On Ahmadi massacre in Lahore – by Ayesha N. Rashid
My article about Lahore incident was originally published in Pak Tea House, which I am reproducing below for the interest of the LUBP readers. Regards, Ayesha
Armed with grenades, machine guns and suicide vests, Pakistani terrorists killed 86 Ahmadi worshipers in a well organized affray in Lahore on May 28th. Although terrorism has become a routine activity in Pakistan, the Lahore attacks are anomalous in nature.
While other attacks are state censured, the attacks on Ahmadi Muslims are state sanctioned. Decades ago, the Government of Pakistan passed laws against Ahmadis, clerics gave verdicts on their religious status and the public completely ostracized them as Pakistanis and as human beings. The police played their part by charging Ahmadis with false cases, subjecting them to torture and demolishing their mosques. The media then contributed through inciting hate speech against them. Thus, it was about time to “eradicate all infidels from Pakistan” as an assailant involved in Lahore attacks declared.
So on May 28th, the terrorists only had to tame a few unarmed young men providing security at the mosques. An unwilling police force arrived after an hour, and with limited ammunition. The terrorists, who were confirmed a direct flight to heaven and 72 virgins, religiously fulfilled their duty. They did not betray their masters nor their government, for they are only the religious hit men furthering state sanctioned terrorism.
Despite being the recipients of state sanctioned terrorism for nearly three decades, the Ahmadiyya Muslim Community comes out as one of the most productive and peaceful communities in Pakistan and the world. This community has a track record of consistently establishing peace, regardless of second class treatment.
In 1974, when the Pakistani Government violated their basic human rights and declared them non-Muslims, they did not violate the laws of the country. Rather, they accepted the decision to avoid bloodshed.
In 1984, when they were denied the right to practice their religion, yet again they responded with steadfastness for the establishment of peace in Pakistan.
In 1989, when the community arrived upon its golden jubilee, the Government of Pakistan denied them even this day, forbidding any form of celebration.
In 2003, when the community was stricken with grief on the death of the head of their community, the clerics demanded to abjure his burial in Pakistan. Pakistani Ahmadis deprived of seeing their beloved for 19 long years were deprived once again of their chance to bid him farewell. Still, they did not protest, nor did they commit violence of any sort. They sufficed on seeing his funeral ceremony on television as he was buried in England with dignity.
While the enemies of this community carry out these atrocities under governmental acquiescence, Ahmadis always respond with dignity and honour. They struggle towards a better future for themselves and for Pakistan. The community boasts a 99% literacy rate both in men and women as compared to a 54% literacy rate in Pakistan. Of the 4 million Pakistani Ahmadis, not a single one is a burden on the Pakistani economy. Begging is unheard of in the community. Those living in Pakistan are contributing in the society through their services and those living abroad contribute in the foreign reserves of Pakistan. The community is serving as the ambassador of Pakistan all over the world. It also is the procurer of the only Nobel Laureate and the only judge of International court of Justice of Pakistani citizenship.
The Ahmadiyya Community has given Pakistan a number of world renowned doctors, scientists, bankers, computer professionals, agriculturists, lawyers, military men and economists. Above all the community has a promising younger generation to serve the country. However all this has only earned them social boycott, the destruction of their mosques, imprisonment and death.
Had the Pakistani Government not resigned to the will of the religious clergy, things would have been different. The 1974 decision to mingle state with religion developed the country into an intolerant society which paved way for the 1984 legislation. Next in line was an army of religious hit men who considered it their God given duty to kill. The only way out of this purgatory is to reestablish Pakistan as a secular state per Jinnah’s vision. Or else the country will turn into a slaughtering house for there is no dearth of either religious hit men or “infidels” in Pakistan.
I am not Ahamdi, but I feel ashamed the treatment we give to this very productive community. After the mayhem of May 28, there was no hue and cry as such in publich. In our changing culture, it is becoming increasingly common to stage agitations against police and governmnet after such incidents. Every other day we hear, victims relative would use the deadbodies to block highways. I salute the integrity ahmadis showed.
@ Irfan Qadri – Thank you for your kind words. That’s really all Ahmadi Muslims ask of Pakistan. That is, by all means do not accept our point of view, by all means disagree, but please, do not perpetuate the hatred and violence as no one wins that way. I wish more Pakistani’s had your point of view.
