Adm Tahafuz ka Gehra Ehsas – by Khursheed Nadeem

Originally published in DailyAusaaf (with thanks to our contributor Irfan Urfi)

عدم تحفظ کا گہرا احساس

ایک عام پاکستانی آج کس حد تک عدم تحفظ کا شکار ہے ؟گیلپ آف پاکستان کا جواب میرے اندازے سے کہیں زیادہ پریشان کن ہے۔
” اگر ایک شخص آپ کے علاقے میں رات کو چند میل تنہا چلے تواس بات کا کتنا امکان ہے کہ وہ ڈکیتی یاکسی حادثے کا شکار ہو جا ئے ؟”گیلپ سروے کی ٹیم نے یہ سوال اس ملک کے عام شہریوں کے سامنے رکھا۔٦١۔جو لائی کو اس کے جو نتائج سامنے آئے وہ حیران کن ہیں۔نوے فی صد لوگوں نے اس امکان کو تسلیم کیا ہے۔٨٣ فی صد لوگوں کا کہنا تھا کہ اس کے بہت امکانات ہیں کہ وہ کسی حادثے سے دوچار ہو۔٢٥ فی صد کی رائے میں کسی حد تک یہ امکان مو جود ہے۔پچیس برس پہلے،٥٨٩١ء میں جب یہی سوال پو چھا گیا تو ٥٤ فی صد کی رائے تھی کہ ایسے حادثے کا کسی حد تک امکان ہو سکتا ہے۔انیس فی صد نے کہا یہ امکان بہت زیادہ ہے اور چھبیس فیصد کا خیال تھا کہ ایک حد تک یہ امکان مو جود ہے۔
یہ معاشرہ کیوں اس حد تک عدم تحفظ کا شکار ہے؟یہی نہیں ، پچیس سالوں میں اس احساس میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔اس دوران میں اس ملک پر کیا حادثہ گزر گیا ہے کہ ریاست اور معاشرے کی چھت ہو تے ہو ئے بھی لوگ خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں؟ ضرورت ہے کہ معاشرے کا ہر طبقہ ان سوالات کو اپنے سامنے رکھے اور ان کے جواب تلاش کرے۔حکومت و ریاست کو اپنی جگہ اس کے اسباب ڈھونڈنا ہوں گے اور معاشرے کو اپنے طور پر۔میرے خیال میں یہ ریاست اور معاشرہ،دونوں کی ناکامی ہے۔
یہاں ہم جس عدم تحفظ کی بات کر رہے ہیں، ان کا تعلق داخلی حالات سے ہے۔یہ اعلانیہ یا خارجی دشمن سے متعلق نہیں۔ سوال کی نو عیت یہ ہے کہ ہم اپنے وطن میں اپنے گھر سے باہر کس حد تک محفوظ ہیں ؟اس لیے اگر ہم اس کے اسباب خارج میں تلاش کریں گے تو شاید خارجی عوامل کا حصہ اس میں بہت کم ہو۔میں اس امکان کو رد نہیں کر تا کہ بیرونی دشمن معاشرتی انتشار کے منصوبے بنا تے ہیں لیکن میرا تاثر ہے کہ اس کی نو عیت دوسری ہے۔ مثلاًاس کا پورا امکان ہے کہ وہ بلوچستان کی بد امنی میں ملوث ہو یادھشت گردی کے واقعات کا ماسٹر مائینڈ ہو لیکن ہم جس طرح کے عدم تحفظ کی بات کر رہے ہیں، اس کا تعلق دو باتوں سے ہے۔ایک یہ کہ ملک میں قانون اور قانون نافذ کر نے والے ادارے کتنے متحرک اورمو ثر ہیں۔ دوسرا یہ کہ معاشرتی قوتیں کس حد تک اپنی ذمہ داری ادا کر رہی ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ دونوں عوامل مقامی ہیں۔
اس باب میں شاید دو آرا نہ ہوں کہ پو لیس اور امن ِ عامہ کے ذمہ دار اداروں کی کارکردگی میں تدریجاًابتری پیدا ہو ئی ہے۔اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ایک سبب سیاسی مداخلت ہے۔یہاں ہر مجرم کا کو ئی نہ کو ئی پشت بان حکومت میں ضرور ہوتا ہے۔پو لیس اگراس کے خلاف اقدام کر نا چا ہے ،توبھی نہیں کر سکتی۔ایک وجہ کرپشن ہے۔مجرم رشوت دے کر چھوٹ جاتا ہے۔ایک سبب یہ بھی ہے کہ دھشت گردی اور اہم شخصیات کی حفاظت جیسے امور ان کی پہلی ترجیح بن گئے ہیں اور یوں وہ قوت جو عوام کی حفاظت میں صرف ہو نی تھی، اس کے دوسرے مصرف سامنے آگئے۔
