Upset 2008: A book worthreading
اپ سیٹ دو ہزار آٹھ
ایک خود کش بمبار کو دنیاگمراہ، نادان ظالم قرار دیتی ہے، اس کے لیے برین واش کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہےلیکن وہ خود کش بمبار اپنے نظریے سے اس انتہا کی حد تک مخلص ہوتا ہے کہ اس کی خاطر خوفناک طریقے سے اپنی جان قربان کردیتا ہے۔
بالکل اسی طرح ایک ڈکٹیٹر جسے سب قابض، حقوق سلب کرنے والا،بے رحم ظالم،سفاک، لالچی،خود غرض اور نجانے کیا کیا سمجھتے ہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ وہ آمر خود کو قوم کا مخلص،رحم دل دیانتدار اور ایک عادل حکمران سمجھتا ہو۔
ہوسکتاہے کہ ایک ڈکٹیٹر کی اس سوچ کو عوامی سطح پر قبولیت حاصل نہ ہو لیکن بہرحال یہ تصویر کا ایک دوسرا رخ ہے۔
پاکستان کے حالیہ فوجی حکمران پرویز مشرف کے بارے میں تصویر کا یہی دوسرا رخ دکھانے کی ایک کوشش محمود شام کی کتاب’ اپ سیٹ دوہزار آٹھ ؟”ہے۔ کتاب کے مصنف کہتے ہیں کہ ’جسے ہم اپنی نظروں میں شیطان کا درجہ دے دیں اس کی خوبیوں اچھائیوں، صحیح فیصلوں کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا جاتا ہے اور جسے ہم ہیرو کہہ دیتے ہیں اس کی خامیوں،برائیوں ،غلط فیصلوں کو دیدہ ودانستہ چھپایا جاتا ہے۔ماضی میں ہم ایسی شخصیت پرستی اور کردار کشی کے نتائج بھگت چکے ہیں۔ٰ
اس کتاب میں پرویز مشرف کی آنکھ سے ان حالات کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے جن کے تحت انہیں وردی اتار کر صدارت کو خیر باد کہنا پڑاتھا۔
سابق فوجی حکمران سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو حاسد،لالچی اور مفاد پرست سجھتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے انہی لیڈروں سے معاہدے کیے ،مفاہمت کی جس کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی پاکستان واپسی ہوئی۔
وزیر اعظم ظفراللہ جمالی کے بعد صدر مشرف ہمایوں اختر خان کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے اور مقتدر حلقوں نے بھی ان کی تعیناتی کی حمایت کردی تھی لیکن چودھری بردران کی سخت مخالفت کی وجہ سے وہ وزیر اعظم نہ بن سکے اور قرعہ فال شوکت عزیز کے نام نکل آیا۔
اپ سٹ دو ہزار آٹھ
پرویز مشرف پیپلز پارٹی اور نون کے ساتھ مفاہمت کے دفاع میں کہتے ہیں کہ’ پی پی پی گیارہ سال،پی ایم ایل (ن)آٹھ سال سے لیڈروں کے بغیر ملک میں کام کررہی تھیں لیکن ان کے کارکن کرپشن،مقدمات کےباوجود بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو ہی اپنا لیڈر مان رہے تھے۔ وہ کرپشن کوبرا سمجھتے ہی نہیں ہیں۔یہ ساری صورتحال دیکھتے ہوئے مفاہمت کے حق میں راہ ہموار ہوئی۔ٰ
کتاب میں درج سابق صدر سے منسوب گفتگو کے مطابق پرویز مشرف نے کہا ’ہمیں مصدقہ اطلاع ملی تھی کہ چیف جسٹس افتخار چودھری بطور صدر میری نااہلی کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ میں نے اس نظام کو اپ سیٹ ہونے سے روکنے کے لیے ایمرجنسی لگائی لیکن ستم ظریفی کہ اپ سیٹ پھر بھی ہوا بلکہ اس سے زیادہ شدید ہوا۔سول سوسائٹی نکل آئی۔ میڈیا ڈٹ گیا۔ سیاستدان سرگرم ہوئے۔ اس میں غیر ملکی ہاتھ بھی شامل ہوا۔مجھے نااہل قرار دینے سے شاید ملک میں اتنا اپ سیٹ نہ ہوتا۔”
