ڈرون اور ان کے میزائل حملے قانونی ہیں
امریکی شہری اور القاعدہ کے مشتبہ رکن کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت پر ان کے اہلخانہ امریکی حکام کے خلاف مقدمہ درج کرا رہے ہیں۔
کیا ایک طویل عرصے سے جاری امریکی ڈرون پروگرام قانونی طور پر جائز ہے اور کیا اس میں امریکی شہری جائز ہدف ہیں؟
تین نومبر سال دو ہزار تین میں پہلی بار ہدف بنا کر ہلاک کرنے میں ڈرون کا استعمال کیا گیا تھا۔
یمن کے دارالحکومت صنعا کے نزدیک صحرا میں ایک مسلح ڈرون طیارے کے ذریعے القاعدہ کے رہنما سلیم الحاریثی کو ٹارگٹ کیا گیا تھا، اس ڈرون حملے کو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کنٹرول کر رہی تھی جبکہ حملے کی اجازت اُس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش نے دی تھی۔
یہ پہلی بار نہیں تھا کہ کسی مسلح ڈرون کا استعمال کیا گیا ہو۔ دوسری جنگِ عظیم میں نازی افواج نے انگلینڈ پر کئی ہزار وی ون’بز بموں‘ اور وی ٹو راکٹوں سے حملے کیے تھے۔
نائن الیون حملوں کے بعد امریکی اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ٹارگٹ کلنگ ایک موثر طریقہ ہے اور اس مقصد پر ڈرون ہر پہلو سے پورا اترتے ہیں۔
مسلح تصادم کے بارے میں وضح کردہ قانون کی روشنی میں ڈرون طیارے اور ان سے داغے جانے والے میزائل قانونی ہیں اور ان میں ٹینک جو جنگ کا ایک تاریخی ہتھیار رہا ہے اس سے داغے جانے والے میزائل اور ڈرون طیاروں سے داغے جانے میزائل ایک جیسے ہی ہیں۔
توپخانے کے یونٹ ہدف کے تعین کے لیے لوگ تعینات کرتے ہیں اور ان سے حاصل ہونے والی معلومات کو سامنے رکھتے ہوئے بھاری توپوں یا دور تک مار کرنے والی توپوں کے ذریعے دور کے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔
اسی طرح سے ڈرون بھی ہدف کا تعین کرتے ہیں اور کے بارے میں جمع کی جانے والی معلومات کو واپس کنٹرول سینیٹر میں بھیجتے ہیں، جہاں ٹارگٹ سیلز ہدف کے قانونی جواز کی تصدیق کرتے ہیں اور توپخانے کے طرح ڈرون سے میزائل فائر کیے جاتے ہیں۔
ڈرون کے بارے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ روایتی توپخانے کے برعکس موثر ترین ہتھیار ثابت ہوتے ہیں، توپخانے کے ذریعے ہدف پر کئی گولے داغے جاتے ہیں جبکہ ڈرون ایک یا دو میزائل فائر کرتا ہے، آرٹلری کے ذریعے داغے جانے والے گولوں کا پھیلاؤ زیادہ ہوتا ہے اور اسے بات کی یقین دہانی کرنے کے لیے کہ ہدف نشانہ بنا ہے اس کے لیے کئی گولے فائر کرنا پڑتے ہیں، لیکن میزائل کی ٹارگٹ تک پہنچنے تک رہنمائی کی جاتی ہے اور وہ عین ہدف پر جا لگتا ہے۔
ڈرون حملوں میں عام شہریوں کے ہلاک ہونے کا خدشہ بہت کم ہوتا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ عام شہریوں میں یہ تاثر کو فروغ حاصل ہو رہا ہے کہ’ ڈرون کے ذریعے داغے جانے والے میزائلوں میں معصوم شہری مارے جاتے ہیں۔‘
شاذ و نادر ہی اس طرح کے اعتراضات آرٹلری بریگیڈیز کے بارے میں اٹھائے جاتے ہیں جس میں ڈرون کے میزائل حملے کی برعکس عام شہریوں کے مارے جانے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
جنیوا کنونیشن میں عام شہریوں کی موجودگی کی صورت میں فوجی کارروائی کی ممانعت نہیں ہے۔ ان قواعد کا عام طور پر استعمال شہریوں کو انسانی کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے سے روکنا ہے لیکن ان کا اطلاق توپخانے اور میزائل حملوں پر بھی ہوتا ہے۔
فوری طور پر فوجی کامیابیاں حاصل کرنے کے دوران خاص طور پر عام شہریوں کی ہلاکت یا ان کے زخمیوں کی تعداد کو کم رکھنے کا مسئلہ ہمیشہ کسی کمانڈر کو درپیش ہوتا ہے اور کارروائی کی اجازت دینے سے پہلے اسے لازمی اس پہلو کو سوچنا چاہیے۔
جنگ زدہ علاقوں میں عام شہریوں کی موجودگی خود بھی کسی کارروائی کو روکنے کا سبب نہیں ہے۔
بہرحال کسی بھی قانونی ہتھیار کا غیر قانونی طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کسی بھی مسلح تصادم کے دوران کسی انفرادی شخصیت کو ہدف بنا کر ہلاک کرنا فرض کیا جاتا ہے، اس میں کسی مرد یا خاتون کی حرکات، اس کی مخالف تنظیم یا فوج میں پوزیشن کو دیکھ کر اس دشمن کے جنگجو کے طور پر تصدیق کی جاتی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اس طرح کے افراد فوجی اہداف کی فہرست میں ہوں، شناخت اور مقام کی نشاندہی ہونے پر قانونی طور پر ان کو ہلاک کر دیا جائے۔
اگر انٹیلجنس دشمن جنگجو کے بارے میں کوئی درست معلومات فراہم نہیں کرتی یا شناخت درست طور پر نہیں کرتی تو اس کے بعد کوئی بھی کارروائی امریکی جنگ میں وضے کردہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہوں گے۔حال ہی میں تصدیق شدہ میزائل حملوں کی اجازت سے ہدف میں غلطی کے امکانات کو بڑھا دیا ہے۔
ایک تصدیق شدہ کارروائی ٹارگٹ کے انٹیلی جنس تصدیق کی بنا پر کی جاتی ہے، جیسا کہ سنگلز پکڑنے جانے پر بات چیت کا انداز، زمین پر موجود انسانی ذرائع اور فضائی نگرانی شامل ہے اور اس سے پتہ چلے کہ ایک اہم دشمن امریکی مفادات کے خلاف منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
کیا امریکی شہریوں کو قانونی طور پر ڈرون حملوں میں ہدف بنایا جا سکتاہے؟ ہاں
کسی شخص کو ٹارگٹ بنانا اس کے ضابطے پر منحصر ہوتا ہے، کیا وہ آپ پر ہتھیار اٹھانے کی نیت کر رہی ہے؟ کیا وہ واضح طور پر آپ کے لیے اور آپ کے ساتھی فوجیوں کے لیے ایک خطرہ بن گیا ہے؟
اگر ایسا ہے تو اسے شخص کو اس کا مخالف ہلاک کر سکتا ہے، شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے فیصلوں میں کوئی کردار نہیں ہوتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں بڑی تعداد میں جرمن، جاپانی اور اطالوی نژاد امریکی شہری واپس اپنے ملکوں میں گئے تاکہ وہ اپنے ملک کے لیے لڑ سکیں۔ امریکی فوجیوں کے لیے کوئی تجویز نہیں تھی کہ اگر وہ ملتے ہیں تو ان ہلاک کرنا غیرقانونی ہے۔
جب دشمن کا ایک جنگجو آپ پر گولی چلانے ہی والا ہے تو اس صورتحال میں آپ اس کو مارنے سے پہلے اس کی شہریت جاننے کی کوئی کوشش نہیں کرتے ہیں۔
جو آپ کسی کو ڈرون کے ذریعے ہدف بناتے ہیں تو اس صورت میں بات یقینی بنانا ہوتی ہے کہ ہدف امریکی ہے یا اصل میں دشمن کا جنگجو ہے۔
گزشتہ سال ستمبر میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈرون حملے میں امریکی شہری اور مذہبی رہنما انور ال الاوکی ہلاک ہو گئے تھے۔
انور ال الاوکی کو القاعدہ کا آپریشنل رہنما بیان کیا گیا تھا لیکن اس دعوے کی حمایت میں کوئی شواہد جاری نہیں کیے گئے تھے۔
فوج کے ہدف بنانے کے پیرامیٹرز کے بارے میں بہت سی آگاہی ہے لیکن ان کو عام کرنے کے بارے میں نہ تو کوئی قانون ہے اور نہ ہی کوئی قاعدہ ہے۔
انور ال الاوکی کے معاملے پر خاموشی یا اس کو خفیہ رکھنا بہت ساروں کے لیے پریشانی کا باعث ہے کیونکہ وہ اس بات کی وضاحت چاہتے ہیں کہ انور ال الاوکی کو محض اس لیے نہیں مار دیا گیا کیونکہ وہ بہت زیادہ بات کرتے تھے، اونچی اور بہت لمبا بولتے تھے اور یہ جنگی جرم بن سکتا ہے۔
مختصر یہ ہے کہ ڈرون اور ان کے میزائل حملے قانونی ہیں، یہ توپخانے، نیوی کی توپوں یا جنگی جہازوں کے حملوں سے تھوڑے سے مختلف ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نوعیت میں جہاں دشمن روایتی طور پر اپنی شناخت کو ظاہر نہیں کرتا ہے اور اس صورت میں قانونی طور پر جائز ڈرون حملوں کی پہچان کرنا مشکل ہوتا ہے اور اس کے باوجود کہ ان ڈرون میں امریکی اور اس کے جنگی اتحادیوں کی پیشہ وارانہ مہارت شامل ہے اب بھی غلطیاں کی جا رہی ہیں اور عام شہری مارے جا رہے ہیں، جنگ کی نوعیت کے حوالے سے دکھ کے ساتھ حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بہت زیادہ شکوک و شبہات نہیں ہیں۔
Source: BBC Urdu