عائشہ صاحبہ آپکو قادیانیوں سے جتنی ہمدردی ہے کاش اس کا دس فیصد بھی قبائلیوں، افغانیوں، عراقیوں، کشمیریوں، فلسطینیوں اور چیچن سے ہوتا کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر بھی آپ کے قلم میں کچھ حرکت آتی اور کوئی مضمون تخلیق پاتا۔ کیا آپ بے کبھی بگرام، گوانتانامو بے اور ابو غریب کے بارے میں کچھ لکھا، کیا آپ کا قلم ڈرون حملوں پر اٹھا، کیا آپ کی قومی غیرت پاکستان کے راستے سے نیٹو سپلائی پر کبھی جاگی، کیا آپ کی انکھیں افغانستان میں ایساف کی انسانیت سوز مظالم پر نم ہوئیں، کیا آپ کے خواب میں کھی عراق کے تیس لاکھ بھوکے اور معزور بچے آئے، کیا آپ کو دنیا کا سب سے بڑا قید خانے غزہ کی کبھی فکر ہوئی، کیا آپ فریڈم فورٹیلہ پر امدادی کارکنوں کی ٹارگیٹ کیلینگ پر اسطرح بے قرار ہوئیں، کیا آپ نے کبھی ان سینکڑوں خاندانوں سے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا جو پاکستان سے دن دہاڑے اٹھا کر غائب کردئے گئے اور اب لاپتہ افراد کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ کیا آپ کو ان لاکھوں بے گھر لوگوں کا دکھ بھی کبھی ستایا جو علاقہ غیر اور مالاکنڈ میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہوئے۔
قادیانیوں کا مارائے عدالت قتل بھی قابل مذمت لیکن، یہ دوھری پالیسی کیا کہ ایک طرف خاموشی سے سرف نظر کردیا جائے اور دوسری طرف شور مچایا جائے۔
آپ کہتی ہیں قادیانیوں کو غیر مسلم مولویوں نے قرار دلوایا، تو کیا آپ اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہیں کہ کوئی محمد رسول صلہ و علیہ وسلم کے بعد کسی شخص کو نبی اور اس نبی کی شریعت پر چلے اور پھر بھی اپنے آپ کو مسلمان کہے۔ کیا آپ نے قران نہیں پڑھا، کیا قران میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ محمد آخری نبی ہیں۔ تو اگر آپکا ختم نبوت پر ایمان ہے تو کوئی شخص جس کا اس پر ایمان نہیں محمد صلی اللہ و علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی کی آمد کا قائل ہو، اسکے بتائے ہوئے طریقے پر چلتا ہو وہ کیسے محمد صلی و علیہ وسلم کا امتی رہ جائے گا۔
عیسائی حضرت موسع علیہ سلام سے لے کر تمام بنی اسرائیلی انبیاء کو مانتے تو کیا ان کہ اس دعوے کو یہودیون نے قبول کیا کہ وہ ان انبیاء کی ہی امت ہیں اور حضرت عیسی انبیاء بنی اسرائیل کا تسلسل ہیں، صاحب نہیں کیا اسی لئے وہ عیسائی کہلائے۔ مسلمانوں نے حضرت عیسی کے محمد صلی و علیہ وسلم کو ابراہمی سلسلہ کے رسول اور آخری نبی کے طور پر پیش کیا تو کیا یہودیوں اور عیسائیوں انہیں اپنا ایک داخلی فرقہ سمجھا۔ اب کس طرح کچھ لوگ قادیان کے ایک شخص کو اللہ کا نبی کہیں، اسکی شریعت اور احکامات کو محمد صلی و علیہ وسلم کی شریعت اور احکامات پر ترجیع دیں اور مسلمان انہیں اپنا ایک داخلی فرقہ تسلیم کریں۔
جناب، اسلام اور محمد صلی وعلیہ وسلم لازم الملزوم شہ ہے، مسلمان ہونے کے لئے لازمی ہے کہ محمد صلی و علیہ وسلم کی سرداری میں خود کو سپرد کردیا جائے، اگر کوئی محمد صلی و علیہ وسلم کے بعد کسی دوسرے کی سرداری میں خود کو دے وہ اس دوسرے کا ہوگا لیکن محمد کا نہیں۔ خدا کی قسم “محمدی” صرف وہ جس نے اپنا سردار صرف اور صرف محمد کو سمجھا اور انکی سرداری میں کسی کو شریک نہیں کیا۔
@کاشف نصیر
کاشف صاحب لکھتے ہیں:
عائشہ صاحبہ آپکو قادیانیوں سے جتنی ہمدردی ہے کاش اس کا دس فیصد بھی قبائلیوں، افغانیوں، عراقیوں، کشمیریوں، فلسطینیوں اور چیچن سے ہوتا کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر بھی آپ کے قلم میں کچھ حرکت آتی اور کوئی مضمون تخلیق پاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاشف نصیر صاحب گویا آپ کا مطلب ہے کہ چونکہ آپ نے کبھی قبائیلیوں اور افغانیوں وغیرہ وغیرہ کے لئے نہیں لکھا اس لئے آپ کو اس بات کا بھی حق نہیں ہے کہ احمدیوں کے بارے میں لکھیں۔ کمال کی منطق ہے۔ کاشف میاں کیا تم نے عائشہ نور صاحبہ کی تمام تحریرات کا مطالعہ کر لیا ہے۔ کیا آپ اس یقین پر قائم ہیں کہ انہوں نے ان سارے ممالک یا اقوام کے بارے میں نہیں لکھا اور یہ بات آپ نے کہاں سے نکال لی کہ چونکہ ان پر نہیں لکھا اس لئے اور کسی کے بارے میں لکھنے کا آپ کو حق ہی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاشف صاحب کہتے ہیں کہ :