پرویز مشرف نے کہا کہ ’ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک بین الاقوامی سازش تھی اور اس میں انڈیا کا ہاتھ ہے۔میں یہ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ملک کو انتشار میں دھکیلنے کے ذمہ دار جسٹس جاوید اقبال،بھگوان داس اور افتخار چودھری ہیں۔‘
کتاب کے مطابق پرویز مشرف اپنی اقتدار کی رخصتی کو ایک اپ سیٹ سمجھتے ہیں انہیں اعتراف ہے کہ اس کا آغاز چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے انکار سے ہوا تھا لیکن ان کے خیال میں دیگر عوامل بھی شامل تھے۔دوسرا بڑا اپ سیٹ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کو سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اگر محترمہ زندہ رہتیں تو پہلے وہ سینٹ کی چئیر پرسن بنتیں اور پھر وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتیں جبکہ پرویز مشرف خود صدررہتے۔
’اپ سیٹ دوہزار آٹھ‘ کے مطابق طارق عزیز، چودھری بردران کے خلاف ہوچکے تھے اور وہ پرویز مشرف کے کان بھرتےتھے کہ وہ رجعت پسند چودھریوں کی بجائے اعتدال پسند اور روشن خیال بے نظیر بھٹو سے مراسم بڑھائیں۔
چودھریوں سے ان کے سابق کلاس فیلو طارق عزیز کی دشمنی کی وجہ ہمایوں اختر خان ہیں جن کے سفارشی طارق عزیز ہیں لیکن چودھری بردران ان کی مخالفت کرتے تھے۔
اسی کتاب میں پہلی بار وضاحت کے ساتھ یہ بات منظر عام پر آئی ہے کہ وزیر اعظم ظفراللہ جمالی کے بعد صدر مشرف ہمایوں اختر خان کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے اور مقتدر حلقوں نے بھی ان کی تعیناتی کی حمایت کردی تھی لیکن چودھری بردران کی سخت مخالفت کی وجہ سے وہ وزیر اعظم نہ بن سکے اور قرعہ فال شوکت عزیز کے نام نکل آیا۔
ہمایوں اختر خان نے حال میں چودھری بردران کے خلاف ایک ہم خیال گروپ تشکیل دیا ہے اس انکشاف کے بعد ہمایوں اختر خان کی چودھری بردران سے سیاسی دشمنی کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔
کتاب کے مصنف محمود شام پاکستان کے سب سے زیادہ شائع ہونے والے اخبار جنگ کے گروپ ایڈیٹر ہیں اور یقینا لکھے گئے اور شائع ہوئے حروف کی حرمت کو سمجتھے ہیں۔ اسی لیے اپنی کتاب میں انہوں نے سنہ دوہزار آٹھ کے ملکی سیاسی حالات کے بارے میں انکشافات تو کیے ہیں لیکن جہاں وہ معلومات کی درستگی کی تصدیق نہیں کرسکے وہاں انہوں نے اس بات کو واضح کردیا ہے۔
مثال کے طور پر جہاں انہوں نے لکھا کہ چیف آف آرمی سٹاف پرویز کیانی نے ایک کپتان کے ذریعے ٹائپ شدہ استعفی صدر پرویز مشرف کو دستخط کے لیے بھجوایا تھا وہیں بریکیٹ میں لکھ دیا کہ اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
اس کتاب میں پاکستان کے حالیہ بحران سے تعلق رکھنے والی تمام اہم دستاویزات کی نقول بطور ضمیمہ شائع کردی گئی ہیں جن سے کتاب کی دستاویزی اہمیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔
دوسوچالیس صفحات کے متن اور ایک سو چھپن صفحوں کے دستاویزی ضمیمے پر مشتمل اس کتاب کو ویلکم بک بورڈ اردو بازار کراچی نے شائع کیا ہے۔عمدہ کاغذ،معیاری طباعت اور مضبوط جلدبندی والی اس کتاب کی قیمت صرف چار سو روپے رکھی گئی ہے جو کہ عام آدمی کی قوت خرید کے دائرے میں ہے۔