Khursheed Nadeem:میڈیا اور اہل سیاست کی کشمکش

(With thanks to our contributor Irfan Urfi who submitted this article)

اہلِ ساست کے فکر و عمل کا یہ تضاد ہر اس شخص کے لیے بھی ناقابلِ فہم ہے جو ان کے لیے کلمہ خیر کہتا ہے۔
اگر پنجاب اسمبلی کے منتخب ارکان اہلِ سیاست ہیں تو پھرنوازشریف، جاوید ہاشمی، پرویز رشید اورچوہدری شجاعت حسین صاحب کون ہیں؟ اگر یہ
سیاست دان ہیں تو پھر پنجاب اسمبلی کے اراکین کو ن ہیں؟ اگر دونوں اہلِ سیاست کی نمائندگی کر رہے ہیں تو پھر یہ تضاد کیوں ہے؟

فکر و عمل کا یہ تضاد دو میں سے کسی ایک نتیجے پر منتج ہوتا ہے۔ یہ ذہنی پراگندگی کی دلیل ہے۔آپ اپنے مؤقف میں واضح ہیں اور نہ یہ جانتے ہیں کہ آپ کیا فرما رہے ہیں۔ دوسرا امکان کردار کی اس کمزوری کی علامت ہے جسے منافقت کہتے ہیں ۔ آپ نے تقسیمِ کار کا اصل اختیار کیا ہے۔ ایک طرف اراکینِ پنجاب اسمبلی سے کہا گیا ہے کہ آپ میڈیا پر چڑھ دوڑیں۔ دوسری طرف آپ نے کچھ لوگوں کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ آپ زخموں پر مرہم رکھیں۔ یہی جاگیردارانہ سیاست کا آزمودہ حربہ ہے۔ کچھ لوگوں کو بھیج کر کسی کو بے عزت کرنا اور پھر ثالث بن کر صلح کروا دینا۔ آج لوگ دوسری بات کہہ رہے ہیں۔ میرے پاس یہ کہنے کے لیے کوئی واقعاتی شہادت نہیں ہے، اس لیے میرا رحجان پہلی بات کی طرف ہے۔

میڈیا کے بارے میں اہلِ سیاست میں پایا جانے والا یہ ابہام نیا نہیںہے۔میڈیا جب دوسرے فریق کا احتساب کرتا اور اسے آڑے ہاتھوں لیتا ہے تو وہ اس پہ تالی پیٹتے اور آزادی صحافت کا گیت گاتے ہیں۔ یہ سلسلہ دراز ہوتا رہے تو وہ خوش رہتے ہیں۔ جیسے ہی اس کا رخ تالیاں بجانے والوں کی طرف ہوتا ہے انہیں ضابطہ اخلاق یاد آ جاتا ہے اور وہ پھر اپنے حقوق کی دہائی دیتے ہیں۔غور کیجیے تو اہلِ سیاست کا یہی رویہ فوج اور عدلیہ کے بارے میں بھی رہا ہے۔ عدلیہ آزاد ہے اگر اس کے فیصلے آپ کے حق میں ہیں۔ فوج جمہوریت کی دوست ہے اگرفریقِِ مخالف کی حکومت ختم کرتی ہے۔ لیکن جیسے ہی ان کا رخ آپ کی طرف ہوتا ہے، رائے بدلنے لگتی ہے۔کیا ان تضادات کے تحت اہلِ سیاست اپنا اعتبار قائم کر سکتے ہیں۔ میر اخیال ہے مشکل ہوگا۔

سب سے حیران کن رویہ نوازشریف صاحب کا ہے۔ایک طرف وہ عصری سیاست کے جملہ اطوار سے پوری طرح مستفید ہورہے ہیں اور دوسری طرف وہ اپنا دامن بھی صاف رکھنا چا ہتے ہیں۔وصال صنم اور خدا کو پا نے کی خواہشات بالعموم ایک ساتھ پو ری نہیں ہوتیں۔یہ بات باور کرنا ممکن نہیں کہ وہ ثنا اللہ مستی خیل صاحب کی تایخ اور اعمال سے بے خبر تھے۔ یہ ان پر اچانک منکشف ہوا کہ یہ صاحب کسی اور کے ایجنڈے پر کام کر رہے تھے۔اسی طرح وہ ایک ضمنی انتخاب میں میسر تمام صوبائی اختیارات کا بے دردی سے استعمال کر تے ہیں اورپھر یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی نہ ہو۔میڈیا کی جو بات اس وقت اہل ِسیاست کو پریشان کیے ہوئے ہے،وہ انہی تضادات کی نشان دہی ہے۔ اب مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ جمہوریت کا کو ئی تصور آزادی صحافت کے بغیر قا بل ِقبول نہیں۔اگر کو ئی سیاست دان اس سے عدم وا بستگی کااعلان کرتا ہے توجمہوریت سے اس کی وابستگی مشکوک قرار پا تی ہے۔حکومتیں چا ہتی یہی ہیں کہ وہ طاقت کے استعمال سے مخالفانہ جذبات کو دبا دیں لیکن آج کے دور میںیہ بات جنرل پرویز مشرف صاحب جیسے آمر کے لیے ممکن نہیں توجمہوریت کی دعویٰ رکھنے والی کسی سیاسی قیادت کے لیے کیسے ممکن ہے۔؟یہی مخمصہ ہے کہ جس میں اس وقت سیاست دان مبتلا ہیں اور اس کا ایک مظاہرہ پنجاب اسمبلی کی قرار داد اور اس پر سیاست دانوں کے رد عمل میں ہوا۔