اس کے ساتھ دوسرا بڑا حادثہ یہ ہوا کہ سماج کا بنیادی ڈھا نچہ تبدیل ہو گیا۔اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ سماج خود اپنے اراکین کی حفاظت کر تا تھا۔مثلاًایک محلے میں بزرگ نظر رکھتے تھے کہ اردگرد کیا ہو رہا ہے۔ ان کی مو جود گی میں کسی کو جرات نہیں ہو تی تھی کہ وہ کسی کے مال یا عزت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے۔ایک محلے میں رہنے والوں میں قرب ہو تا تھا اور یوں اگر کوئی اجنبی کہیں آتا تو نمایاں ہو جا تا۔اس طرح ایک محلے میں کسی واردات کے امکانات کم ہو جا تے تھے۔ اب گھروں میں فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ہم اپنے اڑوس پڑوس سے واقف نہیں۔یہ عمل پچھلے تین چار عشروں میں بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھا ہے۔معاشرہ شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہے۔بعض نئے عوامل جیسے منشیات یا بے محنت کمائی نے لوگوں کی عادات کو بدل دیا ہے۔سماجی، سیاسی اور مذہبی اختلافات میں تشدد کا عنصر بڑھ گیا ہے۔اگر آج آپ کسی سے نظریاتی اختلاف کر تے ہیں تو آپ اس کی طرف سے جان کے بارے میں عدم تحفظ کا شکار ہو جا تے ہیں۔تیس سال پہلے صورت ِ حال یہ نہیں تھی۔افغانستان کے بحران کے پس منظر میں یہاں جس طرح لوگ مسلح ہوئے،اس سے بھی عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا۔اس کے نتیجے میں جو معاشرتی انتشار پیدا ہوا ،اس سے ریاستی ادارے بھی بری الذمہ نہیں۔ ان
سب عوامل کو جمع کریں تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آج معاشرہ جس عدم تحفظ میں مبتلا ہے،اس کی ذمہ داری ہم سب پرہے۔ ریا ستی ادارے اپنے فرائض سے غافل ہو ئے اور معاشرہ اپنی ذمہ داری سے۔
حالات میں تبدیلی کے لیے قو می اداروں اور اہل ِدانش کی سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ تبدیلی یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو سیکیورٹی سٹیٹ کے بجا ئے اب ایک ویلفیر سٹیٹ بنا نا ہے۔ان تصورات کی وضاحت کا یہ محل نہیں، مختصراً یوں سمجھیں کہ سیکیورٹی سٹیٹ میں وسائل اوراجتماعی صلاحیتوں کا رخ ریاست کی جانب ہو تا ہے کہ اسے کس طرح خطرات سے محفوظ بنا یا جائے۔ویلفیر سٹیٹ میںوسائل اور توجہ کو مر کز فرد اور شہری ہو تا ہے کہ کس طرح اسے بیماری، بھوک، غربت اوردوسرے سماجی مسائل سے بچا کر اس کی زندگی کو آسودہ بنا یا جائے۔پاکستان اب تک ایک سیکیورٹی سٹیٹ بنا رہا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اسے ایک فلاحی مملکت بنا دیا جا ئے۔اس سے عام شہری میں عدم تحفظ کا احساس کم ہو گا۔یہ سوچ کی تبدیلی کا معا ملہ ہے، اس لیے اس کا آغاز رائے ساز طبقے اور اہل ِ دانش سے ہو گا۔

Comments

comments