آپ کہتی ہیں قادیانیوں کو غیر مسلم مولویوں نے قرار دلوایا، تو کیا آپ اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہیں کہ کوئی محمد رسول صلہ و علیہ وسلم کے بعد کسی شخص کو نبی اور اس نبی کی شریعت پر چلے اور پھر بھی اپنے آپ کو مسلمان کہے۔ کیا آپ نے قران نہیں پڑھا، کیا قران میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ محمد آخری نبی ہیں۔ تو اگر آپکا ختم نبوت پر ایمان ہے تو کوئی شخص جس کا اس پر ایمان نہیں محمد صلی اللہ و علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی کی آمد کا قائل ہو، اسکے بتائے ہوئے طریقے پر چلتا ہو وہ کیسے محمد صلی و علیہ وسلم کا امتی رہ جائے گا۔
کاشف صاحب مجھے یقین ہے کہ آپ نے قرآن پڑھا ہے اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم البنین ہیں۔ میرا آپ سے ایک چھوٹا سا سوال ہے کیا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آسکتا ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ نہیں آسکتا مگر مشکل یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہی مجھے آپ بھی اور سارے علماء حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے۔۔۔۔
برادرم اب مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی حضرت عیسیٰ آئیں گے ہم سب لوگ جب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آنے پر نبی مانیں گے تو کیا ہم سب لوگ کافر قرار پائیں گے۔ شاید آپ یہ کہیں کہ وہ تو پہلے نبی تھے اور پرانا نبی آسکتا ہے نیا نبی نہیں آسکتا۔ تو میرے بھائی قرآن مجید میں تو کہیں بھی نہیں لکھا کہ نیا نہیں آسکتا پرانا آسکتا ہے۔ اب تو بھئی جب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور ہم ان کو نبی مانیں گے تو ہمارا اسلام تو گیا۔ ہم تو کافر ہو گئے۔ پاکستان کے قانون کے مطابق جو شخص بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کے نبی ، مصلح یا ریفارمر کے آنے کا اقرار کرے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج اور کافر قرار پائے گا۔ ہم تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی نہیں رہیں گے بلکہ اس کے مطابق تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے امتی ہوں گے۔
آپ نے یہ قانون بیان فرمایا ہے کہ جو جس نبی کو مانتا ہے وہ اس نبی کا امتی ہوتا ہے اور وہ اسی نبی کو سردار مانتا ہے۔ وہ اسی کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ
عیسائی حضرت موسع علیہ سلام سے لے کر تمام بنی اسرائیلی انبیاء کو مانتے تو کیا ان کہ اس دعوے کو یہودیون نے قبول کیا کہ وہ ان انبیاء کی ہی امت ہیں اور حضرت عیسی انبیاء بنی اسرائیل کا تسلسل ہیں، صاحب نہیں کیا اسی لئے وہ عیسائی کہلائے۔ مسلمانوں نے حضرت عیسی کے محمد صلی و علیہ وسلم کو ابراہمی سلسلہ کے رسول اور آخری نبی کے طور پر پیش کیا تو کیا یہودیوں اور عیسائیوں انہیں اپنا ایک داخلی فرقہ سمجھا۔ اب کس طرح کچھ لوگ قادیان کے ایک شخص کو اللہ کا نبی کہیں، اسکی شریعت اور احکامات کو محمد صلی و علیہ وسلم کی شریعت اور احکامات پر ترجیع دیں اور مسلمان انہیں اپنا ایک داخلی فرقہ تسلیم کریں
بھئ مسلمان ان کو اپنا داخلی فرقہ سمجھیں یا نہ سمجھیں یہ تو بعد بات ہے۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب ہم نے حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عیسیٰ کی آمد مان لی تو کیا ہم حضرت عیسیٰ کے امتی ہوں گے۔ تو کیا ہم سب لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائیں گے۔
بھیا مجھے قرآن کے مطابق اس مشکل کا حل پیش کر کے دو۔
کاشف نصیر یہ ویڈیو دیکھ کافی افاقہ ہوگا
[youtube=http://www.youtube.com/watch?v=yz1sw7_sEds]
قادیانیوں کا مارائے عدالت قتل بھی قابل مذمت…
…What you are suggesting that Qadianis shoudl be trialed in courts and executed since they are wajibul Qatl. This shows how average Pakistani youth has been intoxicated by the facist mullahs. NO religion (let alone Islam) of the world, regime or charter sanction killing of people for mere their beleifs. This is unfortunate that such atrocities are committed on the name of Prophet who was sent to take humans to highest of morality. But peopel like Kashif Naseer earn a bad name for Islam every day.
And still they insist that they belong to Prophet Muhammad who was Rahmatul Lil Almeen.
The least you can do is to stop associating yourslef with Prophet Muhammad (saw).