اس سارے معا ملے کا بہر طور ایک مثبت پہلو بھی ہے۔جمہوریت کی برکات اب ظاہرہو نے لگی ہیں۔جس طرح ہمارے ہاں لوگ اہل ِ مذہب کی خرابیوں کو بنیاد بنا کر مذہب کی نفی کرتے ہیں اسی طرح کچھ لوگ اہل ِسیاست کے قا بل ِاعتراض افعال کی اساس پر جمہوریت کو مطعون کرتے ہیں۔یہ دونوں رویے کم نظری کی دلیل ہیں۔اہل ِسیاست کی ناکامیاںیاتضادات اگر سامنے آرہی ہیں تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ جمہوریت کامیابی کی طرف رواں دواں ہے۔جمہوریت کا کام ہی یہ ہے کہ وہ لوگوں پر ہر بات واضح کر دے تا کہ کوئی انہیں دھو کہ نہ دے سکے اور انہیں فیصلہ کر نے میں آسانی ہو۔اس کام کا آغاز ہو گیا ہے اور لوگ اگلے عام انتخابات میں اس کے مثبت نتا ئج دیکھیں گے جب یہ لوگ عوام کے پاس آئیں گے۔مستی خیلوں کےپیچھے جو خر مستیاں کارفرما ہیں،اب ان کی بات ہو نے لگی ہے۔یہ بات آگے بڑھتی ہے تو اس سے سیاست کے بہت سے عقدے کھلیں گے۔

جمہوریت میں تطہیر کا یہ عمل کسی ایک شعبے میں نہیں ہو تا۔یقیناً میڈیا کی کارکردگی بھی پر کھی جا ئے گی اور لوگ اس کے بارے میں بھی ایک رائے قائم کریں گے۔اس کا ندازہ سیاسی ٹاک شوزکی بڑھتی ہو ئی عدم مقبولیت سے کیا جا سکتا ہے۔جب بعض اینکرز کے ہاں لوگوں نے یہ جانا کہ ایک فرد ان کا نشانہ ہے تو اس پر ان لوگوں نے بھی منفی رد َعمل کا اظہار کیا جو ان کے ہدف کے لیے نا پسندیدگی کے جذبات رکھتے تھے۔ اگر اہل ِسیاست کے بارے میں میڈیا بحیثیت مجمو عی عدم توازن کا شکار ہوا ہے تواس پر بھی یقیناًعوامی رد ِعمل سامنے آجا ئے گا۔اگر اہل سیاست کو کوئی جائز شکایت ہے تو وہ بھی اپنا مقدمہ عوام کے سامنے رکھ دیں۔میڈیا بھی عوامی جذبات کے خلاف رویہ اپنا کر قائم نہیں رہ سکتا۔جمہوریت دراصل یہ بھی سکھا تی ہے کہ کسی کے خلاف ناراضی کا اظہار کیسے کیا جا تا ہے۔ ہندوستان کی تقسیم ہو ئی تو فسادات میں بہت سے لوگ کام آئے۔جواہر لال نہرونے اس پر تبصرہ کرتے ہو ئے کہا کہ یہ درد ِزہ(birth pangs) ہے جو اس کا اظہار ہے کہ نئے ملک پیدا ہو رہے ہیں۔پنجاب اسمبلی کی قرارداد اور اس کے بعد سامنے آنے والا ردِعمل تکلیف دہ ہے لیکن انہیں درد ِز ہ سمجھنا چاہیے کہ ایک جمہوری معاشرہ جنم لے رہا ہے۔
تشویش کی بات البتہ یہ ہے کہ سب نے اپنے اپنے گروہ کا ساتھ دیا۔کسی نے خود احتسابی کی ضرورت نہیں محسوس ک

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.