لاکھوں کے مجمعے سے خطاب کرنے کے لیے کروڑوں کی گاڑی اور بیسیوں پہریداروں کے جمگھٹ میں آنے والے،   ان سب کو دیکھ کر دل کبھی کبھی ڈوب سا جاتا ہے، یہ سب تو دکھتے ہیں مگر وہ جو کہانی کا مرکزی کردار ہیں وہ اب صرف کہانیوں میں ہی ملتے ہیں، اصل زندگی میں کسی کو اتنی فرصت ہی کہاں رہ گئی ہے کہ ان کو بھی ساتھ لیتا چلے، جلسے جلوسوں میں میں ایک بے ہنگام مجمع تو دیکھنے کو ملتا ہے مگر یہ مجمع آج تک لاچار، بے یارو مددگار نعرے بازی اور تقریروں تک ہی محدود ہے، یہ عام آدمی آج ساٹھ سال بعد بھی جلسوں کی رونق ہے، فلموں کی زینت ہے، نمائشوں میں دکھتا ہے، کہانیوں  میں کردار بن کر جیتا ہے مگر اس کی اپنی زندگی کے لئے اس کا کیا کردار ہے؟
آج ہمارے گرد بکھرے بے شمار سوالات  اور مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی شامل کر لیں کہ ہم عام آدمی کو ایک آواز کیسے دیں؟ یہ کیسے ممکن ہو کہ اپنی نجات کا طالب خود غالب ہو نہ کہ کوئی  اداکار جو اپنا کام کرے، بھیس اتارے اور یہ جا وہ جا.

Comments